سعودیہ کا چاند
شیخ الحدیث حضرت مولانا مفتی سعید احمد پالن پوری صاحب دامت برکاتہم
خطبہ مسنو نہ کے بعد:
(یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْأَہِلَّةِ؟ قُلْ ھِیَ مَوَاقِیْتُ
لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ، وَلَیْسَ الْبِرُّ بِأَنْ تَأْتُوا الْبُیُوْتَ مِنْ
ظُہُوْرِہَا وَلٰکِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقٰی، وَأْتُوْا الْبُیُوْتَ مِنْ
أَبْوَابِہَا، وَاتَّقُوْا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ ُتفْلِحُوْنَ)
بزرگو اور بھا
ئیو:ابھی ہما رے قاری صا حب نے جو تلا وت کی ہے اس میں یہ آیت بھی پڑھی ہے اس آیت
میں چا ند کا مسئلہ ہے اور مغر بی دنیا میں یہ مسئلہ جھگڑ ے کا با عث بنا ہوا ہے
،پس کیو ں نہ آج اسی آیت پاک کی تفسیر سمجھ لی جا ئے ؟
شا ن نزول:
آیت کریم کا شا ن نزول
یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نبی پاکﷺ سے سوال کیا کہ سورج ہمیشہ ایک حال
پر رہتا ہے مگر چاند ہمیشہ ایک حال پر نہیں رہتا ،ایسا کیوں ہے ؟ مہینہ کی تین
راتوں میں یعنی تیرہ، چودہ اور پندرہ میں تو ماہ کا مل ہوتا ہے پھر گھٹنا شروع ہو
تا ہے ،اور گھٹتے گھٹتے برا ئے نام رہ جا تا ہے ،پھربا لکل غا ئب ہو جا تا ہے ،پھر
کھجور کی ٹہنی کی طرح دوبا رہ نمو دار ہو تا ہے ،جو مہینہ کی پہلی تا ریخ کہلا تی
ہے ، پہلی تا ریخ کے چا ند کو عر بی میں 'ہلال ' کہتے ہیں ،اردو میں بھی یہی لفظ
مستعمل ہے ،پھر پہلا چاند بڑھتا ہے اور بڑ ھتے بڑھتے ما ہ کا مل بن جا تا ہے ،ایسا
کیوں ہے ؟سورج کی طرح چا ند ہمیشہ ایک حا لت پر کیوں نہیں رہتا ؟
اس سوال
کا ایک پس منظر ہے،صحا بہ نے حضور ﷺسے یہ بات اس لئے پو چھی تھی کہ عرب کا ملک گرم
ملک ہے،جیسے یہاں (یورپ و امریکہ میں ) آٹھ مہینے سردی رہتی ہے عرب میں آٹھ مہینے
گرمی رہتی ہے اور عرب میں پہا ڑ بہت ہیں ،وہاں کچھ پیدانہیں ہو تا ، مدینہ اور طا
ئف میں توتھو ڑا بہت پیداہوجاتا ہے مگر ملک کی ضرورت کو پورا نہیں کرتا ،اس لئے
عربوں کی معیشیت کامداراسفارپر تھا ،سال میں ایک مر تبہ شام جا تے تھے اور ایک
مرتبہ اونٹوں پر سفر ہوا کرتا تھا اور اونٹ پو رے دن نہیں چل سکتے ،زمین گرم ہو جا
تی ہے، زیادہ سے زیادہ نو بجے تک چل سکتے ہیں ،پھر سفر روک دیناپڑ تا ہے ،پھر شام
کو عصر کے بعد جب سمندر کی طرف سے ٹھنڈی ہوا ئیں چلتی ہیں اور مو سم ٹھنڈا ہو جا
تا ہے تو سفر شروع کرتے ہیں ،دن میں سفر نہیں کرسکتے، اس لئے دن کی تلا فی رات میں
کرتے تھے ا ور چاندجیسا تیرہ چودہ اور پندرہ میں کا مل ہوتا ہے اگر ایسا ہی پو را
مہینہ رہے تو سفر پر لطف ہوجائے ،یہ پس منظر تھا جس کی وجہ سے سوال کیا تھاکہ جس
طرح سورج ایک حال پر رہتاہے چاند ایک حال پر کیوں نہیں رہتا ؟پس آیت پاک نازل ہوئی
کہ لوگ آپﷺسے پو چھتے ہیں ہلا لوں
کے با رے میں؟ ہلال نہیں فرما یابلکہ ہلالوں فرمایا ،جمع لا نے میں اس طرف اشارہ
ہے کہ سا ری دنیا کا ہلال ایک نہیں ہوتا،اگر سا ری دنیا کا ہلا ل ایک ہوتا تو مفرد
ہلال لایا جا تا ،أہلہ جمع لا نے کی ضرورت نہیں تھی ،بہر حال لوگ آپ ﷺسے مہینہ کے
شروع کے چاند وں کے با رے میں پو چھتے ہیں ،آپ ان کو جواب دیں :مہینہ کے شروع کے
چاند لوگوں کے لئے اوقات مقررکرتے ہیں اور حج کے لئے وقت مقرر کرتے ہیں ،یہاں غور
کرنے کی بات یہ ہے کہ حج کو الگ کیوں کیا ؟ موا قیت للناس کا فی تھا، حج کو الگ
کرنے کی ضرورت کیا پیش آئی؟اس کی وجہ یہ ہے کہ مہینہ کے نئے چاند سا ری دنیا کے
