Monday 30 March 2015

کیا فرائض و سنت و نوافل وغیرہ کی تقسیم شرعی اور فضول ہے اور ایجاد اور بدعت ہے ؟ ؟ ؟

سوال :
عرض گزار ہوں کہ غیر مقلدین حضرات اکثر کہتے رہتے ہیں کہ یہ فرائض و سنت و نوافل وغیرہ کی جو تقسیم کی گئی ہے اسلامی ارکان کے اندر خصوصا نماز میں یہ غیر شرعی اور فضول ہے اور ایجاد اور بدعت ہے جبکہ اصل شریعت میں اس بارے کوئی ثبوت نہیں۔ اس بارے وہ بہت سے اقوال بشمول امام مالک کا قول بھی پیش کرتے ہیں۔ نیز اگر ہم انہیں کہیں کہ آپ ایسی تقسیم کو نہیں مانتے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم نہیں مانتے ہمارے نزدیک جو محبوب رب جناب نبی مکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے ثابت ہے وہ ضروری ہے اور اس بارے یہ تقسیم ہم نہیں کرتے ۔ اس بارے آپ سے التماس ہے کہ تفصیلی جواب مدلل عطا فرمائیے اور اگر الزامی جوابات بھی جواب میں شامل ہوں تحقیقی جوابات کے ساتھ ساتھ تو نہایت فائدہ مند ہو گا۔

  Answer: 56602   Fatwa ID: 229-226/B=3/1436-U
احکامِ شرعیہ کا مدار دلائل پر ہوتا ہے، شریعت کا کوئی بھی حکم ایسا نہیں ہے کہ اس کی بنیاد دلیل شرعی پر نہ ہو، بلکہ شریعت کا جو بھی حکم آپ دیکھیں گے اس کا مدار کسی نہ کسی دلیل پر ہوگا، اور یہ بات واضح ہے کہ دلائل سب کے سب برابر درجہ کے نہیں ہیں، بلکہ ثبوت ودلالت کے اعتبار سے دلائل باہم متفاوت ہیں، چنانچہ اس اعتبار سے دلائل کے چار درجے ہیں:
(۱) وہ دلائل جو ثبوت ودلالت دونوں اعتبار سے قطعی ویقینی ہوں جیسے قرآن کریم کی وہ آیات جو محکم اور واضح  
الدلالة  ہیں، اسی طرح وہ آیات جن کی تفسیر خود قرآن کریم میں مذکور ہے، یا جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تفسیر کردی ہے، اسی طرح اس قسم میں وہ احادیث بھی شامل ہیں جو تواتر کے ساتھ منقول ہیں اور ان کے مفاہیم بھی قطعی ہیں۔

(۲) وہ دلائل جو ثبوتاً قطعی ہوں البتہ دلالت علی المفہوم کے اعتبار سے قطعی نہ ہوں بلکہ ظنی ہوں جیسے وہ آیت جو موٴول ہیں، یہ آیات ثبوتا تو قطعی ہیں لیکن مفہوم پر دلالت کرنے میں قطعی نہیں ہیں۔

(۳) وہ دلائل جو ثبوتاً ظنی ہوں البتہ دلالت علی المفہوم کے اعتبار سے قطعی ویقینی ہوں، یعنی ان دلائل کے ثبوت میں ایک گونہ شبہ ہونے کی بنا پر یہ دلائل ثبوتاً قطعی نہ ہوں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ اپنے مفہوم کے اعتبار سے قطعی ویقینی ہوں جیسے وہ اخبارِ آحاد جن کے مفاہیم قطعی ہیں (اخبار آحاد کے ثبوت میں ایک گونہ شبہ ہوتا ہے اس لیے وہ ثبوتاً قطعی نہیں رہتے بلکہ ظنی ہوجاتے ہیں، البتہ دلالت علی المفہوم کے اعتبار سے قطعی بھی ہوتے ہیں اور ظنی بھی)

(۴) وہ دلائل جو ثبوت ودلالت دونوں اعتبار سے ظنی ہوں جیسے اخبارِ آحاد جو اپنے مفہوم پر دلالت کرنے میں بھی ظنی ہیں، الحاصل ثبوت ودلالت علی المفہوم کے اعتبار سے دلائل کے یہ چار درجے ہیں، جن میں سے بعض کو دوسرے بعض پر قوت کے اعتبار سے ترجیح حاصل ہے، اور یہ بات بالکل واضح ہے کہ چاروں قسم کے دلائل سے ایک ہی طرح کے احکام ثابت نہیں ہوں گے، بلکہ جس طرح دلائل میں تفاوت ہے اسی طرح احکام میں بھی تفاوت ہوگا، لہٰذا دلیل میں جتنی قوت ہوگی اس سے ثابت ہونے والا حکم بھی اتنا ہی قوی ہوگا۔

اس بنا پر دلائل کی مذکورہ چاروں قسموں میں سے پہلی قسم چونکہ قوت میں سب سے بڑھ کر ہے اس لیے اس سے ثابت ہونے والا حکم بھی سب سے قوی ہوگا اوروہ جانب امر میں فرض اورجانب نہی میں حرام ہے،
دلائل کی دوسری اور تیسری قسم چونکہ قوت میں پہلی قسم سے کم درجہ کی ہیں، اس لیے ان سے ثابت ہونے والا حکم بھی پہلے حکم سے کم درجہ کا ہوگااور وہ جانب امر میں وجوب اور جانب نہی میں مکروہ تحریمی ہے،
رہی دلائل کی چوتھی قسم تو چونکہ وہ قوت میں تمام قسموں سے کمتر ہے اس سے ثابت ہونے والا حکم بھی سب سے کم درجہ کا ہوگا، اور وہ ہے جانب امر میں سنت واستحباب اور جانب نہی میں مکروہ تنزیہی، تو جب دلائل ہی میں مختلف درجات ہیں اور انہی دلائل پر احکام کا مدار بھی ہے تو لازمی طور پر احکام میں بھی مختلف درجات ہوں گے، اور۔۔۔۔۔ انہی کو فرائض، واجبات، سنن، ونوافل سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

قال في الشامي: ”إن الأدلة السمعیة أربعة: الأول قطعي الثبوت والدلالة کنصوص القرآن المفسرة أو المحکمة والسنة المتواترة التي مفھومھا قطعي الثاني: قطعي الثبوت ظني الدلالة کالآیات المؤولة الثالث: عکسہ کأخبار الآحاد التي مفھومھا قطعي الرابع: ظنیھما کأخبار الآحاد التي مفھومھا ظنی، فبالأول یثبت الافتراض والتحریم، وبالثاني والثالث الإیجاب وکراھة التحریم؛ وبالرابع تثبت السنیة والاستحباب“ (الشامي: ۹/ ۴۰۹،ط: دار الکتاب) 

علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ کے تمام اوامر کووجوب یا فرضیت پر محمول نہیں کیا جاسکتا بلکہ حسب قرائن وجوب ندب اباحت وغیرہ پر محمول کیا جائے گا مثال کے طور پر قرآن مجید میں ہے   وإذا حلَلتُم فاصطادوا   کہ جب تماحرام سے حلال ہوجاؤ تو شکار کرو، فقہاء ومفسرین فرماتے ہیں کہ یہاں امر وجوب کے لیے نہیں ہے بلکہ اباحت کے لیے ہے، تو جس شکار سے حالت احرام میں منع کیا گیا تھا اس کی اجازت دی جارہی ہے کہ اب شکار کرسکتے ہو،
غیرمقلدین اگر اباحت وغیرہ کا وجود نہیں مانتے ہیں اور ان کو اس بات پر اصرار ہے کہ شارع سے ثابت ہونے والی تمام چیزیں فرض اور ضروری ہیں تو یہاں بھی حالت احرام سے نکلنے کے بعد وجوبی طور پر شکار کی تلاش میں نکلیں، نیز حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جتنے بھی کام کیے ہیں سب کو امت پر فرض اور ضروری قرار نہیں دیا جاسکتا، نمونہ کے طور پر ایک حدیث پیش کی جارہی ہے جس سے آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ غیرمقلدین کی باتوں کی کیا حیثیت ہے،
حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: کہ نجد سے ایک صاحب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں تشریف لائے اور انھوں نے اسلام کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خمس صلوات في الیوم واللیلة “ کہ رات ودن میں پانچ وقتوں کی نمازیں آپ کے ذمہ ہیں، سائل نے عرض کیا   ”ہل علي غیرہن’‘  کہ کیا ان پنچ نمازوں کے علاوہ اور بھی کوئی نماز مجھ پر فرض ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا   ”لاَ إلاَّ أن تطَوّعَ“   کہ نہیں البتہ اپنے اختیار سے نفل پڑھ سکتے ہو، اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:   ”وصیامُ شہر رمضان“   کہ آپ پر رمضان کے روزے بھی فرض ہیں، سائل نے عرض کیا   ”ہل عليَّ غیرہ؟“   کیا رمضان کے روزے کے علاوہ اور بھی کوئی روزہ مجھ پر فرض ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :   ”لاَ إِلاَّ أَن تَطَوّعَ“    کہ نہیں البتہ نفل رکھ سکتے ہو الخ۔
حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
عن أبي سہیل، عن أبیہ، أنہ سمع طلحة بن عبید اللہ، یقول: جاء رجل إلی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من أہل نجد ثائر الرأس، نسمع دوي صوتہ، ولا نفقہ ما یقول حتی دنا من رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، فإذا ہو یسأل عن الإسلام، فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ”خمس صلوات في الیوم، واللیلة“ فقال: ہل علي غیرہن؟ قال: ”لا، إلا أن تطوع، وصیام شہر رمضان“ ، فقال: ہل علي غیرہ؟ فقال: ”لا، إلا أن تطوع“ ، وذکر لہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الزکاة، فقال: ہل علي غیرہا؟ قال: ”لا، إلا أن تطوع“ ، قال: فأدبر الرجل، وہو یقول: واللہ، لا أزید علی ہذا، ولا أنقص منہ، فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ”أفلح إن صدق“ (مسلم شریف: ۱/۳۰،ط: رحیمیہ دیوبند) 

اسی طرح رمضان المبارک کے سلسلہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے رمضان کے روزے تم پر فرض کیے اور میں نے قیام رمضان (تراویح) کو تمھارے لیے سنت قرار دیا، حدیث شریف کے الفاظ ملاحظہ ہوں   
عن عبد الرحمن بن عوف قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: إن اللہ تبارک وتعالیٰ فرض صیام رمضان علیکم، وسنت لکم قیامَہ فمن صامہ وقامہ إیمانًا واحتسابًا خرج من ذنوبہ کیوم ولدتہ أمہ، أخرجہ النسائی بسند حسن وسکت عنہ (إعلاء السنن ۷/ ۶۶، ۶۷،ط: مکتبہ اشرفیہ دیوبند) 

غیر مقلدین سے پوچھئے کہ ان احادیث سے سنن ونوافل کا ثبوت ہورہا ہے یا نہیں؟ ایک اورحدیث ملاحظہ فرمائیے: ”عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَاصَلَ فِي رَمَضَانَ، فَوَاصَلَ النَّاسُ، فَنَہَاہُمْ قِیلَ لَہُ: أَنْتَ تُوَاصِلُ؟ قَالَ: ”إِنِّي لَسْتُ مِثْلَکُمْ إِنِّي أُطْعَمُ وَأُسْقَی“ (مسلم شریف (۱/۳۵۱،ط: رحیمیہ دیوبند)
حدیث کا حاصل یہ ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو صوم وصال رکھتے ہوئے دیکھ کر وہ بھی صوم وصال رکھنے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو منع فرمادیا صحابہ نے اعتراض کیا کہ آپ تو رکھتے ہیں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے کون میرے مانند ہے؟ میں اپنے پروردگار کی طرف سے کھلایا پلایا جاتا ہوں، مطلب یہ کہ میں جو بھی کروں وہ سب کے سب تم پر ضروری نہیں، غیرمقلدین کو اگر اس بات پر اصرار ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت تمام امور امت پر فرض اور ضروری ہیں تو وہ صوم وصال کی پابندی کریں کیونکہ وہ بھی حضور صلی اللہ علیہوسلم سے ثابت ہے، الغرض اس طرح کے بے شمار دلائل قرآن واحادیث میں موجود ہیں جن کی بنا پر فقہائے کرام نے بلکہ تمام علمائے اہل سنت والجماعت نے احکام میں درجہ بندی کی ہے۔ 

واللہ تعالیٰ اعلم

مکمل تحریر >>

اجماع امت کیا ہے؟ اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ قرآن اور حدیث سے اجماع کے دلائل کیا ہیں؟ بتادیجئے۔

سوال :
اجماع امت کیا ہے؟ اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ قرآن اور حدیث سے اجماع کے دلائل کیا ہیں؟ بتادیجئے۔

  Answer: 56506 Fatwa ID: 182-179/B=2/1436-U
اصطلاحِ شرعیت میں اجماع کہتے ہیں: حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کسی زمانہ میں پیش آنے والے مسئلہ کے حکم شرعی پر اس زمانہ کے تمام مجتہدین کا اتفاق کرلینا، تو جب کسی زمانہ میں کوئی مسئلہ پیش آئے اور اس کا حکم شرعی نہ کتاب اللہ میں ہو نہ سنت رسول اللہ میں، اور یہ مسئلہ اس وقت کے مجتہدین کے سامنے پیش کیا جائے، اور تمام مجتہدین قولاً یا فعلاً یا تقریراً یا سکوتاً کسی ایک حکم پر اتفاق کرلیں تو یہ اجماع ہے،
اجماع امت حجت قطعی ہے، اس سے علم یقینی حاصل ہوتا ہے، اجماع کی مخالفت حرام ہے، علماء نے منکر اجماع کو کافر بھی قرار دیا ہے، ثبوت اجماع پر قرآن وحدیث میں بہت سارے دلائل موجود ہیں۔
 الأجماع: في اللغة العزم،وفي الاصطلاح اتفاق المجتہدین من أمة محمد صلی اللہ علیہ وسلم في عصر علی أمر دیني وأیضا العزم التام علی أمر من جماعة أہل الحل والعقد (قواعد الفقہ: ۱۶۰، مطبوعہ دار الکتاب دیوبند) واصطلاحاً: اتفاق المجتہدین من أمة محمد صلی اللہ علیہ وسلم في عصر من العصور بعد وفاتہ -صلی اللہ علیہ وسلم- علی حکم شرعي في واقعة من الوقائع (المدخل إلی الفتاوی علی الہندیة: ۱/۳۴ ط: اتحاد) وفي ”أصول“ السرخسي: إجماع الأمة موجب للعلم قطعاً کرامة لہم علی الدین لانقطاع توہم اجتماعہم علی الضلال، وہذا مذہب الفقہاء وأکثر المتکلمین، وہذا الإجماع حجة موجبة شرعا، والحق فیما اجتمعوا علیہ قطعًا، واستدل الحنفیة وغیرہم علی حجیة الإجماع بالکتاب والسنة، دلیل الکتاب: قولہ تعالی: کُنْتُمْ خَیْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ ”آل عمران“ و”خیر“ بمعنی أفعل یدل علی النہایة في الخیریة فیما یجتمعون علیہ، والمعروف ما ہو حق عند اللہ یلزم العمل بہ، وہو ما یجتمعون علیہ وقال تعالی: وَیَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیلِ الْمُؤْمِنِینَ ”النسا“ جعل اتباع غیر سبیل الموٴمنین بمنزلة مشاقة الرسول في استیجاب النار، وقال تعالی: وَکَذَلِکَ جَعَلْنَاکُمْ أُمَّةً وَسَطً (البقرة) والوسط، العدل المرضي، وفیہ تنصیص لہم بالعدالة، وأن الحق ما یجتمعون علیہ ودلیل السنة: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ”من سرّہ أن یسکن بحبوحة الجنة فلیلزم الجماعة“ ”وید اللہ مع الجماعة“ و”من خالف الجماعة قید شبرٍ فقد خلع ربقة الإسلام من عنقہ“ و”أن اللہ لا یجمع أمتي علی ضلالة، وما رأہ المسلمون حسنا فہو عند اللہ حسن، وما رأہ المسلمون قبیحًا فہو قبیح“ وقال السرخسي: والآثار في ہذا تبلغ حدّ التواتر (المدخل إلی الفتاوی علی الہندیة: ۱/۳۵، ط: اتحاد دیوبند)

