Monday 7 December 2015

فقہِ حنفی اقرب الی النصوص ہے :حضرت اقدس مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری دامت برکاتھم

فقہِ حنفی اقرب الی النصوص ہے

 مضمون نگار: حضرت اقدس مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری دامت برکاتھم، شیخ الحدیث و صدر المدرسین دارالعلوم دیوبند
ناقل: مولانا  عادل سعیدی پالن پوری مدظلہ

  قسط نمبر ایک :
           فقہِ حنفی جس قدر اقرب الی النصوص ہے، دوسری کوئی فقہ نہیں، مدقق و محقق، امامِ ربانی حضرت مجدد الف ثانی رحمہ اللہ تعالیٰ  مبدأ و معاد   (صفحہ نمبر ٣٩ ) میں تحریر فرماتے ہیں: "بریں فقیر ظاہر ساختہ اند کہ در خلافیات کلام حق بجانب حنفی است، و در خلافیاتِ فقہی در اکثر مسائل حق بجانب حنفی، و در اقل متردد " (  اس فقیر پر اللہ سبحانہ وتعاليٰ نے یہ حقیقت منکشف کی ہے کہ علمِ کلام کے ( تماماختلافی مسائل میں حق مسلکِ احناف ( یعنی ماتریدیہکی طرف ہے، اور فقہ کے اکثر مختلف فیہ مسائل میں حق بجانبِ احناف ہے، اور بھت کم مسائل میں تردد ہے ( کہ حق کس جانب ہے ‌؟ ) اور امام المسلمین، مسند الہند حکیم الاسلام حضرت مولانا شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی رحمہ اللہ تعالیٰ  فیوض الحرمین میں تحریر فرماتے ہیں: "عرَّفنِی رسولُ اللہ ﷺ  أن فی المذھب الحنفی طریقةً أنیقةً، ھی أوفق الطریق بالسنة المعروفة، التی جُمِعتْ و نُقّحَتْ فی زمان البخاری رحمہ اللہ تعالیٰ  " ( مجھے ( کشف میں ) آنحضورﷺ  نے یہ حقیقت سمجھائی ہے کہ فقہِ حنفی کی شکل میں ایک عمدہ طریقہ ہے، جو دیگر طرُق سے زیادہ ہم آہنگ ہے، ان احادیث مشہورہ سے جو امام بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ  کے زمانے میں جمع کی گئیں، اور ان کی تنقیح کی گئی، ( یعنی تدوینِ حدیث کے تیسرے دور میں جو احادیثِ صحیحہ منقح ہوکر کتابوں میں مدوّن کی گئیں، ان میں فقہ حنفی بہ نسبت دوسری فقھوں کے زیادہ ہم آہنگ ہے )

         مذکورہ دونوں بزرگوں کے ارشادات کا ماحصل یہ ہے کہ فقہِ حنفی کے تمام مسائل، جہاں ایک طرف عقل کے بلند معیار پر پورے اترتے ہیں، وہاں قرآن و حدیث سے بھی پوری طرح ہم آہنگ ہیں، اور یہ بات اسی وقت ممکن ہے، جب امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ کو احادیث کا جامع مانا جائے، بلکہ آپ کی کامل حدیث فہمی کا اعتراف کیا جائے۔

          امیر المؤمنین فی الحدیث حضرت عبداللہ بن المبارک رحمہ اللہ تعالیٰ  اپنے تلامذہ سے فرمایا کرتے تھے کہ "احادیث و آثار کو لازم پکڑو، مگر ان کے معانی کےلئے امام ابو حنیفہ ؒ کی ضرورت ہے، کیونکہ وہ حدیث کے معانی جانتے تھے " ( مناقب کردُری )

