Friday 20 March 2015

اصلی سلفی اور آج کے سلفی : خطاب از مفتی سعید احمد پالن پوری شیخ الحدیث و صدر المدرسین دار العلوم دیوبند

اصلی سلفی اور آج کے سلفی
شائع کنندہ مکتبہ حجاز

خطبۂ مسنونہ کے بعد: (اَلْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ، وَأَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ، وَرَضِیْتُ لَکُمُ الِسْلاَمَ دِیْنًا)]المائدہ ٣[
   ترجمہ:آج کے دن (١٠ھ میں عرفہ کے دن) میں نے تمہارے لئے تمہارے دین کو کامل کردیا( قوت اور قواعد واحکام میں) اور میں نے تم پر اپناانعام تام کردیا، اور میں نے اسلام کو تمہارا دین بننے کے لئے پسند کرلیا یعنی اب قیامت تک تمہارا یہی دین رہے گا، اب اس کو منسوخ کرکے دوسرا دین تجویز نہیں کیا جائے گا۔
  
دین کے دو حصے: عقائد اور اعمال
   بزرگو اور بھائیو! جیسا کہ آپ جانتے ہیں : اللہ نے جو دین نازل فرمایا ہے اس کے دو حصے ہیں: عقائد اور اعمال، عام طور پر عقائد کو دین اور اعمال کو شریعت کہتے ہیں۔ اور آیت ِ پاک میں یہی عام معنی مراد ہیں، مگر دونوں میں بڑا فرق ہے، اور وہ یہ ہے کہ دین بمعنی عقائد آدم علیہ السلام سے لے کر خاتم النّبیینﷺتک ایک رہا ہے، اور جب اب تک ایک رہا ہے تو قیامت تک آپﷺ کے بعد بھی ایک ہی رہے گا، البتہ گذشتہ نبیوں کے زمانوں میں لوگوں نے دین میں اختلاف کیا اور اختلاف کرتے کرتے لوگ انبیاء کے دین سے بالکل ہٹ گئے، مگر نبی پاکﷺکے بعد اگرچہ عقائد میں اختلاف ہوگا، مگر امت مکمل دین سے ہٹ جائے ایسا نہیں ہوگا، قیامت تک امت میں مسلسل ایک طائفہ موجود رہے گا جو دین حق پر برقرار رہے گا، ان کی مخالفت کرنے والے خواہ کتنی ہی مخالفت کریں ان کو کوئی ضرر نہیں پہنچاسکیں گے۔ یہ مضمون ایک حدیث میں آیا ہے:  لا تَزَالُ طائفة من أمتی ظَاہِرِیْنَ علی الحق، لاَیَضُرُّہُمْ مَنْ خَذَلَہُمْ: پس پچھلی امتوں میں اور اس امت میں یہ فرق ہے کہ پچھلی امتیں اپنے انبیاء کے دین وعقائد سے ہٹیں اور مکمل طور پر ہٹ گئیں، ایک گروہ بھی صحیح عقیدہ پر باقی نہ