Monday 7 December 2015

مودودی جماعت کی پانچ گمراہیاں : حضرت اقدس مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری دامت برکاتھم

مودودی جماعت کی پانچ گمراہیاں
 مقرر: حضرت اقدس مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری دامت برکاتھم، شیخ الحدیث و صدر المدرسین دارالعلوم دیوبند
ناقل: مولانا احمد سعید پالن پوری، استاد جامعة الشیخ حسین احمد المدنی محلہ خانقاہ دیوبند

          خطبۂ مسنونہ کے بعد:
(اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ * صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ (

         بزرگو اور بھائیو! آج میں چاہتا ہوں، کہ آپ کو جناب سید ابوالاعلیٰ مودودی صاحب، اور ان کی جماعت "جماعتِ اسلامی " کی حقیقت سمجھاؤں، لوگ عام طور پر اس سے واقف نہیں، اور ہر ایک کے بس میں اسے سمجھانا بھی نہیں، اس لئے آج کی آخری مجلس میں (  نیویارک کی ایک بڑی مسجد میں حضرت والا کا دس دن کا پروگرام تھا، روزانہ عشاء کے بعد بیان ہوتا تھا، بیان کے بعد سوال و جواب کا سلسلہ چلتا تھا، لوگ بار بار جماعتِ اسلامی کے بارے میں دریافت کرتے تھے، حضرت جواب دیتے تھے، کہ یہ تفصیلی موضوع ہے، کسی وقت سمجھاؤں گا، چنانچہ آخری دن اسی موضوع پر تقریر فرمائی ) اس موضوع پر مختصر کلام کرنا چاہتا ہوں، لیکن جو باتیں بیان کرونگا، وہ بنیادی باتیں ہونگی، اس لئے آپ ان کو بغور سنیں، جس کی سمجھ میں آئے وہ قبول کرے،  نہ سمجھ آئے تو اس دنیا میں کسی کو مجبور نہیں کیا جاسکتا۔

         مودودی جماعت کی بنیادی گمراہیاں پانچ ہیں:
١۔۔۔۔۔ صحابہ ؓ معیارِ حق نہیں  :
           سید ابوالاعلیٰ مودودی صاحب ہماری جماعت کے ایک فرد تھے، شروع میں ہمارے سارے آدمی ان کے ساتھ تھے، پھر ہمارا اور ان کا اختلاف کہاں سے شروع ہوا ہے، اس کو سمجھنا ہے، سید ابوالاعلیٰ مودودی صاحب باقاعدہ دین پڑھے ہوئے نہیں تھے، انگریزی بھی انہوں نے باقاعدہ نہیں پڑھی تھی، لیکن غضب کے ذہین تھے، انہوں نے اپنی محنت سے انگریزی بھی سیکھی، عربی بھی سیکھی، اور شروع میں جمعیۃ علماء ہند کے اخبار، الجمعیة کے ایڈیٹر رہے، اس زمانے میں جمعیۃ کے صدر مفتی کفایت اللہ صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ تھے، کہتے ہیں، انہوں نے مفتی صاحب ؒ سے بھی استفادہ کیا ہے، ایڈیٹری کے زمانے میں انہوں نے الجھاد فی الاسلام لکھی، اور سب لوگوں نے اسے بہت پسند کیا، پھر وہ الجمعة کی ایڈیٹری چھوڑ کر حیدرآباد چلے گئے، اور وہاں جاکر انہوں نے ترجمان القرآن کے نام سے ماہانہ رسالہ نکالا، اور اس میں مضامین لکھنے شروع کئے، یہ زمانہ وہ تھا، جب ہندوستان میں آزادی کی تحریک زوروں پر چل رہی تھی، چنانچہ مودودی صاحب نے بھی آزادی کے موضوع پر زور دار تحریریں لکھیں، اور دوسرے بڑے علماء جیسے مولانا علی میاں ندویؒ، مولانا منظور نعمانی ؒ، مولانا امین احسن اصلاحی، اور مولانا بختیاری مدراسی، وغیرہ حضرات بھی ان کے رسالہ میں تحریریں لکھ رہے تھے، پھر ایک وقت آیا کہ انہوں نے طے کیا کہ مجھے اپنی ایک علاحدہ جماعت بنانی ہے،