فقہا قیاس کب کرتے ہیں ‌؟
          احناف بھی دوسرے فقہائے کرام کی طرح قیاس پر اسی وقت عمل کرتے ہیں، جب نص موجود نہیں ہوتی ، اور انکا یہ طرزِعمل عین منشاء نبویﷺ  کے مطابق ہے، حدیث شریف میں ہے کہ جب آنحضورﷺ  نے حضرت معاذ ؓ کو یمن کا گورنر بناکر روانہ فرمایا، تو دریافت کیا کہ اگر تمہارے سامنے کوئی قضیہ آئے، تو فیصلہ کیسے کروگے ‌؟ حضرت معاذ ؓ نے جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب سے فیصلہ کرونگا، آپ ﷺ نے دریافت کیا کہ اگر قرآن کریم میں حکم نہ ملے تو کیا کروگے ‌؟ جواب دیا کہ سنتِ رسول اللہ ﷺ سے فیصلہ کرونگا، آپ ﷺ  نے پہر دریافت کیا کہ اگر حدیث میں بھی حکم نہ ملے تو کیا کروگے ‌؟، حضرت معاذ ؓ نے جواب دیا کہ: أجتھد رأیی و لا آلو ( اپنی رائے کو تھکاونگا، اور ذرا کوتاہی نہ کرونگایعنی حکم شرعی دریافت کرنے کےلئے آخری درجہ تک غور و فکر کرونگا، اور پوری کوشش کرکے اجتہاد سے حکم دریافت کرکے فیصلہ کرونگا، یہ جواب سن کر آنحضورﷺ  نے حضرت معاذ ؓ کا سینہ ٹھوکا، اور شاباشی دی، اور فرمایا کہ: الحمد للہ الذی وفّق رسولَ رسولِ اللہ لما یرضیٰ رسولُہمسند احمد ٥: ٢٤٢ ) اس اللہ کےلئے ستائش ہے، جس نے رسول اللہ ﷺ  کے فرستاده کو اس بات کی توفیق دی، جو اللہ کے رسول کو پسند ہے۔

         اس روایت سے دو باتیں صاف معلوم ہوئیں:
  ١۔۔ جب نص ( قرآن و حدیث ) میں صریح حکم موجود نہ ہو تو حکمِ شرعی اجتہاد سے دریافت کرنا چاھئے، اور اسی کا نام قیاس ہے۔
٢۔۔ اور یہ بات عین منشاء شارع کے مطابق ہے، رسول اللہ ﷺ  کو یہ بات پسند ہے۔

تقلید کی ضرورت، کب اور کیوں ‌؟
          یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ:
١۔۔ ہر امر کا حکم، شرعی نصوص ( قرآن و حدیث ) میں صراحةً مذکور نہیں ہوتا ہے، بعض احکام، اجتہاد ہی کے ذریعہ معلوم کئے جاسکتے ہیں، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ۗ وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ ( اور ہم نے ہی آپ پر یہ قرآن کریم اتارا ہے، تاکہ آپ لوگوں کےلئے وہ مضامین ظاہر کردیں، جو لوگوں کے پاس بھیجے گئے ہیں، اور تاکہ وہ بھی سوچیں ) النحل آیت نمبر ٤٤۔                      اس آیت سے یہ بات صاف معلوم ہوتی ہے کہ بیانِ نبویﷺ ( احادیث شریفہ ) کے بعد بھی غور و فکر اور سوچنے کی حاجت باقی رہتی ہے، یہی وہ اجتہادی مسائل ہیں، جو مجتھدینِ کرام کے غور و فکر کے محتاج ہیں۔
٢۔۔ ہر مسلمان ہر حکم شرعی سے واقف نہیں ہوسکتا، اللہ پاک کا ارشاد ہے:
ۚ ''فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ، ( سو اگر تم کو علم نہیں ہے تو اہل علم سے پوچھو ) النحل آیت نمبر ٤٣۔
      اور حدیث شریف میں ہے کہ انما شفاءُ العیِّ السؤالُ  ( درماندہ کی شفا پوچھنے میں ہے ) ان نصوص سے یہ بات صاف معلوم ہوتی ہے کہ بعض احکام اہلِ علم ہی جانتے ہیں، دوسرے مسلمانوں کےلئے ضروری ہے کہ وہ ان سے دریافت کیا کریں۔
٣۔۔ ہر ناواقف حکمِ شرعی قرآن و حدیث سے نہیں نکال سکتا، اس کےلئے ضروری ہے کہ اہلِ علم کی طرف رجوع کرے ، پس غیر مجتھدین یعنی وہ مسلمان جو قرآن و حدیث سے براہ راست احکام مستنبط نہیں کرسکتے، وہ ہمیشہ اس کے محتاج ہیں کہ وہ کسی ایک مجتھد کے دامن سے وابستہ رہیں۔