لئے الگ الگ تا ریخیں مقرر کر تے ہیں۔
بعض احکام سورج سے متعلق
ہیں اور بعض چاند سے
کیلنڈردو بنتے
ہیں ،ایک سورج کا اور ایک چاند کا ،سورج کا کیلنڈر ہر آدمی نہیں بنا سکتا جو
فلکیات کا ما ہر ہے و ہ ہی بنا سکتا ہے،اور چاند کا کیلنڈر ہر شخص بنا سکتا
ہے،چاند نظر آئے تو اگلا مہینہ شروع کر دو ،ورنہ تیس دن مکمل کر لو ،اس کے لئے کسی
حساب کی ضرورت نہیں اور سورج کا کیلنڈر بنا نے کے لئے حساب کا جا ننا شرط ہے
۔
پھر شریعت نے کچھ احکام سورج سے متعلق کئے ہیں اور کچھ چاند سے، وہ احکام جن کو سال میں دائر نہیں کرنا ان کو سورج سے متعلق کیا ہے،اور جن احکام کوسال میں دائر کرنا ہے ان کو چاند سے متعلق کیاہے ،جیسے رمضان شریف کو سال میں دائر کرنا ہے، اگر ہمیشہ رمضان گرمی میں آئے گا تو لوگ پریشان ہونگے اورہمیشہ سردی میں آئے گا تو کچھ مشقت نہ ہو گی ، پھر زمین کا کرہ گول ہے ،شمال کی سردی گرمی کا اعتبار ہو گا یا جنوب کی ؟ایک جا نب والا ہمیشہ مزہ میں رہے گا دوسری جا نب وا لا پریشان !پس رمضان پورے سال میں گھو مے اس لئے اس کو چاند سے متعلق کیا تا کہ کبھی اور کہیں رمضان سردیوں میں آئے اور کبھی اور کہیں گرمیوں میں ،اور نما زیں سال بھر پڑھنی ہے ،گر می اور سردی کا اس پر اثر نہیں پڑتا اس لئے ان کو سورج سے متعلق کیا ۔
پھر شریعت نے کچھ احکام سورج سے متعلق کئے ہیں اور کچھ چاند سے، وہ احکام جن کو سال میں دائر نہیں کرنا ان کو سورج سے متعلق کیا ہے،اور جن احکام کوسال میں دائر کرنا ہے ان کو چاند سے متعلق کیاہے ،جیسے رمضان شریف کو سال میں دائر کرنا ہے، اگر ہمیشہ رمضان گرمی میں آئے گا تو لوگ پریشان ہونگے اورہمیشہ سردی میں آئے گا تو کچھ مشقت نہ ہو گی ، پھر زمین کا کرہ گول ہے ،شمال کی سردی گرمی کا اعتبار ہو گا یا جنوب کی ؟ایک جا نب والا ہمیشہ مزہ میں رہے گا دوسری جا نب وا لا پریشان !پس رمضان پورے سال میں گھو مے اس لئے اس کو چاند سے متعلق کیا تا کہ کبھی اور کہیں رمضان سردیوں میں آئے اور کبھی اور کہیں گرمیوں میں ،اور نما زیں سال بھر پڑھنی ہے ،گر می اور سردی کا اس پر اثر نہیں پڑتا اس لئے ان کو سورج سے متعلق کیا ۔
پھر جو احکام
سورج سے متعلق ہیں ان میں بھی حساب نہیں ہے ،آنکھ سے دیکھو اور عمل کرو اور جو
احکام چاند سے متعلق ہیں ان میں بھی حساب نہیں ہے آنکھ سے دیکھو اور عمل کرو کیو
نکہ نبی پاکﷺ کی امت اتنی بڑی ہے کہ اگر درختوں کے پتے گنے جا سکتے ہیں تو حضورﷺ
کی امت گنی جا سکتی ہے ،اگر ریت کے ذرے گنے جا سکتے ہیںتو حضورﷺ کی امت گنی جا
سکتی ہے ،اگر آسمان کے تا رے گنے جا سکتے ہیںتو حضورﷺ کی امت گنی جا سکتی ہے ، اور
سب لوگ شہروں اور دیہاتوںمیں نہیں رہتے ، کچھ لوگ پہا ڑوں میں رہتے ہیں، کچھ
جنگلوں میں ،پس اگر ان کو سورج اور چاند کا حساب سیکھنے کے لئے کہا جا ئے گاتو یہ
بات امت کے لئے نا قابل عمل ہوگی ،اس لئے حکم دیا کہ آنکھ سے دیکھو اور عمل کرو چا
ہے وہ حکم سورج سے تعلق رکھتا ہو یا چاند سے ۔
ہندی مہینے یکساں کیوں ہو
تے ہیں ؟
ہندؤوں کا کیلنڈر بھی
قمری ہے مگر وہ موسم فکس کر نے کے لئے ہر تین سال میں ایک مہینہ بڑھا دیتے ہیں ،ہر
تیسرے سال:سال کے تیرہ مہینے کر دیتے ہیں اور اس طرح ان کے قمری مہینے ایک سیزن
میں آتے ہیں ،جیٹھ ہمیشہ گرمیوں میںآتا ہے ،اسلام سے پہلے عرب بھی مہینوں کے ساتھ
یہی عمل کرتے تھے ،وہ بھی ہر تیسرے سال کبیسہ کے نام سے ایک مہینہ بڑھاتے تھے ،چنا
نچہ رمضان کا جو رمضان نام پڑا ہے وہ اس وجہ سے پڑا ہے کہ رمضان کے معنی ہیں :وہ