            اور اس سلسلہ میں پہلا اجلاس انہوں نے دہلی میں بلایا، اس اجتماع میں ہمارے علماء مولانا منظور نعمانی صاحب ؒ، مولانا علی میاں ندوی صاحبؒ ؒ، مولانا بختیاری، اور مولانا امین احسن اصلاحی صاحب وغیرہ شریک ہوئے، اس اجلاس میں مودودی صاحب نے اپنی جماعت کی تشکیل کی، اور اس کا دستورِ اساسی پیش کیا، جس کی پہلی دفعہ تھی کہ "‌اس جماعت کا نام، جماعتِ اسلامی ہوگا " سب سے پہلے اس پر مناقشہ ہوا، کہ جماعتِ اسلامی کا کیا مطلب ‌؟ اس جماعت میں جو نہیں ہے، کیا وہ مسلمان نہیں ہے ‌؟ مولانا مودودی صاحب نے اس کی وضاحت کی کہ نہیں، یہ مطلب نہیں ہے، یہ تو بس ایک رمزی نام ہے، بہرحال اس پہلی دفعہ پر اختلاف ہوا، مگر کوئی زیادہ اختلاف نہیں ہوا، دوسری دفعہ آئی، اس میں یہ تھا کہ "جو بھی اس جماعت میں شامل ہوگا، وہ اللہ اور اس کے رسول کے علاوہ کسی کی ذھنی غلامی نہیں کرے گا " یہ لفظ ذہنی غلامی مہمل تھا، اللہ اور اس کے رسول کے احکام کی اطاعت کےلئے لفظ ذہنی غلامی استعمال نہیں کرنا چاھئے تھا، لیکن چلو جب یہ دوسری دفعہ پیش ہوئی تو اس پر سخت اختلاف ہوا، لوگوں نے پوچھا کہ صحابہ کے بارے میں کیا کہتے ہو ‌؟ کیا صحابۂ کرام ؓ کا اجماع حجت ہے، یا نہیں ‌؟ یہ مسئلہ سب سے پہلے کھڑا ہوا، اور لمبی بحثیں ہوئیں، ان بحثوں کے بعد یہ سب اکابر ان سے الگ ہوگئے، اور سب سے پہلے دارالعلوم دیوبند کے اس وقت کے شیخ الحدیث حضرت مولانا سید حسین احمد صاحب مدنی رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس جماعت کی گرفت کی، کہ صحابۂ کرام ؓ کے بارے میں اپنی پوزیشن واضح کرو، ان کا اجماع حجت ہے، یا نہیں ‌؟ یہ دفعہ آج تک ان کے دستور میں چلی آرہی ہے، مگر آج تک انہوں نے صحابۂ کرام ؓ کے بارے میں اپنی پوزیشن واضح نہیں کی، وہ کہتے ہیں کہ ہم صحابہ پر کہاں تنقید کرتے ہیں ‌؟ اکابر نے کہا کہ تم کیچڑ اچھالتے ہو، یا نہیں، تنقید کرتے ہو، یا نہیں، یہ تو بعد کی بات ہے، پہلے یہ بتاؤ کہ صحابۂ کرام ؓ کا اجماع حجت ہے، یا نہیں ‌؟ آج تک انہوں نے نہ ہاں کی، نہ نا، یہی وہ معرکة الآراء بحث ہے کہ صحابہ معیارِ حق ہیں ، یا نہیں‌؟ اگر وہ صحابہ کو حجت مانتے ہیں تو ان کو دستور میں ایک جملہ بڑھادینے میں کیا پریشانی تھی، مگر انہوں نے آج تک نہیں بڑھایا، اس دن سے ہمارا اور ان کا اختلاف شروع ہوا، اور وہ اہل السنہ والجماعہ سے نکل گئے، کیونکہ وہ جماعت، یعنی صحابۂ کرام ؓ کے اجماع کو حجت نہیں مانتے، لہٰذا ان کا، اور ہمارا اختلاف، صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ سے شروع ہوا، ہمارا راستہ، ان لوگوں کا راستہ ہے، جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام فرمایا، اور اس کے سب سے پہلے مصداق، صحابۂ کرام ؓ ہیں، انہی کا راستہ ہم نے اختیار کیا ہے، جماعتِ اسلامی والوں نے ان کا راستہ اختیار نہیں کیا، ایک اختلاف تو ہمارا اور ان کا یہ ہوا، کہ وہ صحابہ کے اجماع کو حجت نہیں مانتے، اور ہم مانتے ہیں، اس لئے وہ الجماعۃ میں نہیں رہے، یہ ایک بات ہی ان کی گمراہی کےلئے کافی ہے۔

