Wednesday 20 April 2016

ضعیف حدیث ۔ ۔ ۔ ضروری وضاحت !!!

ضعیف حدیث ۔ ۔ ۔  ضروری وضاحت !!!

ایک غلط فہمی یہ بھی عام ہے   کہ لوگ ضعیف حدیث کو من گھڑت کے معنی میں لیتے ہیں اور اسکو حقیر سمجھتے  ہیں۔   یہ جملے  بھی کانوں میں پڑتے رہتے ہیں   کہ بھائی فلاں مسئلہ میں تمام احادیث ضعیف ہیں ا س لیے چھوڑو اس پر عمل کرنا، ایک مشہور کتاب فضائل اعمال کے متعلق تو  شاید سب ہی نے ایسی باتیں سن رکھی ہونگی۔ ۔ افسوس ہوتا ہے  لوگ بغیر علم  کے  احادیث  پر  تبصرہ ایسے کرجاتے ہیں جیسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نہیں  کسی  راہ چلتے کی بات ہے یا اخبار میں چھپی کسی کی بات ہے۔۔۔۔۔ ۔ ۔ صاحبان  حدیث پر فارمولا بھی ریاضی والا لگا گئے کہ 0+0= 0۔ ۔


ضروری وضاحت ضعيف نا کہ من گھڑت :
پہلی بات یہ کہ  ضعیف حدیث بھی حدیث رسول ہی ہوتی ہے یہ  لازمی من گھڑت نہیں ہوتی بلکہ راوی میں کچھ کمیوں ، کمزوریوں کی وجہ سے اسکو ضعیف کہا جاتا ہے ، یہ  بحرحال ممکن ہوتا ہے کہ اس کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف درست ہو اس لیے اسکو بالکل چھوڑا نہیں جاتا بلکہ فضائل کے باب میں اس کو استعمال کیا جاتا ہے۔ علماء نے اس لفظ 'ضعیف'  کی مختلف تعریفیں بیان کی  ہیں۔۔  مثلا یہ وہ حدیث کہلاتی ہے جومنکر اور باطل نہ ہو اور اس کےراوی متہم بالکذب نہ ہو،  اس حدیث کے خلاف کوئی  صحیح حدیث نہ ہو ۔۔۔ ایسی حدیث جس  میں حدیث صحیح وحسن  کی  شرائط نہ پائی جائیں، اس میں ایسے  اسباب ہوں جو  کسی حدیث کوضعیف قرار دینے کے لیے کافی ہوتے  ہیں،  اس کے راوی غیرعادل یامتہم بالکذب، یامستورالحال ہوں ، یہ  متعدد طرق سے مروی بھی نہ ہو۔(اعلاء السنن ، احکام القرآن للجصاص)


کیا  اس حدیث کا ضعف ختم ہوسکتا ہے ؟
اگرحدیث ضعیف کئی سندوں سے مروی ہو اور ضعف کی بنیاد راوی کا فسق یا کذب نہ ہو  تواس کی وجہ سے وہ ضعف سے نکل جاتی ہے اور اسے قوی ومعتبر اور لائق عمل قرار دیا جاتا ہے، محدثین کی اصطلاح میں اس کو "حسن لغیرہ" کہتے ہیں، حافظ بن حجر رحمہ اللہ  کی تفصیل کے مطابق یہ حدیث مقبول ومعتبر کی چار اقسام میں سے ایک ہیں۔بعض حضرات کا کہنا ہے کہ حسن لغیرہ بھی اصل میں ضعیف ہی ہے؛ مگرکسی قوت پہنچانے والے امر کی وجہ سے اس میں حسن پیدا ہو جاتاہے۔(فتح المغیث:۳۵/۳۶)اسی طرح  اگر  حدیث نص قرآنی ہویاقولِ صحابی ہو یاشریعت کےکسی  قاعدہ وضابطہ کے مطابق ہو تو اسکا ضعف نکل جاتا ہے۔         (نزھۃ النظر:۲۹)


ضعیف حدیث  کی اقسام
 
ضعیف روایات کی بہت سی اقسام ہیں اور ہر ایک کے ضعف میں راویوں کی کمزوری کی شدت یا  کمی   کے لحاظ سے فرق ہوتا ہے ۔  مشہور قسمیں  ضعیف، متوسط ضعیف، شدید ضعیف اور موضوع ہیں۔ موضوع یعنی گھڑی ہوئی حدیث۔ یہ ضعیف حدیث  کا کم ترین درجہ ہے۔


ضعیف  حدیث پر عمل :
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے حدیثِ ضعیف پر عمل کرنے کی تین شرطیں بیان کی ہیں ۔ ایک یہ کہ   حدیث شدید ضعیف نہ ہو مطلب اسکا راوی جھوٹا اور دروغ گوئی میں مشہور نہ ہو اور نہ فحش غلطیوں کا مرتکب ہو۔ دوسری  اس پر عمل کرنا اسلام کے ثابت اور مقرر ومعروف قواعد کے خلاف نہ ہو۔ تیسری  یہ کہ  عمل کرتے ہوئے اسے صحیح حدیث کی طرح قبول نہ کیا جائے بلکہ   اس بناء پر عمل کیا جائے کہ ممکن ہے کہ حقیقت میں  اس کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف درست ہو۔             (اعلاء السنن:۱/۵۸)
جمہور فقہاء کا مذہب یہ ہے کہ عقائد کے ثبوت کے لیے مشہور یامتواتر حدیث ضروری ہے، حدیث ضعیف اور خبرواحد اثبات عقائد کے لیے کافی نہیں ہے، ضعیف حدیث اور فضائل کے متعلق لکھتے ہوئے علامہ سخاوی نے متعدد مذاہب کو نقل کیا ہے، جن میں سے ایک امام مسلم اور دیگرمحدثین اور ابنِ حزم کا ہے کہ ضعیف حدیث کسی بھی باب میں حجت نہیں بن سکتی، چاہے وہ فضائل کا باب ہی کیوں نہ ہو؛ (نووی علی مسلم:۱/۶۰)
دوسرا مذہب جس کو علامہ سخاوی نے جمہور کا مذہب کہہ کر بیان کیاہے اور حافظ ابنِ حجر مکی اور ملا علی قاری نے بھی جسے جمہور کا اجماعی مسلک قرار دیا ہے کہ فضائل کے باب میں حدیث ضعیف پر عمل کرنا جائز ہے۔     (الفتاویٰ الحدیثیہ :۱۱۰)آئمہ  حدیث میں عبداللہ بن مبارک، عبدالرحمن بن مہدی، امام احمدوغیرہ سے بھی یہی نقل کیا گیا ہے (اصول امام احمد بن حنبل:۲۷۴) شیخ تقی الدین تحریر فرماتے ہیں کہ یہ گنجائش اس لیے ہے کہ اگرایسی حدیث نفس الامر اور واقع میں صحیح ہے تواس پر عمل کرنا اس کا حق تھا اور اگرواقع میں صحیح نہ تھی توبھی فضائل کے باب میں اس پر عمل کرنے کی وجہ سے دین میں کوئی فساد لازم نہیں آئےگا، اس لیے کہ یہ صورت تحلیل وتحریم اور کسی کے حق سے متعلق نہیں ہے اور پھریہ جواز مطلق نہیں ہے؛ بلکہ ماقبل میں ذکرکردہ شرائط کے ساتھ ہے۔(شرح الکوکب المنیر:۲/۵۷۱)