زمانہ جس میں پتھر نہا یت گرم ہوجا تے ہیں ،چونکہ رمضان ہمیشہ نہایت گرمی میں آتاتھااس لئے اس مہینہ کورمضان کہنے
لگے،قرآن کی آیت( اِنَّماَ النَّسِیْئُ زِیَادَة فِیْ الْکُفْرِ)میں اسی کا بیان ہے
،اسلام نے اس سسٹم کو ختم کر دیا تو مہینے سال میں گھو منے لگے۔
نمازوں کے اوقات میں جنتری
اور گھڑی کا اعتبار نہیں
کچھ لو گ کہتے
ہیں کہ نماز وں کے اوقات کیلئے جنتر یاں بنائی جا تی ہیں اور ان کے حساب سے اذانیں
دی جا تی ہیں اور نمازیں پڑھی جا تی ہیں ،پس جب نمازوں میں حساب کا اعتبار کیا جا
تا ہے تو رمضان کے چاند میں حساب کا اعتبار کیوں نہیں کیا جا تا ؟
اس کا جواب یہ
ہے کہ نمازوں کے اوقات میں جنتریوں کا اعتبار نہیں ،مشرق میں دیکھو !پو پھٹے اور
لال دھا ری نمو دار ہو تو صبح صادق ہو گئی ،سحری بند کرو اور فجر کی نماز پڑھو ،
گھڑ ی میں چا ہے کچھ بھی بجا ہو اس کا اعتبار نہیں ،اسی طرح سورج نکلا اس کا اوپر
کا کنا رہ نمو دار ہوا تو سورج نکل آیا اب فجر کی نماز کا وقت ختم ہوگیا ،پھر جب
سورج بلند ہو ا اور ہر چیز کا سایہ گھٹتا ہوا درجہ صفت پر آگیا یعنی سورج سر پر آ
گیا تو ہر نماز ممنو ع ہو گئی ،پھر جب سورج ڈھلا اور سا یہ مشرق کی طرف بڑھنا شروع
ہوا تو زوال ہو گیا اب ظہر پڑھو ،پھر اصلی سا یہ چھو ڑ کر جب ہر چیز کا سا یہ اس
کے ما نند ہو گیا تو ا ئمہ ثلا ثہ اور صا حبین کے نز دیک ظہر کا وقت ختم ہو گیا
اور امام اعظم کے نز دیک ابھی ظہر کا وقت با قی ہے ،ان کے نزدیک اصلی سا یہ چھو ڑ
کر ہر چیز کا سا یہ دوگنا ہو جائے تب ظہر کا وقت ختم ہو تا ہے ،اور جب بھی ظہر
کاوقت ختم ہو عصر کا وقت شروع ہوجا ئے گا ،اور جب سورج کا اوپر کا کنارہ چھپ گیا
تو مغرب کا وقت ہو گیا ،پھر سو رج ڈوبنے کے بعد جب تک مطلع پر رو شنی رہے مغرب کا
وقت ہے ،اور جب بالکل اند ھیرا چھا جائے تو عشا ء کا وقت شروع ہو گیا صبح صا دق تک
عشاء پڑھ سکتے ہیں،غر ض کسی حساب کی ضرورت نہیں اور کوئی گھڑی نہیں چا ہئے ،آنکھو
ں سے دیکھواور پانچوں نمازیں پڑھو،نمازوں میں جنتریوں کا حساب ضروری نہیں ،جنتریاں
لو گوں نے سہولت کے لئے سے بنا ئی ہیں، لیکن فرض کرو:جنتری کہتی ہے ابھی پا نچ منٹ
کے بعد سورج طلوع ہو گا اور ہم اپنی آنکھ سے دیکھ رہے ہیں کہ سورج نکل آیاہے ،تو
اعتبار دیکھنے کا ہو گا ، جنتری اور گھڑی کا نہیں ہو گا ،چاند کا بھی یہی معاملہ
ہے ،اعتبار آنکھ سے دیکھنے کا ہے ،اگر چہ قمری کیلنڈر بنتے ہیں ،اور سال میں دس
مہینے اس کے حساب سے چند نظر آتا ہے ،مگر سال میں دو ماہ اس کیلنڈر کے مکا بق چا
ند نظر نہیں آتا ،اس لئے اعتبار حساب کا نہیں، بلکہ آنکھ سے دیکھنے کا ہے ۔
تر قی یافتہ دور میں حساب
پر مدار رکھنے میں حر ج کیا ہے؟
برطا نیہ میں اور اس
ملک (امریکہ)میں کچھ مسلمان جو ما ہرین حساب ہیں کہتے کہ چاند کو آنکھ سے
دیکھنے کا زما نہ چودہ سو سال پہلے تھا جبکہ او نٹوں اور پتھروں کا زما نہ تھا ،اب
ہم تر قی یافتہ ہیں ،لکھنا پڑھنا جانتے ہیں ،حساب کتاب جا نتے ہیں ،ہم حساب سے بتا
سکتے ہیں کہ چاند کب نکلے گا اور کب ڈوبے گا ؟اسی طرح ہم یہ بھی جا نتے ہیں کہ نیا
چا ند کب پیدا ہو گا اور کب آنکھ سے دیکھنے کے قا بل ہو گا،میں ان بھا ئیوں سے پو
چھتا ہوں :بتا ؤ حساب کتاب جا ننے والے کتنے مسلمان ہیں ؟پو ری دنیا میں ایک فیصد
بھی نہیں ہیں ،پس شریعت احکام کا مدار ایسی چیز پر کیسے رکھے گی جس کے جا ننے وا
لے ایک فیصد بھی نہیں ،چنا نچہ حدیث میں نبی پاک ﷺکا ارشادہے : نحن أمة أمیةلا نکتب ولا
