مسئلۂ ختمِ نبوت اور
قادیانی وسوسے ۔ ۔ ۔ (مکمل)
مقرر: حضرت اقدس مولانا
مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری دامت برکاتھم، شیخ الحدیث و صدر المدرسین دارالعلوم
دیوبند، و ناظمِ عمومی کل ہند مجلسِ تحفظِ ختم نبوت دارالعلوم دیوبند
ناقل: عادل سعیدی پالن
پوری
قسط نمبر: ایک
خطبۂ
مسنونہ کے بعد: اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم، بسم اللہ الرحمٰن الرحیم { مَا كَانَ
مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَٰكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ
ۗ وَكَانَ اللَّهُ
بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا}وَقَالَ النَّبِیُّ ﷺ سَیَکُوْنُ فِیْ اُمَّتِیْ ثَلَاثُوْنَ
کَذَّابْوْنَ یَزْعَمُ کُلُّھُمْ اَنَّہٗ نَبِیٌّ، وَ اَنَا خَاتَمُ النَبِیّن لَا
نَبِیَّ بَعْدِیْ۔
صدرِ محترم! حضرات مہمانانِ کرام! حضرات اساتذۂ دارالعلوم دیوبند!
اور وہ اساتذہ جو مختلف مدارس سے تشریف لائے ہیں! اور عزیز طلباء! آج کے جلسہ کی غرض
و غایت آپ حضرات کے سامنے آچکی ہے، مجھ سے اس سلسلہ میں فرمایا گیا تھا، بلکہ مجھے
حکم دیا گیا تھا، کہ قادیانیت اور ردِ قادیانیت کے سلسلہ میں طلباء عزیز کے سامنے کچھ
ابتدائی باتیں بیان کروں، جن سے طلباء عزیز کو اس مسئلہ کے سمجھنے میں مدد ملے، اور
وہ اس مسئلہ کو سمجھنے کے قریب ہوسکیں، یہ موضوع مجھے دیا گیا تھا، یعنی اس مسئلہ پر
مجھے آپ سے گفتگو کرنی ہے، یہاں جو اساتذۂ دارالعلوم دیوبند تشریف فرما ہیں، یا باہر
سے آئے ہوئے معزز مہمان اساتذہ موجود ہیں، ظاہر ہے کہ وہ میری آج کی گفتگو کے مخاطب
نہیں ہیں، میں جو باتیں عرض کرونگا، وہ تمام باتیں ان حضرات کے سامنے دس روز تک مکرر،
سہ کرر آتی رہی ہیں، اس لئے میری گذارشات کے مخاطب صرف عزیز طلباء ہیں، یہ اکابر نہیں
ہیں۔
قادیانی کے دعاوی:
سب سے پہلا مسئلہ یہ ہے کہ قادیانی کا نظریہ کیا تھا؟ اور اس
کے دلائل کیا تھے ؟ اس کا نظریہ، اور اس کے دلائل سمجھ میں آجائیں، تو آپ حضرات کےلئے،
اس کا جواب سمجھنا آسان ہوجائےگا، کیونکہ جب تک کسی آدمی کا نظریہ، اور اس کا دعویٰ
سمجھ میں نہ آئے، اس کا جواب، اور اس کا رد سمجھنا مشکل ہوتا ہے، الغرض سب سے پہلا
مرحلہ یہی ہے، اس مرحلہ کےلئے میں نے سوچا تھا، کہ اس کے دعوے جمع کروں، میرے سامنے
یہ کاپی رکھی ہے، اس میں اس کے پچیس دعوے ہیں، اور یہ صرف مُشتے نمونہ از خروارے ہیں،
یہ پچیس دعوے اس کے سارے دعوے نہیں ہیں، وہ کہتا ہے: میں خدا کا باپ ہوں، وہ کہتا ہے:
میں خدا کا بیٹا ہوں، وہ کہتا ہے: میں خدا کی بیوی ہوں، وہ کہتا ہے: میں خدا ہوں، وہ
کہتا ہے: میں امتی ہوں، وہ کہتا ہے: میں محدث ہوں، وہ کہتا ہے: میں مجدد ہوں، میں مہدی
ہوں، میں مسیح ابن مریم ہوں، میں ظلّی نبی ہوں، میں بروزی طور پر محمد ہوں، میں رسول
اللہ ہوں، میں خاتم النبین ہوں، میں مظہرِ انبیاء ہوں، میں عینِ محمد ہوں، میں محمد
سے افضل ہوں، میں کرشن جی ہوں، میں جے سنگھ بہادر ہوں، میں مسٹر گوپال ہوں، میں حجرِ
اسود ہوں، میں بیت اللہ ہوں، میں مسیحِ موعود سے بہتر ہوں، میں مریم بھی ہوں اور عیسیٰ
بھی ہوں، میں فرشتہ ہوں، میں میکائیل ہوں، میں خدا کے مثل ہوں، یہ اس کے پچیس دعوے
ہیں، اور یہ دعوے اس کے دعوؤں کا چھوٹا سا نمونہ ہے، یہ نہ سمجھیں کہ یہ اس کے کل دعوے
ہیں، بلکہ یہ اس کے دعوؤں کا عشرِ عشیر ہے، اب میں اس صورتِ حال میں آپ حضرات کو کیا
سمجھاؤں ؟ یہ دعوے خود ایک بھول بھلیاں ہیں، جن کو سُن کر ہی انسان چکرا جاتا ہے،
خیر قادیانی تو اپنے انجام کو پہنچا، مگر آج جو اس کی امت ہے، وہ تین چار قسم کے عقیدے،
قادیانی کے بارے میں رکھتی ہے، سب قادیانی اس کے بارے میں ایک عقیدہ نہیں رکھتے۔
❶۔۔۔۔۔ قادیانی مجدد تھا: ایک جماعت یہ
کہتی ہے کہ قادیانی، اس امت کا مجدد تھا، وہ قادیانی کو صرف مجدد مانتی ہے، اس سے زیادہ
کچھ نہیں مانتی، اور اس جماعت کو جو قادیانی کو مجدد مانتی تھی، مرزا غلام احمد قادیانی
کے خلفاء نے مرتد، اور اپنی جماعت سے خارج قرار دیا ہے، تاہم وہ اسی بات کو مانتے رہے،
جیسے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے سامنے چند لوگ پکڑ کر لائے گئے، جو کہتے تھے کہ حضرت
علی رضی اللہ عنہ خدا ہیں، یہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے دورِ خلافت کا واقعہ ہے، جب
یہ لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سامنے پیش کئے گئے، تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے
فرمایا: کم بختو! میں خدا نہیں ہوں، میں خدا کا بندہ ہوں، ان لوگوں نے جواب دیا: نہیں
آپ ہی خدا ہیں، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ہرچند کوشش کی، کہ وہ توبہ کرلیں، مگر انہوں
نے توبہ نہیں کی، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حکم دیا، کہ ان کو زندہ جلادیا جائے، چنانچہ
وہ سب زندہ جلادئیے گئے، وہ جلتے رہے، اور یہ کہتے رہے کہ علی خدا! علی خدا! علی خدا!
جلتے رہے، اور علی خدا! علی خدا! کہتے رہے[ حَتّٰی اِعتقدوا ان علیاً رضی اللہ عنہ
ھو المعبود، مرقات جلد نمبر ٧ صفحہ نمبر ١٠٤، باب قتل اھل الردة الخ ]۔
جب حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کو اس واقعہ کا علم ہوا تو
فرمایا، کہ اگر یہ معاملہ میرے سامنے پیش ہوتا، تو میں انہیں قتل کرواتا، انہیں آگ
میں نہ جلواتا، جب ابن عباس رضی اللہ عنہما کی اس بات کا حضرت علی رضی اللہ عنہ کو
علم ہوا، تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: صَدَقَ اِبْنُ عَبَاسؓ، یعنی ابن عباس
ؓ نے سچ فرمایا، گویا حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مسئلہ معلوم تھا، کہ آگ میں جلانا صرف
اللہ تعالیٰ کی شان ہے، اللہ تعالیٰ ہی اپنے بندوں کو جہنم میں ڈالیں گے، دوسروں کےلئے
یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ کسی کو آگ میں جلانے کی سزا دیں، حدیث شریف میں ہے:اِنَّ النَّارَ
لَایُعَذِّبُ بِھا اَلاَّ اللہُ، آگ کی سزا دینا اللہ تعالیٰ ہی کے شایانِ شان ہے۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مسئلہ معلوم تھا، تو
پھر کیوں جلایا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ان کے خدا تو حضرت علی ؓ تھے، اور خدا آگ میں
جلاسکتا ہے، اس لئے ان کے خدا نے، ان کو آگ میں جلادیا، اس میں اعتراض کی کیا بات ہے
؟[ یہ محض ایک طالبِ علمانہ لطیفہ تھا، صحیح جواب یہ ہے کہ آگ میں جلانے کی سزا دینا
جائز ہے، مگر خلافِ اولیٰ ہے، قال العلامة علی القاری فی المرقات: و الاحراق بالنار،
و ان نھی عنہ کماذکرہٗ ابن عباس ؓ، لٰکن جُوِّزَ للتشدید بالکفار، و المبالغة فی النِّکایة
و النَّکال، کالمُثْلُةِ (جلد نمبر ٧ صفحہ نمبر ١٠٤ باب قتل اھل الردة الخ ) اسی طرح
ضرورت کے وقت بھی آگ میں جلانا جائز ہے، جیسے گرم پانی سے جویں اور کٹھمل مارنا، یا
تتیا، بھڑوں کا چھتہ جلانا ]۔
الغرض جس طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سمجھانے پر بھی وہ لوگ
اپنے عقیدے سے نہیں پھرے، قادیانی کے خلفاء، مجدد ماننے والی جماعت کو مرتد اور اپنی
جماعت سے خارج کرتے رہے، اور فاسق و کافر قرار دیتے رہے، مگر وہ اپنے عقیدے پر اڑے
رہے، اور آج تک ان کا یہی عقیدہ ہے، کہ غلام احمد قادیانی مجدد تھا، العیاذ باللہ!
❷۔۔۔۔۔ قادیانی نبی تھا: ایک دوسری جماعت
یہ کہتی ہے کہ غلام احمد قادیانی نبی تھا، نہ صرف نبی، بلکہ خاتم النبین بھی تھا، اور
تمام نبیوں سے بہتر اور افضل بھی تھا۔
❸۔۔۔۔۔ قادیانی مسیح موعود تھا: ایک تیسری
جماعت، ان میں سے یہ عقیدہ رکھتی ہے کہ وہ مسیح موعود تھا۔
مسیح علیہ السلام کا ذکر
قرآن کریم میں:
قرآن کریم میں اور احادیثِ شریفہ میں حضرت مسیح علیہ السلام
کی آمد کا وعدہ کیا گیا ہے، کہ وہ قربِ قیامت میں آئیں گے، قرآن کریم میں ارشاد فرمایا
گیا ہے: وَإِنَّهُ لَعِلْمٌ لِلسَّاعَةِ (سورۂ
زخرف آیت نمبر ٦١) اور وہ قیامت کے یقین کا ذریعہ ہیں، یعنی حضرت مسیح علیہ السلام
جب دنیا میں تشریف لائیں گے، تو لوگوں کو قیامت کا علم ہوگا، ان کی تشریف آوری قیامت
کی نہایت پختہ اور واضح دلیل ہوگی، اس پختہ دلیل کے بعد یہ سوال ختم ہوجائےگا، کہ قیامت
آئے گی، یا نہیں، ان لوگوں کو بھی قیامت کا یقینی علم حاصل ہوجائےگا، جو قیامت کا انکار
کرتے ہیں، یا شک و شبہات میں پڑے ہوئے ہیں۔
مسیح علیہ السلام کا ذکر
احادیث میں:
قرآن کریم میں تو نزولِ مسیح علیہ السلام کی طرف صرف اشارہ ہے،
مگر احادیثِ شریفہ میں اس کو بہت کھول کر بیان کیا گیا ہے، اس سلسلہ میں تقریباﹰ سو حدیثیں ہیں،
امام العصر حضرت علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ تعالیٰ کی مساعی جمیلہ قادیانیت کے
ناپاک پودے کو جڑ سے اکھاڑنے کے سلسلہ میں سب سے زیادہ ہیں، حضرت موصوف نے نزولِ مسیح
علیہ السلام کے سلسلہ کی حدیثوں کو ایک کتاب میں جمع کیا ہے، جس کا نام "التصریح
بما تواتر فی نزول المسیح " ہے، اس کتاب میں ٧٥ مرفوع حدیثیں نزولِ مسیح علیہ
السلام کے سلسلہ کی جمع کی گئی ہیں، یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے بارے میں
صراحةً جو حدیثیں ہیں، اور جو حدِّ تواتر کو پہنچی ہوئی ہیں، ان کو جمع کیا ہے، یہ
کتاب عرب میں شیخ عبدالفتاح ابوغدہ رحمہ اللہ تعالیٰ کے حاشیہ کے ساتھ چھپ گئی ہے،
طلبۂ عزیز کو چایئے کہ اس کتاب کو حاصل کریں، اور اس کا مطالعہ کریں۔[ مذکورہ بالا
کتاب اس لنک سے ڈاؤنلوڈ کرسکتے ہیں۔۔۔۔۔۔ ?