مزید معلومات کے لیے مجموعہ رسائل ومقالات بسلسلہ رد غیر مقلدیت (۱/۳۹۴-۴۲۰، ط: مکتبہ دارالعلوم دیوبند) مطالعہ فرمالیں۔


واللہ تعالیٰ اعلم

مکمل تحریر >>

تقلید کیوں ضروری ہے؟

سوال :
کیوں تقلید ضروری ہے؟ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر چیز کو حجة الوداع میں وضاحت سے بیان فرمادیا ہے کہ میں تمہارے لیے قرآن و سنت چھوڑ کرجارہا ہوں، تو صرف قرآن و سنت کی اتباع کرنی چاہیے۔

  Answer: 291 (فتوى: 148/ل=147/ل)  
قرآن وحدیث میں سارے مسائل صراحتاً یا دلالةً آگئے ہیں مگر اس کے باوجود تقلید اس لیے ضروری ہے کہ قرآن و حدیث و سنت میں بعض احکام ایسے ہوتے ہیں جو آیات قرآنیہ اور احادیث صحیحہ سے صراحتاً ثابت ہیں، جن میں بظاہر کوئی تعارض نہیں ہے، اس قسم کے احکام مسائل منصوصہ کہلاتے ہیں، لیکن بعض احکام ایسے ہیں، جن میں کسی قدر ابہام و اجمال ہے اور بعض آیات و احادیث ایسی ہیں جو چند معانی کااحتمال رکھتی ہیں، بعض محکم ہیں بعض متشابہ۔ اور کچھ احکام ایسے ہیں کہ بظاہر قرآن کی کسی دوسری آیت یا دوسری حدیث سے متعارض معلوم ہوتے ہیں اوران کے علاوہ بے شمار ایسے مسائل ہیں جو قرآن و حدیث سے صراحتاً ثابت نہیں، وہاں اجتہاد واستنباط سے کام لینا ہی پڑتا ہے۔ اور ۔ ۔ ۔

تفصیل اس کی یہ ہے کہ کتاب اللہ اصل الاصول ہے۔ سنت، کتاب اللہ کی شریح ہے۔ اور اجماع امت، بعض سنت کا بیان ہے۔ کتاب و سنت کے احکام کی کوئی نہ کوئی علت ضرور ہوتی ہے، البتہ کبھی وہ علت ظاہر ہوتی ہے اور کبھی مخفی۔ مخفی علتوں کو متعین کرنا بہت دشوار ہے، اس کے لیے بڑی دقت نظر کی ضرورت ہوتی ہے۔

امت کے بعض اہل اللہ سے اللہ نے یہ خدمت لی جن کی قرآن و حدیث اور مزاج شریعت پر بڑی گہری اور پوری نظر تھی، امت کا سوادِ اعظم سلفاً و خلفاً قرنا بعد قرن ان کی امامت اورجلالت شان کا قائل ہے۔

مخفی علتوں کو متعین کرکے نئے نئے مسائل کے احکام معلوم کرنے کا نام اجتہاد ہے اور علل مطلقہ پر غیر منصوص مسائل کو منطبق کرکے علت مشترکہ کی بنا پر منصوص حکم کو غیر منصوص کے لیے ثابت کرنے کا نام قیاس ہے، پس قیاس کی بنیاد کتاب و سنت اور اجماع امت ہی ہے۔ معلوم ہوا کہ ائمہ کے اجتہادی مسائل فقہ درحقیقت حدیث ہی کا نتیجہ ہیں، حدیث کے مقابل کوئی نئی چیز نہیں ہیں و محطہا أن الفقہ ہو ثمرة الحدیث (شامي: ۱/۱۳۸) اور یہ یعنی متعارض نصوص میں جمع و تطبیق اور نصوص سے علت کا نکالنا اور علل سے احکام کااستنباط واستخراج کرنا ہرایک کے بس کی بات نہیں ہے جب کہ مسائل پر خواہ قدیم ہوں یا جدید شرعاً عمل کرنا ضروری ہے۔
یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے علماء اورکبار محدثین نے بھی مقلد ہونے کو عار نہیں جانا، بلکہ وہ مقلد تھے اس لیے امت کے قابل اعتبار علمائے دین کا کسی ایک امام کی تقلید پر اجماع ہے خصوصاً اس زمانہ میں جب کہ شریعت پر عمل کرنے کے لیے ہمتیں پست ہیں نفس میں خواہشات کا دخل ہے اور خودرائی کا غلبہ ہے۔ مسند الہند امام اکبر حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی اپنی معرکة الآراء کتاب ?حجة اللہ البالغہ? میں لکھتے ہیں : إن ہذہ المذاہب الأربعة المدونة المحررة قد أجمعت الأمة أو مَنْ یعتد بہ منہا علی جواز تقلیدہا إلی یومنا ہذا وفي ذلک من المصالح ما لا یخفی لاسیما في ہذہ الأیام التي قصرت فیہا الہمم وأشربت النفوس الہوی وأعجب کل ذي رأي برأیہ (حجة اللّٰہ البالغة: ۱/۱۵۳، باب حکایة حال الناس قبل المائة الرابعة وبعدہا. ط مصر)

حضرت شاہ صاحب اپنی دوسری کتاب عقد الجید میں فرماتے ہیں: اعلم أن في الأخذ بہذہ المذاہب الأربعة مصلحة عظیمة وفي الإعراض عنہا کلہا مفسدة کبیرة (عقد الجید، ۳۶، باب تاکید الأخذ بمذاہب الأربعة والتشدید في ترکہا والخروج عنہا. ط لاہور)
عام آدمی جو کتاب و سنت سے ناآشنا ہو یا عالم ہو مگر جمع تطبیق اوراستنباط و استخراج سے ناواقف ہو جس کا اس زمانہ میں فقدان ہے اس کا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی تلقی کے لیے امام کو واسطہ بنانا تقلید کہلاتا ہے، یہ ایسا ہی ہے جس طرح ہم دنیوی معاملات میں ماہرین فن کے مشوروں پر عمل کرتے ہیں، بیمار ہوتے ہیں تو ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں، مکان بنوانا ہوتو انجینئر کی خدمات حاصل کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ، ان ائمہ میں سے کسی ایک کی تقلید چھوڑنے سے آدمی نفسانی خواہشات کا تابع ہوجاتا ہے اور گمراہ ہونے کا اندیشہ ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی ہے اتخذ الناس روٴساً جہالاً فسئلوا فأفتوا بغیر علم فضلوا وأضلوا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ایسا زمانہ آئے گا کہ لوگ جاہلوں کو اپنا پیشوا بنالیں گے اور ان سے مسائل دریافت کریں گے، وہ بغیر علم کے فتویٰ دیں گے اس طرح وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔ (مشکوٰة: ۱/۳۳)