ضعیف احادیث اور اقوال صحابہ :
امام ابوحنیفہ وامام احمد ضعیف حدیث  کے بالمقابل فتاویٰ اور اقوالِ صحابہ کوترجیح دیتے تھے کیونکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین درس رسالت کے چراغ ہیں، ان کا ہرقول وعمل سنت کے مطابق ہوا کرتا تھا، ان کے کلام سے کلام رسالت کی بومہکتی ہے اور انھوں نے دین کوپہلو رسالت میں رہ کر جتنا سمجھا اور سیکھا ہے دوسرا ان کی خاک تک بھی نہیں پہنچ سکتا، ان کے اقوال وافعال میں کسی قسم کا شبہ نہیں ہے اورحدیث ضعیف کی صحت وعدم صحت مشتبہ ہے؛ لہٰذا صحابہ کرام کے فتاویٰ واقوال کو ضعیف حدیث پر ترجیح دی گئی۔


بشکریہ : مولانا طارق اعظم صاحب – حلقہ ارباب ذوق
مکمل تحریر >>

امام اعظم ابوحنیفہ : شخصیت وکردار

امام اعظم ابوحنیفہ : شخصیت وکردار

محمد شاکر

نام ونسب:

نام :نعمان ؛کنیت :ابوحنیفہ ؛والدکانام : ثابت؛ القاب :امام اعظم ،امام الائمہ ،سراج الامہ رئیس الفقہاء والمجتہدین ، سیدالاولیاء والمحدثین آپ کے دادا اہل کابل سے تھے۔سلسلہ نسب یوں بیان کیا جاتاہے:نعمان بن ثابت بن مرزبان زوطی بن ثابت بن یزدگرد بن شہریار بن پرویز بن نوشیرواں۔

شرح تحفہ نصائح کے بیان کے مطابق آپ کا سلسلہ نسب حضرت ابراہیم علی نبینا علیہ الصلوۃ والتسلیم تک پہنچتا ہے اور یہاں آ کر حضور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے آپ کا نسب مل جاتا ہے۔

خطیب بغدادی نے سیدنا حضرت امام اعظم کے پوتے حضرت اسماعیل بن حماد سے نقل کیا ہے کہ میں اسماعیل بن حماد بن نعمان بن مرزبان از اولاد فرس احرار ہوں۔اللہ کی قسم ! ہم پر کبھی غلامی نہیں آئی۔میرے دادا حضرت ابوحنیفہ کی ولادت۸۰ھ میں ہوئی ان کے والد حضرت ثابت چھوٹی عمر میں حضرت علی مرتضی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کی خدمت میں حاضر کئے گئے ،آپ نے ان کے اور ان کی اولاد کیلئے برکت کی دعاکی اور ہم اللہ سے امید رکھتے ہیں کہ حضرت علی المرتضی کی دعاہمارے حق میں قبول کرلی گئی ہے۔

اس روایت سے ثابت کہ آپ کی ولا دت ۸۰ھ میں ہوئی۔ دوسری روایت جو حضرت امام ابویوسف سے ہے اس میں ۷۷ھ ہے۔ علامہ کوثری نے۷۰ھ کودلائل وقرائن سے ترجیح دی ہے اورکہا ہے کہ ۸۷ھ میں اپنے والد کے ساتھ حج کوگئے اوروہاں حضرت عبداللہ بن حارث سے ملاقات ہوئی اور حدیث سنی۔اسی ۷۰ھ کوابن حبان نے بھی صحیح بتایا ہے۔

معتمدقول یہ ہی ہے کہ آپ فارسی النسل ہیں اورغلامی کادھبہ آپ کے آباء میں کسی پر نہیں لگا، مؤرخین نے غیر عرب پر موالی کا استعمال کیا ہے بلکہ عرب میں ایک رواج یہ بھی تھا کہ پردیسی یا کمزورفرد کسی بااثر شخص یاقبیلہ کی حمایت وپناہ حاصل کرلیتا تھا۔لہذاجبکہ حضرت امام اعظم کے جد امجد جب عراق آئے توآپ نے بھی ایساہی کیا۔

امام طحاوی شرح مشکل الآثار میں راوی کہ حضرت عبداللہ بن یزید کہتے ہیں ،میں امام اعظم کی خدمت میں حاضر ہوا توانہوں نے مجھ سے پوچھا ،تم کون ہو ؟میں نے عرض کیا :میں ایسا شخص ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے جس پر اسلام کے ذریعہ احسان فرمایا ،یعنی نومسلم۔حضرت امام اعظم نے فرمایا: یوں نہ کہو ،بلکہ ان قبائل میں سے کسی سے تعلق پیدا کر لو پھر تمہاری نسبت بھی ان کی طرف ہوگی ،میں خود بھی ایساہی تھا۔

مولی صرف غلام ہی کو نہیں کہاجاتا ،بلکہ ولاء اسلام ،ولاء حلف اور ولاء لزوم کو بھی ولا ء کہتے ہیں اور ان تعلق والوں کو بھی موالی کہاجاتاہے۔امام بخاری ولاء اسلام کی وجہ سے جعفی ہیں۔امام مالک ولاء حلف کی وجہ سے تیمی اورمقسم کو ولاء لزوم یعنی حضرت ابن عباس کی خدمت میں ایک عرصہ تک رہنے کی وجہ سے مولی ابن عباس کہاجاتاہے۔

کنیت کی وضاحت : آپ کی کنیت ’’ابوحنیفہ ‘‘کے سلسلہ میں متعدد اقوال ہیں۔

۱: چونکہ اہل عرب دوات کو’’ حنیفہ ‘‘کہتے ہیں اورکوفہ کی جامع مسجد میں وقف کی چارسودواتیں طلبہ کیلئے ہمیشہ وقف رہتی تھیں۔امام اعظم کا حلقہ درس وسیع تھا اورآپ کے ہرشاگرد کے پاس علیحدہ دوات رہتی تھی ، لہذاآپ کو ابوحنیفہ کہا گیا۔

۲: صاحب ملت حنیفہ ،یعنی ادیان باطلہ سے اعراض کرکے حق کی طرف پورے طور پر مائل رہنے والا۔

بشارت عظمی : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ہم حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر تھے ،اسی مجلس میں سورہ جمعہ نازل ہوئی ،جب آپ نے اس سورت کی آیت :وآخرین منھم لما یلحقوابہمپڑھی توحاضرین میں سے کسی نے پوچھا :’’یارسول اللہ !یہ دوسرے حضرات کون ہیں ؟جوابھی ہم سے نہیں ملے۔حضور یہ سن کر خاموش رہے ،جب باربار پوچھاگیا تو حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کاندھے پر دست اقدس رکھ کر ارشاد فرمایا :

’’
لوکان الایمان عندالثریا لنالہ رجل من ھؤلائ۔‘‘

اگر ایمان ثریا کے پاس بھی ہوگا تو اس کی قوم کے لوگ اس کو ضرور تلاش کرلیں گے ۔یہ حدیث متعدد سندوں سے مختلف الفاظ کے ساتھ مروی ہے۔جس کا مفہوم ومعنی ایک ہے۔

علامہ ابن حجر مکی نے حافظ امام سیوطی کے بعض شاگردوں کے حوالے سے لکھاہے کہ ہمارے استاد امام سیوطی یقین کے ساتھ کہتے تھے:’’اس حدیث کے اولین مصداق صرف امام اعظم ابوحنیفہ ہیںکیونکہ امام اعظم کے زمانے میں اہل فارس سے کوئی بھی آپ کے علم وفضل تک نہ پہونچ سکا۔‘‘

والفضل ماشہدت بہ الاعدائکے بموجب نواب صدیق حسن خاں بھوپالی کو بھی اس امر کا اعتراف کرنا پڑا، لکھتے ہیں :ہم امام دراں داخل ست۔امام اعظم بھی اس حدیث کے مصداق ہیں۔

امام بخاری کی روایت سے یہ بھی ظاہر ہے کہ حضرت سلمان فارسی کیلئے یہ بشارت نہ تھی کہ آیت میں ’’لما یلحقوا بہم‘‘کے بارے میں سوال تھا اورجواب میں آئندہ لوگوں کی نشاندھی کی جارہی ہے ،لہذا وہ لوگ غلط فہمی کا شکار ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ حدیث تو حضرت سلمان فارسی کے لیے تھی اوراحناف نے امام اعظم پر چسپاں کر دی ۔ قارئین ! غور کریں کہ یہ دیانت سے کتنی بعید بات ہے!!!!