غیر مقلدین کا غلط خیال :
           مگر غیر مقلدین حضرات سادہ لوح مسلمانوں کو دھوکہ دیتے ہیں، اور خوب زور و شور سے اس بات کا پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ اللہ و رسول کو چھوڑ کر اماموں کی تقلید کرنا، انکو أرْباباً من دونِ اللہِ بنانا ہے، اور غیر معصوم کی تقلید حرام ہے، اور قیاس ایک شیطانی فعل ہے، وہ کوئی شرعی حجت نہیں ہے، حالانکہ قیاس یعنی اجتہاد ایک ضروری امر ہے، قرآن و حدیث سے اس کا مطلوب ہونا ثابت ہے، اور شیطانی قیاس وہ ہے، جو کسی نص کی طرف منسوب نہ ہو، محض ایجادِ بندہ ہو، اور تقلید کےلئے عصمت کی قید شیعوں کے علاوہ کوئی نہیں لگاتا، اور اوپر جو نصوص ذکر کی گئی ہیں، وہ بھی مطلق ہیں، اھل الذکر عام لفظ ہے، اور ہر زمانے میں معصوم کا وجود ممکن بھی نہیں، اور جو بات غیر مقلدین اماموں کے تعلق سے کہتے ہیں، وہی بات فرقۂ اہل قرآن، احادیث اور رسول اللہ ﷺ  کے بارے میں کہتا ہے، کہ قرآن کو چھوڑ کر احادیثِ رسول اللہ ﷺ  کی پیروی کرنا، غیر اللہ کو رب بنالینا ہے، پس یہ کیسے درست ہوسکتا ہے ‌؟ اگر فرقۂ اہل قرآن کی یہ بات غلط ہے، اور یقینا غلط ہے، کیونکہ اللہ کا رسول جو کچھ کہتا ہے، وہ اللہ کی طرف سے کہتا ہے، اپنی طرف سے کوئی بات نہیں کہتا، اس لئے یہ رسول کو رب بنانا نہیں ہے، پس غیر مقلدین کی یہ بات بھی غلط ہے، کیونکہ ائمۂ مجتھدین بھی جو کچھ کہتے ہیں، قرآن و حدیث سے مستنبط کرکے کہتے ہیں، اپنی طرف سے کوئی بات نہیں کہتے، پہر ان کی بات ماننا انکو رب بنانا کیسے ہوا ‌؟۔

اہل قرآن اور اہل حدیث
         اصول شرع کیا ہیں ‌؟ یعنی قانونِ اسلام کے ماخذ کیا ہیں ‌؟ بہ الفاظ دیگر: دین کا مدار کن چیزوں پر ہے‌؟ یعنی حجتِ شرعیہ کیا چیزیں ہیں ‌؟ اس سلسلہ میں اسلامی فرقوں میں اختلاف ہوا ہے، فرقۂ اہل قرآن کہتا ہے کہ حجتِ شرعیہ بس قرآن کریم ہے، کیونکہ وہ تِبْیانَاً لکلِّ شیئٍ  ( دین کی تمام باتوں کی خوب وضاحت کرنے والاہے اس لئے قرآن کریم کے علاوہ کسی چیز کی حاجت نہیں، یہ فرقہ حدیث شریف کی تاریخی حیثیت کا انکار نہیں کرتا، اس کی حجیت کا انکار کرتا ہے، یہ فرقہ احادیث شریفہ کو بزرگوں کے ملفوظات کا درجہ دیتا ہے، وہ کہتا ہے کہ احادیث سے نصیحت پذیری کا تو کام لیا جاسکتا ہے، مگر اس کو قانون اسلامی کا ماخذ نہیں بنایا جاسکتا، یہ فرقہ اپنا نام اگرچہ "اہلِ قرآن " رکھتا ہے، مگر یہ نام وجہِ امتیاز نہیں بن سکتا، کیونکہ قرآن کریم کو سبھی مسلمان حجت مانتے ہیں، حقیقت میں یہ لوگ "منکرینِ حدیث " ہیں، اور یہی نام ان کےلئے موزوں ہے۔

          اور فرقۂ اہل حدیث کہتا ہے کہ قرآن کریم کے علاوہ احادیثِ شریفہ بھی حجت ہیں، اور بس، احادیث کے علاوہ کوئی چیز حجت نہیں، یعنی اجماعِ امت حجت نہیں، اگرچہ وہ صحابۂ کرام ؓ کا اجماع ہو، اسی طرح قیاس بھی حجت نہیں، اسی طرح صحابۂ کرام ؓ اور تابعین عظام کے آثار بھی حجت نہیں ہیں، یہ فرقہ گو اپنے آپ کو "اہل حدیث " کہتا ہے، مگر حقیقت میں یہ نام بھی وجہِ امتیاز نہیں بن سکتا، کیونکہ فرقۂ اہلِ قرآن کے علاوہ سبھی مسلمان احادیثِ شریفہ کو حجت مانتے ہیں، پہر یہی فرقہ "اہل حدیث " کیوں کہلائے ‌؟۔
           قدیم زمانہ میں یہ لوگ ظاہری، اہل الظاہر، اور اصحابِ ظواہر کہلاتے تھے، یعنی وہ فرقہ جو نصوص کے ظاہری اور سرسری مطلب پر اکتفا کرتا ہے، نصوص میں غور و فکر اور قیاس و استنباط کا روادار نہیں، یہ نام کسی درجہ میں اس فرقہ کےلئے موزوں تھا، مگر حضرت اقدس شاہ محمد اسحاق صاحب محدث دہلوی رحمہ اللہ تعالیٰ  کے بعد ان کے بعض تلامذہ نے ان سے اعتزال کی راہ اختیار کی تو اپنا نام "اہلِ حدیث " رکھا، پہر انگریزی دور میں باقاعدہ درخواست دے کر حکومت برطانیہ سے اپنے لئے یہ نام الاٹ کرایا۔
                                 
