🔱تراويح
پر ايك مفصل ومدلل مضمون🔱
تراویح کے معنی:
بخاری شریف کی مشہور ومعروف شرح لکھنے
والے حافظ ابن حجر العسقلانی نے تحریر کیا ہے کہ تراویح، ترویحہ کی
جمع ہے اور ترویحہ کے معنی: ایک دفعہ آرام
کرنا ہے، جیسے تسلیمہ کے معنی ایک دفعہ سلام پھیرنا رمضان المبارک.
کی راتوں میں نماز عشاء کے بعد باجماعت
نماز کو تراویح کہا جاتا ہے، کیونکہ صحابہٴ کرام کا اتفاق اس امر پر ہوگیا کہ
ہر دوسلاموں (یعنی چار رکعت) کے بعد کچھ
دیر آرام فرماتے تھے. (فتح الباری شرح صحیح البخاری، کتاب صلاة التراویح)
نماز تراویح کی فضیلت:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے
کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص رمضان (کی راتوں) میں ایمان
کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے (عبادت کے
لیے) کھڑا ہو، اس کے پچھلے تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں. (بخاری ومسلم)
ثواب کی امید رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ شہرت
اور دکھاوے کے لیے نہیں؛ بلکہ خالص اللہ تعالی کی رضا حاصل کرنے
کے لیے عبادت کی جائے.
نماز تراویح کی تعداد رکعت:
تراویح کی تعداد رکعت کے سلسلہ میں علماء
کرام کے درمیان اختلاف ہے. تراویح پڑھنے کی اگرچہ بہت فضیلت احادیث
میں وارد ہوئی ہے؛ لیکن فرض نہ ہونے کی
وجہ سے تراویح کی تعداد رکعت میں یقینا گنجائش ہے جمہور محدثین
اورفقہاء کی رائے ہے کہ تراویح میں 20
رکعات پڑھنی چاہئیں. تراویح کی تعداد رکعت میں علماء کرام کے درمیان اختلاف کی
اصل بنیاد یہ ہے کہ تراویح اور تہجد ایک
نماز ہے یا دو الگ الگ نمازیں. جمہور محدثین، فقہائے کرام نے ان دونوں نمازوں
کو الگ الگ نماز قرار دیا ہے، ان کے نقطہٴ
نظر میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت کا تعلق تہجد کی نماز سے
ہے، جس میں انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ
ﷺ رمضان اور رمضان کے علاوہ گیارہ رکعت سے زائد نماز نہیں پڑھتے تھے.
جس کے انہوں نے مختلف دلائل دیے ہیں، جن
میں سے بعض یہ ہیں:
(1) امام
بخاری نے اپنی مشہور کتاب (بخاری) میں نماز تہجد کا ذکر (کتاب التہجد) میں؛ جبکہ نماز
تراویح کو (کتاب
صلاة التراویح) میں ذکر کیا ہے. اس سے
صاف ظاہر ہوتا کہ دونوں نمازیں الگ الگ ہیں، جیساکہ جمہور علماء اور ائمہٴ
اربعہ نے فرمایا ہے، اگر دونوں ایک ہی
نماز ہوتی تو امام بخاری کو دو الگ الگ باب باندھنے کی کیوں ضرورت محسوس
ہوتی. حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا والی حدیث
کتاب التہجد میں ذکر فرماکر امام بخاری نے ثابت کردیا کہ اس حدیث کا
تعلق تہجد کی نماز سے ہے.
(2) تراویح
صرف رمضان میں پڑھی جاتی ہے، اور اس حدیث میں ایسی نماز کا ذکر ہے جو رمضان کے علاوہ
بھی پڑھی
جاتی ہے.
