ختمِ نبوت کا بیان _ حضرت اقدس مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری دامت برکاتھم - حصہ دوّم / سوّم
مقرر: حضرت اقدس مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری دامت برکاتھم، شیخ الحدیث و صدر المدرسین دارالعلوم دیوبند
ناقل: احمد سعید پالن پوری استاد جامعة الشیخ حسین احمد المدنی محلہ خانقاہ دیوبند
- - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - -
جاری ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حصہ دوّم ( دوسرا حصہ )
- - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - -
نبی پاک ﷺ نے جو متعدد نکاح فرمائے ہیں، اس پر اغیار اعتراض
کرتے ہیں، اس لئے اس مسئلہ کو اچھی طرح سمجھ لینا چاھئے، کہ آپ ﷺ نے متعدد نکاح کیوں کئے ہیں ؟ اور اعدائے اسلام
جو اعتراض کرتے ہیں، اس کی حقیقت کیا ہے ؟
نبی پاک ﷺ نے سب سے پہلا نکاح
حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا سے کیا،
اس وقت آپ ﷺ کی عمرِ مبارک ٢٥ سال تھی، اور
جب تک حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا زندہ رہیں، آپ ﷺ نے دوسرا کوئی نکاح نہیں کیا، آپ ﷺ کی ساری اولاد [ ایک صاحبزادے کے علاوہ، جو ماریہ
قبطیہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے تھے، اور جن کا نام ابراہیم ؓ تھا ] حضرت خدیجۃ الکبریٰ
رضی اللہ عنہا سے ہی ہوئی ہے، دو یا تین صاحبزادے پیدا ہوئے، جو بچپن ہی میں وفات پاگئے،
اور چار صاحبزادیاں ہوئیں، جب آنحضرت ﷺ نبوت
سے سرفراز کئے گئے، اس وقت آپ ﷺ کی یہی ایک
بیوی تھی۔
حضرت سودہ رضی اللہ عنہا سے
نکاح خانگی ضرورت سے کیا:
پھر جب نبوت کے پانچویں، یا ساتویں سال حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا
کا انتقال ہوگیا، تو گھر کا انتظام کرنے والا کوئی نہ رہا، آپ ﷺ پر ایک طرف نبوت کی ذمہ داریاں تھیں، دوسری طرف
گھر کے انتظام اور بچیوں کی پرورش کا مسئلہ تھا، اس لئے خاندان کی عورتوں نے مشورہ
دیا، کہ آپ دوسری شادی کرلیں، تاکہ بیوی آپ کے گھر کا انتظام بھی کرے، اور بچیوں کو
بھی سنبھالے، چنانچہ آپ ﷺ نے حضرت سودہ رضی
اللہ عنہا سے نکاح کیا، حضرت سودہ رضی اللہ عنہا ابتداءِ نبوت ہی میں مشرف باسلام ہوچکی
تھیں، اور بیوہ تھیں، ان کا پہلا نکاح ان کے چچازاد بھائی "سکران بن عمرو
" سے ہوا تھا، انہوں نے آکر گھر اور بچیوں کو سنبھالا، یہ دوسری بیوی ہیں، جو
حضورِ اکرم ﷺ کے گھر میں آئیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا
سے نکاح بہ اذنِ الٰہی ہوا:
اسی زمانے میں نبیﷺ نے ایک خواب
دیکھا، اور دو مرتبہ دیکھا، ایک فرشتہ ریشمی کپڑا لایا، اور عرض کیا: یا رسول اللہ
ﷺ ! اس کو کھولئے، نبی پاک ﷺ نے اس کو کھولا،
تو اس میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نظر آئیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی
تھیں، اور ان کے گھر میں آنحضورﷺ کا بکثرت
آنا جانا تھا، اس وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بچی تھیں، چھ سال کی تھیں، اور آپ ﷺ نے ان کو دیکھا تھا، اس لئے جب آپ ﷺ نے کپڑا کھولا، اور اس میں وہ نظر آئیں، تو آپ ﷺ نے فوراﹰ پہچان لیا، کہ عائشہ ہیں،
فرشتہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ ! یہ آپ کی بیوی ہیں ( بخاری شریف حدیث نمبر
٧٠١٢ )۔
آپ ﷺ نے سوچا، کہ شادی تو کرنی ہے، مگر عائشہ ابھی بچی ہیں، سات، آٹھ
سال کے بعد بالغ ہونگی، اور رخصتی کے لائق ہونگی، اور بیوی کی ضرورت ابھی ہے، جو گھر
کو سنبھالے، اور بچیوں کی پرورش کرے، بخاری شریف کی روایت میں ہے، کہ آپ ﷺ نے دل میں سوچا: اگر یہ بات اللہ تعالیٰ کی طرف
سے ہے، تو اس کا کوئی سبب بنے گا، چند دن کے بعد آپ ﷺ نے پھر بعینہٖ یہی خواب دیکھا۔
دوسری طرف یہ ہوا، کہ جب خاندان کے لوگ آنحضورﷺ کےلئے مناسب رشتہ تلاش کر رہے تھے، ابوبکر ؓ کے
دل میں خیال آیا، کہ حضرت سودہ رضی اللہ عنہا بوڑھی عورت ہیں، چند دن کی مہمان ہیں،
اگر کسی مناسب جگہ آپ ﷺ کا رشتہ ہوجاتا، تو
بہتر تھا، اس وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بچی تھیں، اور دوسری کوئی صاحبزادی ان کی
نہیں تھی۔ آپ ﷺ نے خیال کیا، کہ عائشہ ابھی
بچی ہیں، نکاح کے لائق نہیں، مگر انہوں نے سوچا کہ حضرت سودہ ؓ بوڑھی عورت ہیں، بظاہر
زیادہ دنوں کی مہمان نہیں، مگر اللہ تعالٰی نے ان کی عمر میں برکت فرمائی، اور وہ حضور
ﷺ کے بعد تک زندہ رہیں، لیکن عمرِ طبعی کے
اعتبار سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یہ اندازہ کیا، کہ چند سالوں میں ان کا
انتقال ہوجائےگا، اور اس وقت تک عائشہ بڑی ہوجائیں گی، اور حضرت سودہ رضی اللہ عنہا
کے بعد وہ آپ ﷺ کا گھر سنبھال لیں گی، یہ سب
باتیں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ذہن میں تھیں۔
اُدھر حضور ﷺ دو مرتبہ خواب میں
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو دیکھ چکے تھے، اور فرشتہ کہہ چکا تھا، کہ وہ آپ کی بیوی
ہیں، چنانچہ جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پیشکش کی تو، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا
سے، آنحضورﷺ کا نکاح ہوگیا، مگر وہ شوہر کے
گھر بھیجنے کے قابل نہیں تھیں، اس لئے صرف نکاح ہوا، رخصتی عمل میں نہیں آئی۔
[ یورپ و امریکہ میں لوگ سوال کرتے ہیں، کہ
چھ سال کی لڑکی سے نکاح کرنے کا کیا تک ہے ؟ وہ لوگ نکاح اور زفاف کا فرق نہیں جانتے،
زمانۂ جاہلیت میں بھی، ہندوؤں میں بھی، اور مسلمانوں میں بھی نابالغوں کے نکاح کا
رواج ہے، مگر لڑکی شوہر کے گھر اس وقت بھیجی جاتی ہے، جب وہ شوہر کے قابل ہوجائے، حضرت
عائشہ رضی اللہ عنہا بھی بلوغ کے بعد رخصت کی گئی تھیں، اور یورپ و امریکہ والوں کے
نزدیک بلوغ کی عمر، سترہ اٹھارہ سال ہے، اسلامی نقطۂ نظر سے یہ غلط ہے، اسلام میں
جب لڑکی کو ماہواری آجائے تو وہ بالغ ہوجاتی ہے ]۔
ہجرت تک تنہا حضرت سودہ رضی اللہ عنہا آپ ﷺ کے گھر میں رہیں، ہجرت کے بعد دوسرے سال، حضرت عائشہ
رضی اللہ عنہا اس قابل ہوگئیں، کہ وہ شوہر کے گھر بھیجی جاسکیں، چنانچہ ہجرت کے دوسرے
سال ان کی رخصتی عمل میں آئی، اب آپ ﷺ کے گھر
میں دو بیویاں اکٹھی ہوئیں، اس وقت نبی پاک ﷺ
کی عمرِ مبارک 55 سال تھی، اور پوری عمرِ مبارک 63 سال ہوئی ہے، پس گویا وفات
سے آٹھ سال پہلے حضور ﷺ کے گھر میں دو بیویاں
جمع ہوئیں ہیں۔
آنحضورﷺ نے حضرت خدیجۃ الکبریٰ