نحسب :ہم نا خواندہ
امت ہیں یعنی امت کی اکثر یت نا خواندہ ہے ،اور نا خوا ندہ ہونے کا مطلب یہ نہیں
ہے کہ اردو فارسی انگریزی نہیں پڑھ سکتے،بلکہ نا خواندہ کامطلب ہے :لا نکتب ولانحسب: ہم لکھتے اور گنتے
نہیں،چنا نچہ آج بھی امت کی اکثریت حساب کتا ب نہیں جانتی ایسی صورت میں شریعت
اکثر یت کا لحاظ کر کے احکام مقرر کر تی ہے کچھ خاص بندوں کا لحاظ کر کے احکام
مقررنہیں کر تی ،پا لیمنٹ جو قوا نین بنا تی ہے ان میں بھی اکثریت کا لحاظ کر تی
ہے بعض کا لحاظ نہیں کر تی ،پس ما ہرین حساب کا یہ کہناکہ دنیا اب بہت تر قی یافتہ
ہوگئی ہے ،اب ہم حساب کے ما ہرہو گئے ہیں ان کا یہ کہنا صحیح ہے ،بے شک وہ ما ہر
ہو گئے ہیں ،ہم ان کی مہا رت کا انکار نہیں کرتے لیکن شر یعت نے اکثریت کا لحاظ کر
کے چاند کا مدار حساب پر نہیں رکھا ،بلکہ آنکھوں کی رویت پر مدار رکھا ہے ۔
بہر حال کو ئی ما
ہر ہے یا نہیں ؟اس قصہ کو چھو ڑو، اگر ما ہر ہے بھی تو احکام کا مدار حساب پر نہیں ،سورج سے متعلق احکام کا بھی اور چاندسے
متعلق احکام کا بھی ،دونوں کا مدارآنکھ سے دیکھنے پر ہے کیونکہ امت کی اکثریت حساب
کتاب نہیں جا نتی اور شر یعت احکام کے نا زل کرنے میں اکثریت کا لحاظ کرتی ہے
۔
آیت کریمہ پر ایک نظرپھر ڈالو اللہ پاک فرما تے ہیں:آپﷺ جواب دیں : چاند گھٹتا بڑ ھتا اس لئے ہے کہ لو گوں کے لئے اوقات مقرر کرے اور حج کے لئے وقت مقرر کرے،اس میں صاف اشارہ ہے کہ مدار آنکھ سے دیکھنے پر ہے اور آنکھ سے دیکھنے کے اعتبارسے مہینہ کا پہلا چاند پو ری دنیا میں ایک نہیں ہو سکتا پس لا محا لہ چاند کا مہینہ پو ری دنیا میں الگ الگ شروع ہوگا ،جہاں چاند نظر آئے گا وہاں مہینہ شروع ہو گا ، صرف حج ایک ایسی عبا دت ہے جس میں سا ری دنیا کے مسلمان اپنی تا ریخیں چھوڑ کرمکہ کی قمری تا ریخ کے اعتبار کریں گے اور ایک معین دن میں حج کریں گے۔
آیت کریمہ پر ایک نظرپھر ڈالو اللہ پاک فرما تے ہیں:آپﷺ جواب دیں : چاند گھٹتا بڑ ھتا اس لئے ہے کہ لو گوں کے لئے اوقات مقرر کرے اور حج کے لئے وقت مقرر کرے،اس میں صاف اشارہ ہے کہ مدار آنکھ سے دیکھنے پر ہے اور آنکھ سے دیکھنے کے اعتبارسے مہینہ کا پہلا چاند پو ری دنیا میں ایک نہیں ہو سکتا پس لا محا لہ چاند کا مہینہ پو ری دنیا میں الگ الگ شروع ہوگا ،جہاں چاند نظر آئے گا وہاں مہینہ شروع ہو گا ، صرف حج ایک ایسی عبا دت ہے جس میں سا ری دنیا کے مسلمان اپنی تا ریخیں چھوڑ کرمکہ کی قمری تا ریخ کے اعتبار کریں گے اور ایک معین دن میں حج کریں گے۔
سعودیہ
کا معاملہ
آج سے تقریبا چا لیس سال پہلے جبکہ میں راندیر میں مدرس تھا ،مکہ کے حکو متی ادارے رابطہ عا لم اسلامی نے اجلاس بلا یا ،دنیا کے بڑے بڑے علماء اس کے رکن ہیں ، ہندوستان سے اس وقت رکن حضرت مو لانا محمدمنظور نعما نی صاحب رحمہ اللہ اور حضرت مو لا نا ابوالحسن علی میاں صاحب ندوی رحمہ اللہ تھے ،دونوں حضرات اجلا س میں شر کت کے لئے تشریف لے گئے ،اس کانفرنس کے ایجنڈے میں تو حید اہلہ کا مسئلہ بھی تھا،توحید کے معنی ہیں :ایک ہو نا ، اور ا ہلہ:ہلال کی جمع ہے،یعنی دنیا میں چاند کی الگ الگ تا ریخیں شرو ع ہو تی ہیں ،یہ نظام ختم کیا جا ئے اور پو ری دنیا میں چاند کی تا ریخیں ایک ساتھ شروع ہو ں ایسا نظام بنا یا جا ئے۔ توحیدا ہلہ کا مطلب یہی ہے،تمام ممبران نے حتی کہ سعودیہ کے ممبران نے بھی اس کو نا منظور کیا کہ یہ قرآن و حدیث کے خلاف ہے ،قر آن کی تو یہی آیت ہے اورحدیث میں نبی پاک ﷺنے فرمایاہے :صوموا لرؤیتہ وأفطروا لرؤیتہ:جب چا ند نظر آئے رمضان کے روزے شروع کرو اور چاند نظر آئے تو رمضان کے روزے ختم کرو، غرض تمام ممبرا ن نے اس تجو یز کو رد کر دیا کہ پو ری دنیاکا چاند ایک نہیں ہو سکتا ۔