(3) اگر
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے فرمان کا تعلق تراویح کی نماز سے ہے تو حضرت عمر فاروق
رضی اللہ عنہ کے
زمانے میں جب باضابطہ جماعت کے ساتھ
20 رکعت تراویح کا اہتمام ہوا تو کسی بھی صحابی نے اس پر کوئی تنقید
کیوں نہیں کی؟ (دنیا کی کسی کتاب میں،
کسی زبان میں بھی، کسی ایک صحابی کا حضرت عمر فاروق رضی اللہ
عنہ کے زمانے میں 20 رکعت تراویح کے شروع
ہونے پر کوئی اعتراض مذکور نہیں ہے) اگر ایسی واضح حدیث تراویح کی
تعداد کے متعلق ہوتی تو حضرت عمر فاروق
رضی اللہ عنہ اور صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم کو کیسے ہمت ہوتی کہ
وہ 8 رکعت تراویح کی جگہ 20 رکعت تراویح
شروع کردیتے. صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم تو ایک ذرا سی چیز میں بھی
آپ ﷺ کی تعلیمات کی مخالفت برداشت نہیں
کرتے تھے. اور نبی اکرم ﷺ کی سنتوں پر عمل کرنے کا جذبہ یقینا صحابہٴ
کرام رضی اللہ عنہم میں ہم سے بہت زیادہ
تھا؛ بلکہ ہم (یعنی آج کے مسلمان) صحابہ کی سنتو ں پر عمل کرنے کے
. جذبہ
سے اپنا کوئی مقارنہ بھی نہیں کرسکتے نیز نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہے: ہم خلفاء راشدین
کی سنتوں کوبھی
مضبوطی سے پکڑلیں. (ابن ماجہ)
(4) اگر
اس حدیث کا تعلق واقعی تراویح کی نماز سے ہے (اور تہجد و تراویح ایک نماز ہے) تو رمضان
کے آخری عشرہ میں
نماز تراویح پڑھنے کے بعد تہجد کی نماز
کیوں پڑھی جاتی ہے؟
(5) اس
حدیث کا تعلق تہجد کی نماز سے ہے، جیساکہ محدثین نے اس حدیث کو تہجد کے باب میں نقل
کیا ہے، نہ کہ
تراویح کے باب میں (ملاحظہ ہو :. مسلم
ج 1 ص 154، ابوداوٴد ج 1 ص 196، ترمذی ج 1، ص 58 نسائی ج 1 ص 154،
موٴطا امام مالک 42 ص).
علامہ شمس الدین کرمانی (شارح بخاری) تحریر
فرماتے ہیں کہ یہ حدیث تہجد کے بارے میں ہے اور حضرت ابوسلمہ کا
مذکورہ بالا سوال اور حضرت عائشہ رضی اللہ
عنہا کا جواب تہجد کے متعلق تھا. (الکوکب الدراری شرح صحیح البخاری
ج 1 155.156 ص)
حضرت شاہ عبد الحق محدث دہلوی فرماتے ہیں
کہ صحیح یہ ہے کہ حضور اکرم ﷺ گیارہ رکعت (وتر کے ساتھ) پڑھتے تھے
وہ تہجد کی نماز تھی.
حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی تحریر
فرماتے ہیں کہ یہ حدیث تہجد کی نماز پر محمول ہے جو رمضان اور غیر
رمضان میں برابر تھی. (مجموعہ فتاوی عزیزی
125 ص)
نماز تراویح نبی اکرم ﷺ کے زمانے میں:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ
رسول اللہ ﷺ نے (رمضان کی) ایک رات مسجد میں نماز تراویح پڑھی.
لوگوں نے آپ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی. پھر
دوسری رات کی نماز میں شرکاء زیادہ ہوگئے، تیسری یا چوتھی رات آپ ﷺ
نماز تراویح کے لیے مسجد میں تشریف نہ
لائے اور صبح کو فرمایا کہ میں نے تمہارا شوق دیکھ لیا اور میں اس ڈر سے
نہیں آیا کہ کہیں یہ نماز تم پر رمضان
میں فرض نہ کردی جائے. (مسلم، الترغیب فی صلاة التراویح). . . . . . ان دو یا تین
رات کی تراویح کی رکعات کے متعلق کوئی
تعداد احادیث صحیحہ میں مذکور نہیں ہے.