قسط نمبر دو  :
           حضرت اقدس شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی رحمہ اللہ تعالیٰ نے حجة اللہ البالغہ کی قسم اول کے آخر میں اس فرقہ کا تعارف اس طرح کرایا ہے:
و الظاہری: من لا یقول بالقیاس و لا بآثار الصحابۃ والتابعین، کداؤد و ابن حزم ( اور ظاہری ان لوگوں کو کہتے ہیں، جو نہ قیاس کو مانتے ہیں، نہ صحابہ و تابعین کے آثار ( ارشادات ) کو، جیسے داؤد ظاہری اور ابن حزم )( حجة اللہ البالغہ جلد نمبر ١ صفحہ نمبر  ١٦١ )۔
           مشہور غیر مقلد عالم نواب صدیق حسن خان صاحب اجماع کا وجود، اور اس کو حجتِ شرعیہ تسلیم نہیں کرتے، وہ افادة الشیوخ ( صفحہ نمبر ١٢١ ) میں لکھتے ہیں کہ:
"و خلاف است در امکان اجماع فی نفسہ، و امکان علم بداں، و امکان نقل آں بسوئے ما، و حق عدم اوست۔۔۔۔۔۔۔۔۔ و بر تقدیر تسلیم ایں ہمہ، خلاف است در آں کہ حجت شرعی است یا نہ‌؟ مذہب جمہور حجیت او است، و دلیل بر آں نزد اکثر سمع است فقط، نہ عقل۔۔۔۔۔۔ و حق عدم حجیت او است، و اگر تسلیم کنیم کہ حجیت است، و علم بداں ممکن، پس اقصیٰ ما فی الباب آنست کہ مجمع علیہ حق باشد، و لازم نمی آید ازیں وجوب اتباع او " ( اس میں اختلاف ہے کہ فی نفسہ اجماع ممکن ہے یا نہیں ‌؟ اور اجماع کا علم ہوسکتا ہے، یا نہیں ‌؟ اور اجماع ہم تک منقول ہوکر آسکتا ہے یا نہیں ‌؟ اور حق بات یہ ہے کہ یہ سب باتیں ناممکن ہیں۔۔۔۔۔۔ اور یہ سب باتیں مان لینے کی صورت میں بھی اس میں اختلاف ہے کہ وہ حجتِ شرعیہ ہے یا نہیں ‌؟ جمہور ( یعنی اہل السنہ والجماعہ ) کا مذہب یہ ہے کہ وہ حجت ہے، اور اس کی دلیل اکثر کے نزدیک صرف نقلی ہے، عقلی کوئی دلیل نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور حق بات اس کا حجت نہ ہونا ہے، اور اگر ہم مان لیں کہ حجت ہے، اور اس کا علم ممکن ہے، تو زیادہ سے زیادہ یہ بات ہے کہ جس بات پر اجماع ہوا ہے، وہ برحق بات ہوگی، مگر اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس کی پیروی واجب ہو )۔

            نواب صاحب نے مذکورہ عبارت میں حجیتِ اجماع کا انکار ہی نہیں کیا، بلکہ دو عجیب باتیں بھی کہی ہیں:
١۔۔۔ جمہور یعنی اہل السنہ والجماعہ جو اجماع کو حجت شرعیہ مانتے ہیں تو وہ دلیلِ نقلی کی وجہ سے مانتے ہیں، یعنی سورة النساء کی آیت نمبر ١١٥ وَ یَتّبِعْ غَیْر سَبِیل المُؤمِنین  کی وجہ سے اجماع کو حجت مانتے ہیں، نواب صاحب کے نزدیک حجیتِ اجماع پر کوئی دلیلِ عقلی نہیں ہے، اور مسئلہ کا صرف دلیلِ سمعی پر مدار رکھنا نواب صاحب کے نزدیک درست نہیں، دلیلِ عقلی بھی ضروری ہے، حالانکہ یہ مزاج تو معتزلہ کا ہے، ان کے نزدیک عقل حاکم ہے شرع پر، نواب صاحب تو اصحاب ِظواہر میں سے ہیں، جنہوں نے عقل کو گروی رکھ دیا، ان کو عقل سے کیا سروکار، مگر دیوانہ بکار خویش فرزانہ، نواب صاحب کو بھی جب حجیتِ اجماع کے انکار کی ضرورت پیش آئی تو عقل کی اتنی اہمیت بڑھ گئی کہ تنہا دلیلِ نقلی، اثباتِ حکم کےلئے کافی نہ رہی، فیا للعجب!
٢۔۔۔ نواب صاحب یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ بصورتِ اجماع وہ بات برحق ہوسکتی ہے، جس پر اجماع ہوا ہے، مگر پہر یہ گل کھلاتے ہیں کہ "اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس ( حق بات ) کی پیروی واجب ہو "۔۔۔۔۔ ماشاءاللہ تعالیٰ! چشم بددور! جب اس حق کی پیروی واجب نہ ہوگی تو کیا اس کے مقابل جو باطل ہے، اس کی پیروی کی جائےگی ‌؟ بریں عقل و دانش بباید گریست۔