آج سے تقریبا چا لیس سال پہلے جبکہ میں راندیر میں مدرس تھا ،مکہ کے حکو متی ادارے رابطہ عا لم اسلامی نے اجلاس بلا یا ،دنیا کے بڑے بڑے علماء اس کے رکن ہیں ، ہندوستان سے اس وقت رکن حضرت مو لانا محمدمنظور نعما نی صاحب رحمہ اللہ اور حضرت مو لا نا ابوالحسن علی میاں صاحب ندوی رحمہ اللہ تھے ،دونوں حضرات اجلا س میں شر کت کے لئے تشریف لے گئے ،اس کانفرنس کے ایجنڈے میں تو حید اہلہ کا مسئلہ بھی تھا،توحید کے معنی ہیں :ایک ہو نا ، اور ا ہلہ:ہلال کی جمع ہے،یعنی دنیا میں چاند کی الگ الگ تا ریخیں شرو ع ہو تی ہیں ،یہ نظام ختم کیا جا ئے اور پو ری دنیا میں چاند کی تا ریخیں ایک ساتھ شروع ہو ں ایسا نظام بنا یا جا ئے۔ توحیدا ہلہ کا مطلب یہی ہے،تمام ممبران نے حتی کہ سعودیہ کے ممبران نے بھی اس کو نا منظور کیا کہ یہ قرآن و حدیث کے خلاف ہے ،قر آن کی تو یہی آیت ہے اورحدیث میں نبی پاک ﷺنے فرمایاہے :صوموا لرؤیتہ وأفطروا لرؤیتہ:جب چا ند نظر آئے رمضان کے روزے شروع کرو اور چاند نظر آئے تو رمضان کے روزے ختم کرو، غرض تمام ممبرا ن نے اس تجو یز کو رد کر دیا کہ پو ری دنیاکا چاند ایک نہیں ہو سکتا ۔
پو ری دنیاکے
لئے ایک چاند مقرر کر نے کی ایک ہی صورت ہے کہ چاندکو آنکھ سے دیکھنے کا مسئلہ ختم
کر دیا جا ئے اور قمر جدید یعنی نیو مون کا اعتبار کر لیا جائے ،اس صورت میں ساری
دنیا کا چاند ایک ہو جا ئے گا ۔
قمر جدید (نیا چاند)کیا ہے
؟
سورج مشرق سے نکل کر
مغرب میں ڈوبتا ہے ،چاند بھی اسی طرح مشرق سے نکل کر مغرب میں ڈوبتا ہے ،یہ چاند
کی روز مرہ کی چال ہے البتہ چاندکی ایک دوسری چال بھی ہے ، وہ مغرب سے مشرق کی طرف
بھی چلتا ہے ،دو متضاد چالیں ایک ساتھ چلتا ہے اور یہ بات اللہ کے لئے کچھ مشکل
نہیں،جیسے ہم فٹ بال کو لات مار تے ہیں تو گیند سامنے کی طرف بھی جا تی ہے اور گول
بھی گھومتی ہے ،اسی طرح چاند چو بیس گھنٹے میں ایک راؤنڈ لیتا ہے ،اور دوسری چال
مغرب سے مشرق کی طرف چو بیس گھنٹوں میں٢٣ ڈگری چلتا ہے ا ور انتیس دن میں ایک
راؤنڈ پورا کرتا ہے۔اور جیسے آدھی زمین روشن رہتی ہے اور آدھی پر اند ھیراچھایا
رہتا ہے ،یہاں رات ہے اور چین میں سورج نکلا ہوا ہے ،یہی حال چاند کا بھی ہے ،اس
کا آدھا حصہ جو سورج کی طرف ہے وہ روشن ہوتاہے اور دوسرا آدھاجو سورج کے مقابل
نہیں وہ تاریک ہوتاہے ،پس آدھا روشن اور آدھا غیر روشن ہو نے میں چاند اور زمین
یکساں ہیں ،اور جب ہم چاند کو زمین سے دیکھیں اوراس کا روشن حصہ نظر نہ آئے تو اس
کا نام مُحاق ہے ،پھر جب ہما رے دیکھنے کازاویہ بدلتا ہے تو چا ند کے روشن حصہ کا
ایک کنا رہ ہمیں نظر آتا ہے ،یہ ہلال ہے ،پھر جوں جوں زاویہ بدلتا رہتا ہے ہر دن
کا چا ند بڑا ہو تا رہتا ہے ،پھر ایک وقت ا یسا آتا ہے کہ چاند زمین اور سورج کے
بیچ میں آجا تا ہے ،پس چاند کا آ دھا روشن حصہ دوسری طرف ہو جا تا ہے اور ہما ری
طرف تاریک وا لا حصہ ہو جا تا ہے ،یہ زمانہ محاق کہلا تاہے ، پھر جب چاند مشرق کی
طرف ہٹتا ہے اور سورج کے تقابل سے نکل جاتاہے تو قمر جدید کہلا تا ہے ، لیکن ابھی اس
کا زاویہ اتنا باریک ہو تا ہے کہ زمین سے اس کے دیکھنے کا امکان نہیں ہو تا ،جب
چاندسورج سے کم از کم سو لہ ڈگری پیچھے ہو جا ئے تب زمین سے دیکھنے کے قا بل ہو تا