تعلیم کے مراحل : آپ نے ابتدائی ضروری تعلیم کے بعد تجارت کا میدان اختیار کرلیا تھا آپ ریشم کے کپڑے کی تجارت کرتے تھے ،حفص بن عبدالرحمن بھی آپ کے شریک تجارت تھے۔آپ کی تجارت عامیانہ اصول سے بالاتر تھی۔آپ ایک مثالی تاجر کاکردار ادافرماتے ،بلکہ یوں کہاجائے کہ تجارت کی شکل میں لوگوں پر جود وکرم کا فیض جاری کرنا آپ کا مشغلہ تھا۔

ایک دن تجارت کے سلسلہ میں بازار جا رہے تھے ،راستے میں امام شعبی سے ملاقات ہوئی ،یہ وہ عظیم تابعی ہیں جنہوں نے پانچ سو صحابہ کرام کا زمانہ پایا ،فرمایا : کہاں جاتے ہو ؟عرض کی بازار۔چونکہ آپ نے امام اعظم کے چہر ہ پر ذہانت وسعادت کے آثار نمایاں دیکھ کر بلایا تھا ، فرمایا: علماء کی مجلس میں نہیں بیٹھتے ہو ،عرض کیا نہیں۔فرمایا : غفلت نہ کرو تم علماء کی مجلس میں بیٹھاکرو۔کیونکہ میں تمہارے چہرے میں علم وفضل کی درخشندگی کے آثار دیکھ رہا ہوں ۔امام اعظم فرماتے ہیں : امام شعبی کی ملاقات اور ان کے اس فرمان نے میرے دل پر اثر کیا اوربازار کاجانا میں نے چھوڑ دیا ۔ پہلے علم کلام کی طرف متوجہ ہوا اور اس میں کمال حاصل کرنے کے بعد گمراہ فرقوں مثلا جہمیہ، قدریہ سے بحث ومباحثہ کیا اورمناظرہ شروع کیا۔

پھر خیال آیا کے صحابہ کرام سے زیادہ دین کو جاننے والاکون ہوسکتاہے؟اس کے باوجود ان حضرات نے اس طریق کو نہ اپناکر شرعی اورفقہی مسائل سے زیادہ شغف رکھا ،لہذا مجھے بھی اسی طرف متوجہ ہونا چاہئے ۔کوفہ آپ کے عہد پاک میں فقہائے عراق کا گہوارہ تھا جس طرح اس کے برخلاف بصرہ مختلف فرقوں اور اصول اعتقاد میں بحث ومجادلہ کرنے والوں کا گڑھ تھا۔کوفہ کا یہ علمی ماحول بذات خود بڑااثر آفریں تھا۔ خود فرماتے ہیں :میں علم وفقہ کی کان کوفہ میں سکونت پذیر تھا اوراہل کوفہ کا جلیس وہم نشیں رہا ۔ پھر فقہاء کوفہ میں ایک فقیہ کے دامن سے وابستہ ہوگیا۔اس سے مراد حضرت حماد بن ابی سلیمان ہیں جواس وقت جامع کوفہ میں مسنددرس و تدریس پر متمکن تھے اوریہ درسگاہ باقاعدہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد پاک سے چلی آرہی تھی۔اس مبارک شہر میں ایک ہزار پچاس صحابہ کرام جن میں ستر اصحاب بدر اورتین سو بیعت رضوان کے شرکاء تھے آ کر آباد ہوگئے۔جس برج میں یہ نجوم ہدایت اکٹھے ہوں اسکی ضوء فشانیاں کہاں تک ہوں گی؟ اس کا اندازہ ہر ذی فہم کرسکتاہے۔

اس کا نتیجہ یہ تھاکہ کوفہ کا ہرگھر علم کے انوار سے جگمگا رہا تھا ۔ ہر ہر گھر دار الحدیث اور دار العلوم بن گیا تھا۔حضرت امام اعظم جس عہد میں پیدا ہوئے اس وقت کوفہ میں حدیث وفقہ کے وہ ائمہ مسند تدریس کی زینت تھے جن میں ہر شخص اپنی اپنی جگہ آفتاب و مہتاب تھا۔ کوفہ کی یہ خصوصیت صحاح ستہ کے مصنفین کے عہد تک بھی باقی تھی ۔یہی وجہ ہے کہ امام بخاری کو اتنی بار کوفہ جانا پڑا کہ وہ اسے شمار نہیں کرسکے اور صحاح ستہ کے اکثر شیوخ کوفہ کے ہیں۔اس وقت کوفہ میں مندرجہ ذیل مشاہیر ائمہ موجود تھے:

٭حضرت ابراہیم نخعی فقیہ عراق ٭حضرت امام عامر شعبی٭حضرت سلمہ بن کہیل ٭حضرت ابواسحاق سبعی ٭حضرت سماک بن حرب ٭حضرت محارب بن دثار٭حضرت عون بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود ٭حضرت ہشام بن عروہ بن زبیر٭حضرت سلیمان بن مہران اعمش ٭حضرت حماد بن ابی سلیمان فقیہ عراق۔

سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس وقت صحابہ کرام میں سے حضرت عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوفہ ہی میں تھے۔

ٍٍ کوفہ کو مرکز علم وفضل بنانے میں ایک ہزار پچاس صحابہ کرام نے جوکیا وہ تو کیا ہی اصل فیض حضرت عبداللہ بن مسعود اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا ہے۔حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کوفہ کا قاضی اور وہاں کے بیت المال کا منتظم بنایا تھا ، اسی عہد میں انہوں نے کوفہ میں علم وفضل کا دریابہایا۔

اسرارالانوارمیں ہے : کوفہ میں ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مجلس میں بیک وقت چارہزار افراد حاضر ہوتے۔ایک بار حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوفہ تشریف لائے اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کے استقبال کے لئے آئے تو سارامیدان آپ کے تلامذہ سے بھر گیا۔انہیں دیکھ کر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خوش ہوکر فرمایا ابن مسعود !تم نے کوفہ کو علم وفقہ سے بھر دیا ،تمہاری بدولت یہ شہر مرکز علم بن گیا۔پھر اس شہر کو باب مدینۃ العلم حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے روحانی وعرفانی فیض سے ایسا سینچا کہ تیرہ سوسال گذرنے کے باوجود پوری دنیاکے مسلمان اس سے سیراب ہورہے ہیں۔ خواہ علم حدیث ہو یا علم فقہ۔ اگر کوفہ کے راویوں کو ساقط الاعتبار کردیا جائے تو پھر صحاح ستہ، صحاح ستہ نہ رہیں گی۔