٢۔۔۔۔۔ دین کا ''کیلا ''حکومتِ الٰہیہ قائم کرنا ہے

            اسلام کی تعلیمات بھت پھیلی ہوئی ہے، سارا قرآن کریم بھرا پڑا ہے، ساری بھری پڑی ہیں، ان دونوں کی تفصیلات سے ساری فقہ بھری پڑی ہے، مگر قطب الراحی بتاؤ کیا ہے ‌؟ قطب الراحی: چکی کا کیلا، جس پر چکی کا اوپر کا پاٹ گھومتا ہے، اسلام کا قطب الراحی کیا ہے ‌؟ نبی پاک ﷺ  کے زمانے سے آج تک پوری امت یہ سمجھتی آئی ہے، کہ وہ قطب الراحی "رِضْوَان مِنَ اللہِ " ہے، یعنی کی خوشنودی حاصل کرنا، قرآنِ کریم میں ہے:
وَعَدَ اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَمَسَاكِنَ طَيِّبَةً فِي جَنَّاتِ عَدْنٍ ۚ وَرِضْوَانٌ مِنَ اللَّهِ أَكْبَرُ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ( التوبہ آیت نمبر ٧٢ )  "اللہ تعالیٰ نے مؤمن مردوں، اور مؤمن عورتوں سے وعدہ کیا ہے، ایسے باغات کا جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں، وہ ان باغات میں ہمیشہ رہیں گے، اور اللہ تعالٰی نے ان سے ہمیشہ رہنے کے باغوں میں ستھرے گھروں کا وعدہ کیا ہے، اور اللہ تعالٰی کی خوشنودی ان سب نعمتوں سے بڑی نعمت ہے " یعنی سب نعمتوں سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی خوشنودی ہے۔ سورۂ یونس آیت نمبر ٢٦ میں ہے، لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا الْحُسْنَىٰ وَزِيَادَةٌ ( جن لوگوں نے اچھے کام کئے ہیں، ان کےلئے اچھا گھر ہے، اور کچھ مزید بھی ہےجنت اور ساری نعمتیں تو مل گئیں، مزید کیا ہے ‌؟ حدیث شریف میں اس کی وضاحت آئی ہے، کہ جب سب جنتی جنت میں پہنچ جائیں گے، تو اللہ تعالیٰ جنتیوں سے خطاب فرمائیں گے، کہ میرے بندو! تمہیں جو نعمتیں میں نے عطا کی ہیں، کیا تم ان پر خوش ہو‌؟ سب جنتی کہیں گے، کہ پروردگار عالم! ہم خوش ہیں، اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ میں نے تمہارے لئے ایک نعمت چھپارکھی ہے، ابھی میں نے تمہیں وہ نعمت نہیں دی، جنتی سوچیں گے کہ ساری نعمتیں تو ہمیں میسر ہیں، پھر وہ کونسی نعمت باقی ہے، جو اللہ تعالیٰ نے ابھی تک نہیں دی، تو جنتی عرض کریں گے کہ پروردگار عالم! وہ نعمت کونسی ہے ‌؟ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ وہ نعمت یہ ہے کہ میں آج اعلان کرتا ہوں کہ تمام جنتیوں سے میں خوش ہوگیا، ایسا خوش ہونا کہ اب میں کبھی تم سے ناراض نہیں ہونگا، حدیث شریف میں ہے کہ جب یہ اعلان ہوگا، تو مؤمنین کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہے گا، اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے سامنے جنت کی تمام نعمتوں کو وہ ہیچ تصور کریں گے، معلوم ہوا کہ سب سے بڑی نعمت اللہ تعالیٰ کی رضامندی ہے، آپ نے نماز پڑھی، اور اللہ تعالٰی راضی ہوئے تو آپ کی نماز کا فائدہ ہے، اور اگر آپ نے نماز پڑھی، اور اس میں دکھلاوا کیا، اور دنیا نے دیکھ لیا، سن لیا، مگر اللہ تعالٰی راضی نہیں ہوئے، تو وہ نماز، نمازی کے منہ پر مار دی جائےگی، یہی حال زکوٰۃ کا ہے، یہی حال روزہ کا ہے، یہی حال حج کا ہے، یہی حال تمام بندگیوں کا ہے، کہ اگر ہماری بندگیوں سے اللہ تعالیٰ راضی ہوگئے، تو ہم کامیاب ہیں، اور اگر اللہ تعالٰی کو خوش نہیں کرسکے، توہمارے لئے کامیابی نہیں، بہرحال پوری امت، حضور ﷺ  کے زمانے سے آج تک یہ سمجھتی آرہی ہے کہ اسلام کی چکی کا کیلا جس پر تمام احکام گھوم رہے ہیں "رِضْوَان مِن اللہ " ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنا ہے، اب مودودی صاحب آئے، انہوں نے وہ کیلا نکال دیا، اور ایک نیا کیلا فٹ کیا، وہ نیا کیلا کیا ہے ‌؟ اقامتِ دین، یہ تو ان کی خوبصورت تعبیر ہے، مگر اقامتِ دین کا مطلب اپنے اندر، دین قائم کرنا، یا دین پر عمل کرنے کا جذبہ پیدا کرنا نہیں ہے، اقامتِ دین کا مطلب ہے، دنیا میں خلافتِ الٰہیہ قائم کرنا، یہ انہوں نے نیا کیلا چڑھایا، اور سارے احکام اس پر گھمادئیے، چنانچہ انہوں نے کہا، یہ جو جماعت کی نماز ہے، وہ فوجی پریڈ ہے، اللہ تعالیٰ کی خوشنودی والی بات گئی، نماز فوجی پریڈ بن گئی، زکوٰۃ قومی فنڈ ہے، اسی لئے وہ زکوٰۃ کو ہر کام میں استعمال کرتے ہیں، کیونکہ فنڈ تو ہر چیز میں استعمال ہوتا ہے، جیسے گورنمنٹ کا فنڈ ہر چیز میں استعمال ہوتا ہے، روزہ فوج کی بھوکے رہنے کی ریہرسل ہے، اور حج انٹرنیشنل کانفرنس ہے، یہ سب تعبیریں انہیں کی چھوٹی بڑی کتابوں میں موجود ہیں، ہر چیز میں سے انہوں نے اللہ تعالیٰ کو خوش کرنے کی بات نکال دی، اور حکومتِ الٰہیہ قائم کرنے کی بات شامل کردی۔

