Tuesday, 7 April 2015

جمعہ و عیدین کے خطبے عربی میں کیوں ضروری ہیں؟ شیخ الحدیث حضرت مولانا مفتی سعید احمد پالن پوری صاحب دامت برکاتہم


جمعہ و عیدین کے خطبے عربی میں کیوں ضروری ہیں؟

تمہید
·        آجکل مشرقی ممالک میں بالعموم اور مغربی ممالک میں بالخصوص یہ مسئلہ گرمایا رہتا ہے کہ جمعہ و عیدین کے خطبے عربی میں کیوں ضروری ہیں؟
·        اسلام کے پیغام کو وسیع تر شکل میں پھیلانے کیلئے مقامی زبانوں میں خطبوں کی اجازت کیوں نہیں ہے؟
·        آخر ایسی کیا وجہ ہے کہ خطبہ عربی میں ہی ضروری ہے؟
·        یہ اور اس قسم کے دیگر سوالات کےجوابات اِس خطاب میں دئے گئے ہیں جو دار العلوم دیوبند کےموجودہ شیخ الحدیث حضرت مولانا مفتی سعید احمد پالن پوری صاحب دامت برکاتہم  نے امریکہ میں فرمایا جو انکے خطبات پہ مشتمل کتاب: علمی خطبات میں مدرج ہے 

    خطبہ مسنونہ کے بعد:
(یٰا َیُّہَا الَّذِیْنَ ٔ آمَنُوْا ِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلوٰةِ مِنْ یَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا ِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ وَذَرُوْا الْبَیْعِ ذٰلِکُمْ خَیْر لَّکُمْ ِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ)

    بزرگو اور بھائیو!یہاں پر بعض لوگ سوال کرتے ہیں کہ جمعہ کا خطبہ عربی میں کیوں ضروری ہے ؟عربی کے بجائے اگرانگلش میں خطبہ دیا جائے تو اس میں حرج کیا ہے؟اس میں انگلش کی تخصیص کی ضرورت نہیں۔ دنیا میں بے شمار زبانیں ہیں ،لہٰذا انگلش کی تخصیص نہ کی جائے مسئلہ عام پوچھا جائے کہ عربی کے علاوہ دنیا کی کسی بھی زبان میں جمعہ کا خطبہ دیا جا سکتا ہے ؟ اور جمعہ کی تخصیص کی بھی ضرورت نہیں ،عیدین کا بھی یہی حکم ہے ،اور اگر دائرہ ذراوسیع کرو تو نماز میں قرآن پڑھنے کے بارے میں بھی یہی سوال ہوسکتا ہے کہ عربی کے علاوہ دوسری زبان میں نماز کے اندر قرآن کریم پڑھا جا سکتا ہے ؟کیونکہ قرآن کریم لوگوں کے لئے راہ نما کتاب بن کر نازل ہوا ہے اور ساری دنیا کے لوگ عربی نہیں جانتے الگ الگ زبانیں بولتے ہیں ،پس اگران کے سامنے نمازوں میں قرآن کریم عربی میں پڑھا جائے گاتو ان کی سمجھ میں کچھ نہیں آئے گا ،بس ہاتھ باندھے کھڑے رہیں گے ،پس کیوں نہ ان کی زبان میں ترجمہ پڑھا جائے ،تاکہ وہ کچھ سمجھیں اور اس پر عمل کریں ،لہٰذا سوال میں دو تعمیم کرنی چاہئیں ،ایک : انگلش کے ساتھ مسئلہ خاص نہ کرنا چاہئے ،دوسرا: جمعہ کے خطبہ کے ساتھ بھی خاص نہ کرنا چاہئے ۔
  اس کے بعد جاننا چاہئے کہ مسئلہ کے دو پہلو ہیں، ایک پہلو یہ ہے کہ جمعہ کا خطبہ دنیا کی کسی بھی زبان میں پڑھا جائے تو تعامل ، اجماع امت اور توارث کے خلاف ہونے کی وجہ سے مکروہ تحریمی ہوگا ،دوسرا پہلو یہ ہے کہ غیر عربی زبان میں خطبہ پڑھنے کی صورت میں اللہ کاذکر متحقق ہوا یا نہیں؟ اگر ہوا تو جمعہ صحیح ہے اورنہیں ہوا تو جمعہ صحیح نہیں ،جیسے آج کل سیاسی تقاریر میں شروع سے لے کر آخر تک کہیں اللہ کا نام نہیں آتا تو اگر امام نے ایسا خطبہ دیا جس میں اللہ کا کہیں کوئی ذکر نہیں آیا ،خواہ عربی میں دیا یا غیر عربی میں ،تو مسئلہ یہ ہے کہ خطبہ نہیں ہوا اور جب خطبہ نہیں ہوا تو جمعہ کی نماز بھی صحیح نہیں ہوئی ،وقت کا فرض :ظہر ذمہ پر باقی رہے گا ، کیونکہ قرآن کریم میں ہے :(یٰأَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا ِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلوٰةِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا ِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ وَذَرُوْا الْبَیْعِ): ائے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن تمہیں نماز کے لئے پکارا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف چل پڑو اور جس معاملہ میں ہوؤ اس کو چھوڑ دو۔ اس آیت میں اللہ نے (فَاسْعَوْا ِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ)( اللہ کے ذکر کی طرف چلو) فرمایا ہے ،بلایا گیا ہے نماز کی طرف(اِِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلوٰةِ)اور چلایا جا رہا ہے اللہ کے ذکر کی طرف (فَاسْعَوْا ِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ)،اور اللہ کا ذکر: خطبہ ہے ،اور یہ خطبہ چونکہ نماز سے پہلے دیا جائے گا اس لئے جلدی سے چلو اور جاکر خطبہ سنو ،اور پھر جس نماز کے لئے بلایا گیا ہے اس کو پڑھو ۔ غرض تو اس آیت میں اللہ نے خطبہ کو ذکر اللہ سے تعبیر کیا ہے ،اس لئے مسئلہ یہ ہے کہ اگر خطبہ میں اللہ کا ذکر آیا تو خطبہ محسوب ہوگا اور جمعہ کی نماز صحیح ہوگی اور اگر سیاسی تقریر کی طرح پورے خطبہ میں کہیں اللہ کا ذکر نہیں آیا تو خطبہ نہیں ہوا اور جب خطبہ نہیں ہوا تو جمعہ بھی نہیں ہوا ،اور جب جمعہ نہیں ہوا تو وقت کا فرض باقی رہ گیا ، اور اگر ایک دو جملے ذکر کے آگئے تو خطبہ محسوب ہوگا ،حساب میں آئے گا اور جب خطبہ حساب میں آئے گا تو جمعہ بھی صحیح ہوجائے گا،اور غیر عربی میں خطبہ چونکہ تعامل اور توارث کے خلاف ہے ،اس لئے تعامل وتوارث کے خلاف ہونے کی وجہ سے نماز مکروہ تحریمی ہوگی یعنی غیر عربی میں خطبہ دینے کا گناہ ہوگا البتہ نماز صحیح ہوگائے گی ۔
  خطبہ کا مقصد کیا ہے ؟
  یہ جو میں نے دو مسئلے بتائے ہیں ان کو اکثر لوگ جانتے ہیں،سوال یہ ہے کہ جب اکثر لوگ جانتے ہیں تو بتائے کیوں؟اس لئے بتائے کہ لوگوں کے ذہن میں خطبہ کے پس منظر کو لے کرایک اشکال ہے ،اور وہ اشکال یہ ہے کہ خطبہ نماز تو نہیں ،پس اگر عربی کے بجائے کسی اور زبان میں خطبہ دیا جائے ،درآنحالیکہ خطبہ کا مقصد لوگوں کو ہر ہفتہ نصیحت کرنا ہے ،تو اس مقصد کے پیش نظر اگر کسی بھی زبان میں خطبہ دے دیا جائے تو مکروہ تحریمی کیوں ہے ؟ جائز ہونا چاہئے اورنہ صرف جائز بلکہ مستحب ہونا چاہئے ،یہ لوگوں کے ذہن میں بیٹھا ہوا ہے ، جب تک اس اشکال کا جواب نہیں دیا جائے گا تب تک سوال کا جواب سمجھ میں نہیں آئے گا
  تلاوت قرآن اور نماز کا اصل مقصد ذکر اللہ ہے   
   بنیادی غلطی یہ ہے کہ یہ جو ہم نے طے کیا ہے کہ جمعہ کے خطبہ کا مقصد ہر ہفتہ لوگوں کو نصیحت کرنا ہے یہ بات غلط ہے ،بتاؤقرآن کریم کا اصل مقصد کیا ہے؟ اصل مقصد یہ ہے کہ قرآن اللہ کا ذکر ہے ،چاہے قرآن سمجھو یا نہ سمجھو قرآن پڑھنا ہے ،اللہ پاک کا ارشاد ہے:( اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَِنَّا لَہ لَحَافِظُوْنَ):بلاشبہ قرآن ہم نے اتارا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں،اس آیت میں اللہ تعالی نے(اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْر)کہا، نحن نزلنا القرآن:نہیں کہا ،قرآن کو الذکر سے تعبیر کیا کیونکہ قرآن کریم کا اصل مقصد اللہ کا ذکر ہے ،چنانچہ جو عربی سمجھتا ہے اسے بھی قرآن پڑھنا ہے اور جو نہیں سمجھتا اسے بھی قرآن پڑھنا ہے ،اور دونوں کو ہر ہر حرف پر دس دس نیکیاں ملیں گی ۔