امام شعبی نے فرمایا: صحابہ میں چھ قاضی تھے ،ان میں تین مدینے میں تھے۔عمر ،ابی بن کعب، زید۔ اور تین کوفے میں علی ، ابن مسعود ،ابوموسی اشعری۔رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین۔

امام مسروق نے کہا : میں نے اصحاب رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو دیکھا ان میں چھ کو منبع علم پایا عمر ،علی ،ابن مسعود ، زید ، ابودرداء ،ابی بن کعب ، اس کے بعد دیکھا تو ان چھ حضرات کاعلم ان دومیں مجتمع پایا۔ علی اورابن مسعود۔ ان دونوں کا علم مدینے سے بادل بن کر اٹھا اور کوفے کی وادیوں پر برسا۔ان آفتاب وماہتاب نے کوفے کے ذرے ذرے کو چمکایا۔حضرت عمر نے اس شہر کو راس الاسلام ،راس العرب ،جمجمۃ العرب ، رمح اللہ اورکنزالایمان کہا۔

امام اعظم نے امام حماد کی حلقہ تلامذہ میں شرکت اس وقت کی جب آپ کی عمر بیس سال سے متجاوز ہوگئی تھی اور آپ اٹھارہ سال تک ان کی خدمت میں فقہ حاصل کرتے رہے ،درمیان میں آپ نے دوسرے بلاد کا سفر بھی فرمایا،حج بیت اللہ کیلئے حرم شریف میں بھی حاضری کا موقع ملا۔اس طرح آپ ہر جگہ علم کی تلاش میں رہے اور تقریباً چارہزار مشائخ سے علم حدیث وفقہ حاصل کیا اور پھر اپنے استاذ حضرت حماد کی مسند درس پر جلوس فرمایا۔یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ امام حماد کا وصال ۱۲۰ھ میں ہوا، لہذا ان کے وصال کے وقت امام اعظم کی عمر چالیس سال تھی ،گویا جسم وعقل میں کامل ہونے کے بعد آپ نے چالیس سال کی عمر میں مسند درس کو رونق بخشی۔آپ کو پہلے بھی اس چیز کا خیال آیا تھا کہ میں اپنی درسگاہ علیحدہ قائم کرلوں مگر تکمیل کی نوبت نہ آئی۔آپ کے شاگرد امام زفر فرماتے ہیں:

امام اعظم ابو حنیفہ نے اپنے استاذ حضرت حماد سے وابستگی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا میں دس سال آپ کی صحبت میں رہا ، پھرمیرا جی حصول اقتدار کیلئے للچایا تو میں نے الگ اپنا حلقہ جمانے کا ارادہ کر لیا ایک روز میں پچھلے پہر نکلا اورچاہا کہ آج یہ کام کرہی لوں ،مسجد میں قدم رکھا اور شیخ حماد کو دیکھا تو ان سے علیحدگی پسند نہ آئی اور ان کے پاس ہی آکر بیٹھ گیا۔اسی رات حضرت حمادکو اطلاع ملی کہ بصرہ میں ان کا کوئی عزیزفوت ہوگیا ہے ،بڑامال چھوڑا اور حماد کے سوا کوئی دوسرا وارث نہیں ہے ، آپ نے اپنی جگہ مجھے بٹھا یا ، جیسے ہی وہ تشریف لے گئے کہ میرے پاس چند ایسے مسائل آئے جو میں نے آج تک ان سے نہ سنے تھے ،میں جواب دیتا جاتا اوراپنے جوابات لکھتا جاتا تھا۔جب حضرت حماد واپس تشریف لائے تو میں نے وہ مسائل پیش کئے ،یہ تقریباً ساٹھ مسائل تھے۔چالیس سے تو آپ نے اتفاق کیا لیکن بیس میں میرے خلاف جواب دیے۔میں نے اسی دن یہ تہیہ کر لیا کہ تاحین حیات ان کا ساتھ نہ چھوڑوں گا ،لہذا میں اسی عہد پر قائم رہا اور تازندگی ان کے دامن سے وابستہ رہا۔غرضیکہ آپ چالیس سال کی عمر میں کوفہ کی جامع مسجد میں اپنے استاذ کی مسند پر متمکن ہوئے اوراپنے تلامذہ کو پیش آمدہ فتاوی وجوابات کا درس دینا شروع کیا۔آپ نے بڑی سلجھی ہوئی گفتگو اورعقل سلیم کی مددسے اشباہ وامثال پر قیاس کا آغاز کیا اور اس فقہی مسلک کی داغ بیل ڈالی جس سے آگے چل کر حنفی مذہب کی بنیاد پڑی۔

آپ نے دراسات علمی کے ذریعہ ان اصحاب کرام کے فتاوی تک رسائی حاصل کی جو اجتہاد واستنباط ،ذہانت وفطانت اور جودت رائے میں اپنی مثال آپ تھے۔ایک دن آپ منصور کے دربار میں تشریف لے گئے ،وہاں عیسی بن موسی بھی موجود تھا۔ اس نے منصور سے کہا : یہ اس عہد کے سب سے بڑے عالم دین ہیں ،منصور نے امام اعظم کو مخاطب کرکے کہا : نعمان ! آپ نے علم کہاں سے سیکھا ،فرمایا: حضرت ابن عمر کے تلامذہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عمر سے۔ نیز شاگردان علی سے انہوں نے حضرت علی سے۔ اسی طرح تلامذہ ابن مسعود سے۔بولا : آپ نے بڑا قابل اعتماد علم حاصل کیا۔

شرف تابعیت : امام اعظم قدس سرہ کو متعددصحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے شرف ملاقات بھی حاصل تھا ،آپ کے تمام انصاف پسندتذکرہ نگار اور مناقب نویس اس بات پر متفق ہیں اور یہ وہ خصوصیت ہے جو ائمہ اربعہ میں کسی کو حاصل نہیں۔بلکہ بعض نے تو صحابہ کرام سے روایت کابھی ذکر کیاہے۔

علامہ ابن حجر ہیتمی مکی لکھتے ہیں :’’امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صحابہ کرام کی ایک جماعت کو پایا۔آپ کی ولادت۸۰ھ میں ہوئی ، اس وقت کوفہ میں صحابہ کرام کی ایک جماعت تھی۔حضرت عبداللہ بن

ابی اوفی کا وصال ۸۸ھ کے بعد ہواہے۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس وقت بصرہ میں موجود تھے اور ۹۵ھ میں وصال فرمایا۔ آپ نے ان کو دیکھا ہے۔ ان حضرات کے سوا دوسرے بلاد میں دیگر صحابہ کرام بھی موجود تھے۔

٭ حضرت واثلہ بن اسقع شام میں۔وصال ۸۵ھ

٭ حضرت سہل بن سعد مدینہ میں۔وصال ۸۸ھ

٭ حضرت ابوالطفیل عامر بن واثلہ مکہ میں۔وصال ۱۱۰ھ

یہ تمام صحابہ کرام میں آخری ہیں جن کا وصال دوسری صدی میں ہوااور امام اعظم نے ۹۳ھ میں ان کو حج بیت اللہ کے موقع پر دیکھا۔امام ابو یوسف سے روایت ہے کہ میں نے خود امام اعظم کو فرماتے سنا کہ’’میں۹۳ھ میں اپنے والد کے ساتھ حج کو گیا ،اس وقت میری عمر سولہ سال کی تھی۔