ہے اور کھجور کی ٹہنی کی طرح نظر آتا ہے ۔
غرض قمر
جدید کا اعتبارکرلیں تو پو ری دنیا کی تا ریخ ایک ہو جا ئے گی،تو حید ا ہلہ کی یہی
صورت ہے،یہ تجویز رابطہ کے اجلاس میں پیش ہو ئی مگر دنیا کے تمام علماء نے اس کو
نا منظو رکر دیا ،کا نفرنس سے جب وہ دونوں حضرات لو ٹے تو حضرت مولا نا محمد منظور
نعما نی صا حب رحمہ اللہ تبلیغی دو رے پر سورت تشریف لائے ،میں چو نکہ ان کے رسا
لہ الفرقان میں لکھتا تھا اس لئے میرا ان سے تعا رف تھا ،حضرت نے سا ری تفصیل مجھے
سنا ئی اور فرما یا سعودیہ نے ایک خطر نا ک اسکیم شروع کی ہے اور اچا نک یہ مسئلہ
کھڑا کیا ہے تا کہ بے خبری میں اس کو پا س کرالیا جا ئے ،علماء نے اگر چہ اس کو با
لکل نا منظور کر دیا ہے لیکن مجھے اندیشہ ہے کہ یہ فتنہ رکے گا نہیں ،اس سے پہلے
کہ یہ بہت بڑا فتنہ بن جا ئے اس پر مضا مین لکھنے چا ہئیں ،چنا نچہ میں نے اسی زما
نہ میں اس مسئلہ پر ایک مضمون لکھا جو الفرقان میں دو قسطوں میں شائع ہوا ( یہ
مضمون علمی خطبات میں درج ہے۔ضرورت مند حضرات اس کو وہیں دیکھیں۔ بلاگر) اس
کے بعد کیا ہوا؟سعودیہ خاموش ہو گیا،اس نے آگے مسئلہ نہیں چھیڑا مگر اب کچھ سا لوں
سے اس کو سا ری دنیا سے پہلے چاند نظرآتا ہے اور با قاعدہ اخبا روں میں چھپتا ہے
کہ فلاں قاضی کے پاس دو گوا ہوں نے گوا ہی دی،اس کو دو ہی گوا ہ ملتے ہیں ،جبکہ
سعودیہ کا مطلع عام طور پر صاف رہتا ہے مگر کبھی رؤیت عا مہ نہیں ہو تی۔
سعو دیہ کا انو کھا چاند
اس سال (٢٠٠٩)میں تو
عجیب تما شہ ہوا ،مد ینہ منورہ میں مو لا نا ۔۔۔۔ہیں جو حضرت مولا
نا۔۔۔۔۔ صا حب رحمہ اللہ کے خلیفہ ہیں اور ایک مولا نا۔۔۔۔ ہیں
،ان کا لندن میں ایک صا حب کے پا س فون آیاکہ ہم نے فجر کے بعد سورج نکلنے سے پہلے
اپنی آنکھوں سے چاند دیکھااور شام کو سعو دیہ نے رمضان کے چا ندکا اعلان کر دیا
،یہ اسی سال کا قصہ ہے اور یہ سلسلہ ١٩٧٤ء سے چل رہا ہے جس کا پس منظر میں نے آپ
حضرات کو سنا یا،اُس وقت سعودیہ نے جو سوچا تھا اسی کے مطا بق کر تا ہے ،مگر چونکہ
مسلمان اس کو ما نیں گے نہیں اس لئے رؤیت کا ڈھونگ رچا تا ہے۔
کیا سعو دیہ وا لے
مسلما ن نہیں ؟
کچھ لو گ کہتے ہیں :
کیا سعو دیہ وا لے مسلما ن نہیں؟کیا وہ جھو ٹ بو لتے ہیں ؟اس کا جواب یہ ہے کہ
مشرق میں جب چاند نظر آئے گا تو مغر ب میں ضرور دکھا ئی د ے گا ،کیو نکہ مغرب میں
چا ند کا سورج سے فا صلہ بڑ ھ جا ئے گا ،مگر آ پ دیکھتے ہیں کہ سعو دیہ چاند
دیکھنے کا اعلان کر تا ہے ،پھر ڈھا ئی گھنٹے بعد بر اعظم افر یقہ میں سو رج غروب
ہو تا ہے ،مگر پو رے براعظم افریقہ میں یہ چا ند کسی مسلمان کو نظر نہیں آتا ،سعو
دیہ وا لے مسلمان ہیں تو کیا افریقہ والے مسلمان نہیں ؟اس کے بعد بر اعظم امریکہ
میں سو رج غر وب ہو تا ہے ،پو رے بر اعظم امریکہ میں کسی مسلمان کو یہ چا ند نظر
نہیں آتا مگر سعو یہ میں دو آدمیوں کو نظر آجا تاہے بلکہ بعض مرتبہ تو ایسا ہو
تاہے کہ پو رے را ؤنڈمیں کہیں چاند نظر نہیں آ تا ،اس سال جس چاند کے دیکھنے کا
سعو دیہ نے اعلان کیا ہے وہ چاند پو رے افریقہ میں کسی کو نظر نہیں آیا،پو رے
امریکہ میں کسی کو نظر نہیں آ یا،چا ئنا میں نظر نہیں آ یا،ملیشیا میں نظر نہیں
آیا ،انڈیا میں نظر نہیں آ یا ہاں مغربی انڈیا میں نظر آیا ،گجرات کی جو پٹی ہے
وہاں چاند نظر آیا اور وہاں سے جو نظر آنا شروع ہوا تو پورے راؤنڈ میں سب جگہ نظر
آ یا ،مگر سعودیہ کا دیکھا ہواچاند پو رے راؤنڈ میں گجرات تک کہیں نظر نہیں آیاپس