واللہ تعالیٰ اعلم

مکمل تحریر >>

ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا ؟ ؟ ؟ ؟

سوال :
میں مسلمان ہوں اور حنفی مکتب فکر پر عمل پیرا ہوں۔ میں اہل حدیث کی مسجد کے سامنے رہتا ہوں ۔ کبھی کبھی وہ مجھ سے کہتے ہیں کہ وہ حدیث بتاؤ جس سے یہ ثابت ہو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ ناف کے نیچے باندھا ہے۔ کبھی وہ کہتے ہیں کہ ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا جائز نہیں ہے۔ آپ اس سلسلے میں جواب عنایت فرمائیں، ممنون ہوں گا۔ میری رہ نمائی فرمائیں تاکہ میں ان کو جواب دے سکوں۔

  Answer: 1265  (فتوى: 372/د = 395/د)
حنفیہ کے یہاں ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا سنت ہے اور یہ حدیث سے ثابت ہے۔ جو اس کو ناجائز بتلاتا ہے وہ جھوٹا ہے حدیث صحیح کا منکر ہے عن علمة بن وائل بن حجر عن أبیہ -رضي اللہ عنہ- قال رأیت النبي صلی اللہ علیہ وسلم وضع یمینہ علی شمالہ في الصلاة تحت السرة أخرجہ ابن أبي شیبة ورجالہ ثقات، قلت رجالہ رجال مسلم إلا موسی بن عمیر وھو ثقة من رجال النسائي وعلقمة بن وائل ابن حجر الکوفي من رجال مسلم ثقة صدوق اس کے علاوہ اور بھی متعدد روایات سے ناف کے نیچے رکھنا ثابت ہے،

امام ترمذی -رحمہ اللہ- قبیصہ بن ہلب کی روایت جس میں بائیں ہاتھ کو داہنے ہاتھ سے صرف پکڑنے کا ذکر ہے نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں ورأی بعضھم أن یضعھما فوق السرة ورأی بعضھم أن یضعھما تحت السرة وکل ذلک واسع عندھم یعنی بعض حضرات کے نزدیک ناف سے اوپر رکھنے کا عمل ہے اور بعض حضرات کے نزدیک ناف کے نیچے اور اس مسئلہ میں (علماء و محدثین) کے یہاں وسعت ہے۔

 نیز ابراہیم نخعی -رحمہ اللہ- پائے درجے کے محدث، فقیہ تابعی ہیں وہ فرماتے ہیں یضع یمینہ علی شمالہ في الصلاة تحت السرة. کذا في إعلاء السنن، ج2 ص165)

واللہ تعالیٰ اعلم

مکمل تحریر >>

(۱) میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ کیا کسی بھی امام کی تقلید ضروری ہے؟ (۲) کیا بنا تقلید ایمان ادھورا ہے؟ (۳) جب یہ چاروں امام نہیں تھے تو اس وقت کے مسلمان کس امام کی تقلید کیا کرتے تھے؟ (۴) اللہ کے رسول کی پیشین گوئی جب بہتر فرقے کے لیے ہے تو اماموں کے بارے میں بھی اللہ کے رسول نے کچھ اپنی زبان سے کہا ہوگا۔

سوال :
(۱) میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ کیا کسی بھی امام کی تقلید ضروری ہے؟
(۲) کیا بنا تقلید ایمان ادھورا ہے؟
(۳) جب یہ چاروں امام نہیں تھے تو اس وقت کے مسلمان کس امام کی تقلید کیا کرتے تھے؟
(۴) اللہ کے رسول کی پیشین گوئی جب بہتر فرقے کے لیے ہے تو اماموں کے بارے میں بھی اللہ کے رسول نے کچھ اپنی زبان سے کہا ہوگا۔

  Answer: 1240  (فتوى:  568/ن = 557/ن)
(۱) جی ہاں! چاروں برحق ائمہ میں سے کسی ایک کی تقلید ضروری ہے اس لیے کہ عوام او رکم پڑھے لکھے لوگ تو بغیر تقلید کے قرآن وحدیث میں سے ہرایک میں تنِ تنہا راہِ مستقیم پر نہیں رہ سکتے ہیں اور جب قرآن و احادیث سے ماخوذ قواعد و ضوابط کی روشنی میں تمام اجتہادی مسائل متفرع کرلیے گئے تو اب اہل علم کو اجتہاد کی گنجائش دیکر امت میں اختلاف و انتشار پیدا کرنا ہے جیسا کہ تیسری و چوتھی صدی میں بہت سے لوگوں نے اجتہاد کیا جس کی وجہ سے امت میں مقلدین کے بہت سے گروہ پیدا ہوگئے اور امت میں بہت زیادہ افتراق پیدا ہوگیا تو چوتھی صدی میں چاروں ائمہ کی تقلید پر اجماعِ امت ہوگیا کہ ان کے علاوہ کی تقلید درست نہیں ہے۔ فإن أھل السنة والجماعة قد افترق بعد القرن الثلثة أو الأربعة علی أربعة المذاہب ولم یبق في فروع المسائل سوی ھذہ المذاہب الأربعة فقد انعقد الإجماع المرکّب علی بطلان قول من یخالف کلھم (تفسیر مظھري: ج۲ ص۶۴)

(۲) ایمان نام ہے التصدیق بجمیع ما جاء بہ النبي صلی اللہ علیہ وسلم کا تقلید کا اس میں کوئی دخل نہیں ہے مگر بغیر تقلید کے شریعت پر عمل دشوار ہے اور ایسا شخص خطرہ میں رہتا ہے چنانچہ غیرمقلدین کے پیشوا مولانا محمد حسین بٹالوی اشاعت السنة جلد ۱۱ شمارہ ۱۰ کے ص ۲۱۱ میں تحریر فرماتے ہیں: غیر مجتہد مطلق کے لیے مجتہدین سے فرار و انکار کی گنجائش نہیں اور جلد ۱۱ شمارہ ۱۱ کے ص۵۳ میں وضاحت فرماتے ہیں: ?پچیس برس کے تجربہ سے ہم کو یہ بات معلوم ہوئی کہ جو لوگ بے علمی کے ساتھ مجتہد مطلق اور تقلید کے تارک بن جاتے ہیں وہ بالآخر اسلام کو سلام کربیٹھتے ہیں ان میں سے بعض عیسائی ہوجاتے ہیں اور بعض لامذہب جو کسی دین و مذہب کے پابند نہیں رہتے?۔

(۳) اس وقت بھی لوگ معتبر علمائے دین اور ہرعلاقہ والے اپنے یہاں کے مجتہدین کی تقلید کیا کرتے تھے۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں وبعد المأتین ظھرت فیھم التمذھب للمجتھدین بأعیانھم وقل ما کان لا یعتمد علی مذھب مجتھد بعینہ وکان ھذا ھو الواجب في ذلک الزمان (الأنصاف مع ترجمہ کشاف: ص۵۹) اور حضرت شاہ ولی اللہ صاحب -رحمہ اللہ- عقد الجید میں فرماتے ہیں کہ لوگ صحابہ-رضي اللہ عنہم-کے زمانے سے تقلید کرتے آرہے ہیں  لأن الناس لم یزالوا من زمن الصحابة -رضي اللہ عنھم- إلی أن ظھرت المذاھب الأربعة یقلدون من اتفق من العلماء من غیر نکیر من أحد یعتبر إنکارہ ولو کان ذلک باطلاً لأنکرہ (عقد الجید مع سلک مروارید: ۲۹)