میں نے ایک بوڑھے شخص کودیکھا کہ ان پر لوگوں کا ہجوم تھا ،میں نے اپنے والد سے پوچھا کہ یہ بوڑھے شخص کون ہیں ؟ انہوں نے فرمایا : یہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی صحابی ہیں اور ان کا نام عبداللہ بن حارث بن جزہے پھر میں نے دریافت کیا کہ ان کے پاس کیا ہے ؟ میرے والد نے کہا: ان کے پاس وہ حدیثیں ہیں جو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے سنی ہیں۔میں نے کہا : مجھے بھی ان کے پاس لے چلئے تاکہ میں بھی حدیث شریف سن لوں ،چنانچہ وہ مجھ سے آگے بڑھے اور لوگوں کو چیرتے ہوئے چلے یہاں تک کہ میں ان کے قریب پہنچ گیا اور میں نے ان سے سنا کہ آپ کہہ رہے تھے:قال رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ؛من تفقہ فی دین اللہ کفاہ اللہ وھمہ ورزقہ من حیث لایحسبہ۔

رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس نے دین کی سمجھ حاصل کرلی اس کی فکروں کا علاج اللہ تعالیٰ کرتاہے اوراس کو اس طرح پر روزی دیتاہے کہ کسی کووہم و گمان بھی نہیں ہوتا۔

بہر حال اتنی بات متحقق ہے کہ صحابہ کرام سے ملاقات ہوئی اور آپ بلاشبہ تابعی ہیں اوراس شرف میں اپنے معاصرین واقران مثلا امام سفیان ثوری ،امام اوزاعی ،امام مالک،اور امام لیث بن سعد پر آپ کو فضیلت حاصل ہے۔لہذا آپ کی تابعیت کا ثبوت ہر شک وشبہ سے بالاتر ہے۔ بلکہ آپ کی تابعیت کے ساتھ یہ امر بھی متحقق ہے کہ آپ نے صحابہ کرام سے احادیث کاسماع کیا اورروایت کیاہے۔تویہ وصف بھی بلاشبہ آپ کی عظیم خصوصیت ہے۔بعض محدثین ومورخین نے اس سلسلہ میں اختلاف بھی کیا ہے لیکن منصف مزاج لوگ خاموش نہیں رہے ،لہذا احناف کی طرح شوافع نے بھی اس حقیقت کو واضح کردیا ہے۔

علامہ عینی ؛حضرت عبداللہ بن ابی اوفی صحابی رسول کے ترجمہ میں لکھتے ہیں :

’’
عبداللہ بن ابی اوفی ان صحابہ سے ہیں جن کی امام ابو حنیفہ نے زیارت کی اور ان سے روایت کی قطع نظر کرتے ہوئے منکر متعصب کے قول سے امام اعظم کی عمر اس وقت سات سال کی تھی کیونکہ صحیح یہ ہے کہ آپ کی ولادت ۸۰ھ میں ہوئی اور بعض اقوال کی بنا پر اس وقت آپکی عمر سترہ سال کی تھی۔ بہر حال سات سال عمر بھی فہم وشعور کاسن ہے اور یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک صحابی کسی شہر میں رہتے ہوں اور شہر کے رہنے والوں میں ایسا شخص ہو جس نے اس صحابی کو نہ دیکھا ہو۔ اس بحث میں امام اعظم کی تلامذہ کی بات ہی معتبر ہے کیونکہ وہ ان کے احوال سے زیادہ واقف ہیں اور ثقہ بھی ہیں۔‘‘

ملاعلی قاری ؛امام کردری کے حوالہ سے لکھتے ہیں :’’ محدثین کی ایک جماعت نے امام اعظم کی صحابہ کرام سے ملاقات کا انکار کیا ہے اور ان کے شاگردوں نے اس بات کو صحیح اور حسن سندوں کے ساتھ ثابت کیا اور ثبوت روایت نفی سے بہتر ہے۔ ‘‘

مشہور محدث شیخ محمد طاہر ہندی نے کرمانی کے حوالہ سے لکھا ہے:’’امام اعظم کے شاگرد کہتے ہیں کہ آپ نے صحابہ کی ایک جماعت سے ملاقات کی ہے اور ان سے سماع حدیث بھی کیا ہے۔‘‘

امام ابو معشر عبدالکریم بن عبدالصمد طبری شافعی نے امام اعظم کی صحابہ کرام سے مرویات میں ایک مستقل رسالہ لکھا اور اس میں روایات مع سند بیان فرمائیں۔ نیز ان کو حسن وقوی بتایا۔ امام سیوطی نے ان روایات کو تبییض الصحیفہ میں نقل کیا ہے جن کی تفصیل یوں ہے:

عن ابی یوسف عن ابی حنیفۃ سمعت انس بن مالک یقول سمعت رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم یقول : طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم۔

امام سیوطی نے فرمایا یہ حدیث پچاس طرق سے مجھے معلوم ہے اور صحیح ہے۔

حضرت امام ابو یوسف حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اور انہوں نے حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو فرماتے سنا علم کا طلب کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔

عن ابی یوسف عن ابی حنیفۃ سمعت انس بن مالک یقول سمعت رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم یقول : الدال علی الخیر کفاعلہ۔

اس معنی کی حدیث مسلم شریف میں بھی ہے۔

حضرت امام ابو یوسف حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اورانہوں نے حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو فرماتے سنا نیکی کی رہنمائی کرنے والا نیکی کرنے والے کے مثل ہے۔

عن ابی یوسف عن ابی حنیفۃ سمعت انس بن مالک یقول سمعت رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم یقول :ان اللہ یحب اغاثۃ اللہفان۔

ضیاء المقدسی نے مختارہ میں اسکو صحیح کہا۔

حضرت امام ابویوسف حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور انہوں نے حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو فرماتے سنا : بیشک اللہ تعالیٰ مصیبت زدہ کی دست گیری کو پسند فرماتاہے۔

عن یحی بن قاسم عن ابی حنیفۃ سمعت عبداللہ بن ابی اوفی یقول سمعت رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم یقول : من بنی للہ مسجدا ولو کمفحص قطاۃ بنی اللہ لہ بیتا فی الجنۃ۔

امام سیوطی فرماتے ہیں ،اس حدیث کا متن صحیح بلکہ متواتر ہے۔

حضرت یحیی بن قاسم حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں حضرت عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو فرماتے سنا کہ انہوں نے حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو فرماتے سنا : جس نے اللہ کی رضا کیلئے سنگ خوار کے گڑھے کے برابر بھی مسجد بنائی تو اللہ تعالیٰ اس کیلئے جنت میں گھر بنائے گا۔

عن اسمعیل بن عیاش عن ابی حنیفۃ عن واثلۃ بن اسقع ان رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم قال :دع مایریبک الی مالا یریبک۔

امام ترمذی نے اس کی تصحیح فرمائی۔

حضرت اسمٰعیل بن عیاش حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہماسے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: شک وشبہ کی چیزوں کو چھوڑ کر ان چیزوں کو اختیار کرو جو شکوک وشبہات سے بالاتر ہیں۔

