Monday, 28 December 2015

ختمِ نبوت کا بیان _ حضرت اقدس مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری دامت برکاتھم - حصہ سوّم / سوّم



ختمِ نبوت کا بیان _ حضرت اقدس مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری دامت برکاتھم - حصہ سوّم


مقررحضرت اقدس مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری دامت برکاتھم، شیخ الحدیث و صدر المدرسین دارالعلوم دیوبند
ناقلاحمد سعید پالن پوری استاد جامعة الشیخ حسین احمد المدنی محلہ خانقاہ دیوبند
- - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - 


         جاری  ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حصہ سوّم ( آخری حصہ ) 



 نبی پاک ﷺ  کسی مرد کے باپ نہیں:

            خیر بات دوسری طرف نکل گئی، میں یہ مضمون سمجھا رہا تھا، کہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا آنحضورﷺ  کے متبنیٰ حضرت زید رضی اللہ عنہ کی بیوی تھیں، جب انہوں نے طلاق دیدی، اور عدت کے بعد نبی پاک ﷺ  نے ان سے نکاح کرلیا، تو مشرکین نے بڑا طوفان مچایا، کہ لوجی بہو سے نکاح کرلیا، اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی: { مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ } ان کو جواب دیا کہ کیا پروپیگنڈہ کر رہے ہو، حضورِ پاک ﷺ  کا کوئی  بچہ بالغ نہیں ہوا، رجل: عربی میں بالغ آدمی کو کہتے ہیں، بچہ بلوغ سے پہلے صَبِیٌّ کہلاتا ہے، حضور ﷺ  کے نابالغ لڑکے تو ہوئے ہیں، مگر کوئی لڑکا رَجُل نہیں ہوا، پھر بیٹے کی بہو کہاں سے آئی ؟ اس ٹکڑے میں یہی بات کہی گئی ہے۔

حضورِ اقدس ﷺ کی دو خوبیاں:

             لیکن یہاں ذہنوں میں اشکال پیدا ہوتا ہے کہ جب سب لوگوں کے بالغ لڑکے ہیں، اور حضور ﷺ  کا کوئی بالغ لڑکا نہیں ہوا، تو یہ بات ایک اعتبار سے نقص ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ  کی دو خوبیاں بیان کیں: { وَلَٰكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ } لٰکِنْ استدراک کےلئے آتا ہے، یعنی پہلے کلام سے جو وہم پیدا ہوتا ہے، اس کو لٰکِنْ سے دفع کیا جاتا ہے، فرمایا: آپ ﷺ  تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، مگر وہ اللہ کے رسول ہیں، اور تمام نبیوں کے سلسلہ کو پورا کرنے والے ہیں، یہ دو خوبیاں حضورِ اکرم ﷺ  میں ہیں۔

رسول اللہ ﷺ  ہونے کی وضاحت:

             پہلی خوبی یہ ہے کہ حضورِ اکرم ﷺ  اللہ کے رسول ہیں، اور رسول اپنی امت کا روحانی باپ ہوتا ہے، جیسے استاذ اپنے شاگردوں کا روحانی باپ ہوتا ہے، پیر اپنے مریدوں کا روحانی باپ ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ کا رسول بھی اپنی امت کا روحانی باپ ہوتا ہے، کیونکہ اس کا درجہ استاذ اور پیر سے بڑھا ہوا ہے، پس قیامت تک جتنے مؤمنین ہونگے، نبی پاک ﷺ  سب کے روحانی باپ ہیں، پس اگر نبی پاک ﷺ  کے چند جسمانی بیٹے نہ ہوئے تو کیا فرق پڑتا ہے ؟[ نسبی بیٹا ہونا بھی ایک کمال ہے، اور روحانی بیٹا ہونا بھی، اور تمام کمالات ہر بندے کو ملنے ضروری نہیں، ہر کمال کی مالک ذات اللہ تعالیٰ ہی کی ہے، اب رہی یہ بات کہ کس کو کونسا کمال دینا چاھئے ؟ یہ بات اللہ تعالیٰ کی حکمت پر موقوف ہے، اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ  کو بالغ بیٹے نہیں دئیے، اس کی حکمت اللہ تعالیٰ ہی جانتے ہیں، اور انگنت روحانی اولاد عطا فرمائی، اس کی حکمت ظاہر ہے ]۔

خاتم النبین کی وضاحت:

            اور آپ ﷺ  کی دوسری خوبی یہ ہے کہ آپ ﷺ  تمام نبیوں کے خاتم ہیں، خاتم کے معنیٰ ہیں: آخری سرا، ہر چیز جس سرے پر رک جاتی ہے، وہ سرا خاتم ہے، جیسے مسجد میں روشنی بلب سے پھیل رہی ہے، اور بلب میں روشنی پاور ہاؤس سے آرہی ہے، پس پاور ہاؤس خاتم ہے، اسی طرح ہر کمال کا ایک آخری سرا ہوتا ہے، اور نبوت انسانیت کےلئے بڑا کمال ہے، بلکہ اس سے بڑا کوئی کمال نہیں، اور انبیاء بےشمار ہوئے ہیں، اور جو رسول ہیں، وہ نبی بھی ہیں، پس ان سب کا آخری سرا کون ہے ؟ ان کا آخری سرا، سرکارِ مدینہ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ  ہیں۔

آپ ﷺ نبوت کے ساتھ بالذات، اور دوسرے انبیاء بالعرض متصف ہیں:

           اس کی تفصیل یہ ہے کہ تمام انبیائے کرام علیھم الصلوٰۃ والتسلیمات کو جو نبوت ملی، وہ نبی پاک ﷺ  کے طفیل میں ملی ہے، نبی پاک ﷺ  نبوت کے ساتھ متصف بالذات ہیں، اور دوسرے انبیاء متصف بالعرض، جیسے سورج نکلتا ہے، تو زمین کا ذرہ ذرہ روشن ہوجاتا ہے، سورج سے صحن میں روشنی آتی ہے، صحن سے کمرہ روشن ہوجاتا ہے، پس روشنی کے ساتھ سورج بالذات متصف ہے، اور صحن اور کمرہ بالعرض، صحن بلاواسطہ، اور کمرہ بالواسطہ، اسی طرح تمام انبیائے کرام علیھم الصلوٰۃ والتسلیمات کو نبی پاک ﷺ  کے فیض سے نبوت ملی ہے، اصل نبی حضورِ اکرم ﷺ  ہیں، اور باقی انبیاء آپ ﷺ  کے فیض سے نبی بنے ہیں، سورۂ آل عمران آیت نمبر ٨١ میں ارشادِ پاک ہے:{ وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّينَ لَمَا آتَيْتُكُمْ مِنْ كِتَابٍ وَحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مُصَدِّقٌ لِمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنْصُرُنَّهُ } اس آیتِ کریمہ میں یہ مضمون ہے کہ جب حضرت آدم علیہ السلام پیدا کئے گئے، اور ان کی پشت سے قیامت تک کی ساری اولاد نکالی گئی، تو اللہ تعالیٰ نے ان سے دو عہد لئے، ایک: ألَسْتُ بِرَبّکُمْ ، کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ سب نے اقرار کیا کہ آپ ہی ہمارے رب ہیں، یہ عہد، عہدِ الست کہلاتا ہے، اور سورۂ اعراف آیت نمبر ١٧٢ میں اس کا ذکر ہے، اور دوسرا عہد نبیوں سے لیا گیا، اس آیت میں اسی دوسرے عہد کا ذکر ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: دیکھو اگر میں تمہیں نبوت سے سرفراز کروں، آسمانی کتاب تم پر نازل کروں، حکمت عنایت کروں، پھر تمہارے زمانہ میں محمد ﷺ  آجائیں، تو تم سب ان پر ایمان لاؤگے ؟ اور ان کی مدد کروگے ؟ سب نبیوں نے جواب دیا: ہم اپنی نبوت چھوڑ دیں گے، اور خاتم النبین محمد ﷺ  پر ایمان لے آئیں گے، یہ اس آیت کا خلاصہ ہے، اور اس کی تفصیل لمبی ہے، اس آیت سے معلوم ہوا، کہ نبوت سے درحقیقت حضورِ اکرم ﷺ  سرفراز کئے گئے ہیں، اور آپ ﷺ  کے فیض سے تمام انبیاء کو نبوت ملی ہے، اور جب اصل اور عارض جمع ہوجائیں تو اصل کی چلتی ہے، عارض کی نہیں چلتی، اسی لئے نبی پاک ﷺ  نے فرمایا: اگر موسیٰ علیہ السلام آج موجود ہوتے، تو میری پیروی کے سوا ان کےلئے کوئی چارہ نہیں تھا، اسی طرح جو بھی نبی، حضور ﷺ  کے زمانہ میں موجود ہوگا، اس کےلئے آپ ﷺ  کی اتباع ضروری ہوگی۔