http://googleweblight.com/?lite_url=http://book-alasaala.blogspot.com/2011/10/blog-post_9695.html?m%3D1&ei=tfelCsLc&lc=en-IN&s=1&m=737&ts=1451890430&sig=ALL1Aj6IsI51iwCVtdzILTRe3yNMpW25t]
الغرض قادیانیوں کی تیسری جماعت یہ کہتی ہے کہ وہ مسیح، جن کے
آنے کا وعدہ کیا گیا ہے، وہ مرزا غلام احمد قادیانی ہے۔
❹۔۔۔۔۔ قادیانی مجازی نبی تھا: ایک اور
جماعت یہ کہتی ہے کہ قادیانی نبی تھا، مگر حقیقی نبی نہیں تھا، بلکہ مجازی نبی تھا،
مجازی نبی کی تعبیر کا مطلب ان کے یہاں "غیر تشریعی نبی" ہے، غیر تشریعی
نبی کا مطلب یہ ہے، کہ کوئی نئی شریعت اس کو نہیں ملی ہے، بلکہ سابق نبی، سرورِ کونین
ﷺ کے ماتحت نبی ہے، اور ان کی شریعت کو دوسرے لوگوں تک پہنچانے کےلئے مبعوث ہوا ہے،
اس کو نئی شریعت نہیں دی گئی ہے، اسی قرآن کریم کی تعلیمات کو لوگوں تک پہنچانے کےلئے
بھیجا گیا ہے، یہ ہے غیر تشریعی نبی کا مطلب، دوسری تعبیر ہے "ظلّی نبی
" ظِلْ بمعنیٰ سایہ، ظلّی نبی کا مطلب یہ ہے کہ وہ حضورِ اکرم ﷺ کا سایہ ہے، ایک تیسری تعبیر ان کے یہاں ہے
"بُروزی نبی " بَرَزَ، یَبْرُزُ بُرُوْزاً کے معنیٰ ہیں ظاہر ہونا، نمودار
ہونا، اور ان کی مراد بروزی نبی سے یہ ہے کہ خود حضورِ اکرم ﷺ نے قادیانی کی شکل میں نیا وجود اختیار کیا ہے،
یعنی غلام احمد قادیانی، حضور ہی ہیں، حضورِ اکرم ﷺ دوبارہ دنیا میں تشریف لائے ہیں، وہ غلام احمد قادیانی
کی ذات میں حلول کرگئے ہیں، جس طرح ہندو عقیدوں میں، اللہ تعالیٰ اوتاروں میں حلول
کرتے ہیں۔
یہ ہیں قادیانیوں کی تعبیرات: ظلّی نبی، بُروزِی نبی، مجازی
نبی اور غیر تشریعی نبی، اور یہ ہیں ان کے عقائد، لٰہذا اِس وقت ہم، قادیانی کے سب
دعوؤں کو چھوڑتے ہیں، اور اس کی امت کے مزعومات کے سلسلہ میں گفتگو کرتے ہیں، یعنی
وہ مجدد ہوسکتا ہے، یا نہیں ؟ وہ مسیح موعود ہوسکتا ہے، یا نہیں ؟ وہ ظِلّی، بُروزی
اور غیر تشریعی نبی ہوسکتا ہے، یا نہیں ؟ وہ حقیقی نبی ہوسکتا ہے، یا نہیں ؟ یہ چار
دعوے ہیں، ان دعوؤں کے دلائل کیا ہیں ؟ جس طرح اس کے دعوے الجھے ہوئے ہیں، اسی طرح
اس کے دلائل بھی الجھے ہوئے ہیں، اس کے دلائل صرف وساوس ہیں، ان کی حقیقت کچھ بھی نہیں
ہے، اس موضوع پر علماء اسلام نے وسیع لٹریچر تیار کردیا ہے، جس سے قادیانی دلائل کا
کھوکھلاپن کھل کر لوگوں کے سامنے آچکا ہے، جہاں تک اُس کے مجدد ہونے کا تعلق ہے، ہمیں
اس مسئلہ پر زیادہ گفتگو نہیں کرنی، کیونکہ اسے مجدد ماننے والے بھت تھوڑے لوگ ہیں،
اس لئے اصل گفتگو جو ہمیں کرنی ہے، وہ دو مسئلے ہیں، ایک قادیانی کا نبی ہونا، اور
دوسرا اس کا مسیح موعود ہونا، تعلیماتِ اسلامی کی رُو سے اس کے یہ دونوں دعوے غلط ہیں،
وہ محض جھوٹا ہے، اس کی باتوں میں صداقت کی بو تک نہیں ہے، اور جھوٹا شخص مجدد کیسے
ہوسکتا ہے ؟
قرآن کریم میں سب سے واضح آیت، جس میں کسی تاویل کی گنجائش نہیں
ہے، یہ ہے: مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ
مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَٰكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ
بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا، محمد ﷺ تمہارے مردوں
میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں، اور سب نبیوں کے ختم پر
ہیں، اور اللہ تعالٰی ہر چیز کو خوب جانتے ہیں، اس آیت کا شانِ نزول کیا ہے؟ پہلے
شانِ نزول سمجھنا چاہئے، کیونکہ اس آیت میں جو لفظ خاتم النبین آیا ہے، اس کو بغیر
شانِ نزول کے سمجھنا ذرا مشکل ہے۔
جاری
قسط نمبر: دو
یہ آیتِ کریمہ سورۂ احزاب کی ہے، اس سورت میں اوپر سے یہ مضمون
بیان ہورہا ہے، کہ حضورِ اکرم ﷺ کے ایک متبنیٰ یعنی منہ بولے بیٹے حضرت زید بن حارثہ
رضی اللہ عنہ تھے، جن کا نکاح آپ کی پھوپھی زاد بہن حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے ہوا
تھا، لیکن دونوں میں نبھاؤ نہیں ہوسکا، اس لئے کہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا خاندانِ
قریش سے تھیں، اور حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ غلام رہ چکے تھے، آزاد کرنے کے بعد،
حضورِ اکرم ﷺ نے ان کو اپنا منہ بولا بیٹا بنالیا تھا، چونکہ ان پر غلامی کا داغ لگا
ہوا تھا، اور حضرت زینب رضی اللہ عنہا اعلیٰ خاندان کی خاتون تھیں، اس لئے یہ رشتہ
بڑی مشکلوں کے بعد یعنی اللہ اور اس کے رسول کے حکم سے ہوا تھا[ سورة الاحزاب آیت نمبر
٣٦ اسی سلسلہ میں نازل ہوئی ہے، پوری آیت یہ ہے: وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ
إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ
ۗ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ
وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُبِينًا ترجمہ: اور کسی ایماندار مرد اور کسی ایماندار
عورت کو گنجائش نہیں ہے، جبکہ اللہ اور اس کا رسول کسی کام کا حکم دیں، کہ (پھر) ان
کو ان (مؤمنین ) کے اس کام میں کوئی اختیار (باقی) رہے، اور جو شخص اللہ تعالیٰ کا،
اور اس کے رسول کا کہنا نہ مانے گا، وہ صریح گمراہی میں پڑا ] لیکن یہ رشتہ قائم نہ
رہ سکا، میاں بیوی میں ناچاقی رہنے لگی، اور صورتِ حال دن بدن بگڑتی گئی، اب حضورِ
اکرم ﷺ کو بھت فکر دامنگیر ہوئی، کہ خدانخواستہ اگر زید نے اپنی اہلیہ کو طلاق دیدی،
تو کیا ہوگا؟ اوّل تو بڑی مشکل سے رشتہ طے ہوا ہے، پھر اگر حضرت زید رضی اللہ عنہ نے
طلاق دیدی، تو وہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا کےلئے مزید رنج کا سبب ہوگی، چنانچہ حضورِ
اکرم ﷺ اپنے منہ بولے بیٹے کو برابر سمجھاتے رہے، کہ کسی طرح نبھاؤ کی کوئی صورت پیدا
کرو، مگر نبھاؤ نہیں ہوسکا، اب یہ فکر حضورِ اکرم ﷺ کو دامنگیر ہوئی، کہ طلاق کے بعد حضرت زینب رضی
اللہ عنہا کا معاملہ بھت پیچیدہ ہوجائے گا، لوگ کہیں گے کہ غلام کی بیوی، پھر اس نے
بھی طلاق دیدی، یہ داغ کیسے دھویا جائےگا ؟ حضورِ اکرم ﷺ کے ذہن میں ایک بات تھی، کہ
اگر خدانخواستہ حضرت زید رضی اللہ عنہ طلاق دیدیتے ہیں، تو حضور خود حضرت زینب ؓ سے
نکاح کرلیں گے، تاکہ ان کے غم کا مداوا ہوسکے، اور ان پر لگاہوا داغ دھل جائے، کیونکہ
وہ حضورِ اکرم ﷺ کی پھوپھی زاد بہن تھیں، جن سے نکاح جائز تھا، یہ حضورِ اکرم ﷺ کے
ذہن میں تھا، لیکن حضور ﷺ کو پریشانی یہ تھی، کہ حضرت زید ؓ حضور ﷺ کے متبنیٰ تھے،
اور ان کو لوگ حضور ﷺ کا بیٹا سمجھتے تھے، اور بیٹے کی بیوی، بہو کہلاتی ہے، اور بہو،
یعنی لڑکے کی بیوی سے نکاح جائز نہیں ہے، اگرچہ حضرت زیدؓ حضور ﷺ کے نسبی بیٹے نہیں
تھے، لیکن دنیا یہی کہتی تھی، کہ وہ حضور ﷺ کے لڑکے ہیں، جب حضور ﷺ نکاح کریں گے، تو
نہ معلوم مشرکین اور یہود حضور کی شان میں کیا کیا بکیں گے، وہ لوگوں سے کہتے پھریں
گے، کہ دیکھو! لڑکے کی بیوی سے نکاح کرلیا، دیکھو! بہو سے نکاح کرلیا، حضور ﷺ کو یہ
پریشانی لاحق تھی، مگر مسئلہ کا حل بھی اس کے علاوہ کچھ نہیں تھا، حضور ﷺ نے دل کی
یہ بات کسی سے ظاہر نہیں فرمائی [ وَتُخْفِي
فِي نَفْسِكَ مَا اللَّهُ مُبْدِيہ کے سلسلہ میں جو تفسیری روایات ہیں، ان کے بارے
میں محدث ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے: اَحْبَبْنَا اَنْ نَّضْرِبَ عَنْھَا
صَفْحاً لِعَدَمِ صِحَّتِھَا، فَلَا نُوْرِدُھَا، ترجمہ: ہم یہ پسند کرتے ہیں، کہ اُن
روایات سے پہلوتہی کریں، کیونکہ وہ روایتیں صحیح نہیں ہیں، پس ہم ان کو بیان نہیں کررہے
]۔
پھر ایسا ہوا کہ حضرت زید رضی اللہ عنہ نے اچانک ایک روز حضرت
زینب رضی اللہ عنہا کو طلاق دیدی، وہ عدت میں بیٹھیں، اور غم و اندوہ کے بادل ان پر
چھاگئے، مگر جونہی عدت پوری ہوئی، وحی نازل ہوئی، اور آنحضورﷺ کو اطلاع دی گئی، کہ
آپ ﷺ کا حضرت زینب ؓ سے نکاح اللہ تعالیٰ نے آسمان پر کردیا ہے[ روح المعانی میں ایک
قول یہ بھی ہے، کہ نکاح دنیا میں ہوا ہے، اور زَوَّجْنَاکَھَا میں اسناد مجازی ہے،
ای: امرناک بتزویجھا ]۔
اب جو حضور ﷺ کو خطرات اور اندیشے تھے، وہ ایک ایک کرکے سامنے آنے لگے، منافقین
آپس میں چہ میگوئیاں کرنے لگے، یہود اور مشرکین نے ہنگامہ کھڑا کردیا، کہ دیکھو! اپنی
بہو سے نکاح کرلیا، اس مسئلہ کو قرآن کریم نے صاف کیا، اور معاملہ کی وضاحت فرمائی،
کہ حضرت زید ؓ حضور ﷺ کے بیٹے نہیں ہیں، اور کسی کو لڑکا کہہ دینے سے وہ لڑکا نہیں
ہوجاتا، یہ آیتِ کریمہ اسی سلسلہ میں نازل ہوئی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ
وَلَٰكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ۔۔۔ یعنی آپ کسی مرد کے باپ نہیں