          یہ تو گھر کی شہادت تھی، اس کے علاوہ اصولِ فقہ کے مشہور متن حسامی باب الاجماع کے شروع میں، اس کی شرح نامی میں صراحت ہے کہ اصحابِ ظواہر اجماع کو حجت نہیں مانتے، علاوہ ازیں شیخ ابو منصور عبدالقاہر بغدادیؒ نے بھی اپنی کتاب اصول الدین ( صفحہ نمبر ٢٠ ) میں صراحت کی ہے کہ یہ حضرات اجماع کی حجیت کے منکر ہیں۔

اہل السنہ والجماعہ کون ہیں ‌؟
          مذکورہ بالا دونوں اسلامی فرقوں کے علاوہ امت کا سوادِ اعظم یعنی جمہور یہ کہتے ہیں کہ حجتِ شرعیہ تین چیزیں ہیں، قرآن کریم، احادیث ِ نبویہ، اور اجماعِ امت، اور اجماع کا اعلیٰ فرد صحابۂ کرامؓ کا اجماع ہے، جو سب سے پہلے حجت ہے، پہر مابعد کے قرون کا اجماع ہے، شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالیٰ منہاج السنةجلد نمبر ٣  صفحہ نمبر ٢٧٢ ) میں ارقام فرماتے ہیں کہ:
فانَّ اھلَ السنةِ تتضمَّن النص، و الجماعۃَ تتضَّمن الاجماع، فاھل السنة و الجماعة ہم المتبعون للنص و الاجماعاہل السنہ کا لفظ نص کو متضمن ہے، اور جماعت کا لفظ اجماع کو شامل ہے، پس اہل السنہ والجماعہ وہ لوگ ہیں، جو نص اور اجماع کے متبع ہیں ) اور امت کے سوادِ اعظم کا یہ نام ایک حدیث شریف سے لیا گیا ہے، ترمذی شریف میں روایت ہے کہ: "بخدا! میری امت پر بھی وہ احوال ضرور آئیں گے، جو بنی اسرائیل پر آئے ہیں، بالکل ہو بہو، حتیٰ کہ اگر ان میں سے کسی نے علانیہ اپنی ماں سے بدفعلی کی ہوگی، تو میری امت میں بھی ایسے لوگ ضرور پیدا ہونگے، جو یہ حرکت کریں گے، اور بنی اسرائیل بہتر فرقوں میں بٹ گئے، اور میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائےگی ( اور ) سب جہنم رسید ہوں گے، بجز ایک فرقہ کے، صحابۂ کرامؓ نے دریافت کیا کہ وہ فرقہ جو ناجی ہوگا، وہ کونسا ہے ‌؟ آنحضورﷺ  نے جواب ارشاد فرمایا کہ: ما أنا علیہ و أصحابی، میں جس طریقے پر ہوں، اور میرے صحابہ جس روش پر ہیں "۔

          حضور ﷺ  کا طریقہ "سنت " کہلاتا ہے، اور صحابۂ کرامؓ کے مجموعہ کا نام "جماعت " ہے، مسند احمد، اور سنن ابوداؤد میں یہی لفظ آیا ہے، مشکوٰۃ شریف باب الاعتصام بالکتاب و السنة فصل ثانی میں وَھِی الجماعة کا لفظ ہے۔
          غرض اس حدیث شریف سے جمہورِ امت کا نام اہل السنہ والجماعہ رکھا گیا ہے، اور اہل حدیث حضرات کا جمہور سے نقطۂ اختلاف احادیثِ شریفہ کا حجت ہونا، نہ ہونا نہیں ہے، یہ نقطۂ اختلاف تو فرقۂ اہل قرآن سے ہے، بلکہ اصل نقطۂ اختلاف اجماعِ امت اور بالخصوص اجماعِ صحابہ کا حجت ہونا، نہ ہونا ہے، اہل حدیث حضرات حجیت کے قائل نہیں ہیں، اس لئے وہ صرف "اہل السنہ " ہیں، اور جمہور حجت مانتے ہیں، اس لئے وہ "اہل السنہ والجماعہ " ہیں۔