کیا حکومتِ الٰہیہ قائم کرنا فرض نہیں ‌؟

          ایک سوال: کیا حکومتِ الٰہیہ قائم کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم نہیں دیا ‌؟  بیشک دیا ہے، حکومتِ الٰہیہ قائم کرنا فرض ہے، مگر وہ اسلام کی جڑ نہیں، بلکہ وہ اسلام کے درخت کی ایک شاخ ہے، جیسے نماز احکامِ اسلام کی ایک شاخ ہے، زکوٰۃ، روزہ، حج، تلاوتِ قرآن وغیرہ بے شمار شاخیں ہیں، حدیث شریف میں ہے: الایمانُ بِضْع و سَبْعوْن شُعْبَة ( ایمان کی ستر سے زیادہ شاخیں ہیں ) ان شاخوں میں سے ایک شاخ حکومتِ الٰہیہ قائم کرنا بھی ہے، جہاں حالات سازگار ہوں،  حکومتِ الٰہیہ قائم کی جاسکتی ہو، وہاں مسلمانوں پر فرض ہے کہ حکومتِ الٰہیہ قائم کریں، لیکن وہ دین کی بنیاد نہیں، مگر مودودی صاحب نے ایک شاخ کو کاٹ کر اسلام کے درخت کی جڑ اور تنا بنادیا، اور سارے احکامِ اسلامی اس تنے پر گھمادئیے، انہوں نے کسی کتاب میں یہ جملہ لکھا ہے، کہ وہ انبیاء جو پوری زندگی دین کی محنتیں کرتے رہے، اور دنیا میں حکومتِ الٰہیہ قائم نہ کرسکے، وہ دنیا سے اپنے مشن میں ناکام گئے، توبہ! کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء آئے ہیں، ان میں سے کتنوں نے حکومتِ الٰہیہ قائم کی ہے ‌؟ پانچ دس کی مثال آپ دے سکتے ہیں، باقی تو دین کی محنتیں کرتے کرتے چلے گئے، ان کےلئے حالات سازگار نہیں ہوئے، حکومتِ الٰہیہ قائم کرنے کے مواقع میسر نہیں آئے، تو کیا وہ انبیاء دنیا سے ناکام گئے ‌؟؟؟؟؟ بات دراصل یہ ہے، کہ جب کیلا انہوں نے حکومتِ الٰہیہ قائم کرنا کردیا، تو اب جو زندگی بھر محنتیں کرکے بھی حکومتِ الٰہیہ قائم نہ کرسکا، وہ تو ناکام ہی نظر آئےگا، اور لطف کی بات یہ ہے کہ خود مودودی صاحب بھی ناکام گئے، وہ بھی اپنی زندگی میں حکومتِ الٰہیہ قائم نہ کرسکے، حتیٰ کہ زندگی بھر عورت کی امارت کی تردید کرتے رہے، اور آخر میں فاطمہ جناح کی تائید کی، مگر اس کو جتوا نہ سکے، اور خود بھی حکومتِ الٰہیہ قائم کئے بغیر اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔

حکومتِ الٰہیہ قائم کرنے کی فکر ہے، مگر اپنے اندر دین قائم کرنے کی فکر نہیں

           آج جماعتِ اسلامی میں جو لوگ ہیں، ان کی زندگی پر سرسری نظر ڈالیں، تو آپ پائیں گے، کہ ان کو نمازوں سے کوئی دلچسپی نہیں، روزوں سے کوئی دلچسپی نہیں، ان کا لباس اسلامی نہیں، ان کے چہرے اسلامی نہیں، البتہ صبح سے شام تک سیاسی سرگرمیوں کےلئے دوڑ دھوپ کریں گے، مگر نماز کا وقت آئے گا تو مسجد میں نظر نہیں آئیں گے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے بڑے حضرت نے اسلام کی چکی کا کیلا ہی بدل دیا ہے، حضور ﷺ  کے زمانے سے آج تک پوری امت یہی سمجھتی آئی ہے، کہ اسلام کا کیلا رِضْوَان مِن اللہ ہے، اگر آپ کی عبادتوں سے، آپ کے معاملات سے، آپ کی معاشرت و اخلاق سے، اللہ تعالیٰ خوش ہیں، تو آپ کامیاب ہیں، اور جہاں حالات سازگار ہوں، وہاں حکومتِ الٰہیہ قائم کرنا بھی مسلمانوں پر فرض ہے، اس کا ہمیں انکار نہیں، اسی لئے جب انہوں نے الجھاد فی الاسلام لکھی، تو ہمارے اکابر نے منہ بھر کر اس کی تعریف کی، پس یہ بات اچھی طرح ذہن میں بٹھا لیجئے کہ خلافتِ الٰہیہ قائم کرنا وہاں فرض ہے، جہاں حالات سازگار ہوں، حضور ﷺ  مکہ معظّمہ میں تیرہ سال رہے، کوئی خلافتِ الٰہیہ قائم نہیں کی، مدینہ منورہ آنے کے بعد، جب ایک اجتماعیت اور مرکزیت حاصل ہوئی، تو پھر آہستہ آہستہ حکومت قائم ہونی شروع ہوئی، الغرض دوسری بات سمجھنے کی یہ ہے، کہ سارے مودودی لیٹریچر کا خلاصہ حکومتِ الٰہیہ کا قیام ہے، اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا ان کے یہاں کوئی تصور نہیں۔

