مسئلۂ ختمِ نبوت اور قادیانی وسوسے
مقرر: حضرت اقدس مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری دامت برکاتھم، شیخ الحدیث و صدر المدرسین دارالعلوم دیوبند، و ناظمِ عمومی کل ہند مجلسِ تحفظِ ختم نبوت دارالعلوم دیوبند
ناقل: عادل سعیدی پالن پوری
قسط نمبر: ایک
خطبۂ مسنونہ کے بعد: اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم، بسم اللہ الرحمٰن الرحیم { مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَٰكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا}وَقَالَ النَّبِیُّ ﷺ سَیَکُوْنُ فِیْ اُمَّتِیْ ثَلَاثُوْنَ کَذَّابْوْنَ یَزْعَمُ کُلُّھُمْ اَنَّہٗ نَبِیٌّ، وَ اَنَا خَاتَمُ النَبِیّن لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ۔
صدرِ محترم! حضرات مہمانانِ کرام! حضرات اساتذۂ دارالعلوم دیوبند! اور وہ اساتذہ جو مختلف مدارس سے تشریف لائے ہیں! اور عزیز طلباء! آج کے جلسہ کی غرض و غایت آپ حضرات کے سامنے آچکی ہے، مجھ سے اس سلسلہ میں فرمایا گیا تھا، بلکہ مجھے حکم دیا گیا تھا، کہ قادیانیت اور ردِ قادیانیت کے سلسلہ میں طلباء عزیز کے سامنے کچھ ابتدائی باتیں بیان کروں، جن سے طلباء عزیز کو اس مسئلہ کے سمجھنے میں مدد ملے، اور وہ اس مسئلہ کو سمجھنے کے قریب ہوسکیں، یہ موضوع مجھے دیا گیا تھا، یعنی اس مسئلہ پر مجھے آپ سے گفتگو کرنی ہے، یہاں جو اساتذۂ دارالعلوم دیوبند تشریف فرما ہیں، یا باہر سے آئے ہوئے معزز مہمان اساتذہ موجود ہیں، ظاہر ہے کہ وہ میری آج کی گفتگو کے مخاطب نہیں ہیں، میں جو باتیں عرض کرونگا، وہ تمام باتیں ان حضرات کے سامنے دس روز تک مکرر، سہ کرر آتی رہی ہیں، اس لئے میری گذارشات کے مخاطب صرف عزیز طلباء ہیں، یہ اکابر نہیں ہیں۔
قادیانی کے دعاوی:
سب سے پہلا مسئلہ یہ ہے کہ قادیانی کا نظریہ کیا تھا؟ اور اس کے دلائل کیا تھے ؟ اس کا نظریہ، اور اس کے دلائل سمجھ میں آجائیں، تو آپ حضرات کےلئے، اس کا جواب سمجھنا آسان ہوجائےگا، کیونکہ جب تک کسی آدمی کا نظریہ، اور اس کا دعویٰ سمجھ میں نہ آئے، اس کا جواب، اور اس کا رد سمجھنا مشکل ہوتا ہے، الغرض سب سے پہلا مرحلہ یہی ہے، اس مرحلہ کےلئے میں نے سوچا تھا، کہ اس کے دعوے جمع کروں، میرے سامنے یہ کاپی رکھی ہے، اس میں اس کے پچیس دعوے ہیں، اور یہ صرف مُشتے نمونہ از خروارے ہیں، یہ پچیس دعوے اس کے سارے دعوے نہیں ہیں، وہ کہتا ہے: میں خدا کا باپ ہوں، وہ کہتا ہے: میں خدا کا بیٹا ہوں، وہ کہتا ہے: میں خدا کی بیوی ہوں، وہ کہتا ہے: میں خدا ہوں، وہ کہتا ہے: میں امتی ہوں، وہ کہتا ہے: میں محدث ہوں، وہ کہتا ہے: میں مجدد ہوں، میں مہدی ہوں، میں مسیح ابن مریم ہوں، میں ظلّی نبی ہوں، میں بروزی طور پر محمد ہوں، میں رسول اللہ ہوں، میں خاتم النبین ہوں، میں مظہرِ انبیاء ہوں، میں عینِ محمد ہوں، میں محمد سے افضل ہوں، میں کرشن جی ہوں، میں جے سنگھ بہادر ہوں، میں مسٹر گوپال ہوں، میں حجرِ اسود ہوں، میں بیت اللہ ہوں، میں مسیحِ موعود سے بہتر ہوں، میں مریم بھی ہوں اور عیسیٰ بھی ہوں، میں فرشتہ ہوں، میں میکائیل ہوں، میں خدا کے مثل ہوں، یہ اس کے پچیس دعوے ہیں، اور یہ دعوے اس کے دعوؤں کا چھوٹا سا نمونہ ہے، یہ نہ سمجھیں کہ یہ اس کے کل دعوے ہیں، بلکہ یہ اس کے دعوؤں کا عشرِ عشیر ہے، اب میں اس صورتِ حال میں آپ حضرات کو کیا سمجھاؤں ؟ یہ دعوے خود ایک بھول بھلیاں ہیں، جن کو سُن کر ہی انسان چکرا جاتا ہے، خیر قادیانی تو اپنے انجام کو پہنچا، مگر آج جو اس کی امت ہے، وہ تین چار قسم کے عقیدے، قادیانی کے بارے میں رکھتی ہے، سب قادیانی اس کے بارے میں ایک عقیدہ نہیں رکھتے۔
❶۔۔۔۔۔ قادیانی مجدد تھا: ایک جماعت یہ کہتی ہے کہ قادیانی، اس امت کا مجدد تھا، وہ قادیانی کو صرف مجدد مانتی ہے، اس سے زیادہ کچھ نہیں مانتی، اور اس جماعت کو جو قادیانی کو مجدد مانتی تھی، مرزا غلام احمد قادیانی کے خلفاء نے مرتد، اور اپنی جماعت سے خارج قرار دیا ہے، تاہم وہ اسی بات کو مانتے رہے، جیسے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے سامنے چند لوگ پکڑ کر لائے گئے، جو کہتے تھے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ خدا ہیں، یہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے دورِ خلافت کا واقعہ ہے، جب یہ لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سامنے پیش کئے گئے، تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا: کم بختو! میں خدا نہیں ہوں، میں خدا کا بندہ ہوں، ان لوگوں نے جواب دیا: نہیں آپ ہی خدا ہیں، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ہرچند کوشش کی، کہ وہ توبہ کرلیں، مگر انہوں نے توبہ نہیں کی، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حکم دیا، کہ ان کو زندہ جلادیا جائے، چنانچہ وہ سب زندہ جلادئیے گئے، وہ جلتے رہے، اور یہ کہتے رہے کہ علی خدا! علی خدا! علی خدا! جلتے رہے، اور علی خدا! علی خدا! کہتے رہے[ حَتّٰی اِعتقدوا ان علیاً رضی اللہ عنہ ھو المعبود، مرقات جلد نمبر ٧ صفحہ نمبر ١٠٤، باب قتل اھل الردة الخ ]۔
جب حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کو اس واقعہ کا علم ہوا تو فرمایا، کہ اگر یہ معاملہ میرے سامنے پیش ہوتا، تو میں انہیں قتل کرواتا، انہیں آگ میں نہ جلواتا، جب ابن عباس رضی اللہ عنہما کی اس بات کا حضرت علی رضی اللہ عنہ کو علم ہوا، تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: صَدَقَ اِبْنُ عَبَاسؓ، یعنی ابن عباس ؓ نے سچ فرمایا، گویا حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مسئلہ معلوم تھا، کہ آگ میں جلانا صرف اللہ تعالیٰ کی شان ہے، اللہ تعالیٰ ہی اپنے بندوں کو جہنم میں ڈالیں گے، دوسروں کےلئے یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ کسی کو آگ میں جلانے کی سزا دیں، حدیث شریف میں ہے:اِنَّ النَّارَ لَایُعَذِّبُ بِھا اَلاَّ اللہُ، آگ کی سزا دینا اللہ تعالیٰ ہی کے شایانِ شان ہے۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مسئلہ معلوم تھا، تو پھر کیوں جلایا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ان کے خدا تو حضرت علی ؓ تھے، اور خدا آگ میں جلاسکتا ہے، اس لئے ان کے خدا نے، ان کو آگ میں جلادیا، اس میں اعتراض کی کیا بات ہے ؟[ یہ محض ایک طالبِ علمانہ لطیفہ تھا، صحیح جواب یہ ہے کہ آگ میں جلانے کی سزا دینا جائز ہے، مگر خلافِ اولیٰ ہے، قال العلامة علی القاری فی المرقات: و الاحراق بالنار، و ان نھی عنہ کماذکرہٗ ابن عباس ؓ، لٰکن جُوِّزَ للتشدید بالکفار، و المبالغة فی النِّکایة و النَّکال، کالمُثْلُةِ (جلد نمبر ٧ صفحہ نمبر ١٠٤ باب قتل اھل الردة الخ ) اسی طرح ضرورت کے وقت بھی آگ میں جلانا جائز ہے، جیسے گرم پانی سے جویں اور کٹھمل مارنا، یا تتیا، بھڑوں کا چھتہ جلانا ]۔
الغرض جس طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سمجھانے پر بھی وہ لوگ اپنے عقیدے سے نہیں پھرے، قادیانی کے خلفاء، مجدد ماننے والی جماعت کو مرتد اور اپنی جماعت سے خارج کرتے رہے، اور فاسق و کافر قرار دیتے رہے، مگر وہ اپنے عقیدے پر اڑے رہے، اور آج تک ان کا یہی عقیدہ ہے، کہ غلام احمد قادیانی مجدد تھا، العیاذ باللہ!
❷۔۔۔۔۔ قادیانی نبی تھا: ایک دوسری جماعت یہ کہتی ہے کہ غلام احمد قادیانی نبی تھا، نہ صرف نبی، بلکہ خاتم النبین بھی تھا، اور تمام نبیوں سے بہتر اور افضل بھی تھا۔
❸۔۔۔۔۔ قادیانی مسیح موعود تھا: ایک تیسری جماعت، ان میں سے یہ عقیدہ رکھتی ہے کہ وہ مسیح موعود تھا۔
مسیح علیہ السلام کا ذکر قرآن کریم میں:
قرآن کریم میں اور احادیثِ شریفہ میں حضرت مسیح علیہ السلام کی آمد کا وعدہ کیا گیا ہے، کہ وہ قربِ قیامت میں آئیں گے، قرآن کریم میں ارشاد فرمایا گیا ہے: وَإِنَّهُ لَعِلْمٌ لِلسَّاعَةِ (سورۂ زخرف آیت نمبر ٦١) اور وہ قیامت کے یقین کا ذریعہ ہیں، یعنی حضرت مسیح علیہ السلام جب دنیا میں تشریف لائیں گے، تو لوگوں کو قیامت کا علم ہوگا، ان کی تشریف آوری قیامت کی نہایت پختہ اور واضح دلیل ہوگی، اس پختہ دلیل کے بعد یہ سوال ختم ہوجائےگا، کہ قیامت آئے گی، یا نہیں، ان لوگوں کو بھی قیامت کا یقینی علم حاصل ہوجائےگا، جو قیامت کا انکار کرتے ہیں، یا شک و شبہات میں پڑے ہوئے ہیں۔
مسیح علیہ السلام کا ذکر احادیث میں:
قرآن کریم میں تو نزولِ مسیح علیہ السلام کی طرف صرف اشارہ ہے، مگر احادیثِ شریفہ میں اس کو بہت کھول کر بیان کیا گیا ہے، اس سلسلہ میں تقریباﹰ سو حدیثیں ہیں، امام العصر حضرت علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ تعالیٰ کی مساعی جمیلہ قادیانیت کے ناپاک پودے کو جڑ سے اکھاڑنے کے سلسلہ میں سب سے زیادہ ہیں، حضرت موصوف نے نزولِ مسیح علیہ السلام کے سلسلہ کی حدیثوں کو ایک کتاب میں جمع کیا ہے، جس کا نام "التصریح بما تواتر فی نزول المسیح " ہے، اس کتاب میں ٧٥ مرفوع حدیثیں نزولِ مسیح علیہ السلام کے سلسلہ کی جمع کی گئی ہیں، یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے بارے میں صراحةً جو حدیثیں ہیں، اور جو حدِّ تواتر کو پہنچی ہوئی ہیں، ان کو جمع کیا ہے، یہ کتاب عرب میں شیخ عبدالفتاح ابوغدہ رحمہ اللہ تعالیٰ کے حاشیہ کے ساتھ چھپ گئی ہے، طلبۂ عزیز کو چایئے کہ اس کتاب کو حاصل کریں، اور اس کا مطالعہ کریں۔[ مذکورہ بالا کتاب اس لنک سے ڈاؤنلوڈ کرسکتے ہیں۔۔۔۔۔۔ ?