قیاس کا کیا درجہ ہے ‌؟
        رہا قیاس تو وہ مذکورہ اصولِ ثلاثہ کے درجہ کی چیز نہیں ہے، اس وجہ سے وہ بنیادی نقطۂ اختلاف نہیں ہے، منار الانوار۔۔ جو اصولِ فقہ کا متن متین ہے، جس کی شرح نور الانوار ہے۔۔  میں قیاس کو اصولِ ثلاثہ سے الگ کرکے بیان کیا گیا ہے، اس کی عبارت یہ ہے: اعْلم أنَّ أصول الشَرْع ثلاثة: الکتابُ و السنةُ و اجماع الأمة، و الأصل الرَابِع القیاس ( جان لیں کہ ماخذِ شرع تین ہیں ١۔۔ کتاب اللہ ٢۔۔ سنت رسول اللہ ﷺ  ٣۔۔ اور اجماعِ امت، اور چوتھی بنیاد قیاس ہے )۔
           پہر خود مصنف ؒ نے اپنی شرح کشف الأسرار میں یہ سوال اٹھایا ہے کہ قیاس بھی اگر بنیاد ہے تو أربعة کیوں نہ کہا ‌؟ اور اگر قیاس اصل نہیں ہے تو الأصل الرابع کیوں کہا ‌؟ پہر یہ جواب دیا ہے کہ: "قیاس صرف ہماری بہ نسبت اصل ہے، کیونکہ ہم فرع کا حکم قیاس کی طرف منسوب کرتے ہیں، اور درحقیقت قیاس اصل نہیں ہے، کیونکہ احکام شرعیہ میں رائے کا کوئی دخل نہیں ہے، شارع صرف اللہ تعالیٰ ہیں، حکم شرعی لگانے میں ان کا کوئی شریک نہیں، بلکہ قیاس تو اصولِ ثلاثہ کی فرع ہے، کیونکہ وہ یا تو کتاب اللہ سے مستنبط ہوتا ہے، یا سنتِ رسول اللہ ﷺ  سے، یا اجماعِ امت سے " بہ الفاظ دیگر یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ قیاس کوئی مستقل چیز نہیں ہے، قیاس تو ایک آلہ ( Tool )  ہے، جس کے ذریعے اصولِ ثلاثہ سے احکام نکالے جاتے ہیں، پس وہ منجملۂ قواعد الفقہ ہے، مگر چونکہ وہ بظاہر مثبت حکم نظر آتا ہے، اس لئے اس کو اصل رابع کہہ دیتے ہیں۔

قسط نمبر تین :
حقیقی اہلِ حدیث کون حضرات ہیں ‌؟
         صحابۂ کرام ؓ کے زمانہ تک "اسلامی عقائد " میں کوئی اختلاف رونما نہیں ہوا تھا، البتہ مسائلِ فقھیہ میں اختلاف ہوتا تھا، مگر نظریاتی اختلاف رونما نہیں ہوا تھا، یعنی دبستانِ فکر وجود میں نہیں آئے تھے، اس لئے اس زمانہ میں تقلید تو تھی، مسائل نہ جاننے والے، جاننے والوں سے احکام دریافت کرکے ان پر عمل کرتے تھے، مگر کسی خاص مکتبِ فکر کی تقلید کا رواج نہیں ہوا تھا، کیونکہ اس وقت تک کوئی مکتبِ فکر وجود ہی میں نہیں آیا تھا۔

        اکابر تابعین کے دور میں بھی یہی صورتِ حال رہی، کیونکہ یہ دور صحابہ ؓ کے دور کے ساتھ مقارن تھا، مگر تابعین کے آخری دور سے صورتِ حال بدلنے لگی، امت میں دو دبستانِ فکر وجود میں آئے، جو تبعِ تابعین کے دور میں خوب ممتاز ہوگئے، ایک مکتبِ فکر فقہاءِ محدثین کا تھا، تو دوسرا محدثین فقہاء کا، یعنی بعض حضرات کا اصل کام احکامِ شرعیہ کا استنباط تھا، مگر وہ حدیثوں کے بھی خوب ماہر تھے، کیونکہ احادیث کے بغیر احکام کیسے مستنبط کئے جاسکتے ہیں ‌؟ مگر حدیثیں روایت کرنا، ان کا اصل مشغلہ نہیں تھا، البتہ بوقتِ ضرورت وہ یہ کام بھی کرتے تھے، دوسری جماعت کا اصل کام روایتِ حدیث تھا، مگر وہ مجتھد بھی تھے، نصوص سے مسائل بھی مستنبط کرتے تھے، اور بوقتِ ضرورت غیر منصوص احکام، اجتہاد سے بیان بھی کرتے تھے۔