 ٣۔۔۔۔۔ تصوف چنیا بیگم ہے
         دین تین چیزوں کا نام ہے، اور تینوں میں چولی دامن کا ساتھ ہے، چولی کے بغیر دامن نہیں ہوسکتا، اور دامن کے بغیر چولی بے معنیٰ ہے، وہ تین چیزیں کیا ہیں ‌؟ ایک مرتبہ نبیِ پاک ‌ﷺ  صحابۂ کرام ؓ کے ایک مجمع میں تشریف فرما تھے، اور مجلس چل رہی تھی، کہ اچانک کوئی صاحب مسجد میں داخل ہوئے، نہایت اجلے کپڑے پہنے ہوئے، بال کالے، ایسا معلوم ہوتا تھا، کہ ابھی نہا کر آرہے ہیں، مجمع چیرتے ہوئے آگے بڑھے، اور حضور ﷺ  کے گھنٹوں سے گھٹنے ملاکر بیٹھے، اور سوال کرنے شروع کئے،: مَا الایمان ؟ ایمان کیا ہے ‌؟ آپ ﷺ  نے فرمایا: چھ چیزوں کو دل سے قبول کرنے کا نام ایمان ہے، یہ باتیں ایمانِ مفصل میں لی گئی ہیں، انہوں نے دوسرا سوال کیا: مَا الاحسَانُ ؟ نکو کردن کیا ہے ‌؟ آپ ﷺ  نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کو دیکھتے ہوئے عبادت کرو، اور اگر تم اللہ تعالیٰ کو نہیں دیکھ رہے، تو اللہ تعالیٰ تمہیں دیکھ رہا ہے۔ بس یہ مؤمن کی زندگی کا خلاصہ ہے، اور انہی تین چیزوں کا مجموعہ دین کہلاتا ہے، اور ان کے درمیان چولی دامن کا ساتھ ہے، ایک دوسرے سے الگ نہیں ہوسکتے، اسی ایمان کو مدرسوں میں علمِ کلام کے نام سے پڑھایا جاتا ہے، اور اسلام کو فقہ کے نام سے پڑھایا جاتا ہے، اور احسان: تصوف کا نام ہے، اور تصوف تصحیحِ نیت کا نام ہے، اور یہی احسان یا تصوف، ایمان ( عقائد ) اور اسلام ( اعمال ) کی جان ہے، اگر عقائد میں نیت صحیح نہ رہے، تو وہ نفاقِ اعتقادی ہے، اور اعمال میں نیت صحیح نہ رہے، تو وہ شرکِ خفی ہے، الغرض یہ تینوں چیزیں لازم ملزوم ہیں، اب مودودی صاحب آئے، انہوں نے ایمان و اسلام کو تو مان لیا، مگر تصوف کے بارے میں کہا کہ یہ چنیا بیگم ہے، افیم ہے، جس چیز کو اللہ تعالیٰ کے رسول نے ایمان و اسلام کے ساتھ لازم ملزوم کرکے بیان کیا ہے، اس کو جناب عالی نے چنیا بیگم قرار دیدیا، اور یہ نظریہ صرف انہی کا نہیں، غیر مقلد بھی یہی کہتے ہیں، کہ تصوف ایک بھوت ہے، جو لوگوں پر چڑھ جاتا ہے، اللہ غنی! قرآن کریم میں جس کے تذکرے ہیں، حدیثوں میں جس کے تذکرے ہیں، وہ چنیا بیگم اور بھوت قرار دیدیا گیا، حضرت شاہ ولی اللہ صاحب ؒ جن کو یہ غیر مقلد اور مودودی بھی بڑا مانتے ہیں، انہوں نے حجة اللہ البالغہ میں احسان پر اتنا لمبا باب باندھا ہے، کہ اس کی شرح رحمۃ اللہ الواسعہ میں تین سو صفحات میں آئی، بہرحال اس جماعت کی تیسری گمراہی یہ ہے، کہ احسان اور تصوف کو نہیں مانتے، اس کو چنیا بیگم ( افیم ) قرار دیتے ہیں، بس جس چیز کا قرآن و حدیث میں اتنا صاف تذکرہ آیا ہے، اس کا اگر کوئی انکار کرے تو وہ اہلِ حق میں کیسے ہوگا ‌؟