رضی اللہ عنہا اور حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ تمام نکاح ملی، ملکی اور شخصی
مصلحتوں سے کئے ہیں:
یہاں غور کرنے کی بات یہ ہے کہ آدمی کو چند بیویوں کی ضرورت جوانی میں
ہوتی ہے، پچپن سال میں آدمی بوڑھا ہوجاتا ہے، اس عمر میں متعدد بیویوں کی ضرورت نہیں
ہوتی، اور آپ ﷺ کی جوانی، اور ادھیڑ عمر ایک
بیوی کے ساتھ گذری ہے، اور ایک سے زائد بیویاں عمرِ مبارک کے آخری آٹھ سالوں میں کی
ہیں، اس سے ہر صاحبِ فھم سمجھ سکتا ہے، کہ آپ ﷺ
نے جو متعدد نکاح کئے ہیں، وہ ذاتی ضرورت سے نہیں کئے، بلکہ کسی مصلحت سے کئے
ہیں، اور وہ مصلحتیں تین ہیں، ملی، ملکی اور شخصی، اور شخصی سے مراد حضورِ اکرم ﷺ کی ذات نہیں ہے، بلکہ بیوی صاحبہ کی، یا ان کے علاوہ
کسی کی دلجوئی کےلئے نکاح کیا ہے، یہاں سب نکاحوں کی تفصیل کرنا تو مشکل ہے، ایک ایک
مصلحت کی، ایک ایک مثال پیش کرتا ہوں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا،
اور حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے نکاح ملی مصلحت سے کیا ہے:
پہلے دو باتیں آپ حضرات ذہن میں رکھیں:
پہلی بات: نبی پاک ﷺ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ تمام نکاح
بیوہ عورتوں سے کئے ہیں، حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا جو آپ ﷺ کی سب سے پہلی زوجۂ مطہرہ ہیں، اور جن کے ساتھ
آپ ﷺ نے پوری جوانی کا زمانہ گذارا ہے، وہ
بھی بیوہ تھیں، حضورِ اکرم ﷺ سے پہلے دو جگہ
ان کی شادی ہوچکی تھی، پہلا نکاح "ابوہالہ بن زرارہ تمیمی " سے ہوا تھا،
اور دوسرا نکاح "عتیق بن عائذ مخزومی " سے ہوا تھا۔
دوسری بات: دو نکاح اللہ تعالیٰ
نے کرائے ہیں، یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے نکاح کرنے کا صریح حکم آیا ہے، یا اشارہ
ملا ہے، اس لئے آپ ﷺ نے وہ دونوں نکاح کئے
ہیں، حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا نکاح اللہ تعالیٰ نے کرایا ہے، اس نکاح کا تذکرہ قرآن
کریم میں سورۂ احزاب آیت نمبر ٣٧ میں ہے: فَلَمَّا قَضَىٰ زَيْدٌ مِنْهَا وَطَرًا
زَوَّجْنَاكَهَا۔ جب زید ؓ ان سے اپنی حاجت پوری کرچکے ( اور انہوں نے طلاق دیدی )
تو ہم نے ان کے ساتھ آپ ﷺ کا نکاح کردیا، پس حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے نکاح، وحی
متلو سے ہوا، اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نکاح، وحی غیر متلو سے ہوا ہے، ان کو
خواب میں دکھایا گیا، اور بتایا گیا، کہ یہ آپ کی بیوی ہیں، یہ دو نکاح تو اللہ تعالیٰ
نے کرائے ہیں، باقی جتنے نکاح کئے ہیں، وہ حضورِ اقدس ﷺ نے خود کئے ہیں، اور سارے نکاح مذکورہ تین مصلحتوں
سے کئے ہیں۔
ملی، ملکی اور شخصی مصلحتوں
کی مثالیں:
ملی ضرورت سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے
اللہ تعالیٰ نے نکاح کرایا ہے، اور حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی، اور حضرت
معاویہ رضی اللہ عنہ کی بہن، حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے جو حضور ﷺ نے نکاح کیا ہے، وہ ملکی ( سیاسی ) مصلحت سے کیا
ہے، اور شخصی مصلحت سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی، حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا،
اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے کیا ہے، حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے نکاح، حضرت عمر رضی
اللہ عنہ کی دلجوئی کےلئے، اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے نکاح ان کی دلجوئی کےلئے کیا
ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا
سے نکاح کی مصلحت:
نبی پاک ﷺ کی زندگی خلوت و جلوت
میں منقسم ہے، اور آپ ﷺ کے قول و فعل سے شریعت
بنتی ہے، اور آپ ﷺ جلوت میں جو کچھ ارشاد فرمائیں
گے، یا جو کام کریں گے، اس کو صحابہ ؓ سنیں گے، دیکھیں گے، اور محفوظ کریں گے، مگر
خلوت کے اقوال و افعال کو صحابہ ؓ اخذ نہیں کرسکتے، جبکہ وہ اقوال و افعال بھی شریعت
ہیں، اس لئے ضروری تھا، کہ آپ ﷺ کے گھر میں
کوئی ایسی سمجھ دار، زیرک بیوی ہو، جو خانگی زندگی کے اقوال و افعال کو محفوظ کرے،
اور حضرت سودہ رضی اللہ عنہا اگرچہ آپ ﷺ کے
گھر میں تھیں، مگر وہ عمر رسیدہ تھیں، اور بھت زیادہ زیرک بھی نہیں تھیں، وہ اس اہم
ترین ذمہ داری کو بخوبی انجام نہیں دے سکتی تھیں، اس لئے وحی غیر متلو سے حضرت عائشہ
رضی اللہ عنہا سے آپ ﷺ کا نکاح کرایا گیا،
تاکہ وہ خانگی زندگی کے اقوال و افعال کو محفوظ کرکے امت تک پہنچائیں، اور شریعت مکمل
ہو، چنانچہ جب دو ہجری سے شریعت نازل ہونی شروع ہوئی، تب وہ حضور ﷺ کے گھر میں آئیں۔ [ مکی زندگی میں اسلامی عقائد یعنی توحیدِ خداوندی،
اور رسالتِ محمدی اور آخرت پر زور دیا گیا تھا، احکام تفصیل سے نازل نہیں ہوئے تھے،
بالاجمال زکوٰۃ وغیرہ کا حکم آیا تھا، مگر اس کی تفصیلات نازل نہیں ہوئی تھیں، تفصیلات
دو ہجری سے نازل ہونی شروع ہوئی ہیں
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا
نصفِ دین کی حامل:
ایک موقع پر حضور ﷺ نے صحابہ
ؓ میں اعلان فرمایا: خُذُوا نِصْفَ دِیْنِکمْ مِنْ حُمَیراء ( آدھا دین عائشہؓ سے حاصل کرو )
آدھے دین سے پچاس فیصد مراد نہیں ہے، عربی میں لفظِ نصف مختلف اعتبارات سے بولا
جاتا ہے، علمِ میراث ( علم الفرائض ) کو آدھا علم کہا گیا ہے، تَعَلموا الفَرائضَ فانھا
نِصْف العلم: علم الفرائض کو سیکھو، وہ آدھا علم ہے، انسان کی زندگی دو حصوں میں منقسم
ہے، موت سے پہلے کی زندگی، اور موت کے بعد کی زندگی، پس جو احکام دنیا کی زندگی سے
متعلق ہیں، وہ آدھا علم ہیں، اور علمِ میراث موت کے بعد کے احوال سے متعلق ہے، اس لئے
وہ آدھا علم ہے، غرض آدھے کےلئے پچاس فیصد ہونا ضروری نہیں، مختلف اعتبارات سے نصف
کی مختلف شکلیں ہوتی ہیں، حضورِ اکرم ﷺ نے
جو فرمایا ہے کہ نصف علم عائشہ ؓ سے حاصل کرو، اس کا مطلب ہے کہ خلوت کے احکام حضرت
عائشہ رضی اللہ عنہا سے معلوم کرو، اور جلوت کے احکام، صحابہ ؓ سے سیکھو، نفس الامر
میں جلوت کے مسائل زیادہ ہیں، اور خلوت کے کم، مگر جلوت اور خلوت آپ ﷺ کی زندگی کے دو پہلو ہیں، اس اعتبار سے خلوت کے
احکام کو نصف علم کہا گیا ہے۔[ حدیث خذوا شطر
دینکم من الحمیراء محض بے اصل روایت ہے، کسی کتاب میں اس کی کوئی سند نہیں ( تحفة الاحوذی
جلد نمبر ٤ صفحہ نمبر ٣٦٤ ) مگر ترمذی شریف میں حدیث ( نمبر ٣٩١٠ ) ہے: ابوموسیٰ اشعری
رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، جب بھی صحابہ پر کوئی بات مشتبہ ہوتی تھی، تو حضرت عائشہ رضی
