مسئلہ طلاق ثلاثہ مسند احمد اور ابو داؤد
کی روایات، حدیث رکانہ کا جائزہ اور جواب
غیر مقلدین کی دلیل۔
حضرت رکانہؓ نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی
تھی اور آنحضرتﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اے رکانہ تم رجوع کر لو۔ انہوں نے کہا کہ حضرت
! میں نے تو بیوی کو تین طلاقیں دی ہیں، آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ میں جانتا ہوں تم رجوع
کر لو۔ (ابو داؤد جلد ۱
ص۲۹۷
و سنن الکبرٰی جلد ۷ ص۳۳۹)
اس روایت سے ثابت ہوا کہ تین طلاقوں کے
بعد بھی رجوع ثابت ہے اور یہ تبھی ہو سکتا ہے کہ تین طلاقیں بیک وقت واقع نہ ہوں ورنہ
رجوع کا کیا معنٰی۔
الجواب:۔
اس روایت سے تین طلاقوں کے عدم وقوع پر
استدلال صحیح نہیں ہے۔
اولاً۔ اس لئے کہ اس کی سند میں بعض بنی
ابی رافع ہے جو مجہول ہے۔
٭چنانچہ
امام نوویؒ فرماتے ہیں کہ رکانہ ؓ کی وہ حدیث جس میں آتا ہے کہ انہوں نے تین طلاقیں
دی تھیں وہ حدیث ضعیف ہے کیونکہ اس میں مجہول راوی موجود ہیں۔ (شرح مسلم جلد ۱ ص۴۷۸)
٭اور
علامہ ابن حزم ؒ فرماتے ہیں کہ بعض بنی ابی رافع مجہول ہے اور مجہول سند سے حجت قائم
نہیں ہو سکتی۔ (محلی جلد ۱۰ص۱۶۸)
لہذا اس روایت کی سند ایسی نہیں کہ ا س
سے استدلال کیا جا سکے اور خصوصاً حلال و حرام کے مسئلہ میں اور وہ بھی قرآن و حدیث
اور جمہور امت کے اجماع کے مقابلہ میں۔ اور یہ مسئلہ بھت ہی نازک ہے جو کہ ایک طرف
تو ساری عمر بدکاری کرنے کا جرم ہے تو دوسری طرح اس بدکاری کو حلال سمجھنے کا جرم جو
کہ کفر ہے۔
٭حضرت
مولانا خلیل احمد صاحب سہارنپویؒ (المتوفٰی ۱۳۴۶ھ) فرماتے ہیں کہ مستدرک میں
بعض بنی ابی رافع کو تعیین بھی آئی ہے کہ وہ محمد بن عبید اللہ بن ابی رافع تھے۔ (بذل
المجہور جلد ۳ص۶۹) اور یہ کہ وہ نہایت ہی ضعیف
اور کمزور راوی ہے۔
علامہ ذہبیؒ لکھتے ہیں کہ امام بخاری
ؒ اس کو منکر الحدیث اور امام ابن معین اس کو لیس بشی اور امام ابو حاکم ؒ اسکو ضعیف
الحدیث اور منکرالحدیث جداً کہتے ہیں۔ امام دارقطنی ؒ فرماتے ہیں کہ وہ متروک ہے علامہ
ذہبیؒ فرماتے ہیں کہ محدثین انکی تضعیف کرتے ہیں کہ وہ نہایت ہی ضعیف اور کمزور راوی
ہے۔ (میزان ص۹۷ج۳، تہذیب التہذیب )
٭محدث
ابن عدیؒ انکو کوفہ کے ”شیعہ“ میں بیان کرتے ہیں۔ (تہذیب التہذیب ص۳۲۱ ج۹)
(جن
کا مذھب یہ ہے کہ وہ تین طلاقوں کو ایک ہی تصور کرتے ہیں، قرآن سنت صحابہ تابعین کو
چھوڑ کر)
اور ایک اور روایت میں بھی شیعہ راویوں
نے گڑ بڑ کی ہے چنانچہ امام دارقطنیؒ فرماتے ہیں کہ جن راویوں نے یہ بیان کیا ہے کہ
حضرت عبداللہ ؓ بن عمرؓ نے بجالت حیض اپنی بیوی کو تین طلاقیں دی تھیں وہ سب کے سب
شیعہ ہیں صحیح روایت یہ ہے کہ انہوں نے صرف ایک ہی طلاق دی تھی۔ (سنن دارقطنی جلد ۲ ص۴۲۷)
٭اور
امام بخاری فرماتے ہیں کہ جس راوی کے بارے میں میں منکر الحدیث کہوں تو اس سے روایت
کرنا جائز نہیں (میزان الاعتدال جلد ۱ص۵ طبقات
سبکی جلد ۳ص۹ و
تدریب الراوی ص۲۳۵) گویا
امام بخاری کی تحقیق کے رو سے اس روایت کا بیان کرنا ہی جائز نہیں ہے۔
اور ثانیاً:۔
حضرت رکانہؓ کی صحیح روایت میں بجائے تین
طلاق کے بتہ کا لفظ ہے۔ چنانچہ امام ابو داؤد ؒ فرماتے ہیں کہ:۔
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْعَتَکِيُّ
حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ عَنْ الزُّبَيْرِ بْنِ سَعِيدٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ
بْنِ عَلِيِّ بْنِ يَزِيدَ بْنِ رُکَانَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ أَنَّهُ طَلَّقَ
امْرَأَتَهُ الْبَتَّةَ فَأَتَی رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
فَقَالَ مَا أَرَدْتَ قَالَ وَاحِدَةً قَالَ آللَّهِ قَالَ آللَّهِ قَالَ هُوَ عَلَی
مَا أَرَدْتَ قَالَ أَبُو دَاوُد وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ جُرَيْجٍ أَنَّ
رُکَانَةَ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلَاثًا لِأَنَّهُمْ أَهْلُ بَيْتِهِ وَهُمْ أَعْلَمُ
۔۔۔۔ الخ
”
سلیمان بن داؤد، جریر بن حازم، زبیر بن سعید، عبد اللہ، علی بن یزید سے روایت ہے کہ
رکانہ نے اپنی بیوی کو طلاق بتہ دی تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس
آیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا تیری نیت کیا تھی؟ بولا ایک طلاق کی آپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا اللہ کی قسم کھا سکتے ہو؟ اس نے کہا ہاں واللہ آپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا پھر تو وہی ہے جو تیری نیت تھی (یعنی ایک ہی طلاق واقع
ہو گی)
ابو داؤد ؒ فرماتے ہیں حضرت رکانہ کی یہ
روایت (جس میں بتہ کا لفظ موجود ہے) ابن جریجؒ کی روائت سے زیادہ صحیح ہے جس میں آتا
ہے کہ انہوں نے تین طلاقیں دی تھیں کیونکہ بتہ والی حدیث ان کے گھر والے بیان کرتے
ہیں اور وہ اس کو زیادہ جانتے ہیں“۔ (ابو داؤد جلد ۱ص۳۰۱ وکذا
فی سنن الکبریٰ جلد ۷
ص۲۳۹)
بتہ یعنی ایک ایسا جملہ جس سے نیت ایک
طلاق کی ہوتی ہے نگر اس کو پکا کرنے کے کئے اسے مکرر یعنی تین یا زیادہ مرتبہ کہہ دیا
جاتا ہے اس لئے رسول اللہﷺ ان سے قسم لے رہے ہیں، تھوڑی سی بھی عقل رکھنے والا شخص
سمجھ سکتا ہے کہ قسم کیوں لے رہے ہیں ورنہ ایک ہی طلاق ہونی تھی تو کہہ دیتے ایک کی
نیت ہے یعنی ایک دی ہے تب بھی رجوع کر لو اور اگر تین دی ہیں تب بھی رجوع کر لو لیکن
رسول اللہﷺ کو اس بات کا بخوبی علم تھا کہ تین طلاق کے بعد بیوی حرام ہو جاتی ہے ۔
ایسے لفظ سے اگر ایک کی نیت کی ہے تو ایک واقع اور تین کی نیت کی ہے تو تین واقع ہو
جائیں گی۔ یعنی هُوَ عَلَی مَا أَرَدْتَ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا پھر
تو وہی ہے جو تیری نیت تھی۔
یعنی کہ یہاں سے بھی اکھٹی تین طلاق کے
واقع ہو جانے کا قوی ثبوت مل جاتا ہے۔
اس روایت کو امام ابو داؤد نے صحیح کہا
ہے ۔
وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ(ابو داؤد
جلد ۱ص۳۰۱)
٭
قاضی شوکانی ؒ لکھتے ہیں کہ:۔
”واثبت
ماروی فی تصتہ رکانہؓ انہ طلقھا البتہ لاثلاثا“
”حضرت
رکانہ ؓ کے واقعہ میں ثابت اور صحیح روایت یہ ہےکہ انہوں نے بتہ طلاق دی تھی نہ کہ
تین“ (نیل الاوطار جلد۶
ص۲۴۶)
الغرض اس روایت سے تین طلاقوں کا اثبات
اور پھر تین کو ایک قرار دینا اور پھر خاوند کو رجوع کا حق دینا ظلم عظیم ہے قرآن کا
سنت کا امت مسلمہ کا مذاق ہے۔ اور حلال و حرام کے بنیادی مسئلہ میں ایسی ضعیف و کمزور
اور مجمل روایتوں پر اعتماد ناجائز ہے؟ اور پھر وہ بھی صحیح اور صریح روایات اور اجماع
امت کے مقابلہ میں۔
0 تبصرے comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