ہیں، زمانۂ ماضی میں بھی آپ ﷺ کسی مرد کے باپ نہیں تھے، کیونکہ آپ کے جو تین یا چار
صاحبزادے پیدا ہوئے تھے، وہ دو ڈھائی برس کی عمر میں وفات پاگئے تھے، آپ کسی رجل کے
باپ نہیں تھے، کیونکہ کوئی صاحبزادہ رَجُل کی حد تک پہنچا ہی نہیں تھا، جب حضرت زیدؓ
آپ ﷺ کے بیٹے نہیں ہیں، تو ان کی بیوی زینب ؓ سے نکاح کرنا جائز ہے، یہ واقعہ اس آیتِ
کریمہ کا پسِ منظر (شانِ نزول ) ہے۔
سوال: یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ لٰکن حرفِ استدراک کیوں
لایا گیا ہے ؟ لٰکن حرفِ استدراک تو اس شبہ کو دور کرنے کےلئے لایا جاتا ہے، جو کلامِ
سابق سے پیدا ہوتا ہے، یہاں کیا شبہ اور خلجان ہے، جس کو دور کرنے کےلئے لٰکن حرفِ
استدراک لایا گیا ہے ؟۔
جواب: تو اس کا جواب یہ ہے کہ جب مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا
أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ کے ذریعہ اُبُوَّت کی نفی کی گئی، اور یہ فرمایا گیا کہ آپ
ﷺ کسی مرد کے نسبی باپ نہیں ہیں، تو ہوسکتا
ہے کہ کسی کو یہ خیال پیدا ہو، کہ جب آپ ﷺ سے اُبُوَّتِ جسمانی کی نفی کردی گئی، تو
اسی سے ایمانی اور روحانی باپ ہونے کی نفی ہوگئی، یعنی حضور ﷺ کسی کے باپ نہیں ہیں،
نہ جسمانی، نہ روحانی، یہ شبہ پیدا ہوسکتا تھا، اسی شبہ کے ازالہ کےلئے ارشاد فرمایا
ہے وَلَٰكِنْ رَسُولَ اللَّهِ، البتہ حضور ﷺ اللہ کے رسول ہیں، یہ تو ہوا صغریٰ، اور
کبریٰ آپ یہ لگائیں کہ ہر نبی اپنی امت کا روحانی باپ ہوتا ہے، پس ثابت ہوا کہ آپ ﷺ
امت میں سے کسی کے جسمانی باپ تو نہیں ہیں، مگر آپ ﷺ امت کے روحانی باپ ضرور ہیں، کیونکہ
آپ ﷺ اللہ کے رسول ہیں، اس مضمون کی وضاحت ایک دوسری جگہ اس طرح فرمائی گئی ہے: وَأَزْوَاجُهُ
أُمَّهَاتُهُمْ (سورة الاحزاب آیت نمبر ٦ ) اور نبی کی بیویاں امت کی مائیں ہیں، پس
آپ ﷺ پوری امت کے روحانی باپ ہیں، الغرض وَلَٰكِنْ رَسُولَ اللَّهِ سے حضور ﷺ کی اُبُوَّتِ روحانی ثابت کرنا مقصود
ہے[ جواب کی ایک مختصر تعبیر اس طرح بھی کی جاسکتی ہے، کہ جب مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ
سے اُبُوَّتِ جسمانی کی نفی کی گئی، تو ذم کا ایہام پیدا ہوا، جس کو دور کرنے کےلئے
لٰکن سے کلام بڑھایا گیا ہے، یعنی وَلَٰكِنْ رَسُولَ اللَّهِ بطور مَدح ہے، اور مدح
کیونکر ہے، اس کی تشریح اوپر آگئی ہے ]۔
دوسرا سوال: یہاں یہ پوچھا جاسکتا ہے کہ آپ کس امت کے روحانی
باپ ہیں ؟
آپ ﷺ کی امت دو قسم کی
ہے، امتِ دعوت اور امتِ اجابت، امتِ اجابت وہ ہے، جس نے آپ ﷺ کی دعوت پر لبیک کہا،
اور اسلام کے حلقہ بگوش ہوگئے، اور امتِ دعوت وہ لوگ ہیں، جنہوں نے آپ ﷺ کی دعوت قبول
نہیں کی، مثلاﹰ یہود و نصاریٰ اور مجوس، تمام مشرکین اور کفار و ملحدین، جن
کو دعوت دی جارہی ہے کہ آو! اور حضور ﷺ کی دعوت قبول کرکے دائرۂ اسلام میں داخل ہوجاؤ،
تو یہ امتِ دعوت ہیں۔
جواب: تو جاننا چاھئے کہ آپ ﷺ صرف امتِ اجابت کے روحانی باپ
ہیں، امتِ دعوت کے روحانی باپ نہیں ہیں، اور آپ ﷺ کی ازواجِ مطہرات صرف امتِ اجابت
کی روحانی مائیں ہیں، اس کی وضاحت حضرت اقدس مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی رحمہ اللہ
تعالیٰ کی مشہور کتاب "آبِ حیات" میں ہے، کہ اُبُوتِ روحانی کا مبنیٰ ھیآکلِ
ایمانی پر ہے، اور ظاہر ہے کہ ان ھیآکل کا وجود صرف مؤمنین، اور ان کے پیغمبر کے درمیان
ہے، نبی اور امتِ دعوت کے درمیان ان ھیآکل کا وجود نہیں ہے، اس لئے نبی ان کےلئے روحانی
باپ نہیں ہیں۔
ایک اور سوال: یہاں پہنچ کر ایک اشکال ہوتا ہے کہ پچھلی امتوں
کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ حضورِ اکرم ﷺ ان
کے روحانی باپ ہیں، یا نہیں ؟
جواب: وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ میں اسی سوال کا جواب ہے، کہ
آپ ﷺ تمام نبیوں کے خاتم ہیں، خاتم کی تشریح ابھی آتی ہے کہ خاتم کے معنیٰ ہیں، تمام
نبیوں کی نبوت، آپ ﷺ کی نبوت کا فیض ہے، جب تمام نبیوں کو نبوت آپ ﷺ کے طفیل ملی ہے،
تو آپ ﷺ تمام انبیاء کے بھی روحانی باپ ہوئے، اور ہر نبی اپنی امت کا روحانی باپ ہوتا
ہے، پس آپ ﷺ تمام امتوں کے روحانی دادا ہوئے، کیونکہ حضورِ اکرم ﷺ جس طرح نبی الامہ
ہیں، اسی طرح نبی الانبیاء بھی ہیں۔
خاتم النبین کی شرح:
اس کے بعد جاننا چاھئے کہ وَلَٰكِنْ رَسُولَ اللَّهِ میں تو کوئی پیچیدگی نہیں
ہے، اس کا مطلب تو واضح ہے، کہ حضورِ اکرم ﷺ ہمارے لئے، اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں، اور
امتِ اجابت کے روحانی باپ ہیں، لیکن جو دوسرا ٹکڑا ہےِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ، اس
کی تشریح و توضیح ضروری ہے۔
سب سے پہلے لفظِ خاتم کو سمجھئے، اس کا مادّہ خَتْمٌ ہے، خَتَمَ
یَخْتِمُ بابِ ضرب سے آتا ہے، خاتِم بکسر التاء، اسمِ فاعل ہے، اور خاتَم بفتح التاء،
اسم آلہ ہے، خاتِم اسمِ فاعل کے معنیٰ ہیں، ختم کرنے والا یعنی پورا کرنے والا، پایۂ تکمیل کو پہنچانے والا،
اور خاتَم بفتح التاء کے معنیٰ ہیں، وہ آلہ جس کے ذریعہ سے، کسی چیز پر مہر لگائی جاتی
ہے، جسے آپ "مہر"بھی کہہ سکتے ہیں، جو ربڑ کی بنی ہوئی ہوتی ہے، اب غور یہ
کرنا ہے کہ دونوں معنوں میں سے کونسے معنیٰ اصلی ہیں، ابن فارس (متوفی ٣٩٥ھ ) بھت بڑے
امام لغت ہیں، ان کی کتاب مُعْجَمُ مَقَایِیس اللغۃ ہے، یہ کتاب چھ جلدوں میں ہے، اور
اس کتاب کا موضوع یہ ہے کہ وہ ایک مادّہ لیتے ہیں، اور اس کے اصلی معنیٰ بتاتے ہیں،
پھر اس کے مجازی استعمال بتاتے ہیں، نیز اشتقاق کبیر کے اعتبار سے مادّوں کے درمیان
معانی کا فرق بھی بتلاتے ہیں، ابن فارس نے اپنی اسی کتاب میں خَتَمَ یَخْتِمُ کے معنیٰ
لکھے ہیں: بُلُوْغُ آخِرِ الشیئ، یعنی کسی چیز کا اخیر تک پہنچ جانا، عرب کہتے ہیں:
خَتَمْتُ العَمَلَ، میں نے کام پورا کردیا، خَتَمَ القَارِی السُّوْرَةَ، قاری صاحب
نے سورت پوری کرلی، یہ ہیں اس لفظ کے اصلی معنیٰ، پھر علماء نے فرمایا کہ مہر لگانے
کو ختم اس لئے کہا جاتا ہے کہ جب کسی تحریر کو مکمل کرلیا جاتا ہے، تو اخیر میں مہر
لگائی جاتی ہے، اس لئے مہر کو بھی ختم کہدیا جاتا ہے، ابن فارس لکھتے ہیں: فَامّا الخَتْمُ،
و ھو الطبع علیٰ الشیئ، فذٰالک من الباب ایضاً، لان الطبع علیٰ الشیئ لایکون الا بعد
بلوغ اٰخرہ فی الاحراز، و الخاتم مشتق منہ، لان بہ یُخْتَم (مُعْجَمُ مَقَایِیس اللغۃ
جلد نمبر ٢ صفحہ نمبر ٢٤٥ ) رہا لفظِ ختم، جس کے معنیٰ ہیں، کسی چیز پر مہر لگانا،
تو یہ لفظ بھی اسی باب سے ہے، کیونکہ کسی چیز پر مہر اس وقت لگتی ہے، جب وہ چیز پوری
ہوجائے، اور سمیٹ لی جائے، اور لفظِ خاتَم (اسمِ آلہ) اسی مادّہ سے بنایا گیا ہے، کیونکہ
اس کے ذریعہ مہر لگائی جاتی ہے ___ اس لغوی تشریح کے بعد دوسری بات شروع کرتا ہوں،
جو ذرا دقیق ہے، اسے غور سے سماعت فرمائیں۔
جاری
قسط نمبر: تین
پوری دنیا میں دو قسم کی چیزیں ہیں، ایک ذوات اور دوسری صفات، جیسے یہ کاغذ اور
اس کی سفیدی، تو سفیدی وصف ہے، اور کاغذ کا وجود اس کی ذات ہے، ذوات کو آپ چھوڑئیے،
اوصاف کو لیجئے ، دنیا میں جتنے اوصاف ہیں، دو قسم کے ہیں، ایک ہیں بالذات اور ایک
ہیں بالعرض، مثلاﹰ صبح سورج طلوع ہوتا ہے، اس کی روشنی دارِ جدید کی دیواروں پر
پڑتی ہے، اور یہ روشنی درسگاہوں میں بھی آتی ہے، بتائیے! یہ درسگاہ کی روشنی ذاتی ہے
؟ نہیں ذاتی نہیں ہے، ورنہ بلب جلانے کی کیا ضرورت تھی، بلکہ یہ روشنی بالعرض ہے، اور
جو روشنی دیواروں پر پڑتی ہے، وہ ذاتی ہے، اور جو درسگاہ میں آرہی ہے، وہ باہر کی روشنی
کا عکس ہے، چنانچہ سامنے کے تین دروازے بند کردیجئے، ابھی اندھیرا ہوجائےگا، معلوم
ہوا، یہ روشنی بالعرض ہے۔
اب جو روشنی دیواروں پر پڑرہی ہے، اس میں غور کیا، تو معلوم
ہوا کہ وہ بھی ذاتی نہیں ہے، کیونکہ اگر بالذات ہوتی، تو ہمیشہ قائم رہتی، بلکہ وہ
بھی بالعرض ہے، کیونکہ وہ روشنی سورج سے آرہی ہے، اب قاعدہ سمجھئے کہ جتنی صفات بالعرض
ہوتی ہیں، وہ کسی موصوف بالذات پر جاکر منتہی ہوتی ہیں، اور موصوف بالذات سے تجاوز
نہیں کرسکتیں، جیسے در و دیوار کی روشنی سورج کا فیض ہے، مگر سورج کی روشنی اس کی ذاتی
ہے۔
اور اگر کوئی کہے کہ سورج کی روشنی ذاتی نہیں ہے، کہیں اور سے آئی ہے، تو ہم پوچھتے
ہیں کہ کہاں سے آئی ہے ؟ پھر اس منبعِ نور
کے بارے میں سوال ہوگا، کہ اس میں کہاں سے روشنی آئی ہے، الغرض یہ شیطان کی آنت کہیں
پہنچ کر رکے گی، یا نہیں ؟ اگر نہیں رکتی، تو تسلسل لازم آئےگا، جو محال ہے، اور اگر
رکتی ہے، تو سورج کے بجائے ہم اسی کو موصوف بالذات مانیں گے۔