اللہ عنہا کے پاس اس مسئلہ کا کچھ نہ کچھ علم ہوتا تھا، پس مضمون صحیح ہے، کہ حضرت
عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس دین کا بڑا علم تھا ]۔
حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے
نکاح لےپالک کی رسم ختم کرنے کےلئے کیا ہے:
میں یہ بیان کر رہا تھا کہ جب سے شریعت کی تفصیلات نازل ہونی شروع ہوئی
ہیں، تب سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا، حضور ﷺ
کے گھر میں آئی ہیں، تاکہ خلوت کے احکام محفوظ کرکے امت کو پہنچائیں، یہ ملی
مصلحت ہے، اسی مصلحت سے اللہ تعالیٰ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا نکاح آپ ﷺ سے کرایا ہے، اور اسی مصلحت سے حضرت زینب رضی اللہ
عنہا سے بھی اللہ تعالیٰ نے نکاح کرایا ہے، زمانۂ جاہلیت سے یہ تصور چلا آرہا تھا،
کہ منہ بولا بیٹا / بیٹی حقیقی اولاد کی طرح ہیں، حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے جو آپ
ﷺ کے متبنیٰ حضرت زید رضی اللہ عنہ کی مطلقہ
تھیں، نکاح کرا کر اس رسم کو ختم کردیا۔
منہ بولے بیٹے / بیٹی سے پردہ
واجب ہے:
چنانچہ آج معمولی پڑھے لکھے آدمی کے ذہن میں بھی کوئی الجھن نہیں، وہ
بخوبی جانتا ہے، کہ منہ بولا بیٹا اور بیٹی حقیقی اولاد نہیں، لہٰذا ان کو میراث نہیں
ملے گی، ہاں گود لینے والا اپنی زندگی میں ان کو مکان، زمین، دولت وغیرہ دیدے، یا تہائی
مال کی وصیت کرے تو جائز ہے، مگر ان کو میراث نہیں ملے گی، میراث صرف ورثاء کا حق ہے،
اور متبنیٰ وارث نہیں، اس کے احکام وہی ہیں، جو اجنبی کے ہیں، چنانچہ گود لی ہوئی لڑکی
سے بالغ ہونے کے بعد پردہ واجب ہے، کیونکہ وہ اجنبی ہے، گود لینے سے وہ بیٹی نہیں بن
گئی، اسی طرح کسی عورت نے کوئی لڑکا گود لیا، تو بالغ ہونے کے بعد گود لینے والی پر
پردہ کرنا واجب ہے، کیونکہ وہ ماں نہیں ہے، یہ تمام احکام اس نکاح کے ذریعہ واضح کئے
گئے، اور زمانۂ جاہلیت سے جو تصور چلا آرہا تھا، اس کو اس نکاح کے ذریعہ ختم کردیا
گیا۔
حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا
سے نکاح ملکی (سیاسی ) مصلحت سے کیا ہے:
اور حضور ﷺ نے بعض نکاح ملکی
مصلحت سے کئے ہیں، نبی پاک ﷺ جہاں اللہ تعالیٰ
کے رسول تھے، حکومت کے سربراہ بھی تھے، اور حکومت کے سربراہ کو بھت سے معاملات سیاسی
انداز سے سوچنے پڑتے ہیں، اور ان کا حل تلاش کرنا پڑتا ہے، اسی ملکی مصلحت سے حضور
ﷺ نے کئی نکاح کئے ہیں، ان کی تفصیل کرونگا،
تو بات لمبی ہوجائےگی، اس لئے میں نے اس کی جو مثال دی ہے، اس کی وضاحت کرتا ہوں، وہ
مثال حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے نکاح کی ہے، جس کی تفصیل یہ ہے کہ جب نبی پاک
ﷺ اور صحابۂ کرام ؓ ہجرت کرکے مدینہ منورہ
آئے، اور جو مسلمان ہجرت کرکے حبشہ چلے گئے تھے، وہ بھی مدینہ آنے لگے، اور انصار نے
ہر طرح مسلمانوں کی نصرت و حمایت کا وعدہ کیا، تو کفارِ مکہ نے اہلِ مدینہ کو خط لکھا،
کہ جو مسلمان بھاگ کر تمہارے یہاں آئے ہیں، ان کو واپس کرو، ورنہ ہم تم پر حملہ کریں
گے، مدینہ والوں نے اس خط کا کوئی جواب نہ دیا، اس سے قریش کا پارہ چڑھ گیا، انہوں