  سوال : اگر کوئی کہے کہ قرآن کا اصل مقصداللہ کی جانب راہ نمائی کرنا ہے جیسا کہ خود اللہ تعالی نے بیان کیا ہے:(شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ أُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْآنُ ہُدًی لِلنَّاسِ):قرآن لوگوں کے لئے گائڈ بک بنا کر اتارا گیا ہے اورمیرے پاس گائڈ بک اگر انگلش میں ہوگی تبھی تو میں سمجھوں گا عربی میںہوئی تو کیا خاک سمجھوں گا عربی تو مجھے آتی نہیں ،قرآن سمجھے گا تبھی تووہ کتاب ہدایت ہوگی ،ایک بندہ بغیر سمجھے پڑھ رہا ہے اور ایک بندہ سمجھ کر پڑھ رہا ہے دونوں کے پڑھنے میں آسمان و زمین کا فرق ہوگا ،اگرچہ نیکیاں دونوں کو برابر ملیں گی مگر اِس کے لئے قرآن راہ نما بنے گا اور اُس کے لئے نہیں بنے گا ،پس معلوم ہوا کہ قرآن کا اصل مقصد لوگوں کے لئے راہ نما بننا ہے۔ 
  جواب:راہ نما بننا یعنی قرآن سے نصیحت حاصل کرنا ثانوی مقصد ہے ،دوسرے درجہ کامقصد ہے ، اور نصیحت براہ راست بھی حاصل ہوتی ہے اگر آدمی عربی جانتا ہے اور اگر عربی نہیں جانتا تو بالواسطہ حاصل ہوتی ہے ، دنیا کی ہر زبان میں ترجمے ہو گئے ہیں وہ اسی لئے کئے گئے ہیں کہ جو عربی نہیں جانتے وہ ان کی مدد سے نصیحت حاصل کریں ،معلوم ہوا کہ نصیحت براہ راست حاصل کرنا ضروری نہیں بالواسطہ ترجمہ کی مدد سے بھی نصیحت حاصل کی جاسکتی ہے، اس لئے نصیحت حاصل کرنا دوسرے درجہ کا مقصد ہے اور پہلے درجہ مقصد ذکر ہے ،اسی لئے فرمایا:(اِ نَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ):پس جب ذکر مقصود ہے تو عربی میں ہی قرآن پڑھنا ضروری ہے ،چاہے کوئی سمجھے یا نہ سمجھے اور جہاں نصیحت مقصود ہو وہاں اگر عربوں کا مجمع ہے تو آپ عربی پڑھ کر سنائیے ،اردو انگریزی کا مجمع ہو تو ترجمہ پڑھ کر اردو انگریزی میں سنائیے لوگوں کو نصیحت حاصل ہوگی ۔اسی طرح نماز کا مقصد قرآن میں مختلف جگہوں پر بیان کیا گیا ہے،سورہ طہٰ کے شروع میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ ہے، اس میں ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو نبی بنایا تو کوہ طور پر اللہ تعالیٰ اور موسیٰ علیہ السلام کے درمیان مکالمہ ہوا ،اس میں اللہ تعالی کا یہ جملہ :(وَأَقِمِ الصَّلاَةَ لِذِکْرِی):مجھے یاد کرنے کے لئے نماز کا اہتمام کیجئے ،یہاں سے معلوم ہوا کہ نماز کا اصل مقصد اللہ کو یاد کرنا ہے ،اکیسویں پارے کے شروع میں حضور اکرم ﷺکو اللہ نے حکم دیا ہے :(وَأَقِم الصَّلوٰةَ) نماز کا اہتمام کرو،(اِنَّ الصَّلوٰةَ تَنْہٰی عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْکَرِ):نماز بے حیائی کے کاموں سے اور بری باتوں سے روکتی ہے ،یہ نماز کا ایک فائدہ ہوا اور یہ ثانوی درجہ کا فائدہ ہے ، (وَلَذِکْرُ اللّٰہِ أَکْبَرُ):اور اللہ کی یاد اس سے بڑا فائدہ ہے،یعنی فحشاء اور منکر سے روکنے کے فائدہ سے بڑا فائدہ نمازکا یہ ہے کہ یہ اللہ کی یاد ہے ۔ان دو آیتوں سے معلوم ہوا کہ نماز کا اصل مقصدذکر اللہ ہے ،اورجب ذکر اللہ مقصد ہے تو آپ نماز میں غیر عربی میں قرآن نہیں پڑھیں گے ،اور نماز سے باہر جیسے میں وعظ کہہ رہا ہوں اس کا مقصد چونکہ ذکراللہ نہیں بلکہ نصیحت کرنا ہے اس لئے ضروری نہیں کہ میں عربی ہی میں قرآن پڑھوں ،آیت کریمہ کا ترجمہ بھی کافی ہے۔
  خطبہ کا مقصدبھی ذکر اللہ ہے