سعودیہ وا لے مسلمان ہیں توکیا دنیا کے سا رے مسلمان آنکھ بند کر کے چاند دیکھتے
ہیں؟اگر سعودیہ صاف کہہ دے کہ ہم قمر جدید پر اعلان کر تے ہیں تو کوئی جھگڑا نہیں
، جس کو ماننا ہو گا ما نے گااور جس کو نہیں ما ننا ہو گا نہیں ما نے گا۔
مشکو ک بات چھو ڑو اور
یقینی بات اختیار کرو
اور امر مشکوک کے با رے
میں شریعت کا حکم وہ ہے جس کو نبی پاکﷺنے ایک حدیث میں بیان فرما یا ہے :دَعْ مَا یُرِیْبُکَ الی
ما لا یریبک فاِنَّ الصدق طُمَأْنِیْنَة، وَالْکَذِبَ رِیْبَة:کھٹک وا لی بات چھو ڑو
اور بے کھٹک بات اختیار کرو ،سچ سے اطمینان ہوتا ہے اور جھوٹ سے دل بے چین ہو تاہے
،مثال کے طور پر آپ پو لیس کے ہا تھوں میں پھنس جائیں اور آپ جھوٹ بو ل کر اپنا الو سیدھا کر
لیں تو کر لیں ،لیکن دل آپ کا بے چین رہے گا اور اگر آپ اس معا ملہ میں سچ بو لیں
اور چار پیسے کا نقصان بر داشت کر لیں تو اگر چہ نقصان ہوگا مگر دل آپ کا مطمئن
رہے گا ،پس سعودیہ کو ہم جھو ٹا نہیں کہتے لیکن وہ مشکوک تو ضرور ہے اور شریعت کا
حکم مشکوک کے با رے میں میں نے حدیث کے حوا لہ سے بتا یا کہ مشکو ک کو یقینی بنا
لو ،یقینی بات کیا ہے ؟حدیثوں میں حکم آیا ہے کہ ہر جگہ کی اور ہر ملک کی رویت پر
رمضان شروع کیا جا ئے اور رو یت پر ہی ختم کیا جائے ،ہاں اگر کوئی ملک ایسا ہو کہ
وہاں سال کا بیشتر حصہ مطلع ابر آلو د رہتا ہو ،چاند نظر نہ آتا ہوتو وہ پھر نز
دیکی ملک کی رویت کا اعتبار کرے،اور اگر کبھی کبھی مطلع ابر آلود رہتاہو تو وہ نز
دیکی ملک کا اعتبار نہیں کر ے گا ،بلکہ وہ اپنے چاند کا اعتبار کریں گے ،چاند نظر
آیا تو ٹھیک ہے، نہیں نظر آ یا تو مہینہ تیس کا شما ر کریں گے ،اس سال گجرات میں
چاند دیکھا گیا اور انتیس کے اعتبار سے عید ہوئی لیکن پورے ہندوستان نے وہ رویت
نہیں لی کیو نکہ گجرات مغرب میں ہے اور مغرب کا چاند مشرق میں نظر نہ آئے ایسا ہو
سکتا ہے لیکن مشرق کا چاند مغرب میں نظر نہ آئے یہ ممکن نہیں ،یہ عجوبہ تو چا لیس
سال سے چل رہا ہے کہ سعودیہ میں چاند نظر آتاہے اور افریقہ اور امریکہ میں نظر
نہیں آتا ،اگر سعودیہ کی رویت حقیقی ہو تی تو دنیا میں کو ئی مسئلہ پیدا نہ ہو
تا،یہ آیت پاک کے شروع حصہ کی وضا حت ہو ئی ، اس کے بعد جو ٹکڑا ہے اس کی بھی
وضاحت کر دوں تا کہ بات پو ری ہو جا ئے ۔
اسلام سے پہلے جب عرب
حج کا احرام باندھتے تھے تو دروا زہ سے گھر میں دا خل نہیں ہو تے تھے اور گھر میں
آ نا ضروری ہے، پس وہ پچھلے دروازے سے گھر میں آتے تھے اور وہیں سے نکلتے بھی تھے
،جیسے یہود کے یہاں سنیچر کو کوئی کام نہیں کر سکتے ،لا ئٹ اگر کھلی ہے اور سنیچر
شروع ہو گیا تو اب اس کو بند نہیں کر سکتے ،بند ہے اور سنیچر شروع ہو گیا تو اب اس
کوکھول نہیں سکتے ،لیکن کر تے سب کام ہے ،کر تے کیا ہیں ؟سڑک سے کسی مسلمان کو پکڑ
لاتے ہیں اور اس سے کہتے ہیں: ذرا بٹن آن کر دو، یہ کیا دین پر عمل ہوا ؟یہ تو
اللہ کو دھو کہ دینا ہوا،ایسا ہی حیلہ انہوں نے پرا نے زما نہ میں مچھلیوں کے تعلق
سے کیا تھا ،بہر حال جیسا یہ یہو دی کر تے ہیں ایسا ہی عرب بھی کر تے تھے کہ حج کا
احرام باندھنے کے بعد سامنے کے دروازے سے گھر میں نہیں آتے تھے،پیچھے سیڑھی لگا کر
گھر میں آتے تھے ،قرآن نے کہا:(وَلَیْسَ الْبِرُّ بِأَنْ تَأْتُوْا الْبُیُوْتَ مِنْ
ظُہُوْرِہَا)یہ کونسا نیکی کا کام
ہے کہ تم گھروں میں پچھواڑے سے آؤ (وَلٰکِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقٰی)بلکہ نیکی کا کام یہ ہے کہ اللہ کے حکم پر عمل