        پہلا گروہ "اہل الرائے " سے موسوم تھا، اور دوسرا "اہلِ حدیث " اور اصحابِ حدیث سے، علامہ ابن قتیبہ دینوری نے المعارف میں دونوں جماعتوں کی لمبی فہرست دی ہے، انہوں نے امام اعظم ابو حنیفہ اور امام مالک رحمہما اللہ تعالیٰ کو پہلے گروہ میں شمار کیا ہے، اور امام شافعی اور امام احمد رحمہما اللہ تعالیٰ کو دوسرے گروہ میں شامل کیا ہے، الغرض اصل اہلِ حدیث اور اصحاب الحدیث یہ حضرات ہیں، شیخ الطائفہ حضرت اقدس شاہ ولی اللہ صاحب قدس سرہ نے حجة اللہ البالغہ میں "اہلِ حدیث اور اصحاب الرائے کا فرق " بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ "اس طبقہ ( اہلِ حدیث ) کے بڑے بڑے متبحر علماء یہ تھے: عبدالرحمن بن مہدی، یحییٰ بن سعید القطان، یزید بن ہارون، عبدالرزاق، ابوبکر بن ابی شیبہ، مسدد، ہناد، امام احمد بن حنبل، اسحاق بن راہویہ، فضل بن دکین، علی بن المدینی، اور ان کے دیگر ہم عصر علماءِ طبقات محدثین میں سے ہیں، یہی وہ طبقہ ہے جو دیگر تمام طبقاتِ محدثین کےلئے اعلیٰ نمونہ ہے ''۔

        پہر طبقۂ اہلِ حدیث میں متعدد مکاتبِ فکر وجود میں آئے، جن میں سے تین کو شہرتِ عام حاصل ہوئی، یعنی مالکیہ، شافعیہ، اور حنابلہ کو، اور اہل الرائے متفق رہے، ان میں کوئی خاص اختلاف رونما نہ ہوا۔

         غرض جب یہ مکاتبِ فکر وجود میں آئے تو اب امت نے خاص مکتبِ فکر کی تقلید شروع کی، کیونکہ دین کی حفاظت کےلئے یہ تخصیص ضروری تھی، چنانچہ مسلمانوں کا ایک طبقہ اصحاب الحدیث کی پیروی کرتا تھا، اور امت کا بڑا حصہ اہل الرائے کے زیرِ اثر تھا، پہر چوتھی صدی میں جب یہ اختلاف شدید ہوا، اور محدثین کے طبقہ میں متعدد مکاتبِ فکر وجود میں آگئے، تو اس وقت کے اکابرینِ امت نے چار مکاتبِ فکر کو تقلید کےلئے متعین کردیا، جو آج تک مستمر چلی آرہی ہے۔

تقلید شخصی کی حقیقت کیا ہے ‌؟

         یہاں سے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ "تقلیدِ شخصی " میں شخص سے مراد شخصِ حقیقی (  Real person ) نہیں ہے، بلکہ شحصِ حکمی ( Legal person ) ہے، یعنی خاص مکتبِ فکر کی تقلید کو، تقلیدِ شخصی کہا جاتا ہے، کسی معین آدمی کی ہر ہر مسئلہ میں تقلید نہیں کی جاتی، کیونکہ یہ واقعہ کے خلاف ہے، مذاہبِ اربعہ سے واقفیت رکھنے والے حضرات جانتے ہیں کہ کسی بھی مکتبِ فکر میں کسی ایک امام کے سارے ہی اقوال، مفتیٰ بہ نہیں ہوتے، نیز زمانہ کی رفتار رکنے والی نہیں، اور ائمۂ مجتھدین دنیا سے گذر گئے، پہر نئے پیش آنے والے معاملات کے احکام وہ کیسے بیان کرسکتے ہیں ‌؟ ان کے احکام تو ہر زمانے میں موجود، اس مکتبِ فکر کے اکابر بیان کریں گے، اور وہ اس دبستانِ فکر کی رائے شمار ہوگی۔