اب دیکھئے! کہ نبوت کسی ذات کا نام نہیں ہے، نبوت وصف کا نام
ہے، اور نبی ذات مع الوصف کا نام ہے، یعنی نبی وہ شخصیت ہے، جو وصفِ نبوت کے ساتھ متصف
ہے، اور نبوت صرف صفت کا نام ہے، حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر حضورِ اکرم ﷺ تک سب انبیاء ہیں، اور جو رسول ہیں، وہ بھی نبی
ہیں، کیونکہ رسول، نبی سے اخص ہے، اور نبی عام ہے، اور اعم اخص کے ساتھ ہمیشہ موجود
رہتا ہے، جیسے انسان، حیوان سے اخص ہے، اور حیوان اعم ہے، اس لئے جو بھی انسان ہوگا،
وہ حیوان ضرور ہوگا، اسی طرح جو بھی رسول ہوگا، وہ نبی ضرور ہوگا، لٰہذا صرف انسانوں
کے اعتبار سے نبی اور رسول میں عام و خاص مطلق کی نسبت ہے، نبی عام ہے، اور رسول خاص،
اور ملائکہ کو بھی شامل کرلیا جائے، تو پھر من وجہٍ کی نسبت ہوگی، اور تین مادے اس
طرح نکلیں گے، حضرت موسیٰ علیہ السلام رسول بھی ہیں، اور نبی بھی (مادّۂ اجتماعی)
اور انبیائے بنی اسرائیل صرف نبی ہیں (مادّۂ افتراق) اور حضرت جبرئیل علیہ الاسلام
صرف رسول ہیں (دوسرا مادّۂ افتراق )۔
اب غور کیجئے کہ یہ سارے انبیائے کرام، جو تعداد میں ایک لاکھ
سے زیادہ ہیں، یہ سب کے سب وصفِ نبوت کے ساتھ بالذات متصف ہیں، یا بالعرض ؟ یا بعض
بالذات اور بعض بالعرض متصف ہیں ؟ یہ احتمال کہ سب کے سب متصف بالذات ہیں، سمجھ میں
نہیں آتا، اسی طرح یہ احتمال کہ سب بالعرض متصف ہیں، یہ بھی سمجھ میں نہیں آتا، لامحالہ
ماننا پڑےگا کہ ان میں سے کوئی ایک نبی صفتِ نبوت کے ساتھ بالذات متصف ہے، اور باقی
سارے انبیائے کرام کی نبوت اسی موصوف بالذات کی نبوت کا پَرتَو اور فیض ہے،َخَاتَمُ
النَّبِيِّينَ میں یہی مضمون بیان کیا گیا
ہے، کہ آپ ﷺ کی نبوت تو بالذات ہے، اور دیگر انبیائے کرام کی نبوت، آپ کی نبوت کا فیض
ہے، جہاں جہاں آپ ﷺ کا فیض پہنچا، وہ وصفِ نبوت کے ساتھ متصف ہوگئے، یعنی حضورِ اکرم
ﷺ تمام نبیوں کی نبوت کا منبع ہیں، آپ ﷺ کی نبوت کے طفیل میں سارے نبیوں کی نبوت وجود
میں آئی ہے، لٰہذا تمام انبیاء کی نبوت، چاہے وہ رسول ہوں، یا نبی ہوں، سب کی نبوت
خاتم النبین ﷺ کی نبوت کا فیض ہے، معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کی نبوت بالذات ہے، اور
دیگر موصوفین بالعرض کا سلسلہ، آپ ﷺ کی ذات پر منتہی ہوتا ہے، اس لئے آپ ﷺ خاتم النبین
ہیں۔
اس طویل سمع خراشی کا مقصد یہ ہے کہ قادیانی امت، حضرت اقدس
مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی رحمہ اللہ تعالیٰ کی عبارتوں میں کتربونت کرکے لوگوں
کو دھوکہ دیتی ہے، اس لئے ہمارے طلبہ کو پہلے حضرت نانوتوی رحمہ اللہ تعالیٰ کی بات
سمجھنی چاھئے۔
حضرت نانوتوی رحمہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ تمام نبیوں
کی نبوت، آپ ﷺ کی نبوت کا فیض ہے، یہی آپ ﷺ کا سب سے بڑا کمال ہے، اور عام لوگ جو خاتم
النبین کا مطلب صرف اتنا سمجھتے ہیں، کہ آپ ﷺ سارے نبیوں کے اخیر میں تشریف لائے ہیں،
بس اتنا جو سمجھتے ہیں، وہ اس کا صحیح مطلب نہیں سمجھتے ہیں، کیونکہ صرف آگے پیچھے
ہونا کوئی کمال نہیں ہے، حضرت نانوتوی رحمہ اللہ تعالیٰ نے یہ بات "تحذیر الناس
" میں لکھی ہے، کتاب کے آغاز میں صفحہ نمبر ٢ پر حضرت ؒ نے تحریر فرمایا ہے کہ
"عوام کے خیال میں تو رسول اللہ ﷺ کا خاتم ہونا بایں معنیٰ ہے، کہ آپ ﷺ کا زمانہ
انبیاءِ سابق کے زمانہ کے بعد، اور آپ ﷺ سب سے آخر نبی ہیں، مگر اہلِ فہم پر روشن ہوگا
کہ تقدم یا تأخر زمانی میں بالذات کچھ فضیلت نہیں "۔
اس کے بعد صفحہ نمبر ١٦ پر تحریر فرماتے ہیں کہ "اطلاق
خاتم اس بات کو مقتضی ہے، کہ تمام انبیاء کا سلسلۂ نبوت آپ ﷺ پر ختم ہوتا ہے، جیسے
انبیاءِ گذشتہ کا وصفِ نبوت میں حسبِ تقریر مسطور اس لفظ سے آپ ﷺ کی طرف محتاج ہونا
ثابت ہوتا ہے، اور آپ ﷺ کا اس وصف میں کسی کی طرف محتاج نہ ہونا، اس میں انبیاءِ گذشتہ
ہوں، یا کوئی اور، اسی طرح اگر فرض کیجئے، آپ کے زمانہ میں بھی اس زمین میں، یا کسی
اور زمین میں، یا آسمان میں کوئی نبی ہو، تو وہ بھی اس وصفِ نبوت میں آپ ہی کا محتاج
ہوگا، اور اس کا سلسلۂ نبوت بہرطور آپ ﷺ پر مختتم ہوگا، اور کیوں نہ ہو، عمل کا سلسلہ
علم پر ختم ہوتا ہے، جب علم ممکن للبشر ہی ختم ہوگیا ، تو پھر سلسلۂ علم و عمل کیا
چلے، غرض اختتام اگر بایں معنیٰ تجویز کیا جاوے، جو میں نے عرض کیا، تو آپ ﷺ کا خاتم
ہونا انبیاءِ گذشتہ ہی کی نسبت خاص نہ ہوگا، بلکہ اگر بالفرض آپ ﷺ کے زمانہ میں بھی
کہیں اور کوئی نبی ہو، جب بھی آپ کا خاتم ہونا بدستور باقی رہتا ہے "۔
ان عبارتوں کو سمجھنے کےلئے پہلے یہ سمجھ لیجئے کہ تحذیرالناس
کا موضوع کیا ہے ؟ تحذیرالناس کا موضوع یہ ہے کہ قرآن کریم میں سورۂ طلاق آیت نمبر
١٢ میں ارشاد ہے: اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ،
یعنی اللہ تعالیٰ نے سات آسمانوں کی طرح سات زمینیں پیدا فرمائی ہیں، اس ضمن میں حضرت
ابن عباس رضی اللہ عنہما کا ایک اثر مروی ہے، کہ اللہ تعالیٰ نے سات آسمان پیدا فرمائے،
اور سات زمینیں پیدا فرمائیں، اور ہر زمین میں مخلوق ہے، اور آدم ہیں تمہارے آدم کی
طرح، نوح ہیں تمہارے نوح کی طرح، ابراہیم ہیں تمہارے ابراہیم کی طرح، اور عیسیٰ ہیں
تمہارے عیسیٰ کی طرح، اور محمد ہیں تمہارے محمد کی طرح [ و اخرج ابن جریر، و ابن ابی
حاتم، و الحاکم و صححہٗ، و البیھقی فی الشعب، و فی الاسماء و الصفات عن ابی الضحیٰ
عن ابن عباس فی قولہ: وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ،
قال: سبع ارضین، فی کل ارض نبی کنبیکم، و آدم کآدم، و نوح کنوح، و ابراہیم کابراہیم،
و عیسیٰ کعیسیٰ، قال البیھقی: اسنادہ صحیح، و لٰکنہ شاذ، لااعلم لابی الضحیٰ علیہ متابعاً،
الدرالمنثور جلد نمبر ٦ صفحہ نمبر ٢٣٨ ] یہ روایت ہے، اس روایت کا ایک زمانہ میں لوگوں
نے انکار کردیا، یہ خیال کرتے ہوئے کہ اگر چھ زمینوں میں چھ محمد اور ہیں، تو وہ خاتم
النبین بھی ہونگے، جبکہ قرآن کریم کہتا ہے کہ حضور ﷺ خاتم النبین ہیں، لٰہذا یہ روایت
غلط ہے، یہ سوال اس زمانہ میں پیدا ہوا، اور یہ سوال حضرت نانوتوی رحمہ اللہ تعالیٰ
کے پاس آیا، حضرت نانوتوی ؒ نے اس سوال کا جواب لکھا، جس کا نام ہے "فتویٰ تحذیرالناس
من انکار اثر ابن عباس رضی اللہ عنہما " کتاب کا پورا نام یہ ہے، اس کتاب میں
حضرت نانوتوی رحمہ اللہ تعالیٰ نے نہایت وضاحت کے ساتھ ثابت کیا، کہ اگر بالفرض آپ
کے زمانہ میں کوئی نبی ہو، تو وہ بھی آپ کی نبوت کا فیض ہوگا، اور اس زمین کے علاوہ
دوسری زمینوں میں اگر چھ محمد ہیں، تو وہ بھی آپ ﷺ کی نبوت کا فیض ہے ، یعنی حضرت ابن
عباس رضی اللہ عنہما کی روایت کے مطابق اگر چھ زمینوں میں چھ محمد ہیں، تو وہ بھی وصفِ
نبوت کے ساتھ موصوف بالعرض ہیں، اور حضورِ اکرم ﷺ وصفِ نبوت کے ساتھ موصوف بالذات ہیں،
تو اگر سات زمینیں ہیں، اور ساتویں زمینوں میں محمد ہیں، تو وہ بھی آپ ﷺ کی نبوت کا
فیض ہیں، جس طرح اس زمین پر جتنے انبیاء ہیں، ان کی نبوت بھی حضورِ اکرم ﷺ کی نبوت
کا فیض ہے، نیز ان زمینوں میں جو آدم، نوح، ابراہیم، موسیٰ، عیسیٰ وغیرہ ہیں، ان سب
کی نبوت مستفیض ہے، اس زمین کے خاتم النبین ﷺ کی نبوت سے۔
قادیانیوں نے حضرت رحمہ اللہ تعالیٰ کی مذکورہ بالا عبارتوں
میں کتربونت کرکے لوگوں کو یہ باور کرانے کی مذموم سعی کی ہے کہ دیکھو! حضور ﷺ کے بعد
بھی نبی ہوسکتا ہے، مولانا نانوتوی ؒ اجرائے نبوت کے قائل ہیں، حالانکہ حضرت ؒ نے تحذیرالناس
ہی میں اس مسئلہ کو صاف کردیا ہے کہ حضورِ اکرم ﷺ کے بعد جو نبوت کا قائل ہے، وہ کافر
ہے، حضرت ؒ تحریر فرماتے ہیں کہ "اگر اطلاق اور عموم ہے، تب تو ثبوتِ خاتمیتِ
زمانی ظاہر ہے، ورنہ تسلیم لزوم خاتمیتِ زمانی بدلالتِ التزامی ضرور ہے، ادھر تصریحات
نبوی ﷺ مثل انت منی بمنزلة ھارون من موسیٰ، الا انہ لانبی بعدی، او کما قال، جو بظاہر
بطرز مذکور اسی لفظ خاتم النبین سے ماخوذ ہے، اس باب میں کافی، کیونکہ یہ مضمون درجۂ
تواتر کو پہنچ گیا ہے، پھر اس پر اجماع بھی منعقد ہوگیا، گو الفاظ مذکور بسند متواتر
منقول نہ ہوں، سو یہ عدمِ تواترِ الفاظ باوجود تواترِ معنوی یہاں ایسا ہی ہوگا، جیسا
تواترِ اعدادِ رکعات فرض و وتر وغیرہ، باوجودیکہ الفاظ احادیثِ تعداد رکعات متواتر
نہیں، جیساکہ اس کا منکر کافر ہے، ایسا ہی اس کا منکر بھی کافر ہوگا " (تحذیرالناس
صفحہ نمبر ١٠ تا ١١)۔
اس کی مزید تشریح یہ ہے کہ ختمِ نبوت کی تین قسمیں ہیں، اور
تینوں حضورِ اکرم ﷺ کو حاصل ہیں، یعنی آپ ﷺ تینوں اعتباروں سے خاتم النبین ہیں، ختمِ