(۴) ان ائمہ کے سلسلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی پیشین گوئی نہیں ہے کیونکہ ان کے مسالک کوئی علیحدہ علیحدہ فرقے نہیں ہیں بلکہ یہ چاروں اہل سنت والجماعت کے مسالک ہیں اور اہل سنت والجماعت سوادِ اعظم اور ناجی فرقہ ہے جیسا کہ اس پر بے شمار احادیث مشاہد ہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم

مکمل تحریر >>

سینے پر ہاتھ باندھ کر نماز پڑھنا صحیح ہے یا نہیں؟ ؟ ؟ چار امام کا کیا تصور ہے؟ ؟ ؟ یہ فقہ کہلاتے ہیں یا فرقہ، مسلک؟ ؟ ؟ فقہ حنفی صحیح ہے یا فقہ حنبلی؟ ؟ ؟

سوال :
میں نے آپ کی ویب سائٹ پر ایک فتوی (۶۳۰/ج) پڑھا ہے، یہ مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔ میں اس حوالے سے کچھ سوال کرنا چاہتا ہوں۔
(1) سینے پر ہاتھ باندھ کر نماز پڑھنا صحیح ہے یا نہیں؟
(2) چار امام کا کیا تصور ہے؟
(3) یہ فقہ کہلاتے ہیں یا فرقہ، مسلک؟
(4) فقہ حنفی صحیح ہے یا فقہ حنبلی؟ سعودی عرب میں کون سا فقہ چلتا ہے؟ اور وہ لوگ بھی سینے پر ہاتھ باند ھ کر نماز پڑھتے ہیں، وہ صحیح ہیں یا نہیں؟بریلوی کہتے ہیں کہ وہ لوگ صحیح نہیں ہیں ، وہ وہابی ہیں ، اگر وہ صحیح نہیں ہیں تو پھر خانہٴ کعبہ کی امامت کسی غلط امام کے ہاتھ میں ہوسکتی ہے؟

  Answer: 997 (فتوى:  745/ج = 745/ج) 
(1) نماز میں حالت قیام میں ہاتھ باندھنے نہ باندھنے میں اختلاف ہے، مالکیہ ارسال کرتے ہیں، باقی تین ائمہ وضع کے قائل ہیں اور اسی کو سنت کہتے ہیں، پھر حنفیہ ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کو افضل کہتے ہیں، شوافع ناف سے اوپر اور سینہ کے نیچے ہاتھ باندھنے کو افضل کہتے ہیں۔ اور امام احمد رحمہ اللہ سے دو روایتیں ہیں، ناف سے نیچے ہاتھ باندھنا افضل ہے اور ناف کے اوپر سینہ کے نیچے ہاتھ باندھنا افضل ہے، دونوں قول ہیں۔ اور حنابلہ عام طور پر شوافع کے موافق عمل کرتے ہیں، غرض چاروں ائمہ متفق ہیں کہ سینہ پر ہاتھ باندھنا صحیح نہیں ہے، یہ رائے صرف غیرمقلدین کی ہے جو اجماع کا انکار کرنے کی وجہ سے گمراہ فرقہ ہے، ویسے نماز بہرصورت ہوجاتی ہے، اگر ہاتھ نہ باندھے تو بھی نماز ہوجاتی ہے۔

(2) اماموں کا تصور صرف اس قدر ہے کہ وہ قرآن وحدیث کے شارح ہیں، اصول کی روشنی میں نصوص کا جو مطلب ائمہ سمجھتے ہیں وہ بیان کرتے ہیں، اس میں کبھی اختلاف بھی ہوجاتا ہے، اسی طرح استنباطی مسائل میں بھی کبھی اختلاف ہوجاتا ہے، پس جس شخص کو جس امام سے عقیدت ہے اس کو اسی کی پیروی کرنی چاہیے، تقلید میں تلفیق حرام ہے۔

(3) چار فقہیں چار فرقے نہیں ہیں، بلکہ مسلک ہیں، یعنی دین پر عمل کی راہیں ہیں۔

(4) چاروں فقہیں صحیح ہیں اور سعودی عرب میں چاروں فقہوں پر عمل کرنے والے لوگ موجود ہیں، حرم کے ائمہ حنبلی ہیں اور وہ اپنے مسلک پر عمل کرتے ہیں۔ اور حرم کے ائمہ اور وہاں کے لوگوں کے بارے میں بریلوی جو کچھ کہتے ہیں وہ ان کی جہالت کی باتیں ہیں۔ 

واللہ تعالیٰ اعلم

مکمل تحریر >>

تقلید شخصی / امام کی تقلید : قرآن و سنت سے!!!


سوال :
حضرات مفتیان کرام اور گرامی قدر علمائے کرام ! ایک سوال ہے، اللہ کے واسطے اس کا جواب جلد دیں ۔تقلید شخصی کو قرآن و سنت سے ثابت کیجیے۔ علمائے کرام کہتے ہیں کہ اگر ایک امام کی تقلید شروع کی تو بس اسی ایک ہی امام کی تقلید کی جائے۔ ایک امام کی تقلید فرض ہے۔ کیا آپ اس مسئلہ کو قرآن و سنت سے ثابت کرسکتے ہیں؟ مجھے بس آپ کی طرف سے جواب چاہیے نہ کہ کسی کتاب کا نام۔ کتابیں تو بہت ہیں، لیکن کسی کتاب میں کسی قرآن میں بھی کسی حدیث میں بھی یہ تقلید شخصی فرض ہے، ایسا نہیں لکھا ہوا ہے۔

  Answer: 887 (فتوى:  463/ن = 451/ن) 
(الف) فَاسْئَلُوْآ اَھْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ اس آیت میں لوگوں کو حکم ہے کہ جو شرعی حکم تم کو معلوم نہ ہو اس کو اہل علم سے معلوم کرکے اس پر عمل کرو۔ اسی کا نام تقلید ہے۔
) أُوْلَـئِكَ الَّذِينَ هَدَى اللّهُ فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِهْ اس آیت میں حکم ہے کہ جو لوگ ہدایت پر ہیں (یعنی انبیائے سابقین علیہم الصلاة والتسلیم) ان کی اقتدا اور پیروی کرو۔
(ج) يااَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ اس آیت میں اہل علم کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے، ان مسائل میں جو قرآن و حدیث میں صراحتاً مذکور نہیں ہیں۔
) وَلَوْ رَدُّوْہُ اِلَی الرَّسُوْلِ وَ اِلَی اُولِی الْاَمْرِ مِنْھُمْ لَعَلِمَہُ الَّذِیْنَ یَسْتَنْبِطُوْنَہ مِنْھُمْ اگر یہ لوگ اس امر کو رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اولو الامر کے حوالہ کرتے تو جو لوگ اہل فقہ اور اہل استنباط ہیں وہ سمجھ کر ان کو بتلادیتے۔ اس آیت سے بھی ائمہ مجتہدین کی اتباع کا ثبوت ملتا ہے۔
(ھ) وَجَعَلْنَاھُمْ اَئِمَّةً یَّھْدُوْنَ بِاَمْرِنَا ان تمام آیات میں اتباع و تقلید کی تاکید فرمائی گئی ہے اور ان سے تقلید مطلق کا ثبوت ہوتا ہے۔