٤۔۔۔۔۔ دین ہم خود سمجھیں گے

          قرآن کریم میں حضور ﷺ  کے بارے میں آیا ہے: وَ یُعَلّمھُم الکِتابَ و الحِکْمةَ، حضور ﷺ  صحابہ کو قرآن و حدیث سکھلاتے ہیں، قرآن و حدیث کا نام ہی دین ہے، صحابۂ کرام ؓ نے قرآن و حدیث تابعین کو سکھایا، تابعین نے تبع تابعین کو، اسی طرح دین سیکھنے کا سلسلہ چلتے چلتے ہم تک پہنچا، مودودی صاحب نے اسلاف سے دین فہمی کا یہ سلسلہ کاٹ دیا، اور کہا کہ دین سمجھنے کےلئے اسلاف سے تعلق قائم کرنے کی ضرورت نہیں، دین ہم خود سمجھیں گے، قرآن و حدیث ہم خود سمجھیں گے، وہ ماڈرن اسلام کے داعی ہیں، تیرہ سو سال سے اسلاف نے دین کو جس طریقے پر سمجھا ہے وہ اولڈ اسلام ہے، اور ماڈرن اسلام کہاں سے آئے گا‌؟ اس کا ایک ہی راستہ ہے، کہ قرآن و حدیث کو سمجھنے کا اسلاف سے جو طریقہ چلا آرہا ہے، ہم اسے نہ لیں، بلکہ ہم قرآن و حدیث کو خود سمجھیں، یہ سب سے بڑی گمراہی ہے، اس سے بڑی گمراہی کوئی نہیں ہوسکتی، میرے بھائیو! قرآن و حدیث ماڈرن ہیں، یا اولڈ ‌؟ اولڈ ہیں، آج بھی مسلمانوں کے ایک ہاتھ میں قرآن کریم ہے، اور ایک ہاتھ میں حدیث شریف ہے، ان دونوں کے ہوتے ہوئے ماڈرن اسلام کہاں سے آئے گا ‌؟ ہاں اگر ماڈرن قرآن لائیں، ماڈرن حدیثیں لائیں، تو ماڈرن اسلام بھی آسکتا ہے، لیکن یہ قرآن و حدیث تو چودہ سو سال پرانے ہیں، ان میں سے ماڈرن اسلام کیسے نکلے گا ‌؟ ان میں سے ماڈرن اسلام نکالنے کی ایک ہی صورت ہے، کہ آپ قرآن کریم کی من مانی تفسیر کریں، حدیثوں کی من مانی تشریح کریں، اور ماڈرن اسلام نکال لیں، چنانچہ انہوں نے قرآن کریم کے ساتھ یہ ظلم کیا کہ اسلاف سے قرآن کریم سیکھنے کی ضرورت نہیں، چند نوجوان، چند ڈاکٹر، چند پروفیسر بیٹھ جاتے ہیں، اور جو سمجھ میں آئے، تشریح کرتے ہیں، بلکہ اب تو عورتیں بھی بیٹھ جاتی ہیں، اور بےدھڑک من مانی تفسیر کرتی ہیں۔

           الغرض قرآن و حدیث کے سمجھنے کےلئے اسلاف سے جو تسلسل چلا آرہا تھا، وہ تسلسل انہوں نے کاٹ دیا، اور زمانے کے تقاضوں کے مطابق انہوں نے نئی تشریح کی، اور یوں ماڈرن اسلام نکال کر لے آئے، ماڈرن اسلام چاھئے تھا تو نیا قرآن نازل کرتے، نئی حدیثیں گڑھتے، ان کی یہ گمراہی سب سے بڑی آور سب سے خطرناک گمراہی ہے۔

٥۔۔۔۔۔ بالادستی عقل کو حاصل ہے، یا نقل کو ‌؟
           اللہ تعالیٰ نے ہمیں عقل دی ہے، اور استعمال کرنے کےلئے دی ہے، کھوپا کھانے کےلئے نہیں دی، اور اللہ تعالٰی نے نبوت کا سلسلہ بھی شروع کیا ہے، اور کتابیں نازل کی ہیں، اور آخری کتاب قرآن کریم ہے، اور اس کی تبیین و تشریح حدیثیں ہیں، یہ ہے نقل، اس نقل کے بھیجنے کا مطلب ہی یہ ہے، کہ آپ صرف عقل سے مسئلہ حل نہیں کرسکتے، آپ عقل سے کھیتی کرسکتے ہیں، بزنس کرسکتے ہیں، ایٹم بم بنا سکتے ہیں، ہوائی جہاز بنا سکتے ہیں، دنیا کے سارے کام کرسکتے ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ کی پسند، اور ناپسند کو عقل سے نہیں جان سکتے، جنت میں لے جانے والے اعمال کونسے ہیں ‌؟  اور جھنم میں لے جانے والے اعمال کونسے ہیں ‌؟ آپ اس کو عقل سے طے نہیں کرسکتے، اگر عقل سے یہ مسائل طے ہوسکتے تھے، تو جیسے کھیتی سکھانے کےلئے، بزنس سکھانے کےلئے، اور صنعت سکھانے کےلئے کوئی نبی نہیں آیا، دین سکھانے کےلئے بھی کسی نبی کی ضرورت نہیں تھی، لوگ اپنی عقل سے خود ہی دین تجویز کرلیتے، مگر چونکہ یہ کام صرف عقل سے نہیں کیا جاسکتا، اس لئے اللہ تعالیٰ نے عقل کے ساتھ ہمیں نقل بھی دی، اب بتاؤ اس عقل و نقل میں توازن کیسے قائم کیا جائے ‌؟ دونوں برابر تو ہو نہیں سکتے، عقل اوپر ہے اور نقل نیچے، یعنی عقل جو کہے، وہی نقل کا مطلب لیا جائے، یہ مودودیوں کا ذہن ہے، ان کے نزدیک آیت کا مطلب جو عقل کہے، بس وہی صحیح ہے، جو ان کی عقل کہے وہی حدیث کا مطلب ہے، اور چودہ سو سال سے یہ چلا آرہا ہے، کہ نقل اوپر ہے، اور عقل اس کے نیچے، اللہ تعالیٰ نے عقل، نقل کو سمجھنے کےلئے دی ہے، آپ اس عقل کی مدد سے قرآن و حدیث کو سمجھیں، مگر اس کو قرآن و حدیث پر حاکم نہ بنائیں، قرآن و حدیث کو اس روشنی میں سمجھا جائےگا، جو حضور ﷺ  کے زمانہ سے چلی آرہی ہے، اگر آپ کی عقل آیت اور حدیث کا وہ مطلب سمجھتی ہے، جو مطلب حضور ﷺ  اور صحابہ کے زمانہ سے چلا آرہا ہے، تو سبحان اللہ! اور اگر آپ کی عقل کوتاہ ہے، تو آپ عقل کے پیچھے نہیں چلیں گے، بلکہ نقل کی پیروی کریں گے، اور نقل کا جو مطلب چودہ سو سال سے سمجھا جارہا ہے، اسی کو لیں گے، مودودی صاحب نے عقل کو نقل سے اوپر کردیا، اور کہا کہ جو مطلب ہماری عقل میں آئےگا، بس وہی مطلب صحیح ہے، اسی کو ہم لیں گے، یہی مزاج ماضی میں معتزلہ کا رہا ہے، اور یہی مزاج آج مودودیوں کا ہے۔