نبوت کی تین قسمیں یہ ہیں، ختمِ نبوت رتبی، ختمِ نبوت زمانی اور ختمِ نبوت مکانی ۔
جاری
قسط نمبر: چار / چانچ
/ چھ ( مکمل)
ختمِ نبوت رتبی:
ختمِ نبوت رتبی کا کیا مطلب ہے ؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ
کی نبوت بالذات ہے، اور دیگر انبیائے کرام، از آدم تا عیسیٰ علیہم الصلوٰۃ والتسلیمات
کی نبوت، اور دوسری چھ زمینوں کے نبیوں کی نبوت بالعرض ہے، اور حضورِ اکرم ﷺ کی نبوت کا فیض ہے، یعنی آپ ﷺ پر نبوت کے تمام مرتبے ختم ہوگئے ہیں، یہ ختمِ نبوت
رتبی کا مطلب ہے۔
ختمِ نبوت مکانی:
اور ختمِ نبوت مکانی کا کیا مطلب ہے ؟ حضرت نانوتوی رحمہ اللہ
تعالیٰ نے بڑی تفصیل سے سمجھایا ہے کہ سات زمینوں میں سب سے افضل ہماری یہ زمین ہے،
اس لئے حقیقی خاتم النبین بھی اسی اعلیٰ اور افضل زمین میں تشریف لائے ہیں، پس مکان
(زمینوں) کے اعتبار سے بھی اس زمین کے خاتمِ حقیقی، خاتم النبین ہوئے، یہ ہے ختمِ
نبوت مکانی کا مطلب۔
ختمِ نبوت زمانی:
تیسری قسم ختمِ نبوت زمانی ہے، ختمِ نبوت زمانی کا مطلب یہ ہے
کہ جو ہستی، حقیقی خاتم النبین ہے، اس کا دور اور زمانہ دوسرے بالعرض متصفین کے بعد
ہے، اور سب انبیاء کے آخر میں وہ تشریف لائے ہیں، ان کے بعد کوئی نیا نبی نہیں آئے
گا، یہ ہے ختمِ نبوت زمانی کا مطلب۔
ختمِ نبوت رتبی اور زمانی
میں تلازم:
حضرت نانوتوی رحمہ اللہ تعالیٰ نے یہ مسئلہ بھی صاف کردیا ہے
کہ ختمِ نبوت رتبی کےلئے ختمِ نبوت زمانی لازم ہے، کیونکہ جو ہستی وصفِ نبوت کے ساتھ
بالذات متصف ہے، اگر وہ تمام نبیوں سے پہلے آئے، یا ان کے درمیان میں آئے، تو محذور
لازم آئےگا، اور وہ خرابی یہ ہے کہ خاتم النبین ﷺ کے بعد جو نبی آئیں گے، اگر ان کے
پاس وحی نہ آئے، اور وہ نئی شریعت نہ دئیے جائیں، تو وہ نبی نہیں ہونگے، اور اگر ان
انبیاءِ متأخرین کے پاس وحی تو آئے، مگر اس میں علومِ جدیدہ نہ ہوں، تو وہ وحی تحصیلِ
حاصل ہوگی، اور اگر ان کے پاس وحی آئے، اور نئی شریعت دئیے جائیں، تو موصوف بالعرض
کی شریعت سے، موصوف بالذات کی شریعت کا منسوخ ہونا لازم آئےگا، حالانکہ ناسخ کےلئے
منسوخ سے افضل، یا کم از کم مساوی ہونا ضروری ہے، مفضول، افضل کےلئے ناسخ نہیں ہوسکتا،
اللہ پاک کا ارشاد ہے: مَا نَنْسَخْ مِنْ آيَةٍ
أَوْ نُنْسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِنْهَا أَوْ مِثْلِهَا، ہم کسی آیت کا حکم، جو موقوف
کردیتے ہیں، یا اس آیت (ہی) کو (ذہنوں سے ) فراموش کردیتے ہیں، تو ہم اس آیت سے بہتر
یا اس آیت ہی کے مثل لے آتے ہیں، اس آیت سے دو اور دو چار کی طرح ثابت ہوتا ہے کہ ناسخ
ہمیشہ منسوخ سے بہتر یا منسوخ کے مانند ہوتا ہے، پس اگر خاتم النبین شروع میں آجائیں،
یا درمیان میں آجائیں، تو بعد میں آنے والے نبیوں کی شریعت، ان کی شریعت کو منسوخ کردے
گی، اور یہ بات ممکن نہیں ہے، اسی لئے حضرت نانوتوی رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ
خاتم النبین کےلئے سب سے اخیر میں آنا ضروری ہے، اور ختمِ نبوت رتبی کےلئے تأخرِ زمانی
لازم ہے، حضرت نانوتوی قدس سرہٗ تحریر فرماتے ہیں کہ: بالجملہ رسول اللہ ﷺ وصفِ نبوت
میں موصوف بالذات ہیں، اور سوا آپ ﷺ کے اور انبیاء موصوف بالعرض، اس صورت میں اگر رسول
اللہ ﷺ کو اوّل یا اوسط میں رکھتے تو انبیاءِ متأخرین کا دین اگر مخالفِ دینِ محمدی
ہوتا، تو اعلیٰ کا ادنٰی سے منسوخ ہونا لازم آتا، حالانکہ خود فرماتے ہیں: مَا نَنْسَخْ
مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنْسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِنْهَا أَوْ مِثْلِهَا، اور کیوں نہ ہو،
یوں نہ ہو تو اعطاءِ دین منجملۂ رحمت نہ رہے، آثارِ غضب میں سے ہوجائے، ہاں اگر یہ
بات متصور ہوتی کہ اعلیٰ درجہ کے علماء کے علوم، ادنٰی درجہ کے علماء کے علوم سے کمتر
اور اَدْوَن ہوتے ہیں، تو مضائقہ بھی نہ تھا، پر سب جانتے ہیں کہ کسی عالم کا عالی
مراتب ہونا، علوِ مراتبِ علوم پر موقوف ہے، یہ نہیں تو وہ بھی نہیں، اور انبیاءِ متأخر
کا دین، اگر مخالف نہ ہوتا تو یہ بات تو ضرور ہے کہ انبیاءِ متأخر پر وحی آتی، اور
افاضۂ علوم کیا جاتا، ورنہ نبوت کے پھر کیا معنیٰ ؟ سو اس صورت میں اگر وہی علومِ
محمدی ہوتے، تو بعد وعدۂ محکم إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْر وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ
کے جو بہ نسبت اس کتاب کے جس کو قرآن کہئے، اور بشہادتِ آیہ وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ
الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ جامع العلوم ہے، کیا ضرورت تھی، اور اگر علومِ
انبیاءِ متأخر علومِ محمدی کے علاوہ ہوتے تو اس کتاب کا تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ
ہونا غلط ہوجاتا۔
بالجملہ جیسے ایسے نبی جامع العلوم کےلئے ایسی ہی کتاب جامع
چاھئے تھی، تاکہ علوِ مراتبِ نبوت، جو لاجرم علوِ مراتبِ علمی ہے، چنانچہ معروض ہوچکا
میسّر آئے، ورنہ یہ علوِ مراتبِ نبوت بیشک ایک قول دَروغ اور حکایت غلط ہوتی، ایسے
ہی ختمِ نبوت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بمعنیٰ معروض کو تأخرِ زمانی لازم ہے۔ (تحذیرالناس
صفحہ نمبر ٨ اور ٩)
پس ثابت ہوا کہ قادیانی امت کا حضرت نانوتوی رحمہ اللہ تعالیٰ
کی عبارت سے لوگوں کو یہ تأثر دینا کہ مولانا نانوتوی ؒ اجرائے نبوت کے قائل ہیں، یہ
محض دھوکہ ہے، حضرت کی عبارت بےغبار ہے، لَا يَأْتِيهِ الْبَاطِلُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ
وَلَا مِنْ خَلْفِهِ، کسی طرح بھی حضرتؒ کی عبارت سے باطل کا ایہام پیدا نہیں ہوتا،
وَاللہ یَھْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْم۔
حدیث لوْ کَانَ نَبِیٌّ
بَعْدِیْ سے استدلال کا جواب:
قادیانی امت مسلمانوں کے سامنے ایک حدیث بھی پیش کرتی ہے، اور
بزعمِ خود اس سے اجرائے نبوت پر استدلال کرتی ہے، اس لئے اس کو بھی سمجھ لینا ضروری
ہے، وہ حدیث یہ ہے: لوْ کَانَ نَبِیٌّ بَعْدِیْ لَکَانَ عُمر بن الخطاب، یعنی حضورِ
اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اگر (بالفرض) میرے بعد
کوئی نبی ہوتا تو عمر بن خطاب نبی ہوتے[ رواہ الترمذی فی مناقب عمر رضی اللہ عنہ، قال
الشارح: و اخرجہ احمد و ابن حبان، و اخرجہٗ الطبرانی فی الاوسط من حدیث ابی سعید۔ تحفۃ
الاحوذی جلد نمبر ٤ صفحہ نمبر ٣١٥ ] یہ حدیث حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فضائل میں وارد
ہوئی ہے، گویا اگر نبوت کا سلسلہ جاری ہوتا، تو عمر ؓ کو نبوت سے سرفراز کیا جاتا،
یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی صلاحیتیں اس درجہ کی ہیں، کہ ان کو نبوت سے سرفراز کیا
جائے، مگر چونکہ نبوت کا سلسلہ منقطع ہوچکا ہے، اس لئے یہ چیز اب ممکن نہیں ہے۔
ایک اور حدیث:
قادیانی امت اسی طرح کی ایک اور حدیث بھی مسلمانوں کے سامنے
پیش کرتی ہے، وہ حدیث ابن ماجہ کی ہے کہ لو عَاشَ اِبْرَاھِیْمُ لَکَانَ صِدّیْقاً
نَّبِیّاً، یعنی اگر حضورِ اکرم ﷺ کے صاحبزادے حضرت ابراہیم زندہ رہتے، تو سچے نبی
ہوتے[ ابن ماجہ، کتاب الجنائز، باب ماجاء فی الصلوٰۃ علی ابن رسول اللہ ﷺ، و ذکر وفاتہ
جلد نمبر ٢ صفحہ نمبر ٤٨٤ مصری ] اس حدیث کے بارے میں ذرا تفصیل سے سمجھ لیجئے۔
حضورِ اکرم ﷺ کے ایک صاحبزادے تھے، جن کا نام ابراہیم تھا، حضرت ماریہ قبطیہ رضی
اللہ عنہا کے بطن سے پیدا ہوئے تھے، اور سترہ، اٹھارہ ماہ کے ہوکر انتقال فرماگئے تھے،
ان کے بارے میں دو حدیثیں ہیں، ایک مرفوع، جو صحیح نہیں ہے، اور ایک موقوف، جو صحیح
ہے، مرفوع حدیث یہ ہے: لو عَاشَ اِبْرَاھِیْمُ لَکَانَ صِدّیْقاً نَّبِیّاً، یہ حدیث
ابن ماجہ میں ہے، مگر صحیح نہیں ہے، اس کی سند میں ایک راوی ہے، جس کا نام ابراہیم
بن عثمان ہے، اس کی کنیت ابوشیبہ ہے، وَاسط کے قاضی تھے، جن کی مصنف ابن ابی شیبہ ہے،
ان کے دادا ہیں، مگر ضعیف ہیں، امام نسائی نے ان کو متروک الحدیث قرار دیا ہے، امام
احمد نے ان کو منکر الحدیث کہا ہے، مقدمۂ مسلم میں ہے کہ امام شعبہ سے دریافت کیا
گیا کہ ان سے روایت لی جائے، یا نہ لی جائے ؟ تو امام شعبہ نے فرمایا کہ ان سے روایت
مت لو، وہ بُرے آدمی ہیں، اور میرا یہ خط پڑھ کر پھاڑ دو، کیونکہ وہ قاضی تھے، اگر
ان کو معلوم ہوجاتا کہ شعبہ نے ان کے بارے میں جرح کی ہے، تو امام شعبہ کےلئے پریشانی
کھڑی ہوسکتی تھی، صالح جزرہ نے ان کے بارے میں فرمایا ہے کہ: ضعیف، لایکتب حدیثہٗ،
روی عن الحاکم احادیث مناکیر، ضعیف راوی ہے، اس کی حدیثیں نہ لی جائیں، وہ حَکَم بن