عیسیٰ علیہ السلام نبی پاک ﷺ  کی شریعت پر عمل کریں گے:

            چنانچہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جو پہلے کے نبی ہیں، جب وہ قیامت سے پہلے آسمان سے اتریں گے تو اپنی نبوت پر عمل نہیں کریں گے، بلکہ نبی پاک ﷺ  کی شریعت پر عمل کریں گے، اور اسی کے مطابق مسلمانوں کی راہنمائی کریں گے۔

            یہاں کچھ لوگ کہتے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام نے آسمان پر کیا گناہ کیا تھا، جو ان کی نبوت ختم ہوگئی ؟ وہ آسمان پر اٹھائے جانے سے پہلے نبی تھے، اور جب اتریں گے تو نبی نہیں ہونگے، ایسا سوچنے والے غلطی پر ہیں، ان کی نبوت برقرار رہے گی، مگر اب وہ اپنی شریعت پر عمل نہیں کریں گے، اس کو ایک مثال سے سمجھیں: ہندوستان کا وزیراعظم یہاں امریکہ میں آیا، جب تک وہ امریکہ میں رہے گا، اپنے ملک کا وزیراعظم ہوگا، مگر اس ملک میں اس کا کوئی قانون نہیں چلے گا، اس کو اِس ملک کے قانون کی پیروی کرنی ہوگی، اگر وہ اس ملک کے قانون کے خلاف کار چلائے گا تو ماخوذ ہوگا، اس کی وزارت ختم نہیں ہوئی، وہ بدستور اپنے ملک کا وزیراعظم ہے، مگر اس کو اتباع اس ملک کے قانون کی کرنی ہوگی، یہاں امریکہ میں وہ اپنے ملک کا قانون نہیں چلاسکتا۔

        اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام بیشک نبی ہونگے، ان کی نبوت برقرار ہوگی، مگر جب حضورِ اکرم ﷺ  کے زمانہ میں تشریف لائیں گے، تو آپ ﷺ  ہی کی شریعت پر خود بھی عمل کریں گے، اور دوسروں کو بھی عمل کرائیں گے۔

نزولِ عیسیٰ علیہ السلام کا ثبوت قرآن کریم سے:

           اور یہ بات قرآن کریم میں دو جگہ آئی ہے، ایک سورۂ آل عمران میں، دوسری سورۂ انعام کے آخر میں ______ فرشتے نے حضرت مریم رضی اللہ عنہا کو خوشخبری دیتے ہوئے کہا تھا:{ وَيُعَلِّمُهُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَالتَّوْرَاةَ وَالْإِنْجِيلَ}(سورۂ آل عمران آیت نمبر ٤٨)  اللہ تعالیٰ ان کو قرآن کریم سکھائیں گے، حدیث سکھائیں گے، تورات سکھائیں گے، اور انجیل سکھائیں گے۔

            یہاں غور کرنے کی بات یہ ہے کہ جب تک حضرت عیسیٰ علیہ السلام دنیا میں رہے، قرآن کریم نہیں اترا تھا، قرآن کریم حضورِ اکرم ﷺ  پر اترا، اور حدیثیں حضورِ اکرم ﷺ  کے ارشادات ہیں، وہ بھی وجود میں نہیں آئی تھیں، پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ قرآن و حدیث کب سکھائیں گے ؟ اس میں صاف اشارہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آخری دور میں اترنا ہے، جب دنیا میں قرآن و حدیث کا وجود ہوجائےگا، اس وقت اللہ تعالیٰ قرآن و حدیث حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو سکھلائیں گے، پس پہلا اشارہ تو آیتِ پاک میں یہ ہے، کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو سولی نہیں دی گئی، جیسا کہ عیسائیوں کا، اور یہودیوں کا عقیدہ ہے، ان کے خیالِ فاسد کو قرآن کریم نے رد کیا ہے{ وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ }(سورة النساء آیت نمبر ١٥٧)  بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے پاس اٹھالیا ہے، کیوں اٹھالیا ہے ؟ ان کو آخری دور میں اتارنا ہے، اور ان کو قرآن و حدیث سکھانا ہے، اور دوسرا اشارہ یہ ہے کہ نزول کے بعد آپ شریعتِ محمدی پر عمل کریں گے، ورنہ قرآن و حدیث سکھانے کی کیا ضرورت تھی ؟

انجیل تورات کا ضمیمہ ہے:

         اور اس میں تیسرا اشارہ یہ ہے کہ انجیل مستقل کتاب نہیں، بلکہ تورات کا ضمیمہ ہے، چنانچہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ تورات بھی سکھائیں گے، اور انجیل ان پر نازل فرمائیں گے، وہ اپنے زمانہ میں ان دونوں کتابوں سے راہنمائی فرمائیں گے، پھر وہ آسمان پر اٹھالئے جائیں گے، پھر آخری زمانہ میں ان کو اتاریں گے، اور قرآن و حدیث سکھلائیں گے۔

 قرآن و حدیث کی تقدیم اہمیت ظاہر کرنے کےلئے ہے:

          یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کتاب و حکمت (قرآن و حدیث ) کی تعلیم کو پہلے بیان کیا ہے، جب کہ نفس الامر میں تورات و انجیل پہلے سکھلائی ہے، اور قرآن و حدیث قربِ قیامت میں جب ان کا نزول ہوگا، تب سکھلائیں گے، پس قرآن و حدیث کی تقدیم کی وجہ کیا ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ان کی اہمیت ظاہر کرنے کےلئے ان کو پہلے بیان کیا ہے، اور قرآن کریم میں اس کی بھت مثالیں ہیں، ایک چیز نفس الامر میں بعد میں ہوتی ہے، مگر اس کو پہلے بیان کیا جاتا ہے، تاکہ اس کی اہمیت ظاہر ہو، جیسے اللہ پاک نے سورۂ آل عمران آیت نمبر ٥٥ میں فرمایا ہے:{ إِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَىٰ إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ }'' یاد کرو جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا، ائے عیسیٰ! میں تمہیں موت دینے والا ہوں، اور میں تمہیں اپنی طرف اٹھانے والا ہوں'' اس آیت میں موت کا ذکر پہلے کیا ہے، اور اٹھائے جانے کا ذکر بعد میں، حالانکہ وجود میں اس کے برعکس ہے، اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر پہلے اٹھایا ہے، اور موت قربِ قیامت میں جب وہ اتریں گے، تب آئے گی، مگر موت کا ذکر پہلے اس لئے کیا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں لوگوں کو غلط فہمی نہ ہو، پہلے سے بتادیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی ایک انسان ہیں، اور جیسے تمام انسانوں کو موت آنی ہے، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی آنی ہے، لیکن فی الحال وہ آسمانوں پر اٹھائے جائیں گے، اگر پہلے سے یہ کہہ دیا جاتا کہ میں تمہیں اٹھانے والا ہوں، تو ان کی امت کو غلط فہمی ہوسکتی تھی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام غیر معمولی شخصیت ہیں، چنانچہ ان کو موت نہیں آئی، اس وہم کو ختم کرنے کےلئے اللہ تعالیٰ نے موت کا ذکر پہلے کیا۔

          اسی طرح یہاں بھی قرآن و حدیث کی تعلیم اگرچہ وجود میں بعد میں آئے گی، مگر اس کو پہلے ذکر کیا، کیوں ؟ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا قربِ قیامت میں نزول واقعی ہے، اور ان کو اللہ تعالیٰ قرآن و حدیث ضرور سکھلائیں گے، مگر جب تک ان کا نزول نہیں ہوتا، اور ان کو اللہ تعالیٰ قرآن و حدیث نہیں سکھلاتے، وہاں تک انکار کرنے والوں کےلئے انکار کا موقع تھا، اس لئے تاکید کےلئے کتاب و حکمت کو پہلے بیان کیا۔

        خیر بات پھیلتی چلی گئی، اور کہیں سے کہیں نکل گئی، مجھے تو سمجھانا یہ تھا، کہ تمام نبیوں کی نبوت سرکارِ مدینہ ﷺ  کی نبوت کا فیض ہے، نبی پاک ﷺ  نبوت کے ساتھ متصف بالذات ہیں، اور باقی تمام انبیاء متصف بالعرض، اور آپ ﷺ  خاتم النبین ہیں، نبوت کے سلسلہ کی آخری کڑی ہیں، اور قیامت تک کے تمام لوگوں کے روحانی باپ ہیں، اور گذشتہ تمام امتوں کے روحانی دادا ہیں، آپ ﷺ  کا فیض نبیوں کو پہنچا، اور نبیوں کا فیض ان کی امتوں کو پہنچا، اس طرح آپ ﷺ  گذشتہ امتوں کے روحانی دادا ہوئے۔