          مودودی حضرات کی یہ وہ پانچ گمراہیاں ہیں، جو میں نے مختصراً آپ حضرات کے سامنے رکھی ہیں، میں تفصیل میں نہیں گیا، کیونکہ آگے سفر در پیش ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں راہِ حق دکھائیں، اور اس پر چلنے کی توفیق عطا فرمائیں۔
آمین  یارب العالمین۔
وَ آخِرُ دَعْوَانا أنِ الحَمْدُ للہِ رَبّ العَالَمین

10 تبصرے comments:

noor نے لکھا ہے کہ

TEST MSG

IRSHAD SUHAIL OMRI نے لکھا ہے کہ

مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری سے گذارش ہے کہ آج کا زمانہ علم و تحقیق کا زمانہ ہے چنانچہ جو بھی الزام لگائیں علمی دلائل اور حوالوں سے کیجئے۔ ممتذکرہ بالا مضمون میں کہیں پر بھی کوئی حوالہ درج نہیں ہے ۔ ہوا میں بات کرنا بند کیجئے۔

Unknown نے لکھا ہے کہ

انا للہ وانا الیہ راجعون. اللہ تعالی آپ کو ہدایت دے ساری تقریر اندازوں، گمانوں اور غلط تاویلات کے ساتھ جھوٹ کا پلندہ ہے. اللہ کے رسول کا ارشاد ہے کہ کسی شخص کے جھوٹا ہونے کہ لیے کافی ہے کہ وہ بلا تحقیق بات کرے. خود کی جواب دہی کے ساتھ لوگوں کی غلط رہنمائی کا گناہ بھی حضرت کا بوجھ ہوگا. اللہ ہدایت دے.

Unknown نے لکھا ہے کہ

انا للہ وانا الیہ راجعون. اللہ تعالی آپ کو ہدایت دے ساری تقریر اندازوں، گمانوں اور غلط تاویلات کے ساتھ جھوٹ کا پلندہ ہے. اللہ کے رسول کا ارشاد ہے کہ کسی شخص کے جھوٹا ہونے کہ لیے کافی ہے کہ وہ بلا تحقیق بات کرے. خود کی جواب دہی کے ساتھ لوگوں کی غلط رہنمائی کا گناہ بھی حضرت کا بوجھ ہوگا. اللہ ہدایت دے.

Unknown نے لکھا ہے کہ

ما شاء اللہ حضرت نے جو بات کہی ہے علی وجہ البصیرت اور بالکل صحیح کہی ہے اور ان سب کے دلائل موجود ہیں نیٹ کی دنیا میں بھی ڈھونڈھنے سے بے شمار مل جائینگے

Unknown نے لکھا ہے کہ

Mashaallah hazrat ne bhut achhi & mufid bate batai samaj ne ke kafi hai

Unknown نے لکھا ہے کہ

بہتان طرازوں پہ لعنت

Anonymous نے لکھا ہے کہ

Must watch till end specially last two minutes
https://youtube.com/watch?v=62-cae860JE&feature=share

Dawat e Deen نے لکھا ہے کہ

یہ عجیب بات ہے، جو باتیں بھی مفتی صاحب نے لکھی ہیں وہ سب مودودی صاحب کی کتابوں میں موجود ہیں۔ جو صاحب حوالہ کی بات کررہے ہیں انھوں نے شاید مودودی صاحب کی کتابوں کا مطالعہ نہیں کیا ہے۔ دوسری بات یہ ایک مضمون نہیں ہے بلکہ مفتی صاحب کا بیان ہے، اس لیے حوالہ جات نہیں ہے۔ مودودی صاحب پر تنقید میں جن علماء نے کتابیں لکھی ہیں ان کا مطالعہ کریں ، آپ کو سب حوالہ مل جائیں گے۔ والسلام