   جیسے نماز اور تلاوت کا مقصد ذکر اللہ ہے ایسے ہی خطبہ کا مقصد بھی ذکر اللہ ہے،میں نے خطبہ میں آیت پڑھی تھی:(فَاسْعَوْا ِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ):اللہ کے ذکر کی طرف چلو، اللہ نے اس آیت میں(فَاسْعَوْا ِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ)کہا،فاسعوا لی الخطبة،نہیں کہا،اسی وجہ سے خطبہ میں ذکر اللہ ضروری ہے اگر سیاسی تقریر کی طرح خطبہ دیا تو وہ نہیں گنا جائے گا ، حالانکہ عربی میں اسے بھی خطبہ کہتے ہیں ،مگر اس سے جمعہ کا خطبہ ادا نہیں ہوگا، تو جب آیت کریمہ سے یہ بات ثابت ہوئی کہ خطبہ کا بنیادی مقصد اللہ کا ذکر ہے تو اب آپ کو خطبہ عربی میں دینا ہوگا اور خطبہ کا جو ثانوی مقصد ہے نصیحت حاصل کرنا اس کو کسی اور طرح حاصل کرنا ہوگا خطبہ سے پہلے خطیب صاحب منبر کے پاس کھڑے ہوجائیں اور مقامی زبان میں نصیحت کریں،جب خطبہ کا یہ ثانوی مقصد کسی اور طریقے سے حاصل کیا جاسکتا ہے تو ضروری نہیں کہ آپ حضورﷺکے زمانہ سے جو سلسلہ چلا آرہا ہے اس کو بدل دیں،اور اگر اس کو بدلنا ہے تو پھر نماز میں بھی بدل دو ،نماز میں بھی انگریزی میں قراء ت کرو تاکہ لوگ قرآن کو سمجھیں اور نصیحت حاصل کریں ۔
  صحابہ نے اپنے سو سالہ دور میں کبھی غیر عربی میں خطبہ نہیں دیا
  جزیرة العرب تو حضورﷺکے زمانہ میں فتح ہوگیا تھا ، اللہ پاک کا ارشاد ہے: (وَرَأَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ أَفْوَاجًا ):اور آپ لوگوں کو دیکھیں اللہ کے دین میں جوق جوق داخل ہورہے ہیں۔ اس سے جزیرة العرب کے لوگ مراد ہیں ،جزیرة العرب کے لوگ اس بات کے انتظار میں تھے کہ مکہ اور مدینہ والوں میں جو جنگ ہو رہی ہے ،اس میں جیت کس کی ہوتی ہے ،وہ یہ سمجھتے تھے کہ کعبہ شریف پر جس کا قبضہ ہے وہ بر حق ہے ،اور اب تک کعبہ شریف پر قبضہ قریش کا چلا آرہا ہے اس لئے ان کا ہاتھ اوپر ہے ،لیکن اب جو جنگ شروع ہوئی ہے وہ کہاں جاکر رکے گی؟یہ یہاں پہنچ کر رکے گی کہ کعبہ پر ایک کا قبضہ ہوگا اور دوسرا قبضہ کرنے کے لائق نہیں رہے گا ، جب آٹھ ہجری میں مکہ مکرمہ فتح ہوا اور سارا مکہ مسلمان ہوگیا توسارے عرب نے دیکھ لیا کہ اگر مشرکین حق پر ہوتے تو حضورﷺکا قبضہ نہ ہوتا اور مکہ والے مسلمان نہ ہوتے لیکن حضورﷺ کا قبضہ ہوگیا اور مکہ والے مسلمان بھیہوگئے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام بر حق ہے ،اس کے بعد پورے جزیرة العرب سے مسلمان ہونے  کے لئے پے در پے وفود آنے لگے،بعض دفعہ اسّی اسّی وفود آئے ہیں،یہی وہ (رَأَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ أَفْوَاجًا )ہے ،لیکن جزیرة العرب سے باہر کے لوگوں سے ابھی تک کوئی معاملہ نہیں ہوا تھا،نبی پاک ﷺنے ا پنی وفات سے ایک سال پہلے جزیرة العرب سے باہر کے تمام ملکوں  کے سربراہوں کی طرف دعوتی خطوط ارسال فرمائے ہیں ،چھوٹا ہو یا بڑا، سپر پاور ہو یا غیر سپر پاور، کوئی ملک باقی نہیں رہا تھا پھر ایک سال مشکل سے گذرا تھا کہ حضورﷺکی وفات ہوگئی،حضورﷺکی وفات کے بعد خلفائے راشدین کے زمانہ میں ان ممالک کے ساتھ جنگیں شروع ہوئیں ،بعض بغیر جنگ کے تابع ہوگئے اور بعض کے ساتھ بڑے سخت معرکے پیش آئے ، بالآخر ایران جو سپر پاور تھا وہ صفحہ ہستی سے مٹ گیا اور دوسرا سپر پاور روم پیچھے ہٹتے ہٹتے قسطنطنیہ تک چلا گیا ،پھر صحابہ آگے نہیں بڑھے کیونکہ آگے ٹھنڈے علاقے تھے اور صحابہ گرم ملکوں کے رہنے والے تھے ۔