ان تمام تفصیلات کی روشنی میں یہ بات ثابت ومتحقق ہے کہ امام اعظم صحابہ کرام کی رویت وروایت دونوں سے مشرف ہوئے۔یہاں اس امر کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ امام اعظم کے بعض سوانح نگا راپنی صاف گوئی اور غیر جانب داری کا ثبوت دیتے ہوئے وہ باتیں بھی لکھ گئے ہیں جن سے تعصب کا اظہار ہوتاہے۔ان کے پیچھے حقائق تو کیا ہوتے دیانت سے بھی کام نہیں لیا گیا۔

اساتذہ : گذشتہ پیغامات میں آپ متفرق طور پر پڑھ چکے کہ امام اعظم نے کثیر شیوخ واساتذہ سے علم حدیث حاصل کیا ،ان میں سے بعض کے اسماء یہ ہیں۔

٭عطاء بن ابی رباح٭حماد بن ابی سلیمان ٭سلیمان بن مہران اعمش٭امام عامر شعبی٭ عکرمہ مولی ابن عباس٭ابن شہاب زہری ٭نافع مولی بن عمر ٭یحییٰ بن سعید انصاری ٭عدی بن ثابت انصاری ٭ ابوسفیان بصری ٭ہشام بن عروہ٭سعید بن مسروق٭ لقمہ بن مرثد ٭حکم بن عیینہ ٭ابواسحاق بن سبیعی٭سلمہ بن کہیل٭ابوجعفر محمد بن علی ٭ عاصم بن ابی النجود٭علی بن اقمر ٭عطیہ بن سعید عوفی ٭ عبدالکریم ابوامیہ ٭زیاد بن علاقہ٭سلیمان مولی ام المومنین میمونہ ٭سالم بن عبداللہ

چونکہ احادیث فقہ کی بنیاد ہیں اور کتاب اللہ کے معانی ومطالب کے فہم کی بھی اساس ہیں لہذا امام اعظم نے حدیث کی تحصیل میں بھی انتھک کوشش فرمائی۔یہ وہ زمانہ تھا کہ حدیث کادرس شباب پر تھا ۔ تمام بلاد اسلامیہ میں اس کا درس زور وشور سے جاری تھا اورکوفہ تو اس خصوصیت میں ممتاز تھا۔ امام بخاری فرماتے ہیں ،میں کوفہ اتنی بار حصول حدیث کیلئے گیا کہ شمار نہیں کرسکتا۔

امام اعظم نے حصول حدیث کا آغاز بھی کوفہ ہی سے کیا۔ کوفہ میں کوئی ایسا محدث نہ تھا جس سے آپ نے حدیث اخذ نہ کی ہو۔ابوالمحاسن شافعی نے فرمایا :’’تر انوے وہ مشائخ ہیں جو کوفے میں قیام فرماتھے یاکوفے تشریف لائے جن سے امام اعظم نے حدیث اخذ کی۔ان میں اکثر تابعی تھے۔ بعض مشائخ کی تفصیل یہ ہے۔

٭امام عامر شعبی : انہوں نے پانچ سو صحابہ کرام کا زمانہ پایا ،خود فرماتے تھے کہ بیس سال ہوئے میرے کان میں کوئی حدیث ایسی نہ پڑی جس کا علم مجھے پہلے سے نہ ہو۔ امام اعظم نے ان سے اخذ حدیث فرمائی۔

٭امام شعبہ : انہیں دوہزار حدیثیں یادتھیں ،سفیان ثوری نے انہیں امیرالمومنین فی الحدیث کہا امام شافعی نے فرمایا : شعبہ نہ ہوتے توعراق میں حدیث اتنی عام نہ ہوتی۔امام شعبہ کو امام اعظم سے قلبی لگاؤ تھا ، فرماتے تھے :جس طرح مجھے یہ یقین ہے کہ آفتاب روشن ہے اسی طرح یقین سے کہتاہوں کہ علم اورابو حنیفہ ہم نشیں ہیں۔

٭امام اعمش: مشہور تابعی ہیں شعبہ وسفیان ثوری کے استاذ ہیں ،حضرت انس اورعبداللہ بن ابی اوفیٰ سے ملاقات ہے۔ امام اعظم آپ سے حدیث پڑھتے تھے اسی دوران انہوں نے آپ سے مناسک حج لکھوائے۔واقعہ یوں ہے کہ امام اعمش سے کسی نے کچھ مسائل دریافت کئے۔انہوں نے امام اعظم سے پوچھا۔آپ کیاکہتے ہیں ؟ حضرت امام اعظم نے ان سب کے حکم بیان فرمائے۔امام اعمش نے پوچھا کہاں سے یہ کہتے ہو۔فرمایا۔آپ ہی کی بیان کردہ احادیث سے اور ان احادیث کو مع سندوں کے بیان کردیا۔امام اعمش نے فرمایا۔ بس بس!میں نے آپ سے جتنی حدیثیں سو دن میں بیان کیں آپ نے وہ سب ایک دن میں سنا ڈالیں۔میں نہیں جانتا تھا کہ آپ ان احادیث میں یہ عمل کرتے ہیں: یا معشر الفقہاء انتم الاطباء ونحن الصیادلۃ وانت ایہا الرجل اخذت بکلا الطرفین۔

اے گروہ فقہاء !تم طبیب ہواور ہم محدثین عطار اورآپ نے دونوں کو حاصل کرلیا۔

٭امام حماد : امام اعظم کے عظیم استاذ حدیث وفقہ ہیں اور حضرت انس سے حدیث سنی تھی بڑے بڑے ائمہ تابعین سے ان کو شرف تلمذ حاصل تھا۔

٭سلمہ بن کہیل : تابعی جلیل ہیں ،بہت سے صحابہ کرام سے روایت کی۔کثیرالروایت اور صحیح الروایت تھے۔ابواسحاق سبیعی علی بن مدینی نے کہا ان کے شیوخ حدیث کی تعداد تین سو ہے۔ان میں اڑتیس صحابہ کرام ہیں٭ عبداللہ بن عباس ٭ عبداللہ بن عمر٭ عبد اللہ بن زبیر٭ نعمان بن بشیر٭زید بن ارقم سرفہرست ہیں۔

مکہ معظمہ میں حضرت عطاء بن ابی رباح سرتاج محدثین تھے ،دوسرے صحابہ کرام کی صحبت کا شرف حاصل تھا۔ محدث ہونے کے ساتھ ساتھ عظیم مجتہد وفقیہ تھے۔ حضرت ابن عمر فرماتے تھے کہ عطاء کے ہوتے ہوئے میرے پاس کیوں آتے ہیں۔ ایام حج میں اعلان عام ہوجاتا کہ عطاء کے علاوہ کوئی فتوی نہ دے۔ اساطین محدثین امام اوزاعی ،امام زہری ، امام عمروبن دینار ان کے شاگردتھے۔ امام اعظم نے اپنی خداداد ذہانت وفطانت سے آپ کی بارگاہ میں وہ مقبولیت حاصل کر لی تھی آپ کو قریب سے قریب تر بٹھاتے ۔ تقریباً بیس سال خدمت میں حج بیت اللہ کے موقع پر حاضر ہوتے رہے۔حضرت عکرمہ کا قیام بھی مکہ مکرمہ میں تھا ، یہ جلیل القدر صحابہ کے تلمیذ ہیں:٭ حضرت علی٭حضرت ابوہریرہ ٭ابوقتادہ ٭ ابن عمر اورابن عباس کے تلمیذ خاص ہیں۔ستر مشاہیر ائمہ تابعین ان کے تلامذہ میں داخل ہیں۔امام اعظم نے ان سے بھی حدیث کی تعلیم حاصل کی۔