عتبہ سے منکر روایتیں کرتا ہے، اور لو عَاشَ اِبْرَاھِیْمُ والی روایت انہوں نے حَکم
بن عتبہ سے روایت کی ہے، اس لئے یہ روایت نہایت ضعیف ہے، موضوع تو نہیں کہتا، لیکن
بھت کمزور درجہ کی روایت ہے، اس لئے اس کے جواب کی ضرورت نہیں ہے، البتہ بخاری شریف
میں ایک حدیث ہے، کتاب الادب میں ایک باب ہے "باب من سمیٰ باسماء الانبیاء
" اس باب میں امام بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ نے حدیث ذکر کی ہے کہ ایک صحابی جنکا
نام عبداللہ بن ابی اوفی ٰہے، ان سے دریافت کیا گیا کہ حضورِ اکرم ﷺ کے صاحبزادے حضرت ابراہیم کے بارے میں بتلائیے ؟
عبداللہ نے جواب دیا کہ ان کا بچپن میں انتقال ہوگیا تھا، وَ لو قَضَیٰ اَنْ یَکُوْنَ
بَعْدَ مُحمد ﷺ نَبِی، لَعَاشَ اِبْنَہٗ وَ لٰکِن لَانَبِیَ بَعْدَہٗ ، یہ حدیث بخاری
شریف میں بھی ہے، اور ابن ماجہ میں بھی ہے، لیکن یہ ایک صحابی کا قول ہے، کہ حضورِ
اکرم ﷺ کے بعد اگر نبوت کا سلسلہ جاری رکھنا مقدر ہوتا، تو حضرت ابراہیم زندہ رہتے،
تاکہ آپ ﷺ کے بعد انہیں نبوت سے سرفراز کیا
جاتا، لیکن چونکہ آپ ﷺ کے بعد نبوت کا سلسلہ بند ہوچکا ہے، اس لئے انکو زندگی نہیں
بخشی گئی۔
یہ حدیث صحیح ہے، اسی طرح لو کَانَ نَبِیٌّ بَعْدِیْ لَکَانَ
عُمر بن الخطاب بھی صحیح حدیث ہے، ان حدیثوں سے قادیانی اس طرح استدلال کرتے ہیں کہ
ان حدیثوں میں حضورِ اکرم ﷺ کے بعد نبوت کا جاری رہنا فرض کرکے کلام کیا گیا ہے، اور
جو چیز فرض کی جاتی ہے، وہ ممکن ہوتی ہے، پس حضورِ اکرم ﷺ کے بعد نبوت کا امکان ثابت
ہوا۔
جواب:
ان دو حدیثوں کا جواب آپ حضرات مختصر المعانی صفحہ نمبر ١٥١
میں پڑھ چکے ہیں، جہاں حروف شرط کا بیان آیا ہے، یعنی اِنْ، اِذَا، اور لوْ کا جہاں
تذکرہ آیا ہے، وہاں جمہور کا مسلک یہ بیان کیا گیا ہے کہ حرفِ لو لامتناع الثانی لامتناع
الاول کےلئے آتا ہے، یعنی جزا نہیں پائی گئی، اس لئے کہ شرط نہیں پائی گئی، بس لو کا
کام اتنا ہے، جیسے لوْ جِئْتَنِیْ لَاکْرَمْتُکَ (اگر آپ میرے پاس آتے، تو میں آپ کا
اکرام کرتا) یعنی میں نے آپ کا اکرام اس وجہ سے نہیں کیا کہ آپ تشریف نہیں لائے، اگر
آپ تشریف لاتے، تو اکرام کرتا، رہی یہ بات کہ لو کا مدخول ممکن ہوگا، یا ممتنع ؟ تو
اس پر لو کی کوئی دلالت نہیں ہوتی، یہ بات دلائلِ خارجیہ اور قرائن سے طے کی جاتی ہے
کہ لو کا مدخول ممکن ہے، یا ممتنع، کیونکہ لو کا مدخول ممکن اور محال دونوں چیزیں ہوسکتی
ہیں، ممکن کی مثال: ① سورۂ آل عمران
آیت نمبر ١١٠ میں ہے: وَلَوْ آمَنَ أَهْلُ الْكِتَابِ لَكَانَ خَيْرًا لَهُمْ، اگر
اہلِ کتاب ایمان لے آتے، تو ان کےلئے زیادہ اچھا ہوتا، ② سورة الاعراف آیت نمبر ٩٦ میں ہے: وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَىٰ
آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَرَكَاتٍ مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ،
اور اگر ان بستیوں کے رہنے والے ایمان لے آتے، اور پرہیز کرتے، تو ہم ان پر آسمان اور
زمین کی برکتیں کھول دیتے، ان آیتوں میں لو کا مدخول ایمان ہے، جو ممکن ہے، ③ سورة السجدہ آیت نمبر ١٣ میں ہے: وَلَوْ شِئْنَا لَآتَيْنَا
كُلَّ نَفْسٍ هُدَاهَا وَلَٰكِنْ حَقَّ الْقَوْلُ مِنِّي لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ
الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ یہاں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر ہم چاھتے تو
سب کو ہدایت دیدیتے، لیکن ہدایت یاب نہیں ہوئے، کیوں ؟ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے نہیں
چاہا، اس آیت میں لو کا مدخول مشیتِ باری تعالیٰ ہے، جو ممکن ہے، اور لو کا مدخول امرِ
ممتنع بھی ہوتا ہے، جیسے سورۂ زمر آیت نمبر ٤ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: لَوْأَرَادَ
اللَّهُ أَنْ يَتَّخِذَ وَلَدًا لَاصْطَفَىٰ مِمَّا يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ ۚ سُبْحَانَهُ ۖ هُوَ اللَّهُ الْوَاحِدُ
الْقَهَّارُ اگر (بالفرض) اللہ تعالیٰ کسی کو اولاد بنانے کا ارادہ کرتا، تو ضرور
اپنی مخلوق میں سے جسکو چاہتا منتخب فرماتا، وہ پاک ہے، وہ ایسا اللہ ہے، جو واحد ہے،
زبردست ہے، یعنی اولاد ہونا اللہ تعالیٰ کےلئے ممتنع ہے، الغرض لو کا مدخول محال بھی
ہوسکتا ہے، اور ممکن بھی ہوسکتا ہے، یعنی فرض، محال چیز بھی کی جاسکتی ہے، مفروض کےلئے
ممکن ہونا شرط نہیں ہے۔
اب سمجھنا چاھئے کہ ارشادِ نبویﷺ لوَ کَانَ نَبِیٌّ بَعْدِیْ لَکَانَ عُمر بن الخطاب
کا مطلب یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نبی نہیں ہونگے، کیونکہ حضورِ اکرم ﷺ کے بعد
نبوت کا سلسلہ جاری نہیں ہے، یہی مطلب ہے حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ کے ارشاد کا، کہ
اگر حضورِ اکرم ﷺ کے بعد نبوت مقدر ہوتی، تو حضورِ اکرم ﷺ کے صاحبزادے ابراہیم کو زندہ
رکھا جاتا، مگر چونکہ حضورِ اکرم ﷺ پر نبوت کا سلسلہ پورا ہوگیا ہے، اس لئے ان کو زندگی
نہیں دی گئی، الغرض یہ دونوں حدیثیں امکانِ نبوت پر دلالت نہیں کرتیں، بلکہ نفی پر
دلالت کرتی ہیں، یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی، اور صاحبزادے حضرت ابراہیم کی نبوت
کی نفی کی گئی ہے، بوجہِ انقطاعِ نبوت، یہی لو کے معنیٰ ہیں، کیونکہ لو آتا ہے لامتناع
الثانی لامتناع الاول کےلئے۔
حضور ﷺ کے بعد نبوت محال
ہے:
اب رہا یہ سوال کہ حضورِ اکرم ﷺ کے بعد نبوت محال ہے، یا ممکن
؟ تو ظاہر ہے کہ حضورِ اکرم ﷺ کے بعد نبوت واقع فی الخارج تو ہے نہیں، ذہن میں اور
عقلی طور پر کیا ہے ؟ اس سے بحث نہیں، اگر لو سے امکان پیدا ہوتا ہے تو امکانِ ذہنی
اور فرضی پیدا ہوتا ہے، امکانِ واقعی اور حقیقی پیدا نہیں ہوتا، اور صرف امکانِ فرضی
سے کچھ نہیں ہوتا۔
سوال:
اب رہا یہ سوال کہ جب لو کا مدخول ممکن اور ممتنع دونوں ہوسکتے
ہیں، تو حدیث میں لو کا مدخول امرِ ممتنع ہے، اس کی کیا دلیل ہے ؟
جواب:
تو اس کا مختصراً جواب یہ ہے کہ اس بات کی سب سے پہلی اور قطعی
دلیل تو آیتِ کریمہ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ ہے، جس کی تفسیر پہلے عرض کی جاچکی ہے،
اس آیت سے یہ بات صاف ہوجاتی ہے، کہ حضور ﷺ کے بعد نبوت کا امکانِ واقعی اور خارجی
نہیں ہے، عقلی اور فرضی ہو تو ہوا کرے، اس سے کوئی محذور لازم نہیں آتا۔
علاوہ ازیں اس سلسلہ میں متعدد احادیث شریفہ بھی وارد ہوئی ہیں،
جن کو مختصراً عرض کرتا ہوں۔
پہلی حدیث:
حضورِ اکرم ﷺ نے ارشاد
فرمایا کہ میری اور دیگر انبیائے کرام علیھم الصلوٰۃ والسلام کی مثال ایک محل جیسی
ہے، جسے نہایت شاندار تعمیر کیا گیا ہو، مگر اس میں ایک اینٹ کی جگہ خالی چھوڑ دی گئی
ہو، جب لوگوں نے اس محل کا نظارہ کیا، تو اس کی شاندار بناوٹ سے حیرت زدہ رہ گئے، مگر
جب لوگ اس جگہ پہنچے، جہاں ایک اینٹ کی جگہ خالی تھی، تو لوگوں نے کہا کہ کیا ہی اچھا
ہوتا کہ یہاں بھی اینٹ ہوتی، تاکہ محل مکمل ہوجاتا، حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: فَکُنْتُ
اَنَا سَدَدْتُ مَوْضِعَ اللَّبِنَةِ خُتِمَ بِی البُنْیَانُ، وَ خُتِمَ بِیَ الرُّسُلُ
(تو میں ہوں وہ شخص، جس نے خالی اینٹ کی جگہ بھردی ہے، اور پایۂ تکمیل کو پہنچ گیا
ہے میرے ذریعہ محل، اور پورا ہوگیا ہے میرے ذریعہ رسولوں کا سلسلہ ) ایک اور روایت
میں یہ الفاظ ہیں: فَانَا اللَّبِنَةُ، وَ اَنَا خَاتَمُ النَبِیّن (تو میں ہوں وہ
آخری اینٹ، اور میں ہوں ختم کرنے والا نبیوں کا )۔
دوسری حدیث:
حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مجھے چھ باتوں میں دوسرے انبیاء
پر برتری حاصل ہے، ❶ مجھے جامعِ ارشادات
دئےگئےہیں، ❷ اور دبدبہ کے ذریعہ
میری مدد کی گئی ہے، ❸ اور میرے لئے غنیمتیں
حلال کی گئی ہیں، ❹ اور میرے لئے روئے
زمین کو سجدہ گاہ اور پاکی حاصل کرنے کا ذریعہ بنایا گیا ہے، ❺ اور میں تمام مخلوقات کی طرف مبعوث کیا گیا ہوں، ❻ اور میرے ذریعہ نبوت ختم کی گئی ہے (رواہ مسلم)۔
تیسری حدیث:
شفاعتِ کبریٰ والی طویل حدیث میں ہے کہ جب تمام لوگ میدانِ محشر
میں پریشان ہونگے، اور انبیاء سے شفاعت کی درخواست کریں گے، تو سب معذرت کردیں گے،
آخر میں تمام اولین و آخرین حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر بیک زبان عرض کریں گے
کہ یَا مُحَمَّدُ اَنْتَ رَسُوْلُ اللہِ وَ خَاتِمُ الاَنْبِیَاءِ وَ غَفَرَ اللہُ
لکَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَ مَا تَأخَّرَ لَنَا اِلیٰ رَبِّک، آئے محمد ﷺ!