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ
رسول اللہ ﷺ قیام رمضان کی ترغیب تو دیتے تھے؛ لیکن وجوب کا حکم نہیں
دیتے. آپ ﷺ فرماتے کہ جو شخص رمضان کی
راتوں میں نماز (تراویح) پڑھے اور وہ ایمان کے دوسرے تقاضوں کو بھی پورا
کرے اور ثواب کی نیت سے یہ عمل کرے تو
اللہ تعالی اس کے سابقہ گناہ
معاف فرمادیں گے. رسول اللہ ا کی وفات
تک یہی عمل رہا، دور صدیقی اور ابتداء
عہد فاروقی میں بھی یہی عمل رہا. (مسلم. الترغیب فی صلاة التراویح)
صحیح مسلم کی اس حدیث سے معلوم ہوا کہ
نبی اکرم ﷺ کی حیات میں، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہکے دور
خلافت اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ
کے ابتدائی دور خلافت میں نماز تراویح جماعت سے پڑھنے کا کوئی اہتمام
نہیں تھا، صرف ترغیب دی جاتی تھی؛ البتہ
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں یقینا تبدیلی ہوئی
ہے، اس تبدیلی کی وضاحت مضمون میں محدثین
اورفقہائے کرام کی تحریروں کی روشنی میں آرہی ہے.
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت (جس
میں انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ رمضان اور رمضان کے علاوہ گیارہ
. رکعت
سے زائد نماز نہیں پڑھتے تھے) میں لفظ تراویح کا ذکر نہیں ہے لہذا اس حدیث کا تعلق
تہجد کی نماز سے ہے؛
کیونکہ محدثین نے اس حدیث کو تہجد کے باب
میں نقل کیا ہے، نہ کہ تراویح کے باب میں (ملاحظہ ہو :. مسلم ج 1 ص
154، ابوداوٴد ج 1 ص 196، ترمذی ج 1 ص 58، نسائی ج 1 ص 154، موٴطا امام
مالک 42 ص) اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے
کہ ان محدثین کے نزدیک یہ حدیث تہجد کی
نماز سے متعلق ہے نہ کہ تراویح سے.
امام محمد بن نضر مروزی نے اپنے مشہور
کتاب (اللیل قیام، ص 91 اور 92) میں قیام رمضان کا باب باندھ کر بہت سی
حدیثیں اور روایتیں نقل فرمائی ہیں؛ مگر
مذکورہ بالا حدیث عائشہ نقل نہیں فرمائی؛ اس لیے کہ ان کے نزدیک یہ حدیث
تراویح کے متعلق ہے ہی نہیں.
علامہ ابن قیم نے اپنی مشہور ومعروف کتاب
(زاد المعاد ص 86) میں قیام اللیل (تہجد) کے بیان میں یہ حدیث نقل
فرمائی ہے. علاوہ ازیں اس روایت کے متعلق
حافظ حدیث امام قرطبی کا یہ قول بھی نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے
کہ بہت سے اہل علم حضرات اس روایت کو مضطرب
مانتے ہیں. (عینی شرح بخاری ج 7 ص 187)
نماز تراویح خلفاء راشدین کے زمانے میں:
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عہد
میں کتنی تراویح پڑھی جاتی تھیں، احادیث صحیحہ میں صحابہٴ کرام
رضی اللہ عنہم کا کوئی واضح عمل مذکور
نہیں ہے. گویا اس دور کا معمول حسب سابق رہا اور لوگ اپنے طور پر نماز
تراویح پڑھتے رہے، غرضے کہ حضرت ابو بکر
صدیق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت (یعنی دو رمضان) میں نماز تراویح
باقاعدہ جماعت کے ساتھ ایک مرتبہ بھی ادا
نہیں ہوئی.
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے جب اپنے
عہد خلافت میں لوگوں کو دیکھا کہ تنہا تنہا تراویح کی نماز پڑھ رہے ہیں
تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے سب
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی
امامت میں جمع کیا، اور عشاء کے فرائض
کے بعد وتروں سے پہلے باجماعت 20 رکعت نماز تراویح میں قرآن کریم مکمل
کرنے کا باضابطہ سلسلہ شروع کیا.