کرو اس کے حکم کی خلاف ورزی مت کرو۔
اللہ سے ڈر نے کا مطلب
اوراللہ سے ڈرناایسا ڈر
نا نہیں جیسے سانپ سے ،شیر سے اور دشمن سے ڈرتے ہیں،اللہ تو وہ ذات ہے جس سے محبت
کر نی ہے ،بلکہ اللہ سے ڈر نے مطلب یہ ہے کہ جیسے اطاعت شعار بیٹا باپ سے ڈرتا ہے
،مخلص طا لب علم استا ذ سے ڈرتا ہے ،عقیدت مند مر ید پیر سے ڈرتاہے ،بیٹا سوچتا ہے
کہ مجھے کوئی ایسا کا م نہیں کر نا چاہئے کہ ابا نا راض ہو جا ئیں ،جنت تو ماں باپ
کے قدموں کے نیچے ہے اور وہی نا راض ہو گئے تو میرا کیا ہو گا؟طا لب علم پھو نک
پھونک کر قدم رکھتا ہے سو چتا ہے کہ میں کوئی ایسا کام نہ کروں کہ استاذ ناراض ہو
جا ئیں ،اگر وہ ناراض ہو گئے تو مجھے چار لفظ کہاں سے آئیں گے ؟عقیدت مند مرید
سوچتا ہے کہ مجھے کوئی کا م ایسا نہیں کرنا چا ہئے کہ پیر نا راض ہو جا ئے ،اگر
پیر نا راض ہو گیا تو میرا اللہ سے تعلق کون جو ڑے گا ؟تو جیسے یہ تینوں حضرات
اپنے بڑوں کے احکام کی خلاف ورزی سے ڈر تے ہیں ،ان کی ناراضگی سے ڈرتے ہیں ایسے ہی
اللہ سے ڈرنا ہے کہ مو من بندے کو کوئی کام ایسا نہیں کرنا چاہئے کہ جس سے اللہ نا
راض ہو جائیں ،قرآن و حدیث میں جہاں جہاں آتا ہے کہ اللہ سے ڈرو، اللہ سے ڈرو، اس
کا یہی مطلب ہے ۔
غرض قرآن
نے مشرکین سے کہا :( وَلٰکِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقٰی) نیکی کا کام یہ ہے کہ تم اللہ کے احکام کی
خلاف ورزی سے ڈرو،اگر اللہ نے یہ حکم دیا ہو کہ احرام باندھنے کے بعد گھر میں مت
جا ؤ تویہ کیا بات ہو ئی کہ دروازے سے نہیں گئے، پیچھے سے گھس گئے (وَأْتُوْا الْبُیُوْتَ
مِنْ أَبْوَابِہَا)گھروں
میں ان کے دروا زوں سے آؤ ،یعنی شریعت کا یہ حکم نہیں ہے کہ احرام باندھنے کے بعد
گھر میں نہیں آسکتے ،یہ تو تم نے خود گھڑلیا ہے ، (وَاتَّقُوْا اللّٰہَ) اور اللہ سے ڈرو ،یعنی اللہ نے جو احکام دیئے ہیں ان کی خلاف
ورزی مت کرو ،اللہ نے کہا ہے : احرام میں ٹو پی مت پہنو، مت پہنو ،اللہ نے کہا ہے
: احرام میں پگڑی مت باند ھو، مت با ندھو ،اللہ نے جو احکام دیئے ہیں ان کا پا لن
کرو اپنی طرف سے کچھ مت بڑ ھا ؤ،(لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ) تا کہ تم کامیاب ہو ؤ،مو من کی کامیابی اللہ
کے احکام کی اطا عت میں ہے اپنی طرف سے احکام تجویز کر نے میں نہیں ہے۔
ربط مضا مین
اور آ یت میں
مذکور دونوں مضمون میں نے آپ حضرات کو سمجھا دئیے ،میرے بھا ئیو ! آپ اس پر غو ر
کریں کہ ان دونوں مضمونوں میں جوڑ کیا ہے؟کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا بھامن متی نے
کنبہ جو ڑا وا لا معا ملہ تونہیں ہے؟نہیں ایسا نہیں ہے ،پہلا مضمون یہ ہے کہ مہینہ
کے نئے چاند تمام لوگوں کے لئے الگ الگ اوقات مقرر کریں گے اور حج کے لئے ایک وقت
مقرر کر یں گے ،اور دوسرا مضمون یہ ہے کہ اللہ نے جو احکام دئے ہیں ان کی خلاف
ورزی مت کرو ،نہ اپنی طرف سے کسی حکم کا اضا فہ کرو ،یہی برو تقویٰ ہے ،کا میا بی
کا راز اسی میں ہے ،اپنی طرف سے نئے نئے شو شے چھو ڑنا کہ اب تو ہم بڑے ما ہر ہو
گئے ہیں ،حساب کتاب جا ننے لگے ہیں ،اب آنکھ سے چاند دیکھنے کی ضرو رت نہیں ،اب ہم
ہیلی کا پٹر میں اڑکر جا ئیں گے اور اوپر جا کر چاند دیکھیں گے ،دور بینوں سے چاند
دیکھیں گے ،یہ کریں گے وہ کریں گے ،ارے بھا ئی یہ سب با تیں چھو ڑواور جو اللہ کا
حکم ہے اس پر عمل کرو ،کا میا بی اسی میں ہے ۔
وآخردعوانا أن الحمد ﷲ رب العالمین
0 تبصرے comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