          یہاں کوئی سوال کرے کہ اللہ تعالیٰ آنحضورﷺ  کو دونوں فضیلتوں سے سرفراز کرسکتے تھے، آپ ﷺ  کے روحانی بیٹے پوتے بھی ہوتے، اور جسمانی بھی، اس میں کیا حرج تھا ؟ دونوں فضیلتیں اکٹھا ہوجاتیں، تو کیا نقصان تھا، اس کا جواب اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: {وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا} اور اللہ تعالٰی ہر چیز کو خوب جاننے والے ہیں، ان کی حکمتیں ہم نہیں جان سکتے، یعنی ایسا کیوں کیا ؟ ایک فضیلت دی، دوسری نہیں دی، اس میں کیا حکمت ہے ؟ وہ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیں، وہی ہر چیز کا پورا علم رکھتے ہیں، ہم ہر بات نہیں جانتے۔

آپ ﷺ  خاتمِ رُتبی بھی ہیں، اور زمانی بھی:

         یہاں کسی کو یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاھئے کہ جب آپ ﷺ  نبوت کے ساتھ بالذات متصف ہیں، اور دوسرے انبیاء بالعرض، تو آپ ﷺ  کے بعد بھی لوگ آپ ﷺ  کے فیض سے نبی ہوسکتے ہیں، ایسا خیال صحیح نہیں قادیانیوں کو ایسا ہی دھوکہ ہوا ہے، کیونکہ آپ ﷺ  صرف خاتمِ رُتبی نہیں ہیں، بلکہ خاتمِ زمانی بھی ہیں، تمام نبیوں کے آخر میں مبعوث ہوئے ہیں، کیونکہ ستارے سورج طلوع ہونے سے پہلے جگمگا سکتے ہیں، مگر جب سورج نکل آتا ہے تو ان کی ضیاپاشی ختم ہوجاتی ہے، اور نبی پاک ﷺ  کو قرآن کریم میں سِرَاجَاً مُنِیراً کہا گیا ہے، یعنی آپ ﷺ  آفتابِ نبوت ہیں، اس لئے اللہ تعالیٰ نے دیگر انبیاء کو پہلے بھیجا، جب وہ اپنی تابانی دکھا چکے، تو آفتابِ نبوت طلوع ہوا، اور وہ اب قیامت تک چمکتا رہے گا، اب سابقہ کوئی نبی تابع ہوکر تو آسکتا ہے، مگر نیا کوئی نبی نہیں آسکتا۔

خاتَم (بفتح التاء ) اور خاتِم (بکسر التاء ) کے ایک معنیٰ ہیں:

        آیتِ کریمہ میں خَاتَمَ النَّبِيِّينَ تاء کے زبر کے ساتھ بھی پڑھا گیا ہے، اور زیر کے ساتھ بھی، بکسر التاء کے معنیٰ ہیں: ختم کرنے والا، پورا کرنے والا، اور بفتح التاء کے معروف معنیٰ ہیں: مہر، انگوٹھی (پہلے مہر انگوٹھی میں بنتی تھی )  اور مہر دستاویز کے آخر میں لگائی جاتی ہے، جہاں مضمونِ خط پورا ہوجاتا ہے، وہاں اعتبار پیدا کرنے کےلئے مہر لگائی جاتی ہے، نبی پاک ﷺ  کے والا ناموں پر بھی مہر خط کے آخر میں لگائی گئی تھی، پس مہر: خط کا مضمون ختم ہونے کی علامت ہے، اور تفسیر کا قاعده ہے، کہ ایک آیت، دوسری آیت کی تفسیر کرتی ہے، اور دو قرأتیں بمنزلہ دو آیتوں کے ہوتی ہیں، اس لئے دونوں لفظ ختمِ نبوتِ زمانی پر بھی دلالت کرتے ہیں، اور رُتبی پر بھی، یعنی آپ ﷺ  کا زمانہ تمام نبیوں کے بعد ہے، آپ ﷺ  کے بعد کسی قسم کا کوئی نیا نبی آنے والا نہیں، اور آپ ﷺ  کا مرتبہ نبیوں میں سب سے بڑھ کر ہے، آپ ﷺ  وصفِ نبوت کے ساتھ بالذات متصف ہیں، اور دیگر انبیاء بالعرض، بلکہ حضرت نانوتوی رحمہ اللہ تعالیٰ نے ختمِ نبوتِ مکانی بھی اس آیت سے ثابت کی ہے، جس کی تفصیل تحذیر الناس میں ہے۔


وَ آخِرُ دَعْوَانا أنِ الحَمْدُ للہِ رَبّ العَالَمین

شکریہ : مولانا عادل سعیدی  مدظلہ

0 تبصرے comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