http://googleweblight.com/?lite_url=http://book-alasaala.blogspot.com/2011/10/blog-post_9695.html?m%3D1&ei=tfelCsLc&lc=en-IN&s=1&m=737&ts=1451890430&sig=ALL1Aj6IsI51iwCVtdzILTRe3yNMpW25t]
الغرض قادیانیوں کی تیسری جماعت یہ کہتی ہے کہ وہ مسیح، جن کے آنے کا وعدہ کیا گیا ہے، وہ مرزا غلام احمد قادیانی ہے۔
❹۔۔۔۔۔ قادیانی مجازی نبی تھا: ایک اور جماعت یہ کہتی ہے کہ قادیانی نبی تھا، مگر حقیقی نبی نہیں تھا، بلکہ مجازی نبی تھا، مجازی نبی کی تعبیر کا مطلب ان کے یہاں "غیر تشریعی نبی" ہے، غیر تشریعی نبی کا مطلب یہ ہے، کہ کوئی نئی شریعت اس کو نہیں ملی ہے، بلکہ سابق نبی، سرورِ کونین ﷺ کے ماتحت نبی ہے، اور ان کی شریعت کو دوسرے لوگوں تک پہنچانے کےلئے مبعوث ہوا ہے، اس کو نئی شریعت نہیں دی گئی ہے، اسی قرآن کریم کی تعلیمات کو لوگوں تک پہنچانے کےلئے بھیجا گیا ہے، یہ ہے غیر تشریعی نبی کا مطلب، دوسری تعبیر ہے "ظلّی نبی " ظِلْ بمعنیٰ سایہ، ظلّی نبی کا مطلب یہ ہے کہ وہ حضورِ اکرم ﷺ کا سایہ ہے، ایک تیسری تعبیر ان کے یہاں ہے "بُروزی نبی " بَرَزَ، یَبْرُزُ بُرُوْزاً کے معنیٰ ہیں ظاہر ہونا، نمودار ہونا، اور ان کی مراد بروزی نبی سے یہ ہے کہ خود حضورِ اکرم ﷺ نے قادیانی کی شکل میں نیا وجود اختیار کیا ہے، یعنی غلام احمد قادیانی، حضور ہی ہیں، حضورِ اکرم ﷺ دوبارہ دنیا میں تشریف لائے ہیں، وہ غلام احمد قادیانی کی ذات میں حلول کرگئے ہیں، جس طرح ہندو عقیدوں میں، اللہ تعالیٰ اوتاروں میں حلول کرتے ہیں۔
یہ ہیں قادیانیوں کی تعبیرات: ظلّی نبی، بُروزِی نبی، مجازی نبی اور غیر تشریعی نبی، اور یہ ہیں ان کے عقائد، لٰہذا اِس وقت ہم، قادیانی کے سب دعوؤں کو چھوڑتے ہیں، اور اس کی امت کے مزعومات کے سلسلہ میں گفتگو کرتے ہیں، یعنی وہ مجدد ہوسکتا ہے، یا نہیں ؟ وہ مسیح موعود ہوسکتا ہے، یا نہیں ؟ وہ ظِلّی، بُروزی اور غیر تشریعی نبی ہوسکتا ہے، یا نہیں ؟ وہ حقیقی نبی ہوسکتا ہے، یا نہیں ؟ یہ چار دعوے ہیں، ان دعوؤں کے دلائل کیا ہیں ؟ جس طرح اس کے دعوے الجھے ہوئے ہیں، اسی طرح اس کے دلائل بھی الجھے ہوئے ہیں، اس کے دلائل صرف وساوس ہیں، ان کی حقیقت کچھ بھی نہیں ہے، اس موضوع پر علماء اسلام نے وسیع لٹریچر تیار کردیا ہے، جس سے قادیانی دلائل کا کھوکھلاپن کھل کر لوگوں کے سامنے آچکا ہے، جہاں تک اُس کے مجدد ہونے کا تعلق ہے، ہمیں اس مسئلہ پر زیادہ گفتگو نہیں کرنی، کیونکہ اسے مجدد ماننے والے بھت تھوڑے لوگ ہیں، اس لئے اصل گفتگو جو ہمیں کرنی ہے، وہ دو مسئلے ہیں، ایک قادیانی کا نبی ہونا، اور دوسرا اس کا مسیح موعود ہونا، تعلیماتِ اسلامی کی رُو سے اس کے یہ دونوں دعوے غلط ہیں، وہ محض جھوٹا ہے، اس کی باتوں میں صداقت کی بو تک نہیں ہے، اور جھوٹا شخص مجدد کیسے ہوسکتا ہے ؟
قرآن کریم میں سب سے واضح آیت، جس میں کسی تاویل کی گنجائش نہیں ہے، یہ ہے: مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَٰكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا، محمد ﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں، اور سب نبیوں کے ختم پر ہیں، اور اللہ تعالٰی ہر چیز کو خوب جانتے ہیں، اس آیت کا شانِ نزول کیا ہے؟ پہلے شانِ نزول سمجھنا چاہئے، کیونکہ اس آیت میں جو لفظ خاتم النبین آیا ہے، اس کو بغیر شانِ نزول کے سمجھنا ذرا مشکل ہے۔
جاری
قسط نمبر: دو
یہ آیتِ کریمہ سورۂ احزاب کی ہے، اس سورت میں اوپر سے یہ مضمون بیان ہورہا ہے، کہ حضورِ اکرم ﷺ کے ایک متبنیٰ یعنی منہ بولے بیٹے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ تھے، جن کا نکاح آپ کی پھوپھی زاد بہن حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے ہوا تھا، لیکن دونوں میں نبھاؤ نہیں ہوسکا، اس لئے کہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا خاندانِ قریش سے تھیں، اور حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ غلام رہ چکے تھے، آزاد کرنے کے بعد، حضورِ اکرم ﷺ نے ان کو اپنا منہ بولا بیٹا بنالیا تھا، چونکہ ان پر غلامی کا داغ لگا ہوا تھا، اور حضرت زینب رضی اللہ عنہا اعلیٰ خاندان کی خاتون تھیں، اس لئے یہ رشتہ بڑی مشکلوں کے بعد یعنی اللہ اور اس کے رسول کے حکم سے ہوا تھا[ سورة الاحزاب آیت نمبر ٣٦ اسی سلسلہ میں نازل ہوئی ہے، پوری آیت یہ ہے: وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ ۗ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُبِينًا ترجمہ: اور کسی ایماندار مرد اور کسی ایماندار عورت کو گنجائش نہیں ہے، جبکہ اللہ اور اس کا رسول کسی کام کا حکم دیں، کہ (پھر) ان کو ان (مؤمنین ) کے اس کام میں کوئی اختیار (باقی) رہے، اور جو شخص اللہ تعالیٰ کا، اور اس کے رسول کا کہنا نہ مانے گا، وہ صریح گمراہی میں پڑا ] لیکن یہ رشتہ قائم نہ رہ سکا، میاں بیوی میں ناچاقی رہنے لگی، اور صورتِ حال دن بدن بگڑتی گئی، اب حضورِ اکرم ﷺ کو بھت فکر دامنگیر ہوئی، کہ خدانخواستہ اگر زید نے اپنی اہلیہ کو طلاق دیدی، تو کیا ہوگا؟ اوّل تو بڑی مشکل سے رشتہ طے ہوا ہے، پھر اگر حضرت زید رضی اللہ عنہ نے طلاق دیدی، تو وہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا کےلئے مزید رنج کا سبب ہوگی، چنانچہ حضورِ اکرم ﷺ اپنے منہ بولے بیٹے کو برابر سمجھاتے رہے، کہ کسی طرح نبھاؤ کی کوئی صورت پیدا کرو، مگر نبھاؤ نہیں ہوسکا، اب یہ فکر حضورِ اکرم ﷺ کو دامنگیر ہوئی، کہ طلاق کے بعد حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا معاملہ بھت پیچیدہ ہوجائے گا، لوگ کہیں گے کہ غلام کی بیوی، پھر اس نے بھی طلاق دیدی، یہ داغ کیسے دھویا جائےگا ؟ حضورِ اکرم ﷺ کے ذہن میں ایک بات تھی، کہ اگر خدانخواستہ حضرت زید رضی اللہ عنہ طلاق دیدیتے ہیں، تو حضور خود حضرت زینب ؓ سے نکاح کرلیں گے، تاکہ ان کے غم کا مداوا ہوسکے، اور ان پر لگاہوا داغ دھل جائے، کیونکہ وہ حضورِ اکرم ﷺ کی پھوپھی زاد بہن تھیں، جن سے نکاح جائز تھا، یہ حضورِ اکرم ﷺ کے ذہن میں تھا، لیکن حضور ﷺ کو پریشانی یہ تھی، کہ حضرت زید ؓ حضور ﷺ کے متبنیٰ تھے، اور ان کو لوگ حضور ﷺ کا بیٹا سمجھتے تھے، اور بیٹے کی بیوی، بہو کہلاتی ہے، اور بہو، یعنی لڑکے کی بیوی سے نکاح جائز نہیں ہے، اگرچہ حضرت زیدؓ حضور ﷺ کے نسبی بیٹے نہیں تھے، لیکن دنیا یہی کہتی تھی، کہ وہ حضور ﷺ کے لڑکے ہیں، جب حضور ﷺ نکاح کریں گے، تو نہ معلوم مشرکین اور یہود حضور کی شان میں کیا کیا بکیں گے، وہ لوگوں سے کہتے پھریں گے، کہ دیکھو! لڑکے کی بیوی سے نکاح کرلیا، دیکھو! بہو سے نکاح کرلیا، حضور ﷺ کو یہ پریشانی لاحق تھی، مگر مسئلہ کا حل بھی اس کے علاوہ کچھ نہیں تھا، حضور ﷺ نے دل کی یہ بات کسی سے ظاہر نہیں فرمائی [ وَتُخْفِي فِي نَفْسِكَ مَا اللَّهُ مُبْدِيہ کے سلسلہ میں جو تفسیری روایات ہیں، ان کے بارے میں محدث ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے: اَحْبَبْنَا اَنْ نَّضْرِبَ عَنْھَا صَفْحاً لِعَدَمِ صِحَّتِھَا، فَلَا نُوْرِدُھَا، ترجمہ: ہم یہ پسند کرتے ہیں، کہ اُن روایات سے پہلوتہی کریں، کیونکہ وہ روایتیں صحیح نہیں ہیں، پس ہم ان کو بیان نہیں کررہے ]۔
پھر ایسا ہوا کہ حضرت زید رضی اللہ عنہ نے اچانک ایک روز حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو طلاق دیدی، وہ عدت میں بیٹھیں، اور غم و اندوہ کے بادل ان پر چھاگئے، مگر جونہی عدت پوری ہوئی، وحی نازل ہوئی، اور آنحضورﷺ کو اطلاع دی گئی، کہ آپ ﷺ کا حضرت زینب ؓ سے نکاح اللہ تعالیٰ نے آسمان پر کردیا ہے[ روح المعانی میں ایک قول یہ بھی ہے، کہ نکاح دنیا میں ہوا ہے، اور زَوَّجْنَاکَھَا میں اسناد مجازی ہے، ای: امرناک بتزویجھا ]۔
اب جو حضور ﷺ کو خطرات اور اندیشے تھے، وہ ایک ایک کرکے سامنے آنے لگے، منافقین آپس میں چہ میگوئیاں کرنے لگے، یہود اور مشرکین نے ہنگامہ کھڑا کردیا، کہ دیکھو! اپنی بہو سے نکاح کرلیا، اس مسئلہ کو قرآن کریم نے صاف کیا، اور معاملہ کی وضاحت فرمائی، کہ حضرت زید ؓ حضور ﷺ کے بیٹے نہیں ہیں، اور کسی کو لڑکا کہہ دینے سے وہ لڑکا نہیں ہوجاتا، یہ آیتِ کریمہ اسی سلسلہ میں نازل ہوئی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَٰكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ۔۔۔ یعنی آپ کسی مرد کے باپ نہیں ہیں، زمانۂ ماضی میں بھی آپ ﷺ کسی مرد کے باپ نہیں تھے، کیونکہ آپ کے جو تین یا چار صاحبزادے پیدا ہوئے تھے، وہ دو ڈھائی برس کی عمر میں وفات پاگئے تھے، آپ کسی رجل کے باپ نہیں تھے، کیونکہ کوئی صاحبزادہ رَجُل کی حد تک پہنچا ہی نہیں تھا، جب حضرت زیدؓ آپ ﷺ کے بیٹے نہیں ہیں، تو ان کی بیوی زینب ؓ سے نکاح کرنا جائز ہے، یہ واقعہ اس آیتِ کریمہ کا پسِ منظر (شانِ نزول ) ہے۔