اب ایسی چند احادیث لکھی جاتی ہیں جن سے تقلید شخصی کا ثبوت ہوتا ہے۔
(الف) عن حذیفة -رضي اللہ عنہ- قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: إني لا أدري ما بقائي فیکم فاقتدوا بالذین من بعدي أبي بکر و عمر-رضي اللہ عنھما-
(ب) قال النبي صلی اللہ علیہ وسلم: أصحابي کالنجوم فبأیھم اقتدیتم اھتدیتم (مشکوٰة: ص554)
(ج) عن ماذ بن جبل -رضي اللہ عنہ- أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لما بعثہ إلی الیمن قال: کیف تقضي إذا عرض علیک قضاء قال: أقضي بکتاب اللہ، قال: فإن لم تجد في کتاب اللہ؟ قال بسنة رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، فإن لم تجد في سنة رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، قال: أجتھد برأیي ولا آلو، فضرب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی صدرہ وقال: الحمد للہ الذي وفق رسولّ رسولِ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لما یرضی۔ (أبوداوٴد: ص149، مشکوٰة: ص324)
) إن أھل المدینة سألوا ابن عباس -رضي اللہ عنھما- عن امرأة طافت ثم حاضت قال لھم: تنفر قالوا: لا نأخذ بقولک وندع قول زید. (بخاري: ۱/۲۳۷) اس حدیث میں اس بات کی صراحت ہے کہ اہل مدینہ حضرت زید -رضی اللہ عنہ- کی تقلید شخصی کرتے تھے۔
(ھ) عن عمر بن الخطاب -رضي اللہ عنہ- قال: سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول: سألت ربّي عن اختلاف أصحابي من بعد فأوحی إلي یا محمد إن أصحابک عندي بمنزلة النجوم في السماء بعضھا أقوی من بعض ولکل نور فمن أخذ بشيء مماھم علیہ من اختلافھم فھو عندي علی ہدی. (مشکوٰة: ص554) اس حدیث میں خود اللہ تبارک و تعالیٰ فرمارہے ہیں کہ صحابہ کرام کے اختلافی مسائل میں جو کوئی کسی صحابی کی تقلید کرلے گا وہ میرے نزدیک حق پر ہوگا۔ ان تمام احادیث سے قولی یا فعلی طور پر تقلید شخصی کا وجوب معلوم ہوتا ہے۔

واضح رہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابہٴ کرام جہاں جہاں تشریف لے گئے وہاں اُن کی تقلید کی گئی اوران کے بعد ان کے شاگردوں کی پھر ائمہ اربعہ کا زمانہ آیا تو جب اہل زمانہ نے ان کو علوم قرآن و حدیث میں سب سے زیادہ فائق اور قابل اعتماد پایا اور ان کو اسلاف کے تمام تر علوم کا جامع پایا تو ان کی تقلید کی، انھوں نے قرآن وحدیث سے مسائل کے استنباط کے لیے اصول و قواعد مرتب کیے اور ایسے مسائل کا استنباط کیا جو قرآن وحدیث میں صراحتاً مذکور نہیں ہیں اور واضح رہے کہ ائمہ اربعہ کے مقلدین ان کی تقلید صرف استنباطی مسائل، اور ایسے مسائل ہی میں کرتے ہیں جو قرون اولیٰ صحابہٴ کرام -رضی اللہ عنہم- کے زمانہ سے اختلافی چلے آرہے ہیں، ان مسائل میں کوئی کسی کی تقلید نہیں کرتا جو قرآن وحدیث میں صراحتاً مذکور ہیں، جن میں کسی قسم کے اجمال و احتمال کی گنجائش نہیں ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم

مکمل تحریر >>

کیا دین کو سمجھنے کے لئے کسی ماہر کی رہ نمائی کی کوئی ضرورت نہیں ؟ ؟ ؟ ؟ ( تقلید کیوں ؟؟؟)


سوال :
آج کل عام مسلمانوں میں ایک رجحان یہ پایا جارہا ہے کہ کسی ایک متعین مذہب کو ماننے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ایسے لوگوں کی دلیل یہ ہوتی ہے کہ نبي صلى الله عليه وسلم  اور صحابہٴ کرام کے زمانہٴ مبارک میں کسی مذہب کا وجود نہیں تھا۔ ان کے مطابق ،اللہ نے قرآن کو پڑھنے اور سمجھنے کے لیے آسان کردیا ہے، لہٰذا کسی ماہر کی رہ نمائی کی کوئی ضرورت نہیں۔ براہ کرم، اس سلسلے میں اپنی فاضلانہ رائے سے نوازیں۔

  Answer: 426 (فتوى: 193/م=192/م)
نفسِ تقلید تو قرآن و حدیث اور صحابہ کے اقوال و عمل سے ثابت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: فَاسْئَلُوْا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ o ?اگر تم کوعلم نہیں تو دوسرے اہل علم سے پوچھ دیکھو? (النحل) اور حدیث میں ہے: فإنما شفاء العي السوٴال? کہ درماندہ اور عاجز شخص کی شفا دوسرے سے پوچھ لینے میں ہے? (ابوداوٴد) یعنی جو لوگ احکام کو نہیں جانتے، وہ جاننے والوں سے پوچھ کر عمل کریں اور نہ جاننے والوں پر فرض ہے کہ جاننے والوں کے بتلانے پر عمل کریں، اسی کا نام تقلید ہے اور یہ قرآن وحدیث کا واضح حکم ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ میں صحابہٴ کرام آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد عام صحابہ، بڑے اور فقہائے صحابہ سے رجوع فرماتے تھے۔ اسی طرح ائمہ اور تابعین عظام، صحابہ کرام سے معلوم کیا کرتے تھے، صحابہ کرام کے زمانے میں باضابطہ کوئی متعین مذہب اور مستقل مسلک اس لیے نہیں تھا کہ اس کی ضرورت نہیں تھی، خیرالقرون کا دور تھا، نیتوں میں اخلاص تھا، خودرائی اور خودغرضی نہیں تھی، لوگ اپنی مرضی اور اتباع نفس کے بجائے صحابہٴ کرام -رضوان اللہ علیہم اجمعین -سے پوچھ پوچھ کر عمل کیا کرتے تھے اور رخصتوں کے بجائے عزیمت پر عمل کی کوشش کرتے تھے، باوجودیکہ وہ حضرات علم و تقویٰ کے اعلیٰ معیار پر فائز تھے۔ ?خیرالقرون کے بعد روز بروز علم کا معیار گھٹتا گیا اور تقویٰ و خدا ترسی کے بجائے اغراض نفسانی غالب آنے لگیں، ایسی حالت میں اگر یہ آزادی دی جائے کہ جس مسئلہ میں چاہیں کسی ایک امام کا قول اختیار کرلیں اور جس میں چاہیں کسی دوسرے کا قول لے لیں، تو اس کا لازمی اثر یہ ہونا تھا کہ لوگ اتباع شریعت کا نام لے کر اتباعِ ہویٰ میں مبتلا ہوجائیں کہ جس امام کے قول میں اپنی غرض نفسانی پوری ہوتی نظر آئے اس کو اختیار کرلیں اور یہ ظاہر ہے کہ ایسا کرنا کوئی دین و شریعت کا اتباع نہیں ہوگا، بلکہ اپنی اغراض و اہواء کا اتباع ہوگا ، جو باجماعِ امت حرام ہے۔ علامہ شاطبی -رحمة اللہ علیہ- نے موافقات میں اس پر بڑی تفصیل سے کلام کیا ہے اور ابن تیمیہ نے بھی عام تقلید کی مخالفت کے باوجود اس طرح کے اتباع کو اپنے فتاویٰ میں باجماعِ امت حرام کہا ہے۔ اس لیے فقہائے متأخرین نے یہ ضروری سمجھا کہ عمل کرنے والوں کو کسی ایک ہی امام مجتہد کی تقلید کا پابند کرنا چاہیے۔ یہ درحقیقت ایک انتظامی حکم ہے، اس کی مثال بعینہ وہ ہے جو حضرت عثمان غنی -رضی اللہ عنہ- نے باجماع صحابہ قرآن کے سبعہ احرف (یعنی سات لغات) میں سے صرف ایک لغت کو مخصوص کردینے میں کیا۔ اگرچہ ساتوں لغات قرآن ہی کے لغات تھے، لیکن جب قرآن کریم عجم میں پھیلا اور مختلف لغات میں پڑھنے سے تحریف قرآن کا خطرہ محسوس کیا گیا تو انتظام دین اور حفاظت قرآن از تحریف کی بنا پر صرف ایک لغت کو اختیار کرلیا گیا، اسی طرح ائمہ مجتہدین سب حق ہیں، ان میں سے کسی ایک کو تقلید کے لیے معین کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ جس امام معین کی تقلید کسی نے اختیار کی ہے اس کے نزدیک دوسرے ائمہ قابل تقلید نہیں بلکہ دوسرے ائمہ بھی اس کے نزدیک واجب الاحترام ہیں۔? (معارف القرآن:ج:5، ص:345) پھر قرآن و حدیث میں بہت سے امور تو ایسے ہیں جن میں نہ کسی کا اختلاف ہے نہ اختلاف کی گنجائش ہے، لیکن بہت سے امور ایسے ہیں کہ ان کا حکم صاف قرآن کریم یا حدیث نبوی -صلی اللہ علیہ وسلم- میں مذکور نہیں۔ ایسے امور کا شرعی حکم دریافت کرنے کے لیے گہرے علم، وسیع نظر اور اعلیٰ درجہ کی دیانت و امانت درکار ہے، ظاہر ہے کہ ایک عام آدمی میں اتنی علمی بصیرت اور اجتہادی شان نہیں کہ وہ از خود ان امور کا حکم معلوم کرلے۔ اس لیے لامحالہ انھیں ایسے امور میں راہنمائی حاصل کرنے اور مذکورہ صفات و صلاحیتوں کے حامل ائمہ حضرات کی تقلید لازم و ضروری ہے۔

