Tuesday 17 December 2013

مسئلہ [20 رکعات] تراویح

مسئلہ [20 رکعات] تراویح
بسم اللہ الرحمن الرحیم
تعیین مدعی
اس مسئلہ میں حنفیہ [شافعیہ ، مالکیہ ، حنبلیہ] مدعی اور غیرمقلدین مدعی علیہ ہیں کیونکہ ہم 20 رکعات کے قائل ہیں اور غیرمقلدین 8 رکعت کے ، 8 تک دونوں کا اتفاق ہے لیکن ہم زیادتی کو ثابت کرتے ہیں "والذی یثبت أمرا زائد فهو المدعی" لہذا ہم مدعی ہیں
نیز "المدعی من إذا ترك ترك" والی تعریف بھی ہم پر صادق آتی ہے ، ہم 20 رکعات کے قائل ہیں ، غیرمقلدین کی 8 رکعات ان 20 میں شامل ہیں ، وہ [غیرمقلدین] کہتے ہیں کہ آپ اپنے 20 رکعات والے دعوی سے دستبردار ہوجائیں تو بحث و مباحثہ ختم - اس کے پیش نظر بھی ہم مدعی ہیں اور دعوی لکھنا مدعی کی ذمہ داری ہے ، غیرمقلدین جواب دعوی لکھیں گے
ہمارا دعوی
‏"بیس رکعات تراویح مع الجماعۃ سنت مؤکدہ ہیں" سنت مؤکدہ کی صحیح تعریف ہمارے ہاں یہ ہے: "السنة المؤکدۃ ما واظب علیه النبی صلی الله علیه وسلم أو الخلفاء الراشدون" علامہ عبدالحئی لکھنوی نے"تحفۃ الاخیار" میں سنت مؤکدہ کی بہت سی تعریفیں نقل کیں اور ہر ایک پر نقص وارد کیا ہے
آخر میں اسی تعریف کو ترجیح دی [حاشیہ نمبر 01] تحفة الأخیار فی إحیاء سنة سید الأبرار ، القول الثانی والعشرون 273-4 + 275 إدارۃ القرآن
جواب دعوی
جواب دعوی ان سے لکھوانا ہوگا: "آٹھ رکعات تراویح مع الجماعۃ فی جمیع رمضان مع ختم القرآن" ، عشاء کے بعد متصلآ عشاء ہی کے وقت میں سنت مؤکدہ ہیں"
لفظ "تراویح" لکھوانا ہے ، قیام اللیل کے لفظ پر کفیایت نہیں کرتا کیونکہ قیام اللیل الگ چیز ہے تراویح الگ ، اور مناظر کہتے ہیں: "توجه المتخاصمین فی النسبة بین الشیئین" دو چیزوں کے درمیان جو نسبت ہے اس میں مدعی اور مدعی الیہ کا جھگڑا ہو ، ہم 20 رکعات تراویح کو ثابت کریں گے - اگر آپ قیام اللیل لکھتے ہیں تو پھر نسبت ہی جدا ہے ، ہمارا مدعا تراویح سے متعلق اور آپ کا قیام اللیل سے ، اختلاف کس چیز کا؟ اس لئے ان سے لفظ "تراویح" لکھوانا ہوگا
پھر ان سے سنت مؤکدہ کے تعریف طلب کرنی ہے ، اولآ تو ان کے ہاں تعریفات وغیرہ نہیں ، چند ایک نے تعریف کی: "السنة المؤکدۃ ما واظب علیه النبی صلی الله تعالی علیه وسلم" جس پر نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے مواظبت فرمائی ہو - خود ان کے علماء علامہ نذیر حسین دہلوی ، علامہ وحید الزمان اور علامہ ثناء اللہ امرتسری نے تصریح کی اور "بخاری" و "ابو داؤد" میں بھی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے تراویح پڑھنا صرف 3 راتوں میں ثابت ہے ، تو پھر مواظبت کہاں ہے؟ سنت مؤکدہ کی تعریف تو صادق نہ آئی - ہماری ذکر کردہ سنت کی تعریف کو آپ تسلیم نہیں کرتے اور جس انداز میں آپ 8 رکعت کے قائل ہیں اس طرح ہم ان 8 کو بھی نہیں مانتے - آپ کو ثابت کرنا ہوگا کہ نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے مع الجماعۃ ، فی جمیع الرمضان، مع ختم القرآن تراویح پڑھی ہیں- اسے تو آپ کبھی ثابت نہیں کرسکتے - چلیں جن راتوں میں آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے تراویح پڑھی ہیں ان کی تعداد کتنی تھی اور ان میں کون سی سورتیں آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے پڑھیں؟ اسے ثابت کریں -یہ [غیرمقلد] حضرات خود اس بات کے قائل ہیں کہ ان تمام قیودات کے ساتھ نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے تراویح کا ثبوت نہیں بلکہ صحابہ کرام سے ان کا ثبوت مع القیودات ہے - جب باقی قیودات [مع الجماعۃ ، فی جمیع رمضان ، مع ختم القرآن] میں صحابہ کرام کے قول کو مانتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ تعداد رکعات کے سلسلے میں صحابہ کے قول بیس ‎رکعات ‎کو نہیں مانتے؟