سوال: یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ لٰکن حرفِ استدراک کیوں لایا گیا ہے ؟ لٰکن حرفِ استدراک تو اس شبہ کو دور کرنے کےلئے لایا جاتا ہے، جو کلامِ سابق سے پیدا ہوتا ہے، یہاں کیا شبہ اور خلجان ہے، جس کو دور کرنے کےلئے لٰکن حرفِ استدراک لایا گیا ہے ؟۔
جواب: تو اس کا جواب یہ ہے کہ جب مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ کے ذریعہ اُبُوَّت کی نفی کی گئی، اور یہ فرمایا گیا کہ آپ ﷺ کسی مرد کے نسبی باپ نہیں ہیں، تو ہوسکتا ہے کہ کسی کو یہ خیال پیدا ہو، کہ جب آپ ﷺ سے اُبُوَّتِ جسمانی کی نفی کردی گئی، تو اسی سے ایمانی اور روحانی باپ ہونے کی نفی ہوگئی، یعنی حضور ﷺ کسی کے باپ نہیں ہیں، نہ جسمانی، نہ روحانی، یہ شبہ پیدا ہوسکتا تھا، اسی شبہ کے ازالہ کےلئے ارشاد فرمایا ہے وَلَٰكِنْ رَسُولَ اللَّهِ، البتہ حضور ﷺ اللہ کے رسول ہیں، یہ تو ہوا صغریٰ، اور کبریٰ آپ یہ لگائیں کہ ہر نبی اپنی امت کا روحانی باپ ہوتا ہے، پس ثابت ہوا کہ آپ ﷺ امت میں سے کسی کے جسمانی باپ تو نہیں ہیں، مگر آپ ﷺ امت کے روحانی باپ ضرور ہیں، کیونکہ آپ ﷺ اللہ کے رسول ہیں، اس مضمون کی وضاحت ایک دوسری جگہ اس طرح فرمائی گئی ہے: وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ (سورة الاحزاب آیت نمبر ٦ ) اور نبی کی بیویاں امت کی مائیں ہیں، پس آپ ﷺ پوری امت کے روحانی باپ ہیں، الغرض وَلَٰكِنْ رَسُولَ اللَّهِ سے حضور ﷺ کی اُبُوَّتِ روحانی ثابت کرنا مقصود ہے[ جواب کی ایک مختصر تعبیر اس طرح بھی کی جاسکتی ہے، کہ جب مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ سے اُبُوَّتِ جسمانی کی نفی کی گئی، تو ذم کا ایہام پیدا ہوا، جس کو دور کرنے کےلئے لٰکن سے کلام بڑھایا گیا ہے، یعنی وَلَٰكِنْ رَسُولَ اللَّهِ بطور مَدح ہے، اور مدح کیونکر ہے، اس کی تشریح اوپر آگئی ہے ]۔
دوسرا سوال: یہاں یہ پوچھا جاسکتا ہے کہ آپ کس امت کے روحانی باپ ہیں ؟
آپ ﷺ کی امت دو قسم کی ہے، امتِ دعوت اور امتِ اجابت، امتِ اجابت وہ ہے، جس نے آپ ﷺ کی دعوت پر لبیک کہا، اور اسلام کے حلقہ بگوش ہوگئے، اور امتِ دعوت وہ لوگ ہیں، جنہوں نے آپ ﷺ کی دعوت قبول نہیں کی، مثلاﹰ یہود و نصاریٰ اور مجوس، تمام مشرکین اور کفار و ملحدین، جن کو دعوت دی جارہی ہے کہ آو! اور حضور ﷺ کی دعوت قبول کرکے دائرۂ اسلام میں داخل ہوجاؤ، تو یہ امتِ دعوت ہیں۔
جواب: تو جاننا چاھئے کہ آپ ﷺ صرف امتِ اجابت کے روحانی باپ ہیں، امتِ دعوت کے روحانی باپ نہیں ہیں، اور آپ ﷺ کی ازواجِ مطہرات صرف امتِ اجابت کی روحانی مائیں ہیں، اس کی وضاحت حضرت اقدس مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی رحمہ اللہ تعالیٰ کی مشہور کتاب "آبِ حیات" میں ہے، کہ اُبُوتِ روحانی کا مبنیٰ ھیآکلِ ایمانی پر ہے، اور ظاہر ہے کہ ان ھیآکل کا وجود صرف مؤمنین، اور ان کے پیغمبر کے درمیان ہے، نبی اور امتِ دعوت کے درمیان ان ھیآکل کا وجود نہیں ہے، اس لئے نبی ان کےلئے روحانی باپ نہیں ہیں۔
ایک اور سوال: یہاں پہنچ کر ایک اشکال ہوتا ہے کہ پچھلی امتوں کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ حضورِ اکرم ﷺ ان کے روحانی باپ ہیں، یا نہیں ؟
جواب: وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ میں اسی سوال کا جواب ہے، کہ آپ ﷺ تمام نبیوں کے خاتم ہیں، خاتم کی تشریح ابھی آتی ہے کہ خاتم کے معنیٰ ہیں، تمام نبیوں کی نبوت، آپ ﷺ کی نبوت کا فیض ہے، جب تمام نبیوں کو نبوت آپ ﷺ کے طفیل ملی ہے، تو آپ ﷺ تمام انبیاء کے بھی روحانی باپ ہوئے، اور ہر نبی اپنی امت کا روحانی باپ ہوتا ہے، پس آپ ﷺ تمام امتوں کے روحانی دادا ہوئے، کیونکہ حضورِ اکرم ﷺ جس طرح نبی الامہ ہیں، اسی طرح نبی الانبیاء بھی ہیں۔
خاتم النبین کی شرح:
اس کے بعد جاننا چاھئے کہ وَلَٰكِنْ رَسُولَ اللَّهِ میں تو کوئی پیچیدگی نہیں ہے، اس کا مطلب تو واضح ہے، کہ حضورِ اکرم ﷺ ہمارے لئے، اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں، اور امتِ اجابت کے روحانی باپ ہیں، لیکن جو دوسرا ٹکڑا ہےِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ، اس کی تشریح و توضیح ضروری ہے۔
سب سے پہلے لفظِ خاتم کو سمجھئے، اس کا مادّہ خَتْمٌ ہے، خَتَمَ یَخْتِمُ بابِ ضرب سے آتا ہے، خاتِم بکسر التاء، اسمِ فاعل ہے، اور خاتَم بفتح التاء، اسم آلہ ہے، خاتِم اسمِ فاعل کے معنیٰ ہیں، ختم کرنے والا یعنی پورا کرنے والا، پایۂ تکمیل کو پہنچانے والا، اور خاتَم بفتح التاء کے معنیٰ ہیں، وہ آلہ جس کے ذریعہ سے، کسی چیز پر مہر لگائی جاتی ہے، جسے آپ "مہر"بھی کہہ سکتے ہیں، جو ربڑ کی بنی ہوئی ہوتی ہے، اب غور یہ کرنا ہے کہ دونوں معنوں میں سے کونسے معنیٰ اصلی ہیں، ابن فارس (متوفی ٣٩٥ھ ) بھت بڑے امام لغت ہیں، ان کی کتاب مُعْجَمُ مَقَایِیس اللغۃ ہے، یہ کتاب چھ جلدوں میں ہے، اور اس کتاب کا موضوع یہ ہے کہ وہ ایک مادّہ لیتے ہیں، اور اس کے اصلی معنیٰ بتاتے ہیں، پھر اس کے مجازی استعمال بتاتے ہیں، نیز اشتقاق کبیر کے اعتبار سے مادّوں کے درمیان معانی کا فرق بھی بتلاتے ہیں، ابن فارس نے اپنی اسی کتاب میں خَتَمَ یَخْتِمُ کے معنیٰ لکھے ہیں: بُلُوْغُ آخِرِ الشیئ، یعنی کسی چیز کا اخیر تک پہنچ جانا، عرب کہتے ہیں: خَتَمْتُ العَمَلَ، میں نے کام پورا کردیا، خَتَمَ القَارِی السُّوْرَةَ، قاری صاحب نے سورت پوری کرلی، یہ ہیں اس لفظ کے اصلی معنیٰ، پھر علماء نے فرمایا کہ مہر لگانے کو ختم اس لئے کہا جاتا ہے کہ جب کسی تحریر کو مکمل کرلیا جاتا ہے، تو اخیر میں مہر لگائی جاتی ہے، اس لئے مہر کو بھی ختم کہدیا جاتا ہے، ابن فارس لکھتے ہیں: فَامّا الخَتْمُ، و ھو الطبع علیٰ الشیئ، فذٰالک من الباب ایضاً، لان الطبع علیٰ الشیئ لایکون الا بعد بلوغ اٰخرہ فی الاحراز، و الخاتم مشتق منہ، لان بہ یُخْتَم (مُعْجَمُ مَقَایِیس اللغۃ جلد نمبر ٢ صفحہ نمبر ٢٤٥ ) رہا لفظِ ختم، جس کے معنیٰ ہیں، کسی چیز پر مہر لگانا، تو یہ لفظ بھی اسی باب سے ہے، کیونکہ کسی چیز پر مہر اس وقت لگتی ہے، جب وہ چیز پوری ہوجائے، اور سمیٹ لی جائے، اور لفظِ خاتَم (اسمِ آلہ) اسی مادّہ سے بنایا گیا ہے، کیونکہ اس کے ذریعہ مہر لگائی جاتی ہے ___ اس لغوی تشریح کے بعد دوسری بات شروع کرتا ہوں، جو ذرا دقیق ہے، اسے غور سے سماعت فرمائیں۔
جاری
قسط نمبر: تین
پوری دنیا میں دو قسم کی چیزیں ہیں، ایک ذوات اور دوسری صفات، جیسے یہ کاغذ اور اس کی سفیدی، تو سفیدی وصف ہے، اور کاغذ کا وجود اس کی ذات ہے، ذوات کو آپ چھوڑئیے، اوصاف کو لیجئے ، دنیا میں جتنے اوصاف ہیں، دو قسم کے ہیں، ایک ہیں بالذات اور ایک ہیں بالعرض، مثلاﹰ صبح سورج طلوع ہوتا ہے، اس کی روشنی دارِ جدید کی دیواروں پر پڑتی ہے، اور یہ روشنی درسگاہوں میں بھی آتی ہے، بتائیے! یہ درسگاہ کی روشنی ذاتی ہے ؟ نہیں ذاتی نہیں ہے، ورنہ بلب جلانے کی کیا ضرورت تھی، بلکہ یہ روشنی بالعرض ہے، اور جو روشنی دیواروں پر پڑتی ہے، وہ ذاتی ہے، اور جو درسگاہ میں آرہی ہے، وہ باہر کی روشنی کا عکس ہے، چنانچہ سامنے کے تین دروازے بند کردیجئے، ابھی اندھیرا ہوجائےگا، معلوم ہوا، یہ روشنی بالعرض ہے۔
اب جو روشنی دیواروں پر پڑرہی ہے، اس میں غور کیا، تو معلوم ہوا کہ وہ بھی ذاتی نہیں ہے، کیونکہ اگر بالذات ہوتی، تو ہمیشہ قائم رہتی، بلکہ وہ بھی بالعرض ہے، کیونکہ وہ روشنی سورج سے آرہی ہے، اب قاعدہ سمجھئے کہ جتنی صفات بالعرض ہوتی ہیں، وہ کسی موصوف بالذات پر جاکر منتہی ہوتی ہیں، اور موصوف بالذات سے تجاوز نہیں کرسکتیں، جیسے در و دیوار کی روشنی سورج کا فیض ہے، مگر سورج کی روشنی اس کی ذاتی ہے۔
اور اگر کوئی کہے کہ سورج کی روشنی ذاتی نہیں ہے، کہیں اور سے آئی ہے، تو ہم پوچھتے ہیں کہ کہاں سے آئی ہے ؟ پھر اس منبعِ نور کے بارے میں سوال ہوگا، کہ اس میں کہاں سے روشنی آئی ہے، الغرض یہ شیطان کی آنت کہیں پہنچ کر رکے گی، یا نہیں ؟ اگر نہیں رکتی، تو تسلسل لازم آئےگا، جو محال ہے، اور اگر رکتی ہے، تو سورج کے بجائے ہم اسی کو موصوف بالذات مانیں گے۔
اب دیکھئے! کہ نبوت کسی ذات کا نام نہیں ہے، نبوت وصف کا نام ہے، اور نبی ذات مع الوصف کا نام ہے، یعنی نبی وہ شخصیت ہے، جو وصفِ نبوت کے ساتھ متصف ہے، اور نبوت صرف صفت کا نام ہے، حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر حضورِ اکرم ﷺ تک سب انبیاء ہیں، اور جو رسول ہیں، وہ بھی نبی ہیں، کیونکہ رسول، نبی سے اخص ہے، اور نبی عام ہے، اور اعم اخص کے ساتھ ہمیشہ موجود رہتا ہے، جیسے انسان، حیوان سے اخص ہے، اور حیوان اعم ہے، اس لئے جو بھی انسان ہوگا، وہ حیوان ضرور ہوگا، اسی طرح جو بھی رسول ہوگا، وہ نبی ضرور ہوگا، لٰہذا صرف انسانوں کے اعتبار سے نبی اور رسول میں عام و خاص مطلق کی نسبت ہے، نبی عام ہے، اور رسول خاص، اور ملائکہ کو بھی شامل کرلیا جائے، تو پھر من وجہٍ کی نسبت ہوگی، اور تین مادے اس طرح نکلیں گے، حضرت موسیٰ علیہ السلام رسول بھی ہیں، اور نبی بھی (مادّۂ اجتماعی) اور انبیائے بنی اسرائیل صرف نبی ہیں (مادّۂ افتراق) اور حضرت جبرئیل علیہ الاسلام صرف رسول ہیں (دوسرا مادّۂ افتراق )۔