رہی یہ بات کہ چاروں ائمہ میں سے ایک ہی کی تقلیدکیوں ضروری ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسائل دو قسم کے ہیں: اول مختلف فیہ، دوم متفق علیہا۔ مسائل متفق علیہا میں تو سب کا اتباع ہوگا۔ اور مختلف فیہا میں تو سب کا اتباع نہیں ہوسکتا، بعض کا ہوگا بعض کا نہ ہوگا۔ لہٰذا ضروری ہے کہ کوئی وجہ ترجیح ہو، سو اللہ نے اتباع کو انابت الی اللہ پر معلق فرمایا (وَاتَّبِعْ سَبِیْلَ مَنْ اَنَابَ اِلَیَّ...) الآیة جس امام کی انابت الی اللہ زائد معلوم ہوگی اس کا اتباع کیا جائے گا۔ اور زیادہ انابت کی تحقیق دو طرح ہوسکتی ہے: تفصیلاً یا اجمالاً۔ بالتفصیل تحقیق میں چونکہ حرج اور تکلیف ما لا یطاق ہے اس لیے اجمالاً جس امام کے مجموعہ حالات سے یہ ظن غالب و اعتقاد راجح ہو کہ یہ منیب و مصیب ہے اس کا اتباع اختیار کیا جائے گا۔ (مزید تفصیل کے لیے فتاویٰ محمودیہ: ج:۵، ص:۲۹۱)
واللہ تعالیٰ اعلم

مکمل تحریر >>

غیر مقلدین کے سلسلے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ کیا وہ مسلمان ہیں؟اگر نہیں تو کیوں؟


سوال :
غیر مقلدین کے سلسلے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ کیا وہ مسلمان ہیں؟اگر نہیں تو کیوں؟

 Answer: 2279   (فتوى:  286/ن = 571/ن)
وہ مسلمان تو ہیں لیکن ترکِ تقلید کی وجہ سے فتنہ، غلو اور ہوائے نفسانی میں مبتلا ہیں، وہ اتباعِ شریعت میں خواہشاتِ نفسانی کی پیروی کرتے ہیں، ان میں کا ایک عامی شخص بھی اپنے نفس کے خلاف احادیث کو بغیر کسی علم کے ضعیف (بمعنی موضوع) قرار دیدیتا ہے، چنانچہ غیر مقلدوں کے مجدد جناب نواب صدیق حسن خاں صاحب بھوپالی اپنی جماعت اہل حدیث کے متعلق فرماتے ہیں: فقد نبت في ھذہ الزمان فرقة ذات سمعة وریاء تداعی أنفسھا علم الحدیث والقرآن والعمل والعرفان فیا للعجب أین یسمّون أنفسھم الموحّدین المخلصین وغیرھم بالمشرکین وھم أشد الناس تعصبا وغلوّا في الدین فما ہذا دین إلا فتنة في الأرض وفساد کبیر (الحطة في ذکر صحاح الستة: ص۶۷-۶۸) اور وہ سوادِ اعظم میں داخل نہیں ہے، جس کی پیروی کا احادیث میں حکم ہے اور سوادِ اعظم کے مصداق اس زمانہ میں لامحالہ متبعین ائمہ اربعہ ہیں، چناں جہ حضرت شاہ ولی اللہ -رحمہ اللہ- عقد الجید میں فرماتے ہیں وثانیا قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : اتبعوا لاسواد الأعظم ولمّا اندرس المذاھب الحقة إلا ھذہ الأربعة کان اتباعھا اتباعاً للسواد الأعظم (عقد الجید: ص۳۳)

واللہ تعالیٰ اعلم

مکمل تحریر >>

ایک ہی امام کی تقلید کیوں ؟ ؟ ؟ ؟؟ جنازہ کے بعد دعا کیوں نہیں ؟ ؟ ؟


سوال :
میرے ذہن میں ایک سوال ہے جس کی وضاحت چاہتاہوں ۔ ہم لوگ حنفی مذہب کی تقلید کرتے ہیں (دیوبندی)، یہ ماناجاتاہے کہ چاروں امام حق پر ہیں، تو کوئی حنفی تینوں اماموں میں سے ایک امام کے اجتہاد پر کیوں نہیں عمل کرسکتاہے؟ جب کہ ہم محسوس کرتے ہیں کہ چاروں امام بر حق ہیں۔ کسی صحیح مسئلہ پر چاروں اماموں میں سے کسی ایک امام کی تقلیدکر نے کی اجازت ملنی چاہئے، یعنی میں امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ کے قول پر عمل کروں گا اور کسی معاملہ میں تینوں اماموں میں سے کسی بھی ایک امام کے قو ل پر عمل کرسکتاہوں، کیا یہ عمل کسی قرآنی آیت یا کسی حدیث شریف یا اجماع کے خلا ف ہے؟
(۲) میں نے یہ سنا ہے کہ تمام نمازوں کے بعد اجتماعی دعا احادیث سے ثابت نہیں ہے حالانکہ یہ اکابرین دیوبندکا عمل ہے، تو پھر نماز جنازہ کے بعد دعا کرنے کی اجازت کیوں نہیں ہے؟