    مجھے تو بتانا یہ ہے کہ صحابہ نے یہ جتنے ملک فتح کئے یہ سب غیر عربی ملک تھے یہاں عربی نہیں بولی جاتی تھی اور صحابہ کے زمانہ میں ملک فتح ہونے کے بعد اسلام بڑی تیزی کے ساتھ پھیلتا تھا مگر صحابہ نے اپنے سو سالہ دور میں کبھی مقامی زبان میں خطبہ نہیں دیاحالانکہ اس وقت مقامی زبان میں خطبہ دینے کی بڑی ضرورت تھی ،علاقے کے علاقے نئے نئے مسلمان ہوئے تھے ،ان کو ان کی زبانوں میں دین پہنچانا ضروری تھا مگر کسی صحابی نے ایک جگہ بھی غیر عربی میں خطبہ نہیں دیا
  حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کا عمل
ترمذی شریف میں ابواب السیر کی سب سے پہلی روا یت ہے ،ایک لشکر تھا جس کے کمانڈر حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ تھے ،فارسی حضرت کی مادری زبان تھی ،اس لشکر نے فارس کے ایک قلعہ کا محاصرہ کیا ،قلعے والے بھی فارسی بولنے والے تھے اورمسلمانوں کا کمانڈر بھی ،فوج نے کہا:ألا ننہدا لیہم:آپ اجازت دیں   ہم ان پر دھاوا بول دیں،حضرت سلمان نے فرمایا:ابھی رکو ،مجھے نبی پاک ﷺکے طریقہ پر عمل کرنے کا موقعہ دو جنگ شروع کرنے سے پہلے آپ ﷺ اسلام    کی دعوت دیتے تھے ، میں بھی پہلے ان کو اسلام کی دعوت دوں گا ،چنانچہ حضرت سلمان ساتھیوں کی ایک جماعت لے کر قلعے کے پاس گئے ،وہ اوپر ہیں یہ           نیچےہیں ،آپس میں بات چیت ہوئی،وہ لوگ فارسی میں بول رہے ہیں اور حضرت عربی بول رہے ہیں ،اِس کا ترجمہ اُدھر ہورہا ہے اور اُس کا ترجمہ                اِدھرہورہاہے،حضرت سلمان فارسی جانتے تھے مگر فارسی نہیں بول رہے ،دوران گفتگو جب جزیہ کی دعوت دی تو آیت جزیہ پڑھی ،حضرت نے خودپڑھی ،اس     آیت میں(وَأَنْتُمْ صَاغِرُوْن)آیا ہے ، لوگ اس کا ترجمہ ایسا کرتے ہیں کہ سنتے ہی سامنے والے کے دماغ پر ہتھوڑا پڑتا ہے ،ترجمہ یہ کرتے ہیں:درانحالیکہ تم ذلیل ہو، تو ذلیل ہونا کون پسند کرے گا ؟ جب حضرت نے یہ آیت پڑھی تو ساری آیت کا ترجمہ تو مترجم نے کیا مگر(وَأَنْتُمْ صَاغِرُوْنَ)کا ترجمہ حضرت نے خود فارسی میں کیاجس کا عربی ترجمہ حدیث میںوانتم غیر محمودین آیا ہے ،یعنی تمہیں اسلام قبول کرنا چاہئے تاکہ ہمارے اور تمہارے حقوق برابر ہوجائیں ،جزیہ قبول کر کے ہمارے ملک میں رہناکوئی پسندیدہ بات نہیں ،کتنا شاندار ترجمہ کیا،پھر آگے لمبی حدیث ہے ۔مجھے اس حدیث سے یہ بتانا ہے کہ حضرت سلمان فارسی جانتے ہیں اور و انتم صاغرون کا ترجمہ وہ خود فارسی میں کر رہے ہیں ،لیکن فارسی جاننے کے باوجودگفتگو آپ عربی میں فرمارہے ہیں ، اس میں کوئی حکمت ہوگی تبھی آپ ایساکررہے ہیں۔ آپ ایسا بلا وجہ نہیں کر سکتے تھے

  مولانا ابو الکلام آزاداور انگریزی
  جس زمانہ میں ہندوستان میں انگریزوں کے ساتھ جنگ آزادی چل رہی تھی کانگریس کے صدر مولانا ابو الکلام آزاد کسی معاملہ میں گفتگو کے لئے ہندوستان کے وائسرائے کے پاس تشریف لے گئے ،وائسرائے بہترین اردو جانتا تھا اور مولانا ابو الکلام آزاد بہترین انگریزی جانتے تھے،گفتگو شروع ہوئی، مولانا اردو میں بول رہے ہیں ،اور مترجم انگریزی میں ترجمہ کرکے وائسرائے کو سنا رہا ہے ،وائسرائے انگریزی میں جواب دے رہا ہے ،اور  مترجم اردو میں ترجمہ کر کے مولانا کو سنا رہا ہے ،سوچو آخر دونوں ایسا کیوں کر رہے ہیں؟ مولانا انگریزی جانتے ہیں تو انگریزی میں کیوں نہیں بولتے ان کو انگریزی میں گفتگو کرنی چاہئے تھی تاکہ وائسرائے پر رعب پڑے، اور وائسرائے اردو جانتا ہے تو وہ اردو میں کیوں نہیں بولتا ،ا س کو اردو بولنی چاہئے تھی تاکہ مولانا آزاد پر اس کی قابلیت کا کچھ اثرپڑے ،مگر نہ تو وائسرائے اردو بولتا ہے اور نہ مولانا انگریزی بولتے ہیں ،دوران گفتگو مترجم نے مولانا کی کسی بات کا صحیح ترجمہ نہیں کیا مولانا نے اسے ٹوکاکہ آپ ترجمہ میں جو بات کہہ رہے ہیں وہ میں نہیں کہہ رہا، میں یہ کہہ رہا ہوں ،وائسرائے بھی سب سمجھ رہا تھا کیونکہ وہ اردو جانتا تھا وائسرائے نے کہا: مولانا!جب آپ انگریزی جانتے ہیں تو مجھ سے انگریزی میں گفتگو کیوں نہیں کرتے ؟دیکھو کہاں جا رہا ہے؟مولانا بھی تو یہ کہہ سکتے تھے کہ جب آپ اردو جانتے ہیں تومجھ سے اردو میں گفتگو کیوں نہیں کرتے ،مگر وہ نیچے اترنا نہیں چاہتا اس لئے مولانا سے کہہ رہا ہے کہ آپ براہ راست مجھ سے انگریزی میں گفتگو کیوں نہیں کرتے ۔مولانا آزاد نے جواب دیا: جناب !اگر میں آپ سے انگریزی میں گفتگو کرنے لگوں تو میری انگریزوں سے لڑائی کیا رہی؟جب میں ان کی زبان بولنے لگا تو اب میری ان سے کوئی لڑائی نہیں رہی، یہی وہ دور تھا جب ہندوستان کے بڑے بڑے مفتیوں نے فتوی دیا تھا کہ انگریزی سیکھنا حرام ہے ،انگریزی فوج میں ملازمت حرام ہے برطانیہ کی مصنوعات حرام ہیں ،یہ سب فتوے اس زمانہ کے تھے اور کسی ضرورت اور مصلحت سے تھے ،کیونکہ جنگ آزادی چل رہی ہے اگر اس زمانہ میں ہم ان کی مصنوعات پہن رہے ہیں ،فوج میں بھی ملازمت کر رہے ہیں تو پھر ہماری انگریزوں کے ساتھ لڑائی کیا رہی؟بہرحال مجھے تو اس واقعہ میں مولانا آزاد کا یہ جملہ سنانا تھا کہ اگر میں آپ سے انگریزی میں گفتگو کر نے لگوں تو میری انگریزوں سے لڑائی کیا رہی؟اس واقعہ میں ٹھنڈے دل سے سوچو کہ وائسرائے اردو جاننے کے باوجود اردو کیوں نہیں بول رہا،مولانا انگریزی جاننے کے باوجود انگریزی کیوں نہیں بول رہے ؟اور حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ والے واقعہ میں حضرت سلمان فارسی جاننے کے باوجودفارسی کیوں نہیں بول رہے؟( اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَذِکْرٰی لِأُوْلِی الْأَلْبَابِ)،ان قصوں میں عقل رکھنے والوں کے لئے نصیحت ہے ،اورسمجھنے والوں کے لئے سبق ہے،کوئی اگر نہ سمجھے تو میں کیا کروں۔
    جو علاقے صحابہ نے فتح کئے تھے وہ آج عرب ممالک ہیں
     وہ علاقے جن کو صحابہ نے فتح کیا تھاوہ آج عرب ممالک ہیں ،اور جو ملک صحابہ کے بعد فتح ہوئے وہ عرب ممالک نہیں بنے،یہ ہمارا ہندوستان،پاکستان ،بنگلہ دیش، افغانستان، بخاری،سمر قند،تاشقندوغیرہ سارے علاقے صحابہ کے بعد فتح ہوئے اور عرب ممالک نہیں بن سکے کیونکہ صحابہ نے جو جو علاقے فتح کئے تھے وہاں ہر چیز میں عربی زبان داخل کی ،جب ہر چیز میں عربی زبان داخل کی تو لوگوں کو جھک مار کر عربی زبان سیکھنی پڑی ،اور جب سارے لوگ عربی زبان سیکھنے پر مجبور ہوئے تو یہ علاقے عرب ممالک بن گئے ،اور ہماری طرف کے علاقوں میں سندھ تک محمد بن قاسم آئے،آگے ان کی پیش رفت نہیں ہوئی ولید نے ان کو مروا دیا تھا،بہت دنوں تک معاملہ یوں ہی رہا ،پھر افغانستان کی طرف سے فاتحین آئے ،وہ رنگون برما تک فتح کرتے چلے گئے ،مگر فتح کرنے کے بعد انہوں نے زبان فارسی رکھی ،وہ جب تک رہے فارسی خوب چلی ،ہندو تک بہترین فارسی جانتے تھے ،گلستان اور بوستان کی شرح ہندو کی بھی ہے ،لیکن جب ان کی