ہم لفظ تراویح کو صحابہ کرام کے اقوال سے ثابت کریں گے - غیرمقلدین بھی تسلیم کرتے ہیں اور ہم بھی کہ چار رکعت کے بعد بیٹھنے کو ترویحہ کہتے ہیں ، چار اور ملائیں تو ترویحتان ، چار مزید ملائیں تو ترویحات ، سولہ اور بیس رکعات پر تراویح کا اطلاق ہوتا ہے - آپ آٹھ رکعات کے قائل ہیں تو ان پر تراویح کا اطلاق نہیں ہوگا - بلکہ انہیں ترویحتان کہا جائے گا کیونکہ اسم اور مسمی میں بہرحال مناسبت ہوتی ہے
ہم اس بات کو ثابت کریں گے کہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے کتنی راتیں تراویح پڑھائیں اور تعداد رکعات کتنی تھی
تراویح کی ابتداء
‏"عن أبی ھریرۃ قال: کان رسول الله صلی الله تعالی علیه وسلم یرغب فی قیام رمضان من غیر أن یأمرھم بعزیمة ، فیقول: من قام ایمانا و احتسابا غفرله ماتقدم من ذنبه ، فتوفی رسول الله صلی الله تعالی علیه وسلم والأمر علی ذلك ، ثم الأمر علی ذلك فی خلافة أبی بکر و صدرا من خلافة عمر علی ذلك" [الصحیح المسلم ، کتاب صلوۃ المسافرین ، باب الترغیب فی قیام رمضان ج1 ص 259 قدیمی کتب خانہ]
‏"حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم قیام رمضان [تراویح] کی ترغیب دیا کرتے تھے لیکن تاکید کے ساتھ صحابہ کو کوئی حکم نہیں دیا کرتے تھے ، چناچہ آپ فرمایا کرتے تھے جو شخص اعتقاد کے ساتھ حصول ثواب کے لئے رمضان میں قیام کرتا ہے ، اس کے پہلے کے گناہ صغیرہ بخش دیئے جاتے ہیں - آنحضرت صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے وفات پائی اور قیام رمضان کا معاملہ اسی طرح رہا [یعنی باقاعدہ جماعت کا انتظام نہ تھا] پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں بھی یہی صورت رہہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت کی ابتدائی ایام میں بھی یہی معمول رہا [اس کے بعد صحابہ کرام کی موجودگی میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے باقاعدہ جماعت کا انتظام کیا]"
اولآ ترغیب دی اور فضائل وغیرہ بتائے باقاعدہ جماعت کا اہتمام نہیں تھا - حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ تراویح وحی غیر متلو سے ثابت ہے: "عن عبدالرحمن بن عوف قال: قال رسول الله صلی الله تعالی علیہ وسلم: إن الله تبارك و تعالی فرض صیام رمضان علیکم و سننت لکم قیامه ، فمن صامه و قامه ایمانا و احتسابا خرج من ذنوبه کیوم ولدته أمه" [سنن النسائی ، کتاب الصوم ، باب ثواب من قیام رمضان و صامه إیمانا و احتسابا ج1 ص 308 قدیمی کتب خانہ]
‏"حضر‏ت عبد الرحمن بن عوف فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ رب العزت نے تم پر رمضان کے روزے فرض کئے ، اور میں تمہارے لئے رمضان کے قیام [تراویح] کو سنت قرار دیتا ہوں ، پس جو شخص صحیح اعتقاد کے ساتھ حصول ثواب کے لئے روزے رکھے اور قیام رمضان کرے تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہوگا جیسے وہ ماں کے پیٹ سے نکلا تھا"