آپ اللہ کے رسول ہیں، اور تمام انبیاء کے خاتم ہیں، اور اللہ تعالٰی نے آپ کے تمام
اگلے پچھلے گناہ معاف فرمادئیے ہیں، آپ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ہمارے لئے سفارش
کیجئے[ مسلم شریف، کتاب الایمان، باب الشفاعة
جلد نمبر ٣ صفحہ نمبر ٦٩، مصری ]۔
چوتھی حدیث:
ایک حدیث شریف اور ہے، حضور اکرم ﷺ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ
سے ارشاد فرمایا کہ اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَةِ ھَارُوْنَ مِنْ مُوْسَیٰ، اِلاَّ اَنَّہٗ
لَانَبِیَّ بَعْدِیْ (متفق علیہ) یعنی جب حضرت موسیٰ علیہ السلام طور پر تشریف لے
گئے تھے، تو حضرت ہارون علیہ السلام نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نیابت کی تھی، اسی
طرح جب حضور اکرم ﷺ تبوک کےلئے روانہ ہوئے، تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مدینہ منورہ
میں اپنا نائب مقرر کیا، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے افسوس کے ساتھ عرض کیا: یا رسول
اللہ! آپ مجھے بچوں اور عورتوں میں چھوڑے جارہے ہیں، اور جہاد کی فضیلت سے مجھے محروم
کررہے ہیں، اس پر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تم کو عورتوں اور بچوں میں چھوڑ کر نہیں
جارہا ہوں، بلکہ اپنا نائب بناکر جارہا ہوں، جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام طور پر تشریف
لے گئے تھے، تو اپنے بھائی حضرت ہارون کو اپنا نائب بنا گئے تھے، لٰہذا تم مدینہ منورہ
میں رہو، اور قوم کی نگہبانی کرو، مگر اس کے بعد معاً حضور اکرم ﷺ کو ایک خیال آیا،
اس لئے فرمایا: اِلَّا اَنَّہٗ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ، مگر ایک بات یاد رکھنا، میرے
بعد کوئی نبی نہیں ہے، یہ ارشاد آپ ﷺ نے اس لئے فرمایا کہ کہیں کسی کو غلط فہمی نہ ہوجائے، کہ جیسے حضرت ہارون علیہ السلام نبی
تھے، حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی نبی ہیں۔
یہ چار حدیثیں ہیں، ان کو خوب ذہن نشین کرلو، بھت ضروری ہیں،
قرآن کریم کی آیت اور احادیث شریفہ سے یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہوگئی، کہ رسول
اللہ ﷺ کے ذریعہ قصرِ نبوت کی تکميل کردی گئی ہے، آپ ﷺ کے بعد کسی نبی کی اب گنجائش
نہیں ہے، کسی طرح کا اب کوئی نبی نہیں آئے گا، یہ امت کا اجماعی عقیدہ ہے، پوری امت
کا اس پر اتفاق ہے کہ آپ ﷺ کے بعد کسی بھی قسم کا کوئی نیا نبی نہیں آسکتا، خواہ وہ
غیر تشریعی ہو، ظلی ہو، یا بُروزی ہو، ہاں البتہ جھوٹا نبی ہوسکتا ہے، جیساکہ حضور
اکرم ﷺ نے اس کی پیشین گوئی فرمائی ہے، میں نے تقریر کے شروع میں آیتِ کریمہ کے بعد
جو حدیث شریف پڑھی تھی، وہ ابوداؤد کی حدیث ہے، حضرت ثوبان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ
ﷺ نے ارشاد فرمایا: سَیَکُوْنُ فِیْ اُمَّتِیْ ثَلَاثُوْنَ کَذَّابْوْنَ، کُلُّھُمْ
یَزْعَمُ اَنَّہٗ نَبِیٌّ وَ اَنَا خَاتَمُ النَبِیّن لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ، آئندہ
میری امت میں تیس جھوٹے نبی پیدا ہونگے، جو سب نبوت کا دعویٰ کریں گے، حالانکہ میں
خاتم النبین ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے[ ابوداؤد شریف، کتاب الفتن، باب اول حدیث
نمبر ٤٢٥٢، اس مضمون کی متعدد احادیث بخاری، مسلم میں بھی ہیں ] یہ حدیث شریف ترمذی
شریف میں بھی ہے، اور حَسَنٌ صَحِیْحٌ، یعنی اعلیٰ درجہ کی حدیث ہے، اس لئے غلام احمد
قادیانی خواہ کسی قسم کی نبوت کا دعویٰ کرے، وہ جھوٹا ہے۔
مسیح موعود علیہ السلام:
اب مسئلہ رہ جاتا ہے مسیح موعود کا، یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام
کی آمد کا ______ وقت کافی گذر چکا ہے، اس لئے مختصراً عرض کروں گا _______ مسیح موعود کے بارے میں اسلامی عقیدہ کیا ہے ؟
آپ سبھی حضرات کو معلوم ہے کہ حضور اکرم ﷺ سے پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل
کے آخری پیغمبر ہوئے ہیں، آپؑ کو زندہ آسمان پر اٹھا لیا گیا ہے، اور آسمان پر زندہ
ہیں، اور آخر زمانہ میں قیامت سے پہلے آپؑ کو زمین پر اتارا جائیگا، جب دجال کا فتنہ
برپا ہوگا، یہ ہے اسلامی عقیدہ، اور قرآن و حدیث میں اس کی تفصیلات موجود ہیں، اب قادیانی
کہتا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کا تو انتقال ہوچکا ہے، وہ آسمان پر نہیں اٹھائے گئے،
ان کی زمین میں ہی کسی جگہ قبر ہے، اور قرآن و حدیث میں قیامت کے قریب جس مسیح کی آمد
کا ذکر ہے، وہ ایک مستقل شخصیت ہے، وہ عیسیٰ علیہ السلام نہیں ہیں، پھر وہ دعویٰ کرتا
ہے کہ وہ مسیح موعود میں ہوں، اور قرآن و حدیث میں مسیح موعود کی جو علامتیں بیان کی
گئی ہیں، اسے اپنے اوپر منطبق کرتا ہے، چنانچہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں
روایات میں آیا ہے، کہ جب وہ قیامت کے قریب دنیا میں تشریف لائیں گے، تو ان کے جسم
مبارک پر دو چادریں ہوگی[ علیہ ثوبان مُمَصَّرَان، و فی روایة: بَینَ مُمَصَّرَیْن،
ای فیھما صُفْرة خفیفةٌ، التصریح صفحہ نمبر ٩٥ اور صفحہ نمبر ١٤٠ ] ایک لنگی کی جگہ
پر، اور دوسری کرتے کی جگہ پر، اور دونوں چادریں ہلکی زرد رنگ کی ہوں گی، اس علامت
کو قادیانی اپنے اوپر اس طرح منطبق کرتا ہے کہ میرے اندر دو بیماریاں ہیں، ایک ہر وقت
پیشاب کے قطروں کا آنا، یہ تو نیچے کی زرد چادر ہے، اور دوسری بیماری مراق یعنی مالیخولیا،
مالیخولیا کیا ہے ؟ پاگل پن کی ابتدائی حد، اس کے بعد انسان مکمل پاگل ہوجاتا ہے،
تو یہ دماغی خرابی ہے، قادیانی کہتا ہے کہ یہ میری دوسری چادر ہے، یہ ایک نمونہ ہے
قادیانی تاویلات کا، وہ اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں جو جو علامتیں
وارد ہوئی ہیں، ان کو اپنے اوپر منطبق کرتا ہے، اس سلسلہ میں التصریح بما تواتر فی
نزول المسیح (تحقیق شیخ عبدالفتاح ابوغدہ ) کے آخر میں حضرت مفتی محمد شفیع عثمانی
صاحب قدس سرہ، مفتی اعظم پاکستان کا مرتب کیا ہوا ایک جَدول ہے، جس میں حضرت مسیح موعود
علیہ السلام کے سلسلہ میں روایات میں جو جو علامتیں وارد ہوئی ہیں، سب یکجا کی گئی
ہیں، نیز یہ بھی بتایا گیا ہے کہ قادیانی ملعون میں یہ علامتیں کسی طرح بھی نہیں پائی
جاتیں، طلبۂ عزیز کو اس جَدول کا مطالعہ کرنا چاھئے۔
إِنِّي مُتَوَفِّيكَ کا
مطلب:
مسیح موعود کے سلسلہ میں قرآن کریم میں ایک آیت ہے، قادیانی اسے طالب علموں کے
سامنے پیش کرکے ان کو چکر میں ڈالتے ہیں، اس لئے اسے خوب غور سے سمجھ لینا چاھئے، میں
اس کو سمجھا کر اپنی تقریر ختم کرونگا، وہ آیتِ کریمہ سورۂ آل عمران میں ہے، حضرت
عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: إِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَىٰ
إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا وَجَاعِلُ
الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ ۖ ثُمَّ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ
فَأَحْكُمُ بَيْنَكُمْ فِيمَا كُنْتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ (جب کہ اللہ تعالیٰ نے
فرمایا: ائے عیسیٰ! بیشک میں تم کو پورا پورا وصول کرنے والا ہوں، اور میں تم کو اپنی
طرف اٹھانے والا ہوں، اور تم کو ان لوگوں سے پاک کرنے والا ہوں، جو منکر ہیں، اور جو
لوگ تمہارا کہنا ماننے والے ہیں، ان کو غالب رکھنے والا ہوں، ان لوگوں پر جو کہ تمہارے
منکر ہیں، قیامت کے دن تک، پھر میری طرف ہوگی تمہاری سب کی واپسی، سو میں تمہارے درمیان
(عملی) فیصلہ کردونگا ان امور میں، جن میں تم باہم اختلاف کرتے تھے ) اس آیت کا پہلا
جز ہے إِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَىٰ إِنِّي مُتَوَفِّيكَ، اس کو پیش کرکے قادیانی
دھوکہ میں ڈالتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کو وفات دیدی ہے، دیکھو قرآن
کہتا ہے کہ میں نے عیسیٰ بن مریم کو وفات دیدی ہے، چونکہ طلباء کے ذہن میں تَوَفِّیْ
اور مُتَوَفِّیْ کا عرفی مفہوم ہوتا ہے، اس لئے طلبہ چکر میں پڑجاتے ہیں، لٰہذا اس
آیت کو اچھی طرح سمجھ لینا چاھئے، تاکہ کوئی دھوکہ نہ دے سکے۔
اس آیتِ کریمہ میں جو لفظِ مُتَوَفَّیٰ ہے، اس کا مادّہ کیا
ہے ؟ اور اس کے معنیٰ کیا ہیں ؟ ابن فارس لکھتے ہیں: (وَفَیٰ ) الواوُ، و الفاءُ،
و الحرف المعتل: کلمة تدُل علیٰ اکمال و اتمام۔[ مُعْجم مقاییس اللغة جلد نمبر ٦ صفحہ
نمبر ١٢٩ ] یعنی وَفَیٰ کے اصلی معنیٰ ہیں، کسی چیز کو پورا اور کامل کرنا، انہوں نے
مثال دی ہے کہ اسی مادّہ سے الوفاء ہے، جس کے معنیٰ ہیں: اتمام العھد، و اکمال الشرط،
یعنی عہد پورا کرنا، اور شرط کو پایۂ تکمیل تک پہنچانا، اسی طرح اَوْفَیْتُکَ الشَیئَ
اس وقت بولتے ہیں، جب آپ کسی کا حق پورا پورا دیدیں، اور نَوَفَّیْتُ الشیئُ اور اِسْتَوْفَیْتُ
الشیئَ اس وقت بولتے ہیں، جب آپ اپنا حق پورا پورا وصول کرلیں، اور اسی مادہ سے میت
کے حق میں تَوَفَّاہُ اللہُ بولتے ہیں، یعنی اللہ تعالیٰ نے اس کو پورا پورا وصول کرلیا۔
اب آئیے قرآن کریم میں، قرآن پاک میں یہ مادّہ متعدد جگہ استعمال
ہوا ہے، سورة الزمر آیت نمبر ٤٢ میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ
حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا ۖ فَيُمْسِكُ الَّتِي
قَضَىٰ عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرَىٰ إِلَىٰ أَجَلٍ مُسَمًّى (اللہ
تعالیٰ ہی وصول کرتے ہیں جانوں کو، ان کی موت کے وقت، اور ان جانوں کو بھی، جن کی موت
نہیں آئی، ان کے سونے کے وقت، پھر ان جانوں کو تو روک لیتے ہیں، جن پر موت کا حکم فرماچکے
ہیں، اور باقی جانوں کو ایک معین میعاد تک کےلئے رہا کردیتے ہیں ) یعنی اللہ تعالیٰ
جانوں کو پورا پورا وصول کرلیتے ہیں، اور یہ پورا پورا وصول کرلینا دو وقت ہوتا ہے،
ایک تو اس وقت جب موت کا وقت آتا ہے، اور دوسرا اس وقت جب انسان سوتا ہے، تو پورا پورا
نفس وصول کرلیا جاتا ہے، پھر جس کی موت مقدر ہوتی ہے، اس کی جان تو روک لی جاتی ہے،
اور دوسرے کی رہا کردی جاتی ہے، اور وہ خواب گراں سے بیدار ہوکر اٹھ بیٹھتا ہے۔
دوسری جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ
بِاللَّيْلِ وَيَعْلَمُ مَا جَرَحْتُمْ بِالنَّهَارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيهِ لِيُقْضَىٰ
أَجَلٌ مُسَمًّى (سورة الانعام آیت نمبر ٦٠ )
"اور وہ اللہ تعالٰی ایسے ہیں، جو رات کے وقت تمہاری جانوں کو پورا پورا
وصول کرلیتے ہیں، اور جو کچھ تم دن میں کرتے ہو، اسے جانتے ہیں، پھر تم کو جگادیتے
ہیں، تاکہ معین میعاد پوری کردی جائے " ان آیتوں میں تَوَفَّیٰ اپنے لغوی معنیٰ
میں استعمال ہوا ہے، اسی طرح إِنِّي مُتَوَفِّيكَ میں بھی لغوی معنیٰ مراد ہیں، یعنی
ائے عیسیٰ! میں آپ کو پورا پورا وصول کرنے والا ہوں، اور اس کی دو شکلیں ہیں، ایک یہ