حکومتیں ختم ہوئیں تو فارسی سے کسی کو کیا دلچسپی ہو سکتی تھی چنانچہ ان کی زبان بھی ان کی حکومت کے ساتھ گئی،اگر انہوں نے عربی شروع کی ہوتی تو یہ سب ممالک عرب ہوتے ،اس فرق کو سمجھو کہ جو علاقے صحابہ نے فتح کئے وہ آج عرب ملک ہیں اور صحابہ کے بعد جو فتح ہو ئے وہ آج عرب ملک نہیں ہیں ،کیونکہ صحابہ نے ہر چیز عربی میں رکھی تھی ،خطبے عربی میں،قرآن عربی میں ،نمازعربی میں،درس عربی میں، ہر ہر چیز عربی میں رکھی تو لوگوں کو لامحالہ عربی سیکھنی پڑی،اور سارے علاقے عربی بن گئے ،اور بعد میں لوگوں نے اپنی اپنی  پڑتا ہے ،اگر ایسا کریں گے تو وہ حکومت چلے گی اور وہ مذہب باقی رہے گا ،اور اگر حکومت کی زبان نمود کی جگہوں میں نہ لائی گئی،مذہب کی زبان نمود کی جگہوں میں نہ لائی گئی تو نہ وہ حکومت باقی رہے گی اور نہ وہ مذہب ،اس کی مثال لو! ہندو ازم بہت پرانا مذہب ہے ، کتنا پرانا ہے؟ اللہ ہی جانتے ہیں کتنا پرانا ہے !کچھ محققین کا خیال ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کے لڑکوں پر جو کتابیں نازل ہوئی تھیں انہی کتابوں کے یہ ماننے والے ہیں ان کے بعد کوئی نبی ان میں نہیں آیا ،یہ بات صحیح ہو یا نہ ہو،بہرحال اتنی بات صحیح ہے کہ یہ بہت پرانا مذہب ہے ان کی مذہبی زبان سنسکرت ہے، مگر ایک لمبے عرصے سے نمود کی جگہوں میں سنسکرت نہیں رہی چنانچہ دنیا سے سنسکرت مٹ گئی ،آج کل ہندوستانی حکومت اس زبان کو زندہ کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے اس کے لئے یونیورسٹیاں بھی قائم کی ہیں مگر کہیں دو چار سادھو اس زبان کو جانتے ہوں تو جانتے ہوں ورنہ عام ہندو اس زبان کو نہیں جانتے، یہ مقام نمود میں اس زبان کو نہ لانے کی وجہ ہے ۔یہ یہودی اور عیسائی ہیں ان کی تورات اور انجیل سریانی زبان میں نازل ہوئی تھیںلیکن آج پوری دنیا میں سریانی زبان کہیں نہیں ،یہود و نصاری بھی نہیں جانتے ،پھر دوسری زبان آئی ہبرو یعنی عبرانی، یہ زبان باقی ہے اور ان کی تالمود وغیرہ عبرانی زبان میں ہیں ،مگر ان کے زیادہ تر بشپ اور پادری عبرانی بھی نہیں جانتے ،کیونکہ یہ زبان بھی نمود کی جگہوں میں نہیں آئیں ،نہیں آئی ،زمانہ آگے بڑھا تو ان زبانوں کی حفاظت کرنے والا کوئی نہیں رہا ،اور جب مذہب کی بنیاد ی زبان ختم ہوجائے تو مذہب اپنی اصلی حالت پر باقی نہیں رہ سکتا،اسی وجہ سے ہندو ازم اور یہودیت و عیسائیت آج اپنی اصلی تعلیمات پر باقی نہیں ہیں ۔
    دوسری مثال
     یہ تو آپ جانتے ہیں کہ دنیا میں ہر حکومت کی ایک سرکاری زبان ہوتی ہے ،اور ملک میں دیگر رائج زبانوں کو بھی حکومت قبول کرتی ہے ،جیسے ہندوستان میں سرکاری زبان ہندی ہے اور اس کے علاوہ چودہ زبانیں ہیں جن کو حکومت نے مان رکھا ہے اور نوٹ پر وہ چودہ زبانیں لکھی جاتی ہیں مگر سرکاری زبان ایک ہی ہے اور وہ ہندی ہے، اور ہندوستان کا جو جنوبی علاقہ ہے ،تمل ناڈو، مدراس ،کیرالہ ملیالم وغیرہ وہاں کوئی ہندی کا ایک لفظ نہیں جانتا ،وہاں ان کی اپنی زبانیں بولی جاتی ہیں ،لیکن اگر آپ وہاں جائیں اور ٹرین اسٹیشن پر پہنچ کر رکے تو آپ دیکھیں گے کہ بورڈ پر سب سے اوپر ہندی میں نام لکھا ہوگا پھر نیچے انگریزی اور مقامی زبانوں میں لکھا ہوگا ،یہی ہے مقام نمود میں زبان کو ظاہر کرنا ،اسی طرح سے کورٹ میں ، دفتروں میں،ہر جگہ مقامی زبان سے اوپر آپ کو ہندی ملے گی ،اگر سرکاری زبان ہندی اس طرح مسلط نہیں کی جائے گی تو پورا ہندوستان ایک حکومت کے ماتحت نہیں رہے گا ،مقامی زبانوں کے حساب سے الگ الگ ٹکڑوں میں بٹ جائے گا ۔