"فرض صیام رمضان" سے معلوم ہوا کہ صیام رمضان کا ثبوت وحی متلو سے ہے اور "وسننت لکم قیامه" سے معلوم ہورہا ہے کہ تراویح کا ثبوت وحی غیر متلو سے ہے ہے ، جب قیام رمضان وحی غیر متلو سے ثابت ہے تو یہ اس پر نص ہے کہ تراویح اور قیام اللیل الگ الگ ہیں کیونکہ قیام اللیل کا ثبوت قرآن سے ہے: "ومن اللیل فتهجد" [بنی إسرائیل: 79]
غیرمقلدین اس پر کہتے ہیں کہ تراویح اور قیام اللیل [تہجد] ایک ہی ہے ، جب دونوں ایک ہیں تو آپ ان سے لکھوائیں کہ تراویح کا ثبوت قرآن سے ہے کیونکہ دونوں ایک ہیں اور تہجد کا ثبوت قرآن سے ہے لیکن وہ ہرگز لکھنے کے لئے تیار نہیں ہوتے اور نہ ہی ان کے اکابرین میں سے کسی نے یہ دعوی کیا کہ تراویح قرآن سے ثابت ہے
کبھی کہتے ہیں "رمضان میں تراویح اور قیام اللیل [تہجد] ایک ہی ہیں - آپ ان سے کہیں کہ یہ لکھ کر دے دیں "رمضان میں تراویح کا ثبوت قرآن سے ہے" کیونکہ تہجد کا ثبوت کتاب اللہ سے ہے - تہجد"ہجود" سے ہے "ہجود" ترک النوم کو کہتے ہیں ، رات کے آخری حصے میں نیند چھوڑ کر نماز پڑھنا ، تہجد کا وقت اور ہے اور تراویح کا وقت اور دونوں الگ الگ ہیں
تراویح دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں
‏"عن عروۃ أن عائشة أخبرته أن رسول الله تعالی علیه وسلم خرج لیلة من جوف اللیل ، فصلی فی المسجد وصلی رجال بصلوۃ ، فأصبح الناس فتحدثوا ، فاجتمع أکثر منهم فصلوا معه ، فأصبح الناس فتحدثوا ، فکثر أھل المسجد من اللیلة الثالثة ، فخرج رسول الله صلی الله تعالی علیه وسلم ، فصلی فصلوا بصلاته ، فلما کانت اللیلة الرابعة عجز المسجد عن أھله حتی خرج لصلوۃ الصبح ، فلما قضی الفجر أقبل علی الناس فتشهد ثم قال: أما بعد! فإنه لم یخف ‎علی مکانکم ، ولکنی خشیت أن تفترض علیکم ، فتعجزوا عنها ، فتوفی رسول الله صلی الله تعالی علیه وسلم والأمر علی ذلك" [الصحیح للبخاری ، کتاب الصوم ، باب فضل من قام رمضان ج1 ص 268 ، قدیمی - والصحیح لمسلم ، کتاب صلاۃ المسافرین ، باب الترغیب فی قیام رمضان ج1 ص 259]
‏"حضرت عروہ فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنها نے قیام رمضان کے متعلق بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ایک رات مسجد میں جاکر نماز پڑھنے لگے، وہاں موجود صحابہ بھی آپ کی اقتداء میں نماز پڑھنے لگے ، صبح کو اس بات کا چرچا ہوا ، چناچہ دوسری رات پہلے سے زیادہ لوگ جمع ہوئے اور آپ کے ساتھ نماز پڑھی ، جب صبح یہ گفتگو عام ہوئی تو تیسری رات اور زیادہ لوگ آئے اور آپ کی اقتداء میں نماز پڑھی حتی کہ چوتھی رات اتنے لوگ آئے کہ مسجد چھوٹی پڑگئی لیکن اس رات آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم مسجد نہیں گئے، صرف صبح کی نماز کے لئے گئے، نماز فجر کے بعد لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور تشہد پڑھنے کے بعد فرمایا: تمہارا اجتماع مجھ سے مخفی نہ تھا لیکن اس کے باوجود میں صرف اس خوف کی وجہ سے نہیں آیا کہ کہیں تمہارے اس شوق کی بناء پر یہ تم پر لازم نہ ہوجائے اور تم اس سے عاجز نہ آجاؤ ، رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی وفات تک یہی سلسلہ رہا [کہ باقاعدہ جماعت کا انتظام نہ تھا]‏