ہے کہ جسم یہاں رہے، اور روح کو لے لیا جائے، جیسے موت کے وقت میں اور نیند کی حالت
میں، اس کےلئے بھی تَوَفَّیٰ استعمال ہوتا ہے، دوسری شکل جو زیادہ اکمل ہے، وہ یہ ہے
کہ روح جسم کے ساتھ لے لی جائے، إِنِّي مُتَوَفِّيكَ میں یہی معنیٰ مراد ہیں، یہاں
تَوَفَّیٰ موت کے معنیٰ میں نہیں ہے، اور اس کی دلیل اگلا جملہ ہے وَرَافِعُكَ إِلَيَّ
یعنی میں تم کو اپنی طرف اٹھانے والا ہوں، قرآن کریم نے خود اس کی وضاحت کردی ہے کہ
یہاں تَوَفَّیٰ بمعنیٰ موت نہیں ہے، بلکہ پورا پورا لے لینے کا مطلب ہے، روح کو جسم
کے ساتھ اٹھا لینا۔
دوسری دلیل:
اللہ تعالیٰ کا وہ ارشاد ہے، جو سورة النساء آیت ١٥٧ اور
١٥٨ میں آیا ہے: وَمَاقَتَلُوهُ يَقِينًا
* بَلْ رَفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ اور یقینی بات یہ ہے کہ یہودیوں نے عیسیٰ علیہ السلام
کو قتل نہیں کیا، بلکہ ان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف اٹھا لیا ہے، پس مُتَوَفِّيكَ
کے معنیٰ موت دینے والا نہیں ہیں، بلکہ پورا پورا وصول کرنے والا مراد ہے، یہ إِنِّي
مُتَوَفِّيكَ کی ایک تفسیر ہے، اور صحیح ترین تفسیر یہی ہے۔
دوسری تفسیر:
لیکن اگر کسی کو اصرار ہو کہ مُتَوَفِّیْ کے معنیٰ، موت دینے
والے کے ہیں، تو دوسری تفسیر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ مروی ہے کہ آیت میں
تقدیم و تاخیر ہے، اور اصل مضمون اس طرح ہے: إِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَىٰ إِنِّي
رَافِعُكَ إِلَيَّ وَ مُتَوَفِّيكَ الخ یعنی ائے عیسیٰ! اس وقت تو میں تمہیں زندہ آسمانوں
پر اٹھا رہا ہوں، لیکن بعد میں تمہیں بھی عام انسانوں کی طرح موت دونگا، یہ جملہ اس
لئے ارشاد فرمایا گیا، تاکہ لوگوں کےلئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان پر زندہ اٹھایا
جانا، گمراہی کا سبب نہ بنے، کہیں لوگ یہ نہ سمجھنے لگیں، کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام
خدا تھے، اسی لئے موت ان پر طاری نہیں ہوئی، کیونکہ خدا کو موت نہیں آسکتی، چنانچہ
بھت سے لوگ گمراہ ہوگئے، جیساکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا بغیر باپ کے پیدا ہونا گمراہی
کا سبب بن گیا، قرآن کریم نے اس کی تردید کی، اور فرمایا: إِنَّ مَثَلَ عِيسَىٰ عِنْدَ
اللَّهِ كَمَثَلِ آدَمَ یعنی اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام بغیر باپ کے پیدا ہوئے ہیں،
تو آدم علیہ السلام بھی بغیر باپ کے پیدا ہوئے ہیں، بلکہ بغیر ماں باپ کے پیدا ہوئے
ہیں، اور اس کے باوجود وہ خدا، یا خدا کے بیٹے نہیں ہیں، تو عیسیٰ علیہ السلام کیونکر
خدا کے بیٹے ہوگئے ؟ اسی طرح زندہ اٹھالئے جانے کی وجہ سے بھی گمراہی پھیل سکتی تھی،
اس لئے ارشاد ہوا: إِنِّي رَافِعُكَ إِلَيَّ وَ مُتَوَفِّيكَ، یعنی ابھی تو میں تم
کو اٹھا رہا ہوں، لیکن بعد میں تمہیں بھی موت آئے گی، کب آئے گی ؟ آخر زمانہ میں،
جب فتنۂ دجال کو ختم کرنے کےلئے نازل ہونگے، اس کے بعد ایک مدت تک دنیا میں زندہ رہیں
گے، پھر انہیں بھی موت آئے گی، تو حقیقۃً مُتَوَفِّيكَ مؤخر ہے، اور رَافِعُكَ إِلَيَّ
مقدم ہے، اور ذکر میں مُتَوَفِّيكَ مقدم ہے، اور رَافِعُكَ إِلَيَّ مؤخر ہے، اور ایسا
قرآن کریم میں ایک اور جگہ بھی ہے، کہ واقعةً جو مؤخر ہے، اسے ذکر میں مقدم کردیا گیا
ہے، یہ میراث کی آیتیں ہیں، جن میں وصیت کو مقدم بیان کیا گیا ہے، اور دَین کو مؤخر
ذکر کیا گیا ہے، حالانکہ دَین مقدم ہے وصیت سے، بہرحال إِنِّي مُتَوَفِّيكَ سے قادیانی
استدلال کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو وفات دیدی ہے، ان کی
بات لغو ہے، اور خود قرآن کریم کے خلاف ہے، سورة النساء آیت نمبر ١٥٧ میں اللہ تعالیٰ
کا ارشاد پاک ہے: وَمَا قَتَلُوهُ وَمَاصَلَبُوهُ وَلَٰكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ (حالانکہ
یہود نے نہ تو عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کیا، اور نہ ان کو سُولی پر چڑھایا، بلکہ ان
کو اشتباه ہوگیا) پس معلوم ہوا کہ قیامت کے قریب جو مسیح علیہ السلام تشریف لائیں
گے، وہ وہی ہونگے، جو حضور اکرم ﷺ سے پہلے پیدا ہوچکے ہیں، اور جو انبیاء بنی اسرائیل
کے خاتم ہیں، لٰہذا مسیح کوئی نئی شخصیت نہیں ہیں، جب یہ بات صاف ہوگئی، تو قادیانی
کا بنا بنایا محل ڈھیر ہوگیا۔
ایک شبہ کا جواب:
یہاں قادیانی ایک عجیب بات کہتے ہیں، کہ چلو مان لو کہ عیسیٰ
علیہ السلام آسمان پر زندہ ہیں، اور قربِ قیامت میں دنیا میں تشریف لائیں گے، مگر یہ
تو بتاؤ کہ جب وہ آئیں گے، تو اپنی نبوت پر برقرار رہیں گے، یا ان کی نبوت ختم ہوجائےگی
؟ اگر یہ کہو کہ وہ اپنی نبوت پر برقرار رہیں گے، تو حضور اکرم ﷺ خاتم النبین کہاں
رہے؟ آپ ﷺ کا دین قیامت تک کےلئے کہاں رہا ؟ اور اگر یہ کہو کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام
کی نبوت منسوخ ہوجائےگی، اور وہ امتی ہوکر نزول فرمائیں گے، تو سوال یہ ہے کہ انہوں
نے آسمان پر کیا گناہ کیا، جو ان کی نبوت سلب کرلی گئی ؟
جواب:
تو اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام باوصف نبوت تشریف
لائیں گے، نبوت ان سے سلب نہیں کی جائےگی، اب رہا یہ سوال کہ پھر حضور اکرم ﷺ خاتم
النبین کہاں رہے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے نازل
ہونگے، تو وہ حضور اکرم ﷺ کی شریعت پر عمل کریں گے، اپنی شریعت پر عمل نہیں کریں گے،
اور یہ بات حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ خاص نہیں ہے، سابقہ انبیائے کرام میں سے
کوئی بھی نبی آئیں، تو وہ اپنی نبوت پر عمل پیرا نہیں ہونگے، بلکہ حضور اکرم ﷺ کی نبوت
پر عمل کریں گے، چنانچہ ایک موقع پر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے: لوْ کَانَ موسیٰ حَیّاً
لَمَا وَسِعَہٗ اِلَّا اِتِّبَاعِیْ، یعنی اگر آج موسیٰ علیہ السلام بھی زندہ ہوتے،
تو ان کےلئے بھی میری پیروی کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا، لٰہذا حضرت عیسیٰ علیہ السلام
جب تشریف لائیں گے، تو وہ بھی حضور اکرم ﷺ کی شریعت پر عمل کریں گے، کیونکہ اگرچہ آپؑ
باوصف نبوت نزول فرمائیں گے، مگر چونکہ دور خاتم النبین کا چل رہا ہے، اس لئے وہ آپ
ﷺ ہی کی شریعت کی پیروی کریں گے، اس کی مثال ایسی ہے کہ ہندوستان کا وزیراعظم پاکستان
جاتا ہے، تو پاکستان کے قیام کے دوران بھی وہ ہندوستان کا وزیراعظم رہتا ہے، مگر قیامِ
پاکستان کے دوران وہ قوانینِ پاک ہی کی پابندی کرتا ہے، اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام
جب تشریف لائیں گے، تو باوصف نبوت تشریف لائیں گے، مگر جب دور، خاتم النبین کا دور
ہے، تو وہ حضور اکرم ﷺ کی شریعت کے تابع ہوں گے، جیسے ایک صوبہ کا گورنر جب دوسرے صوبہ
میں جاتا ہے، تو وہ وصفِ گورنری کے ساتھ متصف رہتا ہے، مگر اس دوسرے صوبہ کے گورنر
کے ماتحت ہوتا ہے، وہاں اس کی حکومت نہیں چلتی، اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام نبی
تو ہوں گے، لیکن حضور اکرم ﷺ کی شریعت کے تابع ہوں گے۔
ایک اور سوال:
یہاں ایک اور طالبِ علمانہ سوال پیدا ہوتا ہے، کہ جب حضرت عیسیٰ
علیہ السلام تشریف لائیں گے، تو حنفی ہوں گے، یا شافعی، یا مالکی، یا حنبلی؟
جواب:
تو اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام مجتہدِ مطلق
ہوں گے، جس طرح امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ، امام شافعی وغیرہما مجتہدِ مطلق ہیں،
اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی اس امت کے مجتہدِ مطلق ہوں گے، کتابوں میں اس کی
صراحت ہے[ شرح عقائد کی شرح النبراس میں ہے: سُئِل شیخ الاسلام الحافظ ابن حجر العسقلانی
رحمہ اللہ تعالیٰ عن عیسیٰ علیہ السلام یجتھد او یُقلِّد؟ قال: یاخذ الاحکام عن نبینا
محمد ﷺ بلاواسطةٍ (انتھیٰ) ثم ذکر (صاحب النبراس) قصةَ تُشْبِہُ بقصة خرافةَ، فقال:
و ھٰذا بھتانٌ عظیم، و لایشکُ عاقلٌ فی ان روح اللہ تعالیٰ و کلمتَہٗ لاینحطُّ عن درجة
المجتھدین (صفحہ نمبر ٤٤٦ مبحث اثبات نبوة محمد ﷺ ) و ما یقال: انَّہٗ یَحکم بمذھب
من المذاہب الاربعة باطل، لاأصل لہٗ، و کیف یُظَنُّ بنبی أنہ یقلِّد مجتھداً، مع أن
المجتجد من آحاد ھٰذہ الأئمة (کذا فی الاصل، و لعل الصحيح الأمة ) لایجوز لہ التقلید،
و اِنما یحکم بالاجتھاد الخ، شامی جلد نمبر ١ صفحہ نمبر ٤٢ ]
لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ
نہ کہو:
یہاں ایک اور طالب علمانہ سوال پیدا ہوتا ہے، اس کا جواب بھی
سن لو، اس کے بعد بات ختم کرتا ہوں، ایک روایت ہے الدر المنثور میں، جو ابن ابی شیبہ
نے روایت کی ہے، علامہ سیوطی رحمہ اللہ تعالیٰ نے خاتم النبین کے ذیل میں ذکر کی ہے،
امام سیوطی ؒ نے اس کی سند ذکر نہیں کی ہے، میرے پاس مصنف ابن ابی شیبہ ہے، میں نے
اس میں روایت تلاش کی، تاکہ اس کی سند دیکھوں، کہ راوی کس درجہ کے ہیں، مگر وہ روایت
مجھے مصنف ابن ابی شیبہ میں نہیں ملی، ابن ابی شیبہ کی ایک تفسیر بھی ہے، ممکن ہے اس
میں یہ روایت ہو، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں، کہ حضور اکرم ﷺ کو خاتم
النبین تو کہو، مگر لانبی بعدی نہ کہو، قادیانی کہتے ہیں کہ دیکھو! حضرت عائشہ رضی
اللہ عنہا فرماتی ہیں، کہ خاتم النبین تو کہو، مگر لانبی بعدی نہ کہو، معلوم ہوا کہ
حضور اکرم ﷺ کے بعد بھی نبی آسکتا ہے، قادیانی اس روایت کو خوب اچھالتے ہیں۔
جواب:
تو اس کا جواب یہ ہے کہ جہاں دُرّ منثور میں یہ روایت ہے، وہیں
متصلاً ایک دوسری روایت بھی ہے، جو اس کا جواب ہے، وہ روایت یہ ہے کہ حضرت مغیرة بن
شعبہ رضی اللہ عنہ کی مجلس میں ایک شخص نے کہا: صَلَّی اللہُ عَلیٰ مُحَمَّدٍ خَاتِمِ
الأنْبِیَاءِ لَا نَبِیَّ بَعْدَہٗ، اس پر حضرت مغیرة بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا
کہ جب تم نے خاتم النبین کہہ دیا، تو اس کے بعد لَا نَبِیَّ بَعْدَہٗ کی کوئی ضرورت
باقی نہیں رہتی، کیونکہ ہم سے بیان کیا گیا ہے کہ اخیر زمانہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام
کا نزول ہوگا، پس جب عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ہوگا، تو وہ حضور اکرم ﷺ سے پہلے بھی
ہوں گے، اور بعد میں بھی ہوں گے (الدُرُّ المنثور جلد نمبر ٥ صفحہ نمبر ٢٠٤) یعنی
حضرت مغیرة بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کی حفاظت کےلئے
لانبی بعدہ کہنے سے منع فرمایا ہے، یہی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا والی روایت
کا بھی مطلب ہے۔
ان مختصر گذارشات پر میں اپنی بات ختم کرتا ہوں، میں نے آپ حضرات
کا کافی وقت لے لیا، جس کےلئے میں معذرت خواہ ہوں۔
وَ آخِرُ دَعْوَانا أنِ الحَمْدُ للہ رَبِّ العَالَمِیْن
0 تبصرے comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