نے حملہ کی تیاریاں شروع کردیں، ایک قافلہ ہتھیار خریدنے کےلئے ملکِ شام بھیجا، جب
وہ قافلہ ہتھیار لے کر لوٹا، تو مسلمانوں کو اس کی خبر ہوئی، انہوں نے اس کا تعاقب
کرنے کا ارادہ کیا، جب اس کی اطلاع کفارِ مکہ کو ہوئی، تو وہ بڑے لشکر کے ساتھ قافلہ
کو بچانے کےلئے نکلے، اس طرح بدر کا معرکہ پیش آیا۔
یہ اسلام کی سب سے پہلی جنگ تھی، اس جنگ میں مکہ والے حملہ آور نہیں ہوئے
تھے، حقیقت میں وہ اپنا قافلہ بچانے کےلئے نکلے تھے، جو شام سے ہتھیار لے کر مکہ آرہا
تھا، قافلہ تو صحیح سالم نکل گیا، مگر مکہ سے جو لشکر قافلہ کو بچانے کےلئے چلا تھا،
وہ واپس نہیں لوٹا، بلکہ مدینہ منورہ کی طرف بڑھا، اور بدر کا معرکہ پیش آیا، اس جنگ
کے بعد بھی بار بار مکہ والے، مدینہ منورہ پر چڑھ کر آئے، احد میں چڑھ کر آئے، غزوۂ
احزاب میں تو تمام قبیلے ایک ساتھ اکٹھا ہوکر حملہ آور ہوئے، اور ان تمام جنگوں میں
__ بدر کے علاوہ __ کمانڈر انچیف ابوسفیان تھے، وہی سردارِ مکہ تھے، اور وہی بار بار
فوج کشی کر رہے تھے، اگرچہ وہ بعد میں مسلمان ہوگئے تھے، مگر جنگِ بدر کے علاوہ جتنی
مرتبہ کفار مدینہ منورہ پر حملہ آور ہوئے ہیں، تمام جنگوں میں کمانڈر انچیف ابوسفیان
ہی تھے، ابوسفیان کی ایک صاحبزادی ام حبیبہ رضی اللہ عنہا تھیں، وہ مسلمان ہوگئی تھیں،
اور اپنے شوہر کے ساتھ ہجرت کرکے حبشہ چلی گئی تھیں، جب ان کے شوہر کا انتقال ہوگیا،
اور نبی پاک ﷺ کو اس کی خبر ہوئی، تو آپ ﷺ نے ایک وفد شاہِ حبشہ نِجاشی رحمہ اللہ تعالیٰ کے
پاس بھیجا، آپ ﷺ نے اس وفد کے ساتھ نِجاشی
ؒ کے پاس یہ پیغام بھیجا، کہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کو میرے نکاح کا پیغام دو، چنانچہ
شاہِ حبشہ نِجاشی ؒ نے نبی پاک ﷺ کی طرف سے
منگنی بھیجی، حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کےلئے اس سے بڑی کیا سعادت ہوسکتی تھی، انہوں
نے فوراﹰ منگنی قبول کرلی، پھر نِجاشی رحمہ اللہ تعالیٰ کے دربار میں، حضرت ام
حبیبہ رضی اللہ عنہا کا نکاح پڑھا گیا، اور حضورِ اکرم ﷺ کی طرف سے نِجاشی رحمہ اللہ تعالیٰ وکیل بنے، اور
خود انہوں نے اپنی طرف سے مہر ادا کیا، اور فرمایا کہ جب نبیوں کا نکاح ہوتا ہے، تو
اس کے بعد کوئی نہ کوئی میٹھی چیز ضرور کھلائی جاتی ہے، چنانچہ انہوں نے نکاح کے بعد
مٹھائی تقسیم کی، پھر حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کو وفد کے ساتھ بھت سے ہدایا دے
کر مدینہ منورہ بھیج دیا، اس نکاح کی جب ابوسفیان کو خبر ہوئی، تو ان کی مکھی تیل میں
گری، اس کے بعد ابوسفیان رضی اللہ عنہ کی ہمت نہیں ہوئی، کہ وہ مدینہ منورہ پر چڑھائی
کریں، غزوۂ احزاب کے بعد یہ نکاح ہوا تھا، جب ابوسفیان کو اس نکاح کی خبر ہوئی، تو
انہوں نے نبی پاک ﷺ کے بارے میں کہا: اس سانڈ
کو کوئی نکیل نہیں ڈال سکتا۔
غرض حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ نکاح کرنے کی وجہ سے مکہ والوں
سے لڑائی ختم ہوگئی، یہ ملکی مصلحت تھی، اور بھی کئی نکاح حضور ﷺ نے اس مصلحت سے کئے ہیں، پھر کبھی مقصد پورا ہوا،
کبھی پورا نہیں ہوا، حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کرنے کا جو مقصد تھا، اس
میں سو فیصد کامیابی ہوئی۔
حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا سے