معاملہ عدم جماعت پر ہی رہا اور صحابہ کرام نے دوبارہ جماعت کی ہو اس کا بھی ثبوت نہیں - تو جس طرح فعل رسول سنت ہے اسی طرح ترک رسول بھی سنت ہے - نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے جماعت کو ترک کردیا تو آپ اسے سنت مؤکدہ کیوں نہیں قرار دیتے؟
حضرت ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ کی روایت میں مزید وضاحت مذکور ہے: "عن أبی ذر قال: صمنا مع رسول الله صلی الله تعالی علیه وسلم رمضان ، فلم یقم بنا شیأ من الشهر حتی بقی سبع ، فقام بنا حتی ذھب شطر اللیل ، فقلت: یا رسول الله ! لو نفلتنا قیام ھذہ اللیلة ، قال: فقال: إن الرجل إذا صلی مع الإمام حتی انصرف حسب له قیام لیلة ، قال: فلما کانت الرابعة لم یقم ، فلما کانت الثالثة جمع أھله و نساء ہ والناس ، فقام بنا حتی خشینا أن یفوتنا الفلاح ، قال: قلت: ما الفلاح؟ قال: السحور ثم لم یقم بنا بقیة الشهر" [سنن أبو داؤد ، باب نفریع شهر رمضان ، باب فی قیام شهر رمضان ج1 ص 202 ، إمدادیه]
‏"حضرت ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ کے ہمراہ رمضان میں روزے رکھے ، آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے مہینے کے اکثر ایام میں ہمیں تراویح نہیں پڑھائیں ، یہاں تک کہ جب سات ‎راتیں باقی رہ گئیں تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے تہائی رات تک ہمیں تراویح پڑھائی ، اس سے اگلی رات کچھ نہیں کہا ، جب پانچ راتیں بچ گئیں تو آدھی رات تک ہمیں تراویح پڑھائی ، میں نے عرض کیا ، یا رسول اللہ! کاش آج کی رات قیام اور زیادہ کرتے ، آنحضرت صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا: جب کوئی شخص امام کے ساتھ عشاء کی نماز پڑھ کر جاتا ہے تو اس کے لئے پوری رات کی عبادت کا ثواب لکھا جاتا ہے - اس سے اگلی رات کچھ نہیں کیا ، جب تین راتیں باقی رہیں تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے اپنے گھر والوں ، اپنی عورتوں اور لوگوں کو جمع فرمایا اور اتنی دیر تک تراویح پڑھائی کہ ہمیں اندیشہ ہوا کہیں فلاح فوت نہ ہوجائے - راوی کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا "فلاح کیا ہے"؟ حضرت ابوذر نے فرمایا [فلاح سے مراد] سحری کھانا ہے - پھر آنحضرت صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے باقی دنوں میں تراویح نہیں پڑھائی"
اس حدیث میں مطلقآ تراویح پڑھانے کا تذکرہ ہے ، تعداد کتنی تھی؟ اس کا ذکر نہیں ، نیز حدیث ناطق ہے کہ اول و آخر رمضان میں تراویح نہیں پڑھائی تو آپ اسے کہاں سے ثابت کرتے ہیں؟ آپ تو جمیع رمضان میں تراویح کو کو سنت مؤکدہ کہتے ہیں ، اس لئے آٹھ رکعات مع الجماعۃ فی جمیع رمضان مع ختم القرآن ان کا ثبوت نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے نہیں اور نہ ہی آپ اسے دکھاسکتے ہیں ، یقینآ آپ ان کا ثبوت صحابہ کرام سے دکھائیں گے - جب باقی قیودات میں صحابہ کی بات مان لی تو تعداد رکعات کے سلسلے میں بھی صحابہ کے بات مان لیں اور بیس رکعات تراویح کے قائل ہوجائیں
إن أريدُ إلا الإصْلاحَ ما استطعتُ وَمَا توفيقي إلابالله
افادات: مناظر اسلام وکیل احناف حضرت مولانا ڈاکٹر منظور احمد مینگل صاحب دامت برکاتہم
تحفۃ المناظر صفحہ نمبر 271 تا 277

0 تبصرے comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