مدینہ طیبہ میں سلیمان مولی ام المومنین میمونہ اورسالم بن عبداللہ سے احادیث سنیں۔ ان کے علاوہ دوسرے حضرات سے بھی اکتساب علم کیا۔بصرہ کے تمام مشاہیر سے اخذ علم فرمایا ،یہ شہر حضرت انس بن مالک کی وجہ سے مرکز حدیث بن گیا تھا۔ امام اعظم کی آمد ورفت یہاں کثرت سے تھی۔حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے آپ کی ملاقات بصرہ میں بھی ہوئی اورآپ جب کوفہ تشریف لائے اس وقت بھی۔غرضیکہ امام اعظم کو حصول حدیث میں وہ شرف حاصل ہے جو دیگر ائمہ کو نہیں ،آپ کے مشائخ میں صحابہ کرام سے لے کر کبار تابعین اورمشاہیر محدثین تک ایک عظیم جماعت داخل ہے اور آپ کے مشائخ کی تعداد چارہزار تک بیان کی گئی ہے۔

تلامذہ : آپ سے علم حدیث وفقہ حاصل کرنے والے بے شمار ہیں ، چند مشاہیر کے اسماء یہ ہیں :

٭امام ابو یوسف ٭امام محمد بن حسن شیبانی ٭امام حماد بن ابی حنیفہ ٭ امام مالک ٭امام عبداللہ بن مبارک ٭امام زفربن ہذیل٭امام داؤد طائی ٭فضیل بن عیاض ٭ابراہیم بن ادہم ٭بشربن الحارث حافی٭ ابوسعید یحییٰ بن زکریاکوفی ہمدانی ٭علی بن مسہر کوفی٭ حفص بن غیاث ٭ حسن بن زناد٭ مسعر بن کدام٭نوح بن درا ج نخعی٭ابراہیم بن طہران ٭اسحاق بن یوسف ازرق ٭اسد بن عمر وقاضی ٭عبدالرزاق ٭ابونعیم ٭حمزہ بن حبیب الزیات ٭ابو یحییٰ حمانی ٭عیسیٰ بن یونس یزید بن زریع ٭وکیع بن جراح ٭ ہیثم٭ حکام بن یعلی رازی٭خارجہ بن مصعب ٭ عبد الحمید بن ابی داؤد ٭ مصعب بن مقدام٭یحییٰ بن یمان ٭لیث بن سعد ٭ابو عصمہ بن مریم ٭ابو عبدالرحمن مقری ٭ابوعاصم وغیرہم۔

تصانیف: امام اعظم نے کلام وعقائد ،فقہ واصول اورآداب واخلاق پر کتابیں تصنیف فرماکر اس میدان میں اولیت حاصل کی ہے۔

امام اعظم کے سلسلہ میں ہردور میں کچھ لوگ غلط فہمی کا شکار رہے ہیں اورآج بھی یہ مرض بعض لوگوں میں موجود ہے۔فقہ حنفی کو بالعموم حدیث سے تہی دامن اورقیاس ورائے پراس کی بنا سمجھی جاتی ہے جو سراسر خلاف واقع ہے۔اس حقیقت کو تفصیل سے جاننے کیلئے بڑے بڑے علماء فن کے رشحات قلم ملاحظہ کریں جن میں ٭امام یوسف بن عبدالھادی حنبلی ٭امام سیوطی شافعی٭ امام ابن حجر مکی شافعی ٭امام محمد صالحی شافعی وغیرہم جیسے اکابر نے اسی طرح کی پھیلائی گئی غلط فہمی کے ازالہ کیلئے کتابیں تصنیف فرمائیں علم حدیث میں امام اعظم کو بعض ایسی خصوصیات حاصل ہیں جن میں کوئی دوسرامحدث شریک نہیں۔امام اعظم کی مرویات کے مجموعے چار قسم کے شمار کئے گئے ہیں جیسا کہ شیخ محمد امین نے وضاحت سے ’’مسانید الامام ابی حنیفہ ‘‘ میں لکھا ہے:’’کتاب الآثار،مسند امام ابو حنیفہ، اربعینات ،وحدانیات‘‘

متقدمین میں تصنیف وتالیف کا طریقہ اس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے لائق وقابل فخر تلامذہ کو املا کراتے ،یاخود تلامذہ درس میں خاص چیزیں ضبط تحریر میں لے آتے ،اس کے بعد راوی کی حیثیت سے ان تمام معلومات کو جمع کرکے روایت کرتے اورشیخ کی طرف منسوب فرماتے تھے۔

کتاب الآثار۔ امام اعظم نے علم حدیث وآثار پر مشتمل کتاب الآثار ،یونہی تصنیف فرمائی۔ آپ نے اپنے مقرر کردہ اصول وشرائط کے مطابق چالیس ہزار احادیث کے ذخیرہ سے اس مجموعہ کا انتخاب کرکے املا کرایا۔قدرے تفصیل گذر چکی ہے۔ کتاب میں مرفوع ،موقوف ، اورمقطوع سب طرح کی احادیث ہیں۔ کتاب الآثار کے راوی آپ کے متعددتلامذہ ہیں جنکی طرف منسوب ہوکر علیحدہ علیحدہ نام سے معروف ہیں اور مرویات کی تعداد میں بھی حذف واضافہ ہے۔

عام طور سے چند نسخے مشہور ہیں:

٭ کتاب الآثار بروایت امام ابویوسف٭ کتاب الآثار بروایت امام محمد٭ کتاب الآثار بروایت امام حماد بن امام اعظم٭ کتاب الآثار بروایت حفص بن غیاث٭ کتاب الآثار بروایت امام زفر (یہ سنن زفر کے نام سے بھی معروف ہوئی )٭ کتاب الآثار بروایت امام حسن بن زیاد ان میں بھی زیادہ شہرت امام محمد کے نسخہ کو حاصل ہوئی۔

امام عبداللہ بن مبارک فرماتے ہیں :امام اعظم نے الآثار ،کوثقہ اورمعززلوگوں سے روایت کیا ہے جو وسیع العلم اورعمدہ مشائخ تھے۔

علامہ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں: اس وقت امام اعظم کی احادیث میں سے کتاب الآثار موجود ہے جسے امام محمد بن حسن نے روایت کیا ہے۔ اس میں مرفوع احادیث ۱۲۲ ہیں۔

امام ابویوسف کا نسخہ زیادہ روایات پر مشتمل ہے ،امام عبدالقادر حنفی نے امام ابویوسف کے صاحبزادے یوسف کے ترجمہ میں لکھا ہے:یوسف بن ابویوسف نے اپنے والد کے واسطہ سے امام اعظم ابو حنیفہ سے کتاب الآثار کو روایت کیا ہے جو ایک ضخیم جلد ہے ، اس میں ایک ہزارستر(۱۰۷۰) احادیث ہیں۔

مسند امام ابوحنیفہ : یہ کتاب امام اعظم کی طرف منسوب ہے ،اس کی حقیقت یہ ہے کہ آپ نے جن شیوخ سے احادیث کو روایت کیا ہے بعد میں محدثین نے ہرہر شیخ کی مرویات کو علیحدہ کرکے مسانید کو مرتب کیا۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہاجاسکتاہے کہ آپ نے تدوین فقہ اوردرس کے وقت تلامذہ کو مسائل شرعیہ بیان فرماتے ہوئے جو دلائل بصورت روایت بیان فرمائے تھے ان روایات کو آپ کے تلامذہ یابعد کے محدثین نے جمع کرکے مسند کانام دیدیا۔ان مسانید اورمجموعوں کی تعداد حسب ذیل ہے:

٭ مسندالامام مرتب امام حماد بن ابی حنیفہ

٭ مسندالامام مرتب امام ابویوسف یعقوب بن ابراہیم الانصاری

٭ مسندالامام مرتب امام محمد بن حسن الشیبانی

٭ مسندالامام مرتب امام حسن بن زیاد

٭ مسندالامام مرتب حافظ ابو محمد عبداللہ بن یعقوب الحارث البخاری

٭ مسندالامام مرتب حافظ ابو القاسم طلحہ بن محمد بن جعفر الشاہد

٭ مسندالامام مرتب حافظ ابوالحسین محمد بن مظہر بن موسی

٭ مسندالامام مرتب حافظ ابونعیم احمد بن عبداللہ الاصفہانی

٭ مسندالامام مرتب الشیخ الثقۃ ابوبکر محمد بن عبدالباخی الانصاری

٭ مسندالامام مرتب حافظ ابو احمد عبداللہ بن عدی الجرجانی

٭ مسندالامام مرتب حافظ عمربن حسن الاشنانی

٭ مسندالامام مرتب حافظ ابوبکر احمدبن محمد بن خالد الکلاعی

٭ مسندالامام مرتب حافظ ابوعبداللہ حسین بن محمد بن خسروالبلخی

٭ مسندالامام مرتب حافظ ابو القاسم عبداللہ بن محمد السعدی

٭ مسندالامام مرتب حافظ عبداللہ بن مخلد بن حفص البغدادی

٭ مسندالامام مرتب حافظ ابوالحسن علی بن عمربن احمد الدارقطنی

٭ مسندالامام مرتب حافظ ابوحفص عمر بن احمد المعروف بابن شاہین

٭ مسندالامام مرتب حافظ ابوالخیر شمس الدین محمد بن عبدالرحمن السخاوی

٭ مسندالامام مرتب حافظ شیخ الحرمین عیسی المغربی المالکی

٭ مسندالامام مرتب حافظ ابوالفضل محمدبن طاہر القیسرانی

٭ مسندالامام مرتب حافظ ابوالعباس احمد الہمدانی المعروف بابن عقدہ

٭ مسندالامام مرتب حافظ ابوبکر محمد بن ابراہیم الاصفہانی المعروف بابن المقری

٭ مسندالامام مرتب حافظ ابو اسمعیل عبداللہ بن محمد الانصاری الحنفی

٭ مسندالامام مرتب حافظ ابوالحسن عمربن حسن الاشنانی

٭ مسندالامام مرتب حافظ ابوالقاسم علی بن حسن المعروف بابن عساکر الدمشقی۔

ان علاوہ کچھ مسانید وہ بھی ہیں جن کو مندرجہ بالا مسانید میں سے کسی میں مدغم کردیاگیا ہے ۔ مثلاً: ابن عقدہ کی مسند میں ان چار حضرات کی مسانید کا تذکرہ ہے اور یہ ایک ہزار سے زیادہ احادیث پر مشتمل ہے ٭ حمزہ بن حبیب التیمی الکوفی ٭ محمد بن مسروق الکندی الکوفی ٭ اسمعیل بن حماد بن امام ابو حنیفہ ٭ حسین بن علی پھر یہ کہ جامع مسانید امام اعظم جس کو علامہ ابو المؤید محمد بن محمود بن محمد الخوارزمی نے ابواب فقہ کی ترتیب پر مرتب کیا تھا اس میں کتاب الآثار کے نسخے بھی شامل ہیں اگر ان کو علیحدہ شمار کیا جائے تو پھر اس عنوان سند کے تحت آنے والی مسانید کی تعداد اکتیس ہوگی جبکہ جامع المسانید میں صرف پندرہ مسانید ہیں اور ان کی بھی تلخیص کی گئی ہے مکرراسناد کو حذف کردیاہے یہ مجموعہ چالیس ابواب پر مشتمل ہے اور کل روایات کی تعداد ۱۷۱۰ ہے۔مرفوع روایات۹۱۶غیر مرفوع۷۹۴پانچ یا چھ واسطوں والی

روایات بہت کم اور نادر ہیں ،عام روایات کا تعلق رباعیات ، ثلاثیات ،ثنائیات اوروحدانیات سے ہے۔

علامہ خوارزمی نے اس مجموعہ مسند کے لکھنے کی وجہ یوں بیان کی ہے :’’ میں نے ملک شام میں بعض جاہلوں سے سنا کہ حضرت امام اعظم کی روایت حدیث کم تھی۔ایک جاہل نے تو یہاں تک کہاکہ امام شافعی کی مسند بھی ہے اورامام احمد کی مسند بھی ہے ،اورامام مالک نے تو خود مؤطالکھی۔لیکن امام ابو حنیفہ کا کچھ بھی نہیں۔یہ سن کر میری حمیت دینی نے مجھ کو مجبورکیا کہ میں آپکی ۱۵ مسانید وآثار سے ایک مسند مرتب کروں ،لہذا ابواب فقہیہ پر میں نے اس کو مرتب کرکے پیش کیاہے۔

کتاب الآثار ،جامع المسانید اوردیگر مسانید کی تعداد کے اجمالی تعارف کے بعد یہ بات اب خفا میں نہیں رہ جاتی کہ اما م اعظم کی محفوظ مرویات کتنی ہوں گی ،امام مالک اورامام شافعی کی مرویات سے اگر زیادہ تسلیم نہیں کی جاسکیں توکم بھی نہیں ہیں ،بلکہ مجموعی تعداد کے غالب ہونے میں کوئی شک وشبہ نہیں ہوناچاہیے:’’امام اعظم کی مسانید کی کثرت سے کوئی اس مغالطہ کا شکار نہ ہو کہ پھر اس میں رطب ویابس سب طرح کی روایات ہوں گی۔ہم نے عرض کیاکہ اول تو مرویات میں امام اعظم قدس سرہ اور حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے درمیان واسطے بہت کم ہوتے ہیںاور جوواسطے مذکور ہوتے ہیں انکی حیثیت وعلوشان کا اندازہ اس سے کیجئے کہ امام عبدالوہاب شعرانی میزان الشریعۃ الکبری میں فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے مجھ پر احسان فرمایا کہ میں نے امام اعظم کی مسانید ثلاثہ کو مطالعہ کیا۔ میں نے ان میں دیکھا کہ امام اعظم ثقہ اور صادق تابعین کے سوا کسی سے روایت نہیں کرتے جن کے حق میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے خیرالقرون ہونے کی شہادت دی ،جیسے٭ اسود ٭علقمہ٭ عطائ٭عکرمہ٭ مجاہد٭مکحول اور حسن بصری وغیرہم۔لہذا امام اعظم اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے درمیان تمام راوی عدول ، ثقہ اور مشہور اخیار میں سے ہیں جن کی طرف کذب کی نسبت بھی نہیں کی جاسکتی اور نہ وہ کذاب ہیں۔

اربعینات : امام اعظم کی مرویات سے متعلق بعض حضرات نے اربعین بھی تحریر فرمائی ہیں مثلاً :الاربعین من روایات نعمان سیدالمجتہدین۔(مولانا محمد ادریس نگرامی )

الاربعین۔ (شیخ حسن محمد بن شاہ محمد ہندی)



مکمل تحریر >>