   Answer: 2078فتوی: 529/ ل= 529/ ل
یہ بات صحیح ہے کہ چاروں امام برحق ہیں اور آدمی کو اختیار ہے کہ جس امام کی چاہے تقلید کرلے لیکن کسی مسئلہ میں کسی امام کی تقلید کرنے اور دوسرے مسئلہ میں دوسرے امام کی تقلید کرنے سے دین کھلونا بن جائے گا کیونکہ آدمی ہرمذہب میں سے جو صورت اپنی مطلب کی ہوگی اسے اختیار کرلیے گا مثلاً اگر وضو کے بعد اس کے خون نکل آیا، اب امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے مذہب پر تو وضو ٹوٹ گیا اور امام شافعی رحمہ اللہ کے مذہب پر نہیں ٹوٹا تو یہ شخص امام شافعی علیہ الرحمہ کا مذہب اختیار کرلے گا اور پھر اس نے بیوی کو ہاتھ لگایا تو اب امام شافعی علیہ الرحمہ کے مذہب پر وضو ٹوٹ گیا اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے مذہب پر وضو نہیں ٹوٹا تو یہاں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا مذہب لے لے گا حالانکہ اس صورت میں کسی امام کے نزدیک اس کا وضو نہیں رہا، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک خون نکلنے کی وجہ سے ٹوٹ گیا اورامام شافعی علیہ الرحمہ کے نزدیک عورت کو چھونے کی وجہ سے۔ مگر اس شخص کو ذرا بھی پرواہ نہیں ہوگی، سو دین تو رہے گا نہیں غرض اور نفس پرستی رہ جائے گی: في وقتٍ یقلدون من یفسد النکاح وفي وقت من یصححہ بحسب الغرض والھوی ومثل ھذا لا یجوز (فتاویٰ ابن تیمیہ بحوالہ فتاویٰ رحیمیہ: ج۴ ص۱۹۱) اسی وجہ سے تقلید شخصی پر متواتر عمل جاری ہے اور یہ اس کے اجماع پر قوی ترین دلیل ہے۔
(۲) نماز جنازہ خود دعا ہے اور میت کے لیے اس میں دعائے مغفرت ہی اصل ہے نماز جنازہ کے بعد مستقلاً دعا کرنا ثابت نہیں بلکہ کتب فقہ میں اس کومنع کیا گیا ہے لا یقوم بالدعاء بعد صلاة الجنازة (خلاصة الفتاویٰ: ج۱ ص۲۲۵)

واللہ تعالیٰ اعلم



مکمل تحریر >>

کیا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمة اللہ علیہ نے احناف کی تردیدکی ؟؟؟

سوال :
ایک شخص کہتا ہے کہ شیخ عبدالقادر جیلانی رحمة اللہ علیہ نے احناف کی تردیدکی۔ اوراحناف کو ان بہتر ناری فرقوں میں شامل کیا جو ایک حدیث کے مطابق ناری ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ ?شیخ عبدالقادر جیلانی رحمة اللہ علیہ ? کہتے ہیں کہ مرجیہ کے بارہ فرقے ہیں جن میں حنفی بھی شامل ہیں جوابو حنیفہ رحمة اللہ نعمان بن ثابت کے پیروکار میں سے ہیں (غنیة الطالبین، ج:۱/ص:۲۱۵)۔ امام احمد بن حنبل رحمة اللہ فرماتے ہیں ?اہل الرائے ?گمراہ اور بدعتی ہیں اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و اشعار صحابہ کے دشمن ہیں، حدیث کو جھٹلاتے ہیں اور اس کو رد کرتے ہیں۔ امام ابو حنیفہ رحمة اللہ علیہ کے مسلک کو دین بناتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر کیا گمراہی ہوسکتی ہے کہ لوگ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ترک کرکے امام ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ کے قول پر عمل کرتے ہیں۔ (کتاب السنہ، ص:۸۵) ۔ غنیة الطالبین کے بارے میں یہ بھی مشہور ہے کہ اس کا شیخ عبدالقادر جیلانی کی تصنیف ہونے میں علماء کا بہت اختلاف رہا ہے۔ اور کتاب السنہ کے بارے میں بھی تھوڑی روشنی ڈالیے۔

Answer: 4413     فتوی: 714/ ل= 51/ تل
غنیة میں حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی نے جن احناف کو ناری اور گمراہ فرقوں میں شامل کیا ہے اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو فروعات میں امام ابوحنیفہ کے مقلد تھے اور عقائد ان کے گمراہ فرقوں کے تھے، یعنی فرعی مسائل میں وہ حنفی تھے اور عقائد میں مرجیہٴ وغیرہ اس سے وہ احناف مراد نہیں ہے جو عقائد و فروعات دونوں میں امام ابوحنیفہ -رحمہ اللہ- کی اقتدا کرتے ہیں، کما في الجرح والتعدیل نیز حضرت نے اپنی کتاب میں دیگر جگہوں پر اختلاف ائمہ ذکر کرتے ہوئے ?امام? کا لفظ استعمال کیا ہے، اگر وہ گمراہ سمجھتے تو امام کے لفظ کا استعمال نہیں کرتے، والثاني: أن غوث الثقلین بنفسہ ذکر في ?غنیة? أبا حنیفة بلفظ الإمام وأورد قولہ عند ذکر خلاف الأئمة الأعلام (الرفع والتکمیل: 1:377) غنیة الطالبین کے بارے میں اگرچہ علماء کے اقوال مختلف ہیں، مگر حافظ ابن حجر وغیرہ کبار علماء کا ان کی طرف منسوب کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ غنیة انھیں کی کتاب ہے: قال في الرفع أما أولاً فلأن نسبتھا إلیہ مذکورة في کتب ابن حجر وغیرہ من الأکابر․․․․․․ وأما ثانیًا فلأن من طالع الغنیة من أولھا إلی آخرھا حرفًا حرفًا علم کونھا من تصانیفہ قطعًا (حوالہ سابق: ۳۸) کتاب السنة کے مصنف شیخ ابن حیّان ہیں اس میں اور اس جیسی کتابوں میں امام ابوحنیفہ -رحمہ اللہ- کے بارے میں جو باتیں گہی گئی ہیں، علمائے کرام اس کی تردید کرتے رہے ہیں قال في السنة ومکانتھا نحن وإن کنا نذھب إلی ما ذھب إلیہ الملک المعظم عیسی بن أبي بکر الأیوبي في کتابہ ?السھم المصیب في کبد الخطیب? وغیرہ من کذب الروایات المنسوبة إلی الأئمة في الطعن بأبي حنیفة․ حافظ سخاوی -رحمہ اللہ- اپنی کتاب ?الإعلان بالتوبیخ لمن ذم التأریخ? میں کتاب السنة، تاریخ بغداد وغیرہ سے اجتناب کرنے کی ہرہر فردِ بشر کو وصیت کرتے ہیں: وقدحت أبر أصحاب ابن حجر إلیہ الإمام الحافظ السخاوي في کتابہ ?الإعلان بالتوبیخ لمن ذم التأریخ? علی الاجتناب عن اقتفاء الجارحین والطاغین فیہ إلی قولہ وأما ما أسندہ الحافظ أبو الشیخ ابن حیان في کتاب السنة لہ من الکلام في حق بعض الأئمة المقلدین․․․․․ فینبغي تجنب اقتفاء ھم فیہ (مکانة الإمام أبي حنیفة: ۱۲۸) اگر بالفرض مان لیا جائے کہ امام احمد بن حنبل نے امام ابوحنیفہ کے متعلق ایسی باتیں کہی ہیں تو یہ ابتداء پر محمول ہے، آخر میں انھوں نے ان سب باتوں سے رجوع کرلیا تھا۔ (کما في السنة ومکانتھا: ۴۴۵، والرفع والتکمیل: ۴۲۱)

 واللہ تعالیٰ اعلم

مکمل تحریر >>