اب غور کیجئے کہ یہ سارے انبیائے کرام، جو تعداد میں ایک لاکھ سے زیادہ ہیں، یہ سب کے سب وصفِ نبوت کے ساتھ بالذات متصف ہیں، یا بالعرض ؟ یا بعض بالذات اور بعض بالعرض متصف ہیں ؟ یہ احتمال کہ سب کے سب متصف بالذات ہیں، سمجھ میں نہیں آتا، اسی طرح یہ احتمال کہ سب بالعرض متصف ہیں، یہ بھی سمجھ میں نہیں آتا، لامحالہ ماننا پڑےگا کہ ان میں سے کوئی ایک نبی صفتِ نبوت کے ساتھ بالذات متصف ہے، اور باقی سارے انبیائے کرام کی نبوت اسی موصوف بالذات کی نبوت کا پَرتَو اور فیض ہے،َخَاتَمُ النَّبِيِّينَ میں یہی مضمون بیان کیا گیا ہے، کہ آپ ﷺ کی نبوت تو بالذات ہے، اور دیگر انبیائے کرام کی نبوت، آپ کی نبوت کا فیض ہے، جہاں جہاں آپ ﷺ کا فیض پہنچا، وہ وصفِ نبوت کے ساتھ متصف ہوگئے، یعنی حضورِ اکرم ﷺ تمام نبیوں کی نبوت کا منبع ہیں، آپ ﷺ کی نبوت کے طفیل میں سارے نبیوں کی نبوت وجود میں آئی ہے، لٰہذا تمام انبیاء کی نبوت، چاہے وہ رسول ہوں، یا نبی ہوں، سب کی نبوت خاتم النبین ﷺ کی نبوت کا فیض ہے، معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کی نبوت بالذات ہے، اور دیگر موصوفین بالعرض کا سلسلہ، آپ ﷺ کی ذات پر منتہی ہوتا ہے، اس لئے آپ ﷺ خاتم النبین ہیں۔
اس طویل سمع خراشی کا مقصد یہ ہے کہ قادیانی امت، حضرت اقدس مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی رحمہ اللہ تعالیٰ کی عبارتوں میں کتربونت کرکے لوگوں کو دھوکہ دیتی ہے، اس لئے ہمارے طلبہ کو پہلے حضرت نانوتوی رحمہ اللہ تعالیٰ کی بات سمجھنی چاھئے۔
حضرت نانوتوی رحمہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ تمام نبیوں کی نبوت، آپ ﷺ کی نبوت کا فیض ہے، یہی آپ ﷺ کا سب سے بڑا کمال ہے، اور عام لوگ جو خاتم النبین کا مطلب صرف اتنا سمجھتے ہیں، کہ آپ ﷺ سارے نبیوں کے اخیر میں تشریف لائے ہیں، بس اتنا جو سمجھتے ہیں، وہ اس کا صحیح مطلب نہیں سمجھتے ہیں، کیونکہ صرف آگے پیچھے ہونا کوئی کمال نہیں ہے، حضرت نانوتوی رحمہ اللہ تعالیٰ نے یہ بات "تحذیر الناس " میں لکھی ہے، کتاب کے آغاز میں صفحہ نمبر ٢ پر حضرت ؒ نے تحریر فرمایا ہے کہ "عوام کے خیال میں تو رسول اللہ ﷺ کا خاتم ہونا بایں معنیٰ ہے، کہ آپ ﷺ کا زمانہ انبیاءِ سابق کے زمانہ کے بعد، اور آپ ﷺ سب سے آخر نبی ہیں، مگر اہلِ فہم پر روشن ہوگا کہ تقدم یا تأخر زمانی میں بالذات کچھ فضیلت نہیں "۔
اس کے بعد صفحہ نمبر ١٦ پر تحریر فرماتے ہیں کہ "اطلاق خاتم اس بات کو مقتضی ہے، کہ تمام انبیاء کا سلسلۂ نبوت آپ ﷺ پر ختم ہوتا ہے، جیسے انبیاءِ گذشتہ کا وصفِ نبوت میں حسبِ تقریر مسطور اس لفظ سے آپ ﷺ کی طرف محتاج ہونا ثابت ہوتا ہے، اور آپ ﷺ کا اس وصف میں کسی کی طرف محتاج نہ ہونا، اس میں انبیاءِ گذشتہ ہوں، یا کوئی اور، اسی طرح اگر فرض کیجئے، آپ کے زمانہ میں بھی اس زمین میں، یا کسی اور زمین میں، یا آسمان میں کوئی نبی ہو، تو وہ بھی اس وصفِ نبوت میں آپ ہی کا محتاج ہوگا، اور اس کا سلسلۂ نبوت بہرطور آپ ﷺ پر مختتم ہوگا، اور کیوں نہ ہو، عمل کا سلسلہ علم پر ختم ہوتا ہے، جب علم ممکن للبشر ہی ختم ہوگیا ، تو پھر سلسلۂ علم و عمل کیا چلے، غرض اختتام اگر بایں معنیٰ تجویز کیا جاوے، جو میں نے عرض کیا، تو آپ ﷺ کا خاتم ہونا انبیاءِ گذشتہ ہی کی نسبت خاص نہ ہوگا، بلکہ اگر بالفرض آپ ﷺ کے زمانہ میں بھی کہیں اور کوئی نبی ہو، جب بھی آپ کا خاتم ہونا بدستور باقی رہتا ہے "۔
ان عبارتوں کو سمجھنے کےلئے پہلے یہ سمجھ لیجئے کہ تحذیرالناس کا موضوع کیا ہے ؟ تحذیرالناس کا موضوع یہ ہے کہ قرآن کریم میں سورۂ طلاق آیت نمبر ١٢ میں ارشاد ہے: اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ، یعنی اللہ تعالیٰ نے سات آسمانوں کی طرح سات زمینیں پیدا فرمائی ہیں، اس ضمن میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا ایک اثر مروی ہے، کہ اللہ تعالیٰ نے سات آسمان پیدا فرمائے، اور سات زمینیں پیدا فرمائیں، اور ہر زمین میں مخلوق ہے، اور آدم ہیں تمہارے آدم کی طرح، نوح ہیں تمہارے نوح کی طرح، ابراہیم ہیں تمہارے ابراہیم کی طرح، اور عیسیٰ ہیں تمہارے عیسیٰ کی طرح، اور محمد ہیں تمہارے محمد کی طرح [ و اخرج ابن جریر، و ابن ابی حاتم، و الحاکم و صححہٗ، و البیھقی فی الشعب، و فی الاسماء و الصفات عن ابی الضحیٰ عن ابن عباس فی قولہ: وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ، قال: سبع ارضین، فی کل ارض نبی کنبیکم، و آدم کآدم، و نوح کنوح، و ابراہیم کابراہیم، و عیسیٰ کعیسیٰ، قال البیھقی: اسنادہ صحیح، و لٰکنہ شاذ، لااعلم لابی الضحیٰ علیہ متابعاً، الدرالمنثور جلد نمبر ٦ صفحہ نمبر ٢٣٨ ] یہ روایت ہے، اس روایت کا ایک زمانہ میں لوگوں نے انکار کردیا، یہ خیال کرتے ہوئے کہ اگر چھ زمینوں میں چھ محمد اور ہیں، تو وہ خاتم النبین بھی ہونگے، جبکہ قرآن کریم کہتا ہے کہ حضور ﷺ خاتم النبین ہیں، لٰہذا یہ روایت غلط ہے، یہ سوال اس زمانہ میں پیدا ہوا، اور یہ سوال حضرت نانوتوی رحمہ اللہ تعالیٰ کے پاس آیا، حضرت نانوتوی ؒ نے اس سوال کا جواب لکھا، جس کا نام ہے "فتویٰ تحذیرالناس من انکار اثر ابن عباس رضی اللہ عنہما " کتاب کا پورا نام یہ ہے، اس کتاب میں حضرت نانوتوی رحمہ اللہ تعالیٰ نے نہایت وضاحت کے ساتھ ثابت کیا، کہ اگر بالفرض آپ کے زمانہ میں کوئی نبی ہو، تو وہ بھی آپ کی نبوت کا فیض ہوگا، اور اس زمین کے علاوہ دوسری زمینوں میں اگر چھ محمد ہیں، تو وہ بھی آپ ﷺ کی نبوت کا فیض ہے ، یعنی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت کے مطابق اگر چھ زمینوں میں چھ محمد ہیں، تو وہ بھی وصفِ نبوت کے ساتھ موصوف بالعرض ہیں، اور حضورِ اکرم ﷺ وصفِ نبوت کے ساتھ موصوف بالذات ہیں، تو اگر سات زمینیں ہیں، اور ساتویں زمینوں میں محمد ہیں، تو وہ بھی آپ ﷺ کی نبوت کا فیض ہیں، جس طرح اس زمین پر جتنے انبیاء ہیں، ان کی نبوت بھی حضورِ اکرم ﷺ کی نبوت کا فیض ہے، نیز ان زمینوں میں جو آدم، نوح، ابراہیم، موسیٰ، عیسیٰ وغیرہ ہیں، ان سب کی نبوت مستفیض ہے، اس زمین کے خاتم النبین ﷺ کی نبوت سے۔
قادیانیوں نے حضرت رحمہ اللہ تعالیٰ کی مذکورہ بالا عبارتوں میں کتربونت کرکے لوگوں کو یہ باور کرانے کی مذموم سعی کی ہے کہ دیکھو! حضور ﷺ کے بعد بھی نبی ہوسکتا ہے، مولانا نانوتوی ؒ اجرائے نبوت کے قائل ہیں، حالانکہ حضرت ؒ نے تحذیرالناس ہی میں اس مسئلہ کو صاف کردیا ہے کہ حضورِ اکرم ﷺ کے بعد جو نبوت کا قائل ہے، وہ کافر ہے، حضرت ؒ تحریر فرماتے ہیں کہ "اگر اطلاق اور عموم ہے، تب تو ثبوتِ خاتمیتِ زمانی ظاہر ہے، ورنہ تسلیم لزوم خاتمیتِ زمانی بدلالتِ التزامی ضرور ہے، ادھر تصریحات نبوی ﷺ مثل انت منی بمنزلة ھارون من موسیٰ، الا انہ لانبی بعدی، او کما قال، جو بظاہر بطرز مذکور اسی لفظ خاتم النبین سے ماخوذ ہے، اس باب میں کافی، کیونکہ یہ مضمون درجۂ تواتر کو پہنچ گیا ہے، پھر اس پر اجماع بھی منعقد ہوگیا، گو الفاظ مذکور بسند متواتر منقول نہ ہوں، سو یہ عدمِ تواترِ الفاظ باوجود تواترِ معنوی یہاں ایسا ہی ہوگا، جیسا تواترِ اعدادِ رکعات فرض و وتر وغیرہ، باوجودیکہ الفاظ احادیثِ تعداد رکعات متواتر نہیں، جیساکہ اس کا منکر کافر ہے، ایسا ہی اس کا منکر بھی کافر ہوگا " (تحذیرالناس صفحہ نمبر ١٠ تا ١١)۔
اس کی مزید تشریح یہ ہے کہ ختمِ نبوت کی تین قسمیں ہیں، اور تینوں حضورِ اکرم ﷺ کو حاصل ہیں، یعنی آپ ﷺ تینوں اعتباروں سے خاتم النبین ہیں، ختمِ نبوت کی تین قسمیں یہ ہیں، ختمِ نبوت رتبی، ختمِ نبوت زمانی اور ختمِ نبوت مکانی ۔
جاری
مقرر: حضرت اقدس مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری دامت برکاتھم، شیخ الحدیث و صدر المدرسین دارالعلوم دیوبند، و ناظمِ عمومی کل ہند مجلسِ تحفظِ ختم نبوت دارالعلوم دیوبند
ناقل: عادل سعیدی پالن پوری
قسط نمبر: ایک
خطبۂ مسنونہ کے بعد: اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم، بسم اللہ الرحمٰن الرحیم { مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَٰكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا}وَقَالَ النَّبِیُّ ﷺ سَیَکُوْنُ فِیْ اُمَّتِیْ ثَلَاثُوْنَ کَذَّابْوْنَ یَزْعَمُ کُلُّھُمْ اَنَّہٗ نَبِیٌّ، وَ اَنَا خَاتَمُ النَبِیّن لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ۔