     یہ جو دو مثالیں میں نے دی ہیں ان کو سامنے رکھو اور غور کرو کہ اسلام کی مذہبی زبان کونسی ہے؟عربی ہے! پس اس کو باقی رکھنے کے لئے نمود کی جگہوں میں لانا ضروری ہے ،نمود کی جگہیں کیا ہیں؟ ہر ساتویں دن جمعہ کا خطبہ ہورہا ہے اور امام صاحب ڈٹ کر خطبہ دے رہے ہیں ،خوب دندنارہے ہیں اور سمجھ کوئی نہیں رہا ،مگر اتنا سب سمجھ رہے ہیں کہ یہ ہماری زبان ہے ،امام صاحب نماز میں عربی میں قراء ت کر رہے ہیں ،مسجد میں کوئی نہیں سمجھ رہا مگر سب یہ سمجھ رہے ہیں کہ یہ ہمارا قرآن ہے اور اسی زبان میں یہ نازل ہوا ہے ،عیدین کے اجتماع سال میں دو دفعہ ہوتے ہیں ،جب خطیب کھڑا ہوکر عربی میں دندناتا ہے تو چاہے لوگ کچھ نہ سمجھیں مگر اتنا سب سمجھیں گے کہ یہ ہماری مذہبی زبان ہے ،اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ کسی کہنے والے نے کہا ہے: نزل القرآن فی الحجاز:قرآن حجاز میں اترا ،وقری فی مصر :مصری جتنا شاندار قرآن پڑھتے ہیں اتنا شاندار دنیا میں کوئی نہیں پڑھتا،وفہم فی الہند:اور متحدہ ہندوستان میں سمجھاگیا ،عرب ممالک کے لوگوں نے قرآن کو اتنا نہیں سمجھا جتنا ہندوستان والوں نے سمجھاکیونکہ یہاں لوگوں نے عربی زبان پر محنت کی رات دن اس کے پیچھے لگے رہے تب جاکر وہ زبان کو سمجھنے والے بنے ،آپ پوری دنیا کا سروے کرلیں آپ کو عرب ممالک میں قرآن و حدیث کے سمجھنے والے ایسے نہیں ملیں گے جیسے عجمی ممالک میں آپ کو مل جائیں گے ،یہ برکت ہے اس بات کی کہ ہمارا عربی کے ساتھ ایک جذباتی تعلق ہے ،یہ  ہمارے مذہب کی زبان ہے اور ہم اس کو گلے سے لگائے ہوئے ہیں ،اپنی زبان سیکھنے پر وہ محنت نہیں کرتے جو ہم عربی سیکھنے پر کرتے ہیں،اور یہ جذباتی تعلق اسی وقت تک باقی رہتا ہے جب تک کہ جگہ جگہ اس کا نمود ہو ۔
   خلاصہ کلام
   بات کا خلاصہ یہ ہے کہ جمعہ اور عیدین کے خطبے نمود کی جگہیں ہیں ،اور جب یہ نمود کی جگہیں ہیں تو یہاں مذہب کی جو اصل زبان ہے وہ استعمال ہوگی تاکہ یہ زبان زندہ رہے ا ور مذہب اسلام اپنی اصلی تعلیمات پر باقی رہے،صحابہ نے اپنے سو سالہ دور میں کہیں ایک دفعہ بھی غیر عربی زبان میں خطبہ نہیں دیاجبکہ ان علاقوں میں نئے مسلمان ہونے والوں کومقامی زبان میں نصیحت کر نے کی آج سے زیادہ ضرورت تھی،اور اس وقت سے لے کر آج تک ساری دنیا میںخطبے عربی میں ہی ہورہے ہیں،کوئی کہیں یہ نہیں کہتا کہ عربی کے علاوہ مقامی زبان میں خطبہ دو، بس یہ امریکہ والے ہی انگریزی کی محبت میں بہکے چلے جارہے ہیں ، برطانیہ میں، کناڈا میں،یورپ کے دیگر ملکوں میں کہیں یہ مسئلہ نہیں،یہ مسئلہ صرف امریکہ میں ہے ، میرے بھائیو!انگریزی کی محبت کی جگہ عربی کی محبت دل میں بڑھاؤ ،اس سے ایمان بھی مضبوط ہوگااور مذہب کی بنیادی زبان بھی زندہ رہے گی اور جب زبان زندہ رہے گی تو اسلام کی تعلیمات بھی اپنی اصلی حالت پر باقی رہیں گی، ورنہ اگر زبان مر گئی تو اسلام کا بھی وہی حال ہوجائے گا جو آج ہندو ازم اور یہودیت و عیسائیت کا ہوچکا ہے ۔
                                                                           
 وآخر دعوانا أن الحمد ﷲ رب العالمین

بشکریہ : مکتبہ حجاز  - دیوبند

بشکریہ : مکتبہ حجاز - دیوبند

0 تبصرے comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