حضرت عبد الرحمن قاری فرماتے ہیں کہ میں
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ہمراہ رمضان میں مسجد میں گیا تو
دیکھا کہ لوگ مختلف گروپوں میں علیحدہ
علیحدہ نماز تراویح پڑھ رہے ہیں، کوئی اکیلا پڑھ رہا ہے اور کسی کے ساتھ
کچھ اور لوگ بھی شریک ہیں، اس پر حضرت
عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ واللہ! میرا خیال ہے کہ اگر ان سب
کو ایک امام کی اقتداء میں جمع کردیا جائے
تو بہت اچھا ہے اور سب کو حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی اقتداء
میں جمع کردیا. ... حضرت عبدالرحمن فرماتے
ہیں کہ پھر جب ہم دوسری رات نکلے اور دیکھا کہ سب لوگ ایک ہی
امام کی اقتداء میں نماز تراویح ادا کررہے
ہیں تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ بڑا اچھا طریقہ ہے
اور مزید فرمایا کہ ابھی تم رات کے جس
آخری حصہ (تہجد) میں سوجاتے ہو، وہ اس (تراویح) سے بھی بہتر ہے جس کو
تم نماز میں کھڑے ہوکر گزارتے ہو. (موٴطا
امام مالک، باب ماجاء فی قیام رمضان)
حضرت یزید بن رومان فرماتے ہیں کہ لوگ
(صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور
خلافت میں 23 رکعت (20 تراویح اور 3 وتر)
ادا فرماتے تھے. (موٴطا امام مالک، باب ماجاء فی قیام رمضان، ص 98)
علامہ بیہقی نے کتاب المعرفہ میں نقل کیا
ہے کہ حضرت سائب بن یزید فرماتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ
عنہ کے دور حکومت میں ہم نے 20 رکعت تراویح
اور وتر ڑھا کرتے تھے. امام زیلعی نے اس حدیث کی سند کو صحیح قرار
دیا ہے. (نصب الرای ج 2 154 ص)
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت
ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے انہیں حکم دیا کہ رمضان کی
راتوں میں نماز پڑھائیں؛ چنانچہ فرمایا
کہ لوگ سارا دن روزہ رکھتے ہیں اور قراءت اچھی طرح نہیں کرسکتے اگر آپ
رات کو انہیں (نماز میں) قرآن سنائیں تو
بہت اچھا ہوگا. پس حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے انہیں 20 رکعتیں
پڑھائیں. (مسند احمد بن منیع بحوالہ اتحاف
الخیرة المہرة للبوصیری علی المطالب العالیہ ج 2 ص 424)
موطا امام مالک میں یزید بن خصیفہ کے طریق
سے سائب بن یزید کی روایت ہے کہ عہد فاروقی میں بیس رکعت
تراویح تھیں. (فتح الباری لابن حجر ج
4 ص 321، نیل الاوطار للشوکانی ج 2 514 ص)
حضرت محمد بن کعب القرظی (جو جلیل القدر
تابعی ہیں) فرماتے ہیں کہ لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں
بیس رکعت تراویح پڑھتے تھے. (قیام اللیل
للمروزی 157 ص)
حضرت یحیی بن سعید کہتے ہیں کہ حضرت عمر
فاروق رضی اللہ عنہ نے ایک آدمی کو حکم دیا کہ لوگوں کو بیس
رکعت تراویح پڑھائے. (مصنف بن ابی شیبہ
ج 2 285 ص)
حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو حضرت ابی بن کعب رضی
اللہ عنہ کی امامت پر جمع فرمایا. وہ لوگوں
کو بیس رکعت نماز تراویح پڑھاتے تھے. (ابو داوٴد ج 1 211 ص، باب
القنوت والوتر)
حضرت سائب بن یزید فرماتے ہیں کہ حضرت
عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں تین رکعت (وتر) اور بیس رکعت
(تراویح)
پڑھی جاتی تھیں. (مصنف عبد الرزاق ج 4 ص 201، حدیث نمبر 7763)
حضرت سائب بن یزید فرماتے ہیں کہ حضرت
عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ہم نے 20 رکعت تراویح پڑھا کرتے تھے،
اور قاری صاحب سو سو آیات والی سورتیں
پڑھتے تھے اور لمبے قیام کی وجہ سے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے
دور میں لاٹھیوں کا سہارا لیتے تھے. (السنن
الکبری للبیہقی ج 2 ص 496)
حضرت ابو الحسناء سے روایت ہے کہ حضرت
علی رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو رمضان میں
بیس رکعت تراویح پڑھائے. (مصنف ابن ابی
شیبہ ج 2 285 ص)
حضرت ابو عبدالرحمن السلمی سے روایت ہے
کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے رمضان میں قاریوں کو بلایا. پھر ان میں
سے ایک قاری کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو
بیس رکعت تراویح پڑھائے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ خود انہیں وتر
پڑھاتے تھے. (السنن الکبری للبیہقی ج
2 496 ص)
نماز تراویح سے متعلق صحابہ وتابعین کا
عمل:
حضرت اعمش فرماتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ
بن مسعود رضی اللہ عنہ کا معمول بھی بیس رکعت تروایح اور تین
رکعت وتر پڑھنے کا تھا. (قیام اللیل للمروزی
157 ص)
حضرت حسن بصری حضرت عبد العزیز بن رفیع
سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ رمضان میں
لوگوں کو بیس رکعت تراویح اور تین رکعت
وتر پڑھاتے تھے. (مصنف ابن ابی شیبہ ج 2 ص 285)
حضرت عطا بن ابی رباح (جلیل القدر تابعی،
تقریبا 200 صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم کی زیارت کی ہے) فرماتے ہیں کہ
میں نے لوگوں (صحابہ) کو بیس رکعت تراویح
اور تین رکعت وتر پڑھتے پایا ہے. (مصنف ابن ابی شیبہ ج 2 ص 285)
حضرت ابراہیم نخعی (جلیل القدر تابعی،
کوفہ کے مشہور ومعروف مفتی) فرماتے ہیں کہ لوگ رمضان میں پانچ ترویحہ
سے بیس رکعت پڑھتے تھے. (کتاب الآثار بروایت
ابی یوسف 41 ص)
حضرت شیتر بن شکل (نامور تابعی، حضرت علی
رضی اللہ عنہ کے شاگرد) لوگوں کو رمضان میں بیس رکعت تراویح اور
تین رکعت وتر پڑھاتے تھے. (السنن الکبری
للبیہقی ج 2 ص 496)
حضرت ابو البختری (اہل کوفہ میں اپنا علمی
مقام رکھتے تھے، حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ، حضرت عمر
رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو سعید رضی اللہ
عنہ کے شاگرد). آپ کے بارے میں روایت ہے کہ آپ رمضان میں پانچ ترویحہ
سے بیس رکعت تراویح اور تین رکعت وتر پڑھاتے
تھے. (مصنف ابن ابی شیبہ ج 2 ص 285)
حضرت سوید بن غفلہ (حضرت ابوبکر رضی اللہ
عنہ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت
عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ وغیرہ
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی زیارت کی ہے). آپ کے بارے میں ابو الخضیب
فرماتے ہیں کہ حضرت سوید بن غفلہ رمضان
میں پانچ ترویحہ سے بیس رکعت تراویح پڑھاتے تھے. (السنن الکبری
للبیہقی ج 2 496 ص)
حضرت ابن ابی ملیکہ (جلیل القدر تابعی،
تقریبا تیس صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم کی زیارت سے مشرف ہوئے) آپ کے
متعلق حضرت نافع بن عمر فرماتے ہیں کہ
حضرت ابن ابی ملیکہ ہمیں رمضان میں بیس رکعت تراویح پڑھاتے تھے.
(مصنف
ابن ابی شیبہ ج 2 ص 285
0 تبصرے comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