صدرِ محترم! حضرات مہمانانِ کرام! حضرات اساتذۂ دارالعلوم دیوبند! اور وہ اساتذہ جو مختلف مدارس سے تشریف لائے ہیں! اور عزیز طلباء! آج کے جلسہ کی غرض و غایت آپ حضرات کے سامنے آچکی ہے، مجھ سے اس سلسلہ میں فرمایا گیا تھا، بلکہ مجھے حکم دیا گیا تھا، کہ قادیانیت اور ردِ قادیانیت کے سلسلہ میں طلباء عزیز کے سامنے کچھ ابتدائی باتیں بیان کروں، جن سے طلباء عزیز کو اس مسئلہ کے سمجھنے میں مدد ملے، اور وہ اس مسئلہ کو سمجھنے کے قریب ہوسکیں، یہ موضوع مجھے دیا گیا تھا، یعنی اس مسئلہ پر مجھے آپ سے گفتگو کرنی ہے، یہاں جو اساتذۂ دارالعلوم دیوبند تشریف فرما ہیں، یا باہر سے آئے ہوئے معزز مہمان اساتذہ موجود ہیں، ظاہر ہے کہ وہ میری آج کی گفتگو کے مخاطب نہیں ہیں، میں جو باتیں عرض کرونگا، وہ تمام باتیں ان حضرات کے سامنے دس روز تک مکرر، سہ کرر آتی رہی ہیں، اس لئے میری گذارشات کے مخاطب صرف عزیز طلباء ہیں، یہ اکابر نہیں ہیں۔
قادیانی کے دعاوی:
سب سے پہلا مسئلہ یہ ہے کہ قادیانی کا نظریہ کیا تھا؟ اور اس کے دلائل کیا تھے ؟ اس کا نظریہ، اور اس کے دلائل سمجھ میں آجائیں، تو آپ حضرات کےلئے، اس کا جواب سمجھنا آسان ہوجائےگا، کیونکہ جب تک کسی آدمی کا نظریہ، اور اس کا دعویٰ سمجھ میں نہ آئے، اس کا جواب، اور اس کا رد سمجھنا مشکل ہوتا ہے، الغرض سب سے پہلا مرحلہ یہی ہے، اس مرحلہ کےلئے میں نے سوچا تھا، کہ اس کے دعوے جمع کروں، میرے سامنے یہ کاپی رکھی ہے، اس میں اس کے پچیس دعوے ہیں، اور یہ صرف مُشتے نمونہ از خروارے ہیں، یہ پچیس دعوے اس کے سارے دعوے نہیں ہیں، وہ کہتا ہے: میں خدا کا باپ ہوں، وہ کہتا ہے: میں خدا کا بیٹا ہوں، وہ کہتا ہے: میں خدا کی بیوی ہوں، وہ کہتا ہے: میں خدا ہوں، وہ کہتا ہے: میں امتی ہوں، وہ کہتا ہے: میں محدث ہوں، وہ کہتا ہے: میں مجدد ہوں، میں مہدی ہوں، میں مسیح ابن مریم ہوں، میں ظلّی نبی ہوں، میں بروزی طور پر محمد ہوں، میں رسول اللہ ہوں، میں خاتم النبین ہوں، میں مظہرِ انبیاء ہوں، میں عینِ محمد ہوں، میں محمد سے افضل ہوں، میں کرشن جی ہوں، میں جے سنگھ بہادر ہوں، میں مسٹر گوپال ہوں، میں حجرِ اسود ہوں، میں بیت اللہ ہوں، میں مسیحِ موعود سے بہتر ہوں، میں مریم بھی ہوں اور عیسیٰ بھی ہوں، میں فرشتہ ہوں، میں میکائیل ہوں، میں خدا کے مثل ہوں، یہ اس کے پچیس دعوے ہیں، اور یہ دعوے اس کے دعوؤں کا چھوٹا سا نمونہ ہے، یہ نہ سمجھیں کہ یہ اس کے کل دعوے ہیں، بلکہ یہ اس کے دعوؤں کا عشرِ عشیر ہے، اب میں اس صورتِ حال میں آپ حضرات کو کیا سمجھاؤں ؟ یہ دعوے خود ایک بھول بھلیاں ہیں، جن کو سُن کر ہی انسان چکرا جاتا ہے، خیر قادیانی تو اپنے انجام کو پہنچا، مگر آج جو اس کی امت ہے، وہ تین چار قسم کے عقیدے، قادیانی کے بارے میں رکھتی ہے، سب قادیانی اس کے بارے میں ایک عقیدہ نہیں رکھتے۔
❶۔۔۔۔۔ قادیانی مجدد تھا: ایک جماعت یہ کہتی ہے کہ قادیانی، اس امت کا مجدد تھا، وہ قادیانی کو صرف مجدد مانتی ہے، اس سے زیادہ کچھ نہیں مانتی، اور اس جماعت کو جو قادیانی کو مجدد مانتی تھی، مرزا غلام احمد قادیانی کے خلفاء نے مرتد، اور اپنی جماعت سے خارج قرار دیا ہے، تاہم وہ اسی بات کو مانتے رہے، جیسے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے سامنے چند لوگ پکڑ کر لائے گئے، جو کہتے تھے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ خدا ہیں، یہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے دورِ خلافت کا واقعہ ہے، جب یہ لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سامنے پیش کئے گئے، تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا: کم بختو! میں خدا نہیں ہوں، میں خدا کا بندہ ہوں، ان لوگوں نے جواب دیا: نہیں آپ ہی خدا ہیں، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ہرچند کوشش کی، کہ وہ توبہ کرلیں، مگر انہوں نے توبہ نہیں کی، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حکم دیا، کہ ان کو زندہ جلادیا جائے، چنانچہ وہ سب زندہ جلادئیے گئے، وہ جلتے رہے، اور یہ کہتے رہے کہ علی خدا! علی خدا! علی خدا! جلتے رہے، اور علی خدا! علی خدا! کہتے رہے[ حَتّٰی اِعتقدوا ان علیاً رضی اللہ عنہ ھو المعبود، مرقات جلد نمبر ٧ صفحہ نمبر ١٠٤، باب قتل اھل الردة الخ ]۔
جب حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کو اس واقعہ کا علم ہوا تو فرمایا، کہ اگر یہ معاملہ میرے سامنے پیش ہوتا، تو میں انہیں قتل کرواتا، انہیں آگ میں نہ جلواتا، جب ابن عباس رضی اللہ عنہما کی اس بات کا حضرت علی رضی اللہ عنہ کو علم ہوا، تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: صَدَقَ اِبْنُ عَبَاسؓ، یعنی ابن عباس ؓ نے سچ فرمایا، گویا حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مسئلہ معلوم تھا، کہ آگ میں جلانا صرف اللہ تعالیٰ کی شان ہے، اللہ تعالیٰ ہی اپنے بندوں کو جہنم میں ڈالیں گے، دوسروں کےلئے یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ کسی کو آگ میں جلانے کی سزا دیں، حدیث شریف میں ہے:اِنَّ النَّارَ لَایُعَذِّبُ بِھا اَلاَّ اللہُ، آگ کی سزا دینا اللہ تعالیٰ ہی کے شایانِ شان ہے۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مسئلہ معلوم تھا، تو پھر کیوں جلایا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ان کے خدا تو حضرت علی ؓ تھے، اور خدا آگ میں جلاسکتا ہے، اس لئے ان کے خدا نے، ان کو آگ میں جلادیا، اس میں اعتراض کی کیا بات ہے ؟[ یہ محض ایک طالبِ علمانہ لطیفہ تھا، صحیح جواب یہ ہے کہ آگ میں جلانے کی سزا دینا جائز ہے، مگر خلافِ اولیٰ ہے، قال العلامة علی القاری فی المرقات: و الاحراق بالنار، و ان نھی عنہ کماذکرہٗ ابن عباس ؓ، لٰکن جُوِّزَ للتشدید بالکفار، و المبالغة فی النِّکایة و النَّکال، کالمُثْلُةِ (جلد نمبر ٧ صفحہ نمبر ١٠٤ باب قتل اھل الردة الخ ) اسی طرح ضرورت کے وقت بھی آگ میں جلانا جائز ہے، جیسے گرم پانی سے جویں اور کٹھمل مارنا، یا تتیا، بھڑوں کا چھتہ جلانا ]۔
الغرض جس طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سمجھانے پر بھی وہ لوگ اپنے عقیدے سے نہیں پھرے، قادیانی کے خلفاء، مجدد ماننے والی جماعت کو مرتد اور اپنی جماعت سے خارج کرتے رہے، اور فاسق و کافر قرار دیتے رہے، مگر وہ اپنے عقیدے پر اڑے رہے، اور آج تک ان کا یہی عقیدہ ہے، کہ غلام احمد قادیانی مجدد تھا، العیاذ باللہ!
❷۔۔۔۔۔ قادیانی نبی تھا: ایک دوسری جماعت یہ کہتی ہے کہ غلام احمد قادیانی نبی تھا، نہ صرف نبی، بلکہ خاتم النبین بھی تھا، اور تمام نبیوں سے بہتر اور افضل بھی تھا۔
❸۔۔۔۔۔ قادیانی مسیح موعود تھا: ایک تیسری جماعت، ان میں سے یہ عقیدہ رکھتی ہے کہ وہ مسیح موعود تھا۔
مسیح علیہ السلام کا ذکر قرآن کریم میں:
قرآن کریم میں اور احادیثِ شریفہ میں حضرت مسیح علیہ السلام کی آمد کا وعدہ کیا گیا ہے، کہ وہ قربِ قیامت میں آئیں گے، قرآن کریم میں ارشاد فرمایا گیا ہے: وَإِنَّهُ لَعِلْمٌ لِلسَّاعَةِ (سورۂ زخرف آیت نمبر ٦١) اور وہ قیامت کے یقین کا ذریعہ ہیں، یعنی حضرت مسیح علیہ السلام جب دنیا میں تشریف لائیں گے، تو لوگوں کو قیامت کا علم ہوگا، ان کی تشریف آوری قیامت کی نہایت پختہ اور واضح دلیل ہوگی، اس پختہ دلیل کے بعد یہ سوال ختم ہوجائےگا، کہ قیامت آئے گی، یا نہیں، ان لوگوں کو بھی قیامت کا یقینی علم حاصل ہوجائےگا، جو قیامت کا انکار کرتے ہیں، یا شک و شبہات میں پڑے ہوئے ہیں۔
مسیح علیہ السلام کا ذکر احادیث میں:
قرآن کریم میں تو نزولِ مسیح علیہ السلام کی طرف صرف اشارہ ہے، مگر احادیثِ شریفہ میں اس کو بہت کھول کر بیان کیا گیا ہے، اس سلسلہ میں تقریباﹰ سو حدیثیں ہیں، امام العصر حضرت علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ تعالیٰ کی مساعی جمیلہ قادیانیت کے ناپاک پودے کو جڑ سے اکھاڑنے کے سلسلہ میں سب سے زیادہ ہیں، حضرت موصوف نے نزولِ مسیح علیہ السلام کے سلسلہ کی حدیثوں کو ایک کتاب میں جمع کیا ہے، جس کا نام "التصریح بما تواتر فی نزول المسیح " ہے، اس کتاب میں ٧٥ مرفوع حدیثیں نزولِ مسیح علیہ السلام کے سلسلہ کی جمع کی گئی ہیں، یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے بارے میں صراحةً جو حدیثیں ہیں، اور جو حدِّ تواتر کو پہنچی ہوئی ہیں، ان کو جمع کیا ہے، یہ کتاب عرب میں شیخ عبدالفتاح ابوغدہ رحمہ اللہ تعالیٰ کے حاشیہ کے ساتھ چھپ گئی ہے، طلبۂ عزیز کو چایئے کہ اس کتاب کو حاصل کریں، اور اس کا مطالعہ کریں۔[ مذکورہ بالا کتاب اس لنک سے ڈاؤنلوڈ کرسکتے ہیں۔۔۔۔۔۔ ?