بھی نکاح ملکی مصلحت سے کیا ہے:
اور حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا سے نکاح یہودیوں کو قریب لانے کےلئے کیا
تھا، مگر اس میں ناکامی ہوئی، یہود بے بہبود آنحضورﷺ اور اسلام کے کٹر مخالف تھے، اس کے دل بغض و عناد
سے بھرے ہوئے تھے، اور حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا حیی بن اخطب سردار بنی نضیر کی بیٹی
تھیں، اور دوسرے سردار کنانہ بن ابی الحقیق کی بیوی تھیں، جنگِ خیبر میں یہ دونوں مارے
گئے تھے، نبی پاک ﷺ نے حضرت صفیہ رضی اللہ
عنہا کو اپنی زوجیت میں لے لیا، تاکہ یہود قریب آئیں، کیونکہ جب حضور ﷺ ان کے داماد بن جائیں گے، تو قدرتی طور سے ان کو
حضور ﷺ سے محبت ہوگی، اور قریب آئیں گے وہ،
مگر جو مقصد تھا، وہ حاصل نہیں ہوا، وہ ناہنجار قوم ذرا قریب نہیں آئی، یہ تو اللہ
تعالیٰ کے اختیار کی بات ہے، کہ مقصد حاصل ہوگا، یا نہیں ؟ بندہ تو اسباب اختیار کرتا
ہے، پھر کبھی اسباب کارگر ہوتے ہیں، اور کبھی فیل ہوجاتے ہیں۔
حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے
نکاح حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی دلجوئی کےلئے کیا ہے:
اور بعض نکاح حضور ﷺ نے شخصی
مصلحت کئے ہیں، مگر میں نے بتایا ہے کہ شخص سے مراد، حضور ﷺ کی ذات نہیں ہے، یعنی حضور ﷺ نے اپنی ذاتی ضرورت سے وہ نکاح نہیں کئے، بلکہ یا
تو جس عورت سے نکاح کیا ہے، اس کی دلجوئی مقصود تھی، یا اس عورت کے کسی متعلق کی، جیسے
حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے نکاح، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی دلجوئی کےلئے کیا ہے، حضرت
حفصہ رضی اللہ عنہا کا پہلا نکاح خُنیس بن حذافہ سَھمی رضی اللہ عنہ سے ہوا تھا، یہ
بدری صحابی ہیں، اور جنگِ بدر کے بعد مدینہ منورہ میں ان کا انتقال ہوا ہے، جب حضرت
حفصہ رضی اللہ عنہا بیوہ ہوگئیں، تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ان کی شادی کی فکر ہوئی،
چنانچہ وہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے ملے، اور ان کے سامنے پیشکش کی، حضرت عثمان
غنی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں سوچ کر جواب دونگا، پھر چند دن کے بعد جب دوبارہ ملاقات
ہوئی، تو انہوں نے کہا: میرا فی الحال شادی کرنے کا ارادہ نہیں، پھر حضرت عمر رضی اللہ
عنہ، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے ملے، اور ان کے سامنے پیشکش کی، حضرت ابوبکر رضی
اللہ عنہ خاموش ہوگئے، کوئی جواب نہیں دیا، جس سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ملال ہوا،
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے انکار سے ملال نہیں ہوا تھا، کیونکہ انہوں نے صاف جواب
دے دیا تھا، مگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ دوستانہ
تعلقات تھے، وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بھت زیادہ محبت کرتے تھے، اور ان سے حضرت
عمر رضی اللہ عنہ کو بھت زیادہ امید تھی، اگر وہ بھی انکار کردیتے، تو زیادہ غم نہ
ہوتا، کیونکہ ہر شخص اپنی مرضی کا مالک ہے، کسی پر زبردستی اپنی مرضی نہیں تھوپی جاسکتی،