کیا فرقۂ اہلِ حدیث غیر مقلد ہے ‌؟
          تقلید کے بغیر زندگی کی گاڑی ایک قدم آگے نہیں بڑھ سکتی، بچہ جب تک باب کی انگلی نہیں پکڑتا، چلنا نہیں سیکھتا، آہنگر، زرگر، بلکہ ہر کاریگر اپنے پیش رو کے نقشِ قدم پر چلتا ہے، دین کا معاملہ دنیوی معاملات سے زیادہ اہم ہے، اس میں پیروی کے بغیر کامیابی کیسے ممکن ہے ‌؟ اور محض پیروی بھی کامیابی سے ہمکنار نہیں کرتی، بلکہ اس شخص کی پیروی ضروری ہے، جو منزل کی طرف رواں دواں ہو، جو خود گم کردۂ راہ ہو، وہ کسی منزل تک کیا پہنچا سکتا ہے، سورة البقرہ آیات نمبر ١٦٦ تا ١٦٧ میں تابعین و متبوعین کا ذکر ہے، معلوم ہوا کہ کفر و شرک اور گمراہی میں بھی تقلید جاری ہے۔

          رہا وہ فرقہ جو خود کو اہلِ حدیث کہتا ہے، اور دوسرے لوگ اس کو "غیر مقلد " کہتے ہیں، وہ درحقیقت ائمۂ اربعہ کے مقلدین سے زیادہ سخت مقلد ہے، ائمۂ اربعہ کے مقلدین تو ایک دوسرے کی رایوں کا احترام کرتے ہیں، اور بوقتِ ضرورت اس کو اختیار بھی کرتے ہیں، مگر یہ فرقہ تو سب کو گمراہ تصور کرتا ہے، اور صرف اپنے ہی مکتبِ فکر کی پیروی کرتا ہے، نواب صدیق حسن خان صاحب ترجمانِ وہابیہ ( صفحہ نمبر ٥٢ ) میں لکھتے ہیں:
"مگر ہمارے نزدیک تحقیق یہ ہے کہ سارے جہان کے مسلمان دو طرح پر ہیں، ایک خالص اہلِ سنت وجماعت، جن کو اہلِ حدیث بھی کہتے ہیں، دوسرے مقلدِ مذہبِ خاص، وہ چار گروہ ہیں، حنفی، شافعی، مالکی اور حنبلی " (بحوالہ طائفۂ منصورہ صفحہ نمبر ١١ )

        مشہور غیر مقلد مولوی ابوالشکور عبدالقادر صاحب لکھتے ہیں کہ: "حق مذہبِ اہلِ حدیث ہے، اور باقی جھوٹے، اور جہنمی ہیں، تو اہلِ حدیثوں پر واجب ہے کہ ان تمام گمراہ فرقوں سے بچیں " ( سیاحة الجنان بمناکحة أھل الایمان، صفحہ نمبر ٤اور نیز لکھا ہے کہ: "خواص تو جانتے ہیں، میں عوام کی خاطر کچھ عرض کرتا ہوں کہ مقلدین موجودہ دس وجھوں سے گمراہ اور فرقۂ ناجیہ سے خارج ہیں، جن سے مناکحت جائز نہیں ہے " (  سیاحة الجنان، صفحہ نمبر ٥اور وجوہ بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ: "وجہِ اول یہ ہے کہ موجودہ حنفیوں میں تقلید پائی جاتی ہے، جو سراسر حرام اور ناجائز ہے " (سیاحة الجنان، صفحہ نمبر ٥اور نیز لکھا ہے کہ "اسی طرح مولوی محمد صاحب جوناگڑھی نے اپنی تصنیفات میں حنفیوں کو گمراہ اور فرقۂ ناجیہ سے خارج قرار دیا ہے " (سیاحة الجنان، صفحہ نمبر ١١اور آخر میں تو حد ہی کردی ہے، چنانچہ لکھا ہے کہ: "سچا فرقہ اور ناجیہ اہلِ حدیث ہے، باقی سب فی النار و السقر ہیں، لہذاٰ مناکحت فرقۂ ناجیہ کی آپس میں ہونی چاھئے، اہلِ بدعت سے نہ ہو، تاکہ مخالطت لازم نہ آئے " ( سیاحة الجنان صفحہ نمبر ٢٣ )۔

          غور کیجئے، کس طرح مقلدین اور حنفیوں کو فرقۂ ناجیہ سے نکال کر صرف اہلِ بدعت ہی میں شمار نہیں کیا، بلکہ فی النار و السقر کرکے دم لیا ہے، معاذ اللہ، اور ان سے رشتہ اور نکاح کو یک لخت موقوف کرنے کا شاہی حکم بھی صادر کیا ہے، اس سے بڑھ کر تعصب کی اور کیا مثال ہوسکتی ہے ( طائفۂ منصورہ صفحہ نمبر ١٥ )


                                            ختم شد

0 تبصرے comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