http://googleweblight.com/?lite_url=http://book-alasaala.blogspot.com/2011/10/blog-post_9695.html?m%3D1&ei=tfelCsLc&lc=en-IN&s=1&m=737&ts=1451890430&sig=ALL1Aj6IsI51iwCVtdzILTRe3yNMpW25t]
الغرض قادیانیوں کی تیسری جماعت یہ کہتی ہے کہ وہ مسیح، جن کے آنے کا وعدہ کیا گیا ہے، وہ مرزا غلام احمد قادیانی ہے۔
❹۔۔۔۔۔ قادیانی مجازی نبی تھا: ایک اور جماعت یہ کہتی ہے کہ قادیانی نبی تھا، مگر حقیقی نبی نہیں تھا، بلکہ مجازی نبی تھا، مجازی نبی کی تعبیر کا مطلب ان کے یہاں "غیر تشریعی نبی" ہے، غیر تشریعی نبی کا مطلب یہ ہے، کہ کوئی نئی شریعت اس کو نہیں ملی ہے، بلکہ سابق نبی، سرورِ کونین ﷺ کے ماتحت نبی ہے، اور ان کی شریعت کو دوسرے لوگوں تک پہنچانے کےلئے مبعوث ہوا ہے، اس کو نئی شریعت نہیں دی گئی ہے، اسی قرآن کریم کی تعلیمات کو لوگوں تک پہنچانے کےلئے بھیجا گیا ہے، یہ ہے غیر تشریعی نبی کا مطلب، دوسری تعبیر ہے "ظلّی نبی " ظِلْ بمعنیٰ سایہ، ظلّی نبی کا مطلب یہ ہے کہ وہ حضورِ اکرم ﷺ کا سایہ ہے، ایک تیسری تعبیر ان کے یہاں ہے "بُروزی نبی " بَرَزَ، یَبْرُزُ بُرُوْزاً کے معنیٰ ہیں ظاہر ہونا، نمودار ہونا، اور ان کی مراد بروزی نبی سے یہ ہے کہ خود حضورِ اکرم ﷺ نے قادیانی کی شکل میں نیا وجود اختیار کیا ہے، یعنی غلام احمد قادیانی، حضور ہی ہیں، حضورِ اکرم ﷺ دوبارہ دنیا میں تشریف لائے ہیں، وہ غلام احمد قادیانی کی ذات میں حلول کرگئے ہیں، جس طرح ہندو عقیدوں میں، اللہ تعالیٰ اوتاروں میں حلول کرتے ہیں۔
یہ ہیں قادیانیوں کی تعبیرات: ظلّی نبی، بُروزِی نبی، مجازی نبی اور غیر تشریعی نبی، اور یہ ہیں ان کے عقائد، لٰہذا اِس وقت ہم، قادیانی کے سب دعوؤں کو چھوڑتے ہیں، اور اس کی امت کے مزعومات کے سلسلہ میں گفتگو کرتے ہیں، یعنی وہ مجدد ہوسکتا ہے، یا نہیں ؟ وہ مسیح موعود ہوسکتا ہے، یا نہیں ؟ وہ ظِلّی، بُروزی اور غیر تشریعی نبی ہوسکتا ہے، یا نہیں ؟ وہ حقیقی نبی ہوسکتا ہے، یا نہیں ؟ یہ چار دعوے ہیں، ان دعوؤں کے دلائل کیا ہیں ؟ جس طرح اس کے دعوے الجھے ہوئے ہیں، اسی طرح اس کے دلائل بھی الجھے ہوئے ہیں، اس کے دلائل صرف وساوس ہیں، ان کی حقیقت کچھ بھی نہیں ہے، اس موضوع پر علماء اسلام نے وسیع لٹریچر تیار کردیا ہے، جس سے قادیانی دلائل کا کھوکھلاپن کھل کر لوگوں کے سامنے آچکا ہے، جہاں تک اُس کے مجدد ہونے کا تعلق ہے، ہمیں اس مسئلہ پر زیادہ گفتگو نہیں کرنی، کیونکہ اسے مجدد ماننے والے بھت تھوڑے لوگ ہیں، اس لئے اصل گفتگو جو ہمیں کرنی ہے، وہ دو مسئلے ہیں، ایک قادیانی کا نبی ہونا، اور دوسرا اس کا مسیح موعود ہونا، تعلیماتِ اسلامی کی رُو سے اس کے یہ دونوں دعوے غلط ہیں، وہ محض جھوٹا ہے، اس کی باتوں میں صداقت کی بو تک نہیں ہے، اور جھوٹا شخص مجدد کیسے ہوسکتا ہے ؟
قرآن کریم میں سب سے واضح آیت، جس میں کسی تاویل کی گنجائش نہیں ہے، یہ ہے: مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَٰكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا، محمد ﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں، اور سب نبیوں کے ختم پر ہیں، اور اللہ تعالٰی ہر چیز کو خوب جانتے ہیں، اس آیت کا شانِ نزول کیا ہے؟ پہلے شانِ نزول سمجھنا چاہئے، کیونکہ اس آیت میں جو لفظ خاتم النبین آیا ہے، اس کو بغیر شانِ نزول کے سمجھنا ذرا مشکل ہے۔
جاری
قسط نمبر: دو
یہ آیتِ کریمہ سورۂ احزاب کی ہے، اس سورت میں اوپر سے یہ مضمون بیان ہورہا ہے، کہ حضورِ اکرم ﷺ کے ایک متبنیٰ یعنی منہ بولے بیٹے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ تھے، جن کا نکاح آپ کی پھوپھی زاد بہن حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے ہوا تھا، لیکن دونوں میں نبھاؤ نہیں ہوسکا، اس لئے کہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا خاندانِ قریش سے تھیں، اور حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ غلام رہ چکے تھے، آزاد کرنے کے بعد، حضورِ اکرم ﷺ نے ان کو اپنا منہ بولا بیٹا بنالیا تھا، چونکہ ان پر غلامی کا داغ لگا ہوا تھا، اور حضرت زینب رضی اللہ عنہا اعلیٰ خاندان کی خاتون تھیں، اس لئے یہ رشتہ بڑی مشکلوں کے بعد یعنی اللہ اور اس کے رسول کے حکم سے ہوا تھا[ سورة الاحزاب آیت نمبر ٣٦ اسی سلسلہ میں نازل ہوئی ہے، پوری آیت یہ ہے: وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ ۗ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُبِينًا ترجمہ: اور کسی ایماندار مرد اور کسی ایماندار عورت کو گنجائش نہیں ہے، جبکہ اللہ اور اس کا رسول کسی کام کا حکم دیں، کہ (پھر) ان کو ان (مؤمنین ) کے اس کام میں کوئی اختیار (باقی) رہے، اور جو شخص اللہ تعالیٰ کا، اور اس کے رسول کا کہنا نہ مانے گا، وہ صریح گمراہی میں پڑا ] لیکن یہ رشتہ قائم نہ رہ سکا، میاں بیوی میں ناچاقی رہنے لگی، اور صورتِ حال دن بدن بگڑتی گئی، اب حضورِ اکرم ﷺ کو بھت فکر دامنگیر ہوئی، کہ خدانخواستہ اگر زید نے اپنی اہلیہ کو طلاق دیدی، تو کیا ہوگا؟ اوّل تو بڑی مشکل سے رشتہ طے ہوا ہے، پھر اگر حضرت زید رضی اللہ عنہ نے طلاق دیدی، تو وہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا کےلئے مزید رنج کا سبب ہوگی، چنانچہ حضورِ اکرم ﷺ اپنے منہ بولے بیٹے کو برابر سمجھاتے رہے، کہ کسی طرح نبھاؤ کی کوئی صورت پیدا کرو، مگر نبھاؤ نہیں ہوسکا، اب یہ فکر حضورِ اکرم ﷺ کو دامنگیر ہوئی، کہ طلاق کے بعد حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا معاملہ بھت پیچیدہ ہوجائے گا، لوگ کہیں گے کہ غلام کی بیوی، پھر اس نے بھی طلاق دیدی، یہ داغ کیسے دھویا جائےگا ؟ حضورِ اکرم ﷺ کے ذہن میں ایک بات تھی، کہ اگر خدانخواستہ حضرت زید رضی اللہ عنہ طلاق دیدیتے ہیں، تو حضور خود حضرت زینب ؓ سے نکاح کرلیں گے، تاکہ ان کے غم کا مداوا ہوسکے، اور ان پر لگاہوا داغ دھل جائے، کیونکہ وہ حضورِ اکرم ﷺ کی پھوپھی زاد بہن تھیں، جن سے نکاح جائز تھا، یہ حضورِ اکرم ﷺ کے ذہن میں تھا، لیکن حضور ﷺ کو پریشانی یہ تھی، کہ حضرت زید ؓ حضور ﷺ کے متبنیٰ تھے، اور ان کو لوگ حضور ﷺ کا بیٹا سمجھتے تھے، اور بیٹے کی بیوی، بہو کہلاتی ہے، اور بہو، یعنی لڑکے کی بیوی سے نکاح جائز نہیں ہے، اگرچہ حضرت زیدؓ حضور ﷺ کے نسبی بیٹے نہیں تھے، لیکن دنیا یہی کہتی تھی، کہ وہ حضور ﷺ کے لڑکے ہیں، جب حضور ﷺ نکاح کریں گے، تو نہ معلوم مشرکین اور یہود حضور کی شان میں کیا کیا بکیں گے، وہ لوگوں سے کہتے پھریں گے، کہ دیکھو! لڑکے کی بیوی سے نکاح کرلیا، دیکھو! بہو سے نکاح کرلیا، حضور ﷺ کو یہ پریشانی لاحق تھی، مگر مسئلہ کا حل بھی اس کے علاوہ کچھ نہیں تھا، حضور ﷺ نے دل کی یہ بات کسی سے ظاہر نہیں فرمائی [ وَتُخْفِي فِي نَفْسِكَ مَا اللَّهُ مُبْدِيہ کے سلسلہ میں جو تفسیری روایات ہیں، ان کے بارے میں محدث ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے: اَحْبَبْنَا اَنْ نَّضْرِبَ عَنْھَا صَفْحاً لِعَدَمِ صِحَّتِھَا، فَلَا نُوْرِدُھَا، ترجمہ: ہم یہ پسند کرتے ہیں، کہ اُن روایات سے پہلوتہی کریں، کیونکہ وہ روایتیں صحیح نہیں ہیں، پس ہم ان کو بیان نہیں کررہے ]۔
پھر ایسا ہوا کہ حضرت زید رضی اللہ عنہ نے اچانک ایک روز حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو طلاق دیدی، وہ عدت میں بیٹھیں، اور غم و اندوہ کے بادل ان پر چھاگئے، مگر جونہی عدت پوری ہوئی، وحی نازل ہوئی، اور آنحضورﷺ کو اطلاع دی گئی، کہ آپ ﷺ کا حضرت زینب ؓ سے نکاح اللہ تعالیٰ نے آسمان پر کردیا ہے[ روح المعانی میں ایک قول یہ بھی ہے، کہ نکاح دنیا میں ہوا ہے، اور زَوَّجْنَاکَھَا میں اسناد مجازی ہے، ای: امرناک بتزویجھا ]۔
اب جو حضور ﷺ کو خطرات اور اندیشے تھے، وہ ایک ایک کرکے سامنے آنے لگے، منافقین آپس میں چہ میگوئیاں کرنے لگے، یہود اور مشرکین نے ہنگامہ کھڑا کردیا، کہ دیکھو! اپنی بہو سے نکاح کرلیا، اس مسئلہ کو قرآن کریم نے صاف کیا، اور معاملہ کی وضاحت فرمائی، کہ حضرت زید ؓ حضور ﷺ کے بیٹے نہیں ہیں، اور کسی کو لڑکا کہہ دینے سے وہ لڑکا نہیں ہوجاتا، یہ آیتِ کریمہ اسی سلسلہ میں نازل ہوئی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَٰكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ۔۔۔ یعنی آپ کسی مرد کے باپ نہیں ہیں، زمانۂ ماضی میں بھی آپ ﷺ کسی مرد کے باپ نہیں تھے، کیونکہ آپ کے جو تین یا چار صاحبزادے پیدا ہوئے تھے، وہ دو ڈھائی برس کی عمر میں وفات پاگئے تھے، آپ کسی رجل کے باپ نہیں تھے، کیونکہ کوئی صاحبزادہ رَجُل کی حد تک پہنچا ہی نہیں تھا، جب حضرت زیدؓ آپ ﷺ کے بیٹے نہیں ہیں، تو ان کی بیوی زینب ؓ سے نکاح کرنا جائز ہے، یہ واقعہ اس آیتِ کریمہ کا پسِ منظر (شانِ نزول ) ہے۔