مگر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بات سن کر خاموش ہوگئے، کوئی جواب نہیں دیا، اس سے حضرت
عمر رضی اللہ عنہ کو بڑا رنج ہوا۔
اس کے بعد چند دن گذرے تھے، کہ نبی پاک ﷺ نے اپنے لئے پیام دیا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ خوش
ہوگئے، اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کا آپ ﷺ
سے نکاح کردیا، تب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا:
تم نے جس وقت حفصہ ؓ سے نکاح کی پیشکش کی تھی، اور میں نے کوئی جواب نہیں دیا تھا،
اس وقت تمہیں غصہ تو آیا ہوگا ؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بھت غصہ آیا تھا،
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: وہ ایک راز تھا، میں نے اس وجہ سے جواب نہیں دیا
تھا، کہ حضورِ اکرم ﷺ نے، حفصہ ؓ کے بارے میں
مجھ سے مشورہ کیا تھا، کہ جب سے میں نے عائشہ ؓ سے نکاح کیا ہے، عمر ؓ کا دل ٹوٹا ہوا
ہے، اب حفصہ ؓ خالی ہوئی ہیں، پس کیا میں ان سے نکاح کرلوں ؟ میں نے آپ ﷺ کو مشورہ دیا تھا، کہ آپ ضرور ان سے شادی کرلیں،
اس سے عمر ؓ کی دلجوئی ہوگی، اور میں اس وقت رسول اللہ ﷺ کا راز فاش کرنا نہیں چاہتا تھا، اگر آپ ﷺ حفصہ ؓ سے شادی نہ کرتے، تو میں کرلیتا، غرض آنحضورﷺ نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے نکاح، نہ اپنی ضرورت
کےلئے کیا، نہ حفصہ ؓ کی ضرورت سے، بلکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی دلجوئی کےلئے کیا
تھا۔ [ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہمیشہ حضرت ابوبکر
رضی اللہ عنہ سے دین میں آگے بڑھنا چاھتے تھے، مگر کبھی نہ بڑھ سکے، جب حضرت ابوبکر
رضی اللہ عنہ نے عائشہ رضی اللہ عنہا کا آپ ﷺ
سے نکاح کیا، اس زمانہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی اس کے خواہشمند تھے، مگر
اس وقت ان کی کوئی لڑکی نہیں تھی، چنانچہ اس وقت سے ان کا دل ٹوٹا ہوا تھا، اب موقع
آیا، تو آپ ﷺ نے حفصہ ؓ سے نکاح کرکے ان کی
دلجوئی کی ]۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا
سے بھی نکاح شخصی مصلحت سے کیا ہے:
اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے نکاح، خود ان کی دلجوئی کےلئے کیا
ہے، ان کا پہلا نکاح ان کے چچازاد بھائی "ابو سلمہ بن عبدالاسد مخزومی رضی اللہ
عنہ " سے ہوا تھا، انہی کے ساتھ وہ مشرف باسلام ہوئیں تھیں، اور انہی کے ساتھ
حبشہ کی طرف ہجرت کی تھی، پھر وہاں سے مکہ مکرمہ واپس آکر مدینہ منورہ کی طرف ہجرت
کی، جب مدینہ منورہ میں حضرت ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوگیا، تو نبی پاک ﷺ نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی دلداری کےلئے
ان سے نکاح کرلیا، اور ازواجِ مطہرات میں، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بعد علم و فضل
میں، حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا ہی کا نمبر ہے، آنحضورﷺ کی خانگی زندگی کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے
بعد سب سے زیادہ انہوں نے محفوظ کیا ہے۔
جاری ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
0 تبصرے comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