Anonymous نے لکھا ہے کہ

سید مودودی شاہ دماغ شخصیت تھے اور دنیا بھر کے زہین لوگوں نے انکو قبول کیا ہے وہ فرقہ پرستی کے سخت مخالف تھے جب کہ مفتی سعید سمیت دیوبندی علماء فرقہ پرستی کی پیداوار ہیں نیز سید مودودی کاپی پیسٹر عالم دین نہیں تھے اور یہی چیز انہیں روایتی علماء سے ممتاز کرتی ہے دین اسلام کی صحیح معنوں میں تفسیر تشریح اور اغیار کی جانب سے امت مسلمہ پر عرصہ دراز سے قرض سوالوں کا جواب سید مودودی نے ہی دیا ہے اور آج دنیا بھر میں پاکستان میں سے کوئی بین الاقوامی عالم دین پہچانا مانا اور پڑھا جاتا ہے تو وہ سید مودودی ہی ہیں سید مودودی کا لٹریچر علمی پیاس رکھنے والوں کیلیے آب حیات اور اسلام کی حقانیت تلاش کرنے والوں کیلیے چمکتا ہوا ستارہ ہے سعودی عرب کی حکومت اور عرب علماء نے دینی خدمات پر پاکستان سے کسی عالم دین کو دنیائے اسلام کا سب سے بڑا شاہ فیصل ایوارڈ اگر دیا ہے تو وہ صرف سید مودودی کو دیا ہے اور دوسرے نمبر پر یہ ایوارڈ جسکو ملا ہے وہ پروفیسر خورشید بھی سید کا ہی شاگرد اور ساتھی ہے علمائے دیوبند کو آج تک یہ ایوارڈ نہیں ملا اور حالات سے لگ رہا ہے کہ آگے بھی نہیں ملنے والا ۔۔۔۔علمائے دیوبند کے بس میں نہیں ورنہ وہ سعودی حکومت اور سعودی علماء کو بھی کافر قرار دیتے لیکن وہاں سے انہیں سیاسی مفاد کیساتھ ساتھ کھجوریں عمرے حج کے ٹکٹس ملتے ہیں جب پاکستان کے سب سے بڑے اور معتبر عالم دین اور شاعر اسلام جناب علامہ اقبال نے سید مودودی کو انڈیا سے پاکستان بلایا اور انکی کتابوں کی تعریف بھی کی اور لوگوں کو مستفیض ہونے کا مشورہ بھی دیا لیکن دوسری طرف علمائے دیوبند سے علامہ اقبال انکے تعصب نفرت اور مسلمانوں کے بیچ فرقہ واریت پھیلانے کی وجہ سے سخت نالاں رہتے تھے اور اس کا اظہار انہوں نے اپنے شعر میں بھی کھل کر کیا ہے ۔۔۔۔۔
تکفیر کے فتوؤں سے خوارج کا گماں ہے
دیوبند کا مدرسہ نہیں،تخریب جہاں ہے
دیوبندیوں کے اکابر اور موجودہ علماء سب تعصب پسند اور حاسد ہیں حسین احمد مدنی انکا سرخیل ہے اور غلام غوث ہزاروی مفتی محمود اسی شجر خبیثہ کی شاخیں ہیں اور مفتی سعید جیسے علماء اسی درخت کی ڈالی اور پتے ہیں جنہوں نے محض تعصب اور حسد میں سید مودودی پر طرح طرح کے الزامات عائد کیے ہیں اور ہنوز سلسلہ جاری ہے لیکن اب سوشل میڈیا کا دور ہے لوگ سید مودودی کا سچ اور علمائے دیوبند کا جھوٹ نکال کر منہ پر مارتے ہیں دیوبندی علماء اپنے تکفیری فتوؤں کی وجہ سے علامہ اقبال جیسی شخصیات کی نظر میں برے ہیں اور ہر امن پسند مسلمان کی نظر میں بھی ۔۔۔۔نیز ریکارڈ چیک کرکے دیکھ لیں علمائے دیوبند سب سے پہلے خود اپنے فتوؤں پر ہگتے نظر آئیں گے
انھوں نے سید مودودی اور جماعت اسلامی پر بارہا کفر کے فتوے جاری کیے لیکن پھر بھی تحریک ختم نبوت تحریک نفاذ شریعت اور تحریک اسلام نظام کی تمام تحاریک میں جماعت اسلامی کو ساتھ بھی رکھا اور اہم عھدے بھی دیے ۔۔۔۔علمائے دیوبند اور مدرسہ دیوبند کو انگریز اور ہندؤں نے فنڈ دے کر قائم کیا اور چلانے کیلئے فنڈ دیتے رہے اور اشرف تھانوی کو ماہانہ تنخواہ دیتے رہے یہ سب اکابر دیوبند کی کتب میں موجود ہے جب کہ یہ ساری زندگی سید مودودی پر کیچڑ اچھالنے میں لگے رہے جب کہ سید مودودی نے انھیں کبھی ذاتیات پر جواب نہ دیا اور نہ ہی کفر کے فتوے جاری کئے علمائے دیوبند کا سب سے بڑا الزام یہ ہے کہ سید مودودی نے باقاعدہ مستنند علماء سے علم حاصل نہیں کیا لیکن خود علمائے دیوبند مولانا اشفاق الرحمان کاندھلوی اور مولانا خلیل الرحمن سید مودودی کی اپنے ہاں تعلیم حاصل کرنے کی گواہی علمائے دیوبند اور سہارن پور کے علمائے دیوبند دیتے ہیں اور اس حوالے سے ریکارڈ میں سید مودودی کی سندیں بھی موجود ہیں مگر متعصب دیوبندی پھر بھی منفی اثرات مرتب کرنے کیلیے اپنا پروپیگنڈہ مہم جاری رکھے ہوئے ہیں نتیجے میں آج جماعت اسلامی عوام میں مضبوط جڑیں بنا رہی ہے اور دیوبندی علماء اپنے اپنے نام کے مدارس بنا کر دنیا بھر کی سیر کر رہے ہیں اور اور عمرے پر عمرہ بھی ۔۔۔۔۔۔

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