سوال: یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ لٰکن حرفِ استدراک کیوں لایا گیا ہے ؟ لٰکن حرفِ استدراک تو اس شبہ کو دور کرنے کےلئے لایا جاتا ہے، جو کلامِ سابق سے پیدا ہوتا ہے، یہاں کیا شبہ اور خلجان ہے، جس کو دور کرنے کےلئے لٰکن حرفِ استدراک لایا گیا ہے ؟۔
جواب: تو اس کا جواب یہ ہے کہ جب مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ کے ذریعہ اُبُوَّت کی نفی کی گئی، اور یہ فرمایا گیا کہ آپ ﷺ کسی مرد کے نسبی باپ نہیں ہیں، تو ہوسکتا ہے کہ کسی کو یہ خیال پیدا ہو، کہ جب آپ ﷺ سے اُبُوَّتِ جسمانی کی نفی کردی گئی، تو اسی سے ایمانی اور روحانی باپ ہونے کی نفی ہوگئی، یعنی حضور ﷺ کسی کے باپ نہیں ہیں، نہ جسمانی، نہ روحانی، یہ شبہ پیدا ہوسکتا تھا، اسی شبہ کے ازالہ کےلئے ارشاد فرمایا ہے وَلَٰكِنْ رَسُولَ اللَّهِ، البتہ حضور ﷺ اللہ کے رسول ہیں، یہ تو ہوا صغریٰ، اور کبریٰ آپ یہ لگائیں کہ ہر نبی اپنی امت کا روحانی باپ ہوتا ہے، پس ثابت ہوا کہ آپ ﷺ امت میں سے کسی کے جسمانی باپ تو نہیں ہیں، مگر آپ ﷺ امت کے روحانی باپ ضرور ہیں، کیونکہ آپ ﷺ اللہ کے رسول ہیں، اس مضمون کی وضاحت ایک دوسری جگہ اس طرح فرمائی گئی ہے: وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ (سورة الاحزاب آیت نمبر ٦ ) اور نبی کی بیویاں امت کی مائیں ہیں، پس آپ ﷺ پوری امت کے روحانی باپ ہیں، الغرض وَلَٰكِنْ رَسُولَ اللَّهِ سے حضور ﷺ کی اُبُوَّتِ روحانی ثابت کرنا مقصود ہے[ جواب کی ایک مختصر تعبیر اس طرح بھی کی جاسکتی ہے، کہ جب مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ سے اُبُوَّتِ جسمانی کی نفی کی گئی، تو ذم کا ایہام پیدا ہوا، جس کو دور کرنے کےلئے لٰکن سے کلام بڑھایا گیا ہے، یعنی وَلَٰكِنْ رَسُولَ اللَّهِ بطور مَدح ہے، اور مدح کیونکر ہے، اس کی تشریح اوپر آگئی ہے ]۔
دوسرا سوال: یہاں یہ پوچھا جاسکتا ہے کہ آپ کس امت کے روحانی باپ ہیں ؟
آپ ﷺ کی امت دو قسم کی ہے، امتِ دعوت اور امتِ اجابت، امتِ اجابت وہ ہے، جس نے آپ ﷺ کی دعوت پر لبیک کہا، اور اسلام کے حلقہ بگوش ہوگئے، اور امتِ دعوت وہ لوگ ہیں، جنہوں نے آپ ﷺ کی دعوت قبول نہیں کی، مثلاﹰ یہود و نصاریٰ اور مجوس، تمام مشرکین اور کفار و ملحدین، جن کو دعوت دی جارہی ہے کہ آو! اور حضور ﷺ کی دعوت قبول کرکے دائرۂ اسلام میں داخل ہوجاؤ، تو یہ امتِ دعوت ہیں۔
جواب: تو جاننا چاھئے کہ آپ ﷺ صرف امتِ اجابت کے روحانی باپ ہیں، امتِ دعوت کے روحانی باپ نہیں ہیں، اور آپ ﷺ کی ازواجِ مطہرات صرف امتِ اجابت کی روحانی مائیں ہیں، اس کی وضاحت حضرت اقدس مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی رحمہ اللہ تعالیٰ کی مشہور کتاب "آبِ حیات" میں ہے، کہ اُبُوتِ روحانی کا مبنیٰ ھیآکلِ ایمانی پر ہے، اور ظاہر ہے کہ ان ھیآکل کا وجود صرف مؤمنین، اور ان کے پیغمبر کے درمیان ہے، نبی اور امتِ دعوت کے درمیان ان ھیآکل کا وجود نہیں ہے، اس لئے نبی ان کےلئے روحانی باپ نہیں ہیں۔
ایک اور سوال: یہاں پہنچ کر ایک اشکال ہوتا ہے کہ پچھلی امتوں کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ حضورِ اکرم ﷺ ان کے روحانی باپ ہیں، یا نہیں ؟
جواب: وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ میں اسی سوال کا جواب ہے، کہ آپ ﷺ تمام نبیوں کے خاتم ہیں، خاتم کی تشریح ابھی آتی ہے کہ خاتم کے معنیٰ ہیں، تمام نبیوں کی نبوت، آپ ﷺ کی نبوت کا فیض ہے، جب تمام نبیوں کو نبوت آپ ﷺ کے طفیل ملی ہے، تو آپ ﷺ تمام انبیاء کے بھی روحانی باپ ہوئے، اور ہر نبی اپنی امت کا روحانی باپ ہوتا ہے، پس آپ ﷺ تمام امتوں کے روحانی دادا ہوئے، کیونکہ حضورِ اکرم ﷺ جس طرح نبی الامہ ہیں، اسی طرح نبی الانبیاء بھی ہیں۔
خاتم النبین کی شرح:
اس کے بعد جاننا چاھئے کہ وَلَٰكِنْ رَسُولَ اللَّهِ میں تو کوئی پیچیدگی نہیں ہے، اس کا مطلب تو واضح ہے، کہ حضورِ اکرم ﷺ ہمارے لئے، اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں، اور امتِ اجابت کے روحانی باپ ہیں، لیکن جو دوسرا ٹکڑا ہےِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ، اس کی تشریح و توضیح ضروری ہے۔
سب سے پہلے لفظِ خاتم کو سمجھئے، اس کا مادّہ خَتْمٌ ہے، خَتَمَ یَخْتِمُ بابِ ضرب سے آتا ہے، خاتِم بکسر التاء، اسمِ فاعل ہے، اور خاتَم بفتح التاء، اسم آلہ ہے، خاتِم اسمِ فاعل کے معنیٰ ہیں، ختم کرنے والا یعنی پورا کرنے والا، پایۂ تکمیل کو پہنچانے والا، اور خاتَم بفتح التاء کے معنیٰ ہیں، وہ آلہ جس کے ذریعہ سے، کسی چیز پر مہر لگائی جاتی ہے، جسے آپ "مہر"بھی کہہ سکتے ہیں، جو ربڑ کی بنی ہوئی ہوتی ہے، اب غور یہ کرنا ہے کہ دونوں معنوں میں سے کونسے معنیٰ اصلی ہیں، ابن فارس (متوفی ٣٩٥ھ ) بھت بڑے امام لغت ہیں، ان کی کتاب مُعْجَمُ مَقَایِیس اللغۃ ہے، یہ کتاب چھ جلدوں میں ہے، اور اس کتاب کا موضوع یہ ہے کہ وہ ایک مادّہ لیتے ہیں، اور اس کے اصلی معنیٰ بتاتے ہیں، پھر اس کے مجازی استعمال بتاتے ہیں، نیز اشتقاق کبیر کے اعتبار سے مادّوں کے درمیان معانی کا فرق بھی بتلاتے ہیں، ابن فارس نے اپنی اسی کتاب میں خَتَمَ یَخْتِمُ کے معنیٰ لکھے ہیں: بُلُوْغُ آخِرِ الشیئ، یعنی کسی چیز کا اخیر تک پہنچ جانا، عرب کہتے ہیں: خَتَمْتُ العَمَلَ، میں نے کام پورا کردیا، خَتَمَ القَارِی السُّوْرَةَ، قاری صاحب نے سورت پوری کرلی، یہ ہیں اس لفظ کے اصلی معنیٰ، پھر علماء نے فرمایا کہ مہر لگانے کو ختم اس لئے کہا جاتا ہے کہ جب کسی تحریر کو مکمل کرلیا جاتا ہے، تو اخیر میں مہر لگائی جاتی ہے، اس لئے مہر کو بھی ختم کہدیا جاتا ہے، ابن فارس لکھتے ہیں: فَامّا الخَتْمُ، و ھو الطبع علیٰ الشیئ، فذٰالک من الباب ایضاً، لان الطبع علیٰ الشیئ لایکون الا بعد بلوغ اٰخرہ فی الاحراز، و الخاتم مشتق منہ، لان بہ یُخْتَم (مُعْجَمُ مَقَایِیس اللغۃ جلد نمبر ٢ صفحہ نمبر ٢٤٥ ) رہا لفظِ ختم، جس کے معنیٰ ہیں، کسی چیز پر مہر لگانا، تو یہ لفظ بھی اسی باب سے ہے، کیونکہ کسی چیز پر مہر اس وقت لگتی ہے، جب وہ چیز پوری ہوجائے، اور سمیٹ لی جائے، اور لفظِ خاتَم (اسمِ آلہ) اسی مادّہ سے بنایا گیا ہے، کیونکہ اس کے ذریعہ مہر لگائی جاتی ہے ___ اس لغوی تشریح کے بعد دوسری بات شروع کرتا ہوں، جو ذرا دقیق ہے، اسے غور سے سماعت فرمائیں۔
جاری
قسط نمبر: تین
پوری دنیا میں دو قسم کی چیزیں ہیں، ایک ذوات اور دوسری صفات، جیسے یہ کاغذ اور اس کی سفیدی، تو سفیدی وصف ہے، اور کاغذ کا وجود اس کی ذات ہے، ذوات کو آپ چھوڑئیے، اوصاف کو لیجئے ، دنیا میں جتنے اوصاف ہیں، دو قسم کے ہیں، ایک ہیں بالذات اور ایک ہیں بالعرض، مثلاﹰ صبح سورج طلوع ہوتا ہے، اس کی روشنی دارِ جدید کی دیواروں پر پڑتی ہے، اور یہ روشنی درسگاہوں میں بھی آتی ہے، بتائیے! یہ درسگاہ کی روشنی ذاتی ہے ؟ نہیں ذاتی نہیں ہے، ورنہ بلب جلانے کی کیا ضرورت تھی، بلکہ یہ روشنی بالعرض ہے، اور جو روشنی دیواروں پر پڑتی ہے، وہ ذاتی ہے، اور جو درسگاہ میں آرہی ہے، وہ باہر کی روشنی کا عکس ہے، چنانچہ سامنے کے تین دروازے بند کردیجئے، ابھی اندھیرا ہوجائےگا، معلوم ہوا، یہ روشنی بالعرض ہے۔
اب جو روشنی دیواروں پر پڑرہی ہے، اس میں غور کیا، تو معلوم ہوا کہ وہ بھی ذاتی نہیں ہے، کیونکہ اگر بالذات ہوتی، تو ہمیشہ قائم رہتی، بلکہ وہ بھی بالعرض ہے، کیونکہ وہ روشنی سورج سے آرہی ہے، اب قاعدہ سمجھئے کہ جتنی صفات بالعرض ہوتی ہیں، وہ کسی موصوف بالذات پر جاکر منتہی ہوتی ہیں، اور موصوف بالذات سے تجاوز نہیں کرسکتیں، جیسے در و دیوار کی روشنی سورج کا فیض ہے، مگر سورج کی روشنی اس کی ذاتی ہے۔
اور اگر کوئی کہے کہ سورج کی روشنی ذاتی نہیں ہے، کہیں اور سے آئی ہے، تو ہم پوچھتے ہیں کہ کہاں سے آئی ہے ؟ پھر اس منبعِ نور کے بارے میں سوال ہوگا، کہ اس میں کہاں سے روشنی آئی ہے، الغرض یہ شیطان کی آنت کہیں پہنچ کر رکے گی، یا نہیں ؟ اگر نہیں رکتی، تو تسلسل لازم آئےگا، جو محال ہے، اور اگر رکتی ہے، تو سورج کے بجائے ہم اسی کو موصوف بالذات مانیں گے۔
اب دیکھئے! کہ نبوت کسی ذات کا نام نہیں ہے، نبوت وصف کا نام ہے، اور نبی ذات مع الوصف کا نام ہے، یعنی نبی وہ شخصیت ہے، جو وصفِ نبوت کے ساتھ متصف ہے، اور نبوت صرف صفت کا نام ہے، حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر حضورِ اکرم ﷺ تک سب انبیاء ہیں، اور جو رسول ہیں، وہ بھی نبی ہیں، کیونکہ رسول، نبی سے اخص ہے، اور نبی عام ہے، اور اعم اخص کے ساتھ ہمیشہ موجود رہتا ہے، جیسے انسان، حیوان سے اخص ہے، اور حیوان اعم ہے، اس لئے جو بھی انسان ہوگا، وہ حیوان ضرور ہوگا، اسی طرح جو بھی رسول ہوگا، وہ نبی ضرور ہوگا، لٰہذا صرف انسانوں کے اعتبار سے نبی اور رسول میں عام و خاص مطلق کی نسبت ہے، نبی عام ہے، اور رسول خاص، اور ملائکہ کو بھی شامل کرلیا جائے، تو پھر من وجہٍ کی نسبت ہوگی، اور تین مادے اس طرح نکلیں گے، حضرت موسیٰ علیہ السلام رسول بھی ہیں، اور نبی بھی (مادّۂ اجتماعی) اور انبیائے بنی اسرائیل صرف نبی ہیں (مادّۂ افتراق) اور حضرت جبرئیل علیہ الاسلام صرف رسول ہیں (دوسرا مادّۂ افتراق )۔
اب غور کیجئے کہ یہ سارے انبیائے کرام، جو تعداد میں ایک لاکھ سے زیادہ ہیں، یہ سب کے سب وصفِ نبوت کے ساتھ بالذات متصف ہیں، یا بالعرض ؟ یا بعض بالذات اور بعض بالعرض متصف ہیں ؟ یہ احتمال کہ سب کے سب متصف بالذات ہیں، سمجھ میں نہیں آتا، اسی طرح یہ احتمال کہ سب بالعرض متصف ہیں، یہ بھی سمجھ میں نہیں آتا، لامحالہ ماننا پڑےگا کہ ان میں سے کوئی ایک نبی صفتِ نبوت کے ساتھ بالذات متصف ہے، اور باقی سارے انبیائے کرام کی نبوت اسی موصوف بالذات کی نبوت کا پَرتَو اور فیض ہے،َخَاتَمُ النَّبِيِّينَ میں یہی مضمون بیان کیا گیا ہے، کہ آپ ﷺ کی نبوت تو بالذات ہے، اور دیگر انبیائے کرام کی نبوت، آپ کی نبوت کا فیض ہے، جہاں جہاں آپ ﷺ کا فیض پہنچا، وہ وصفِ نبوت کے ساتھ متصف ہوگئے، یعنی حضورِ اکرم ﷺ تمام نبیوں کی نبوت کا منبع ہیں، آپ ﷺ کی نبوت کے طفیل میں سارے نبیوں کی نبوت وجود میں آئی ہے، لٰہذا تمام انبیاء کی نبوت، چاہے وہ رسول ہوں، یا نبی ہوں، سب کی نبوت خاتم النبین ﷺ کی نبوت کا فیض ہے، معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کی نبوت بالذات ہے، اور دیگر موصوفین بالعرض کا سلسلہ، آپ ﷺ کی ذات پر منتہی ہوتا ہے، اس لئے آپ ﷺ خاتم النبین ہیں۔
اس طویل سمع خراشی کا مقصد یہ ہے کہ قادیانی امت، حضرت اقدس مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی رحمہ اللہ تعالیٰ کی عبارتوں میں کتربونت کرکے لوگوں کو دھوکہ دیتی ہے، اس لئے ہمارے طلبہ کو پہلے حضرت نانوتوی رحمہ اللہ تعالیٰ کی بات سمجھنی چاھئے۔
حضرت نانوتوی رحمہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ تمام نبیوں کی نبوت، آپ ﷺ کی نبوت کا فیض ہے، یہی آپ ﷺ کا سب سے بڑا کمال ہے، اور عام لوگ جو خاتم النبین کا مطلب صرف اتنا سمجھتے ہیں، کہ آپ ﷺ سارے نبیوں کے اخیر میں تشریف لائے ہیں، بس اتنا جو سمجھتے ہیں، وہ اس کا صحیح مطلب نہیں سمجھتے ہیں، کیونکہ صرف آگے پیچھے ہونا کوئی کمال نہیں ہے، حضرت نانوتوی رحمہ اللہ تعالیٰ نے یہ بات "تحذیر الناس " میں لکھی ہے، کتاب کے آغاز میں صفحہ نمبر ٢ پر حضرت ؒ نے تحریر فرمایا ہے کہ "عوام کے خیال میں تو رسول اللہ ﷺ کا خاتم ہونا بایں معنیٰ ہے، کہ آپ ﷺ کا زمانہ انبیاءِ سابق کے زمانہ کے بعد، اور آپ ﷺ سب سے آخر نبی ہیں، مگر اہلِ فہم پر روشن ہوگا کہ تقدم یا تأخر زمانی میں بالذات کچھ فضیلت نہیں "۔
اس کے بعد صفحہ نمبر ١٦ پر تحریر فرماتے ہیں کہ "اطلاق خاتم اس بات کو مقتضی ہے، کہ تمام انبیاء کا سلسلۂ نبوت آپ ﷺ پر ختم ہوتا ہے، جیسے انبیاءِ گذشتہ کا وصفِ نبوت میں حسبِ تقریر مسطور اس لفظ سے آپ ﷺ کی طرف محتاج ہونا ثابت ہوتا ہے، اور آپ ﷺ کا اس وصف میں کسی کی طرف محتاج نہ ہونا، اس میں انبیاءِ گذشتہ ہوں، یا کوئی اور، اسی طرح اگر فرض کیجئے، آپ کے زمانہ میں بھی اس زمین میں، یا کسی اور زمین میں، یا آسمان میں کوئی نبی ہو، تو وہ بھی اس وصفِ نبوت میں آپ ہی کا محتاج ہوگا، اور اس کا سلسلۂ نبوت بہرطور آپ ﷺ پر مختتم ہوگا، اور کیوں نہ ہو، عمل کا سلسلہ علم پر ختم ہوتا ہے، جب علم ممکن للبشر ہی ختم ہوگیا ، تو پھر سلسلۂ علم و عمل کیا چلے، غرض اختتام اگر بایں معنیٰ تجویز کیا جاوے، جو میں نے عرض کیا، تو آپ ﷺ کا خاتم ہونا انبیاءِ گذشتہ ہی کی نسبت خاص نہ ہوگا، بلکہ اگر بالفرض آپ ﷺ کے زمانہ میں بھی کہیں اور کوئی نبی ہو، جب بھی آپ کا خاتم ہونا بدستور باقی رہتا ہے "۔
ان عبارتوں کو سمجھنے کےلئے پہلے یہ سمجھ لیجئے کہ تحذیرالناس کا موضوع کیا ہے ؟ تحذیرالناس کا موضوع یہ ہے کہ قرآن کریم میں سورۂ طلاق آیت نمبر ١٢ میں ارشاد ہے: اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ، یعنی اللہ تعالیٰ نے سات آسمانوں کی طرح سات زمینیں پیدا فرمائی ہیں، اس ضمن میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا ایک اثر مروی ہے، کہ اللہ تعالیٰ نے سات آسمان پیدا فرمائے، اور سات زمینیں پیدا فرمائیں، اور ہر زمین میں مخلوق ہے، اور آدم ہیں تمہارے آدم کی طرح، نوح ہیں تمہارے نوح کی طرح، ابراہیم ہیں تمہارے ابراہیم کی طرح، اور عیسیٰ ہیں تمہارے عیسیٰ کی طرح، اور محمد ہیں تمہارے محمد کی طرح [ و اخرج ابن جریر، و ابن ابی حاتم، و الحاکم و صححہٗ، و البیھقی فی الشعب، و فی الاسماء و الصفات عن ابی الضحیٰ عن ابن عباس فی قولہ: وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ، قال: سبع ارضین، فی کل ارض نبی کنبیکم، و آدم کآدم، و نوح کنوح، و ابراہیم کابراہیم، و عیسیٰ کعیسیٰ، قال البیھقی: اسنادہ صحیح، و لٰکنہ شاذ، لااعلم لابی الضحیٰ علیہ متابعاً، الدرالمنثور جلد نمبر ٦ صفحہ نمبر ٢٣٨ ] یہ روایت ہے، اس روایت کا ایک زمانہ میں لوگوں نے انکار کردیا، یہ خیال کرتے ہوئے کہ اگر چھ زمینوں میں چھ محمد اور ہیں، تو وہ خاتم النبین بھی ہونگے، جبکہ قرآن کریم کہتا ہے کہ حضور ﷺ خاتم النبین ہیں، لٰہذا یہ روایت غلط ہے، یہ سوال اس زمانہ میں پیدا ہوا، اور یہ سوال حضرت نانوتوی رحمہ اللہ تعالیٰ کے پاس آیا، حضرت نانوتوی ؒ نے اس سوال کا جواب لکھا، جس کا نام ہے "فتویٰ تحذیرالناس من انکار اثر ابن عباس رضی اللہ عنہما " کتاب کا پورا نام یہ ہے، اس کتاب میں حضرت نانوتوی رحمہ اللہ تعالیٰ نے نہایت وضاحت کے ساتھ ثابت کیا، کہ اگر بالفرض آپ کے زمانہ میں کوئی نبی ہو، تو وہ بھی آپ کی نبوت کا فیض ہوگا، اور اس زمین کے علاوہ دوسری زمینوں میں اگر چھ محمد ہیں، تو وہ بھی آپ ﷺ کی نبوت کا فیض ہے ، یعنی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت کے مطابق اگر چھ زمینوں میں چھ محمد ہیں، تو وہ بھی وصفِ نبوت کے ساتھ موصوف بالعرض ہیں، اور حضورِ اکرم ﷺ وصفِ نبوت کے ساتھ موصوف بالذات ہیں، تو اگر سات زمینیں ہیں، اور ساتویں زمینوں میں محمد ہیں، تو وہ بھی آپ ﷺ کی نبوت کا فیض ہیں، جس طرح اس زمین پر جتنے انبیاء ہیں، ان کی نبوت بھی حضورِ اکرم ﷺ کی نبوت کا فیض ہے، نیز ان زمینوں میں جو آدم، نوح، ابراہیم، موسیٰ، عیسیٰ وغیرہ ہیں، ان سب کی نبوت مستفیض ہے، اس زمین کے خاتم النبین ﷺ کی نبوت سے۔
قادیانیوں نے حضرت رحمہ اللہ تعالیٰ کی مذکورہ بالا عبارتوں میں کتربونت کرکے لوگوں کو یہ باور کرانے کی مذموم سعی کی ہے کہ دیکھو! حضور ﷺ کے بعد بھی نبی ہوسکتا ہے، مولانا نانوتوی ؒ اجرائے نبوت کے قائل ہیں، حالانکہ حضرت ؒ نے تحذیرالناس ہی میں اس مسئلہ کو صاف کردیا ہے کہ حضورِ اکرم ﷺ کے بعد جو نبوت کا قائل ہے، وہ کافر ہے، حضرت ؒ تحریر فرماتے ہیں کہ "اگر اطلاق اور عموم ہے، تب تو ثبوتِ خاتمیتِ زمانی ظاہر ہے، ورنہ تسلیم لزوم خاتمیتِ زمانی بدلالتِ التزامی ضرور ہے، ادھر تصریحات نبوی ﷺ مثل انت منی بمنزلة ھارون من موسیٰ، الا انہ لانبی بعدی، او کما قال، جو بظاہر بطرز مذکور اسی لفظ خاتم النبین سے ماخوذ ہے، اس باب میں کافی، کیونکہ یہ مضمون درجۂ تواتر کو پہنچ گیا ہے، پھر اس پر اجماع بھی منعقد ہوگیا، گو الفاظ مذکور بسند متواتر منقول نہ ہوں، سو یہ عدمِ تواترِ الفاظ باوجود تواترِ معنوی یہاں ایسا ہی ہوگا، جیسا تواترِ اعدادِ رکعات فرض و وتر وغیرہ، باوجودیکہ الفاظ احادیثِ تعداد رکعات متواتر نہیں، جیساکہ اس کا منکر کافر ہے، ایسا ہی اس کا منکر بھی کافر ہوگا " (تحذیرالناس صفحہ نمبر ١٠ تا ١١)۔
اس کی مزید تشریح یہ ہے کہ ختمِ نبوت کی تین قسمیں ہیں، اور تینوں حضورِ اکرم ﷺ کو حاصل ہیں، یعنی آپ ﷺ تینوں اعتباروں سے خاتم النبین ہیں، ختمِ نبوت کی تین قسمیں یہ ہیں، ختمِ نبوت رتبی، ختمِ نبوت زمانی اور ختمِ نبوت مکانی ۔
جاری
0 تبصرے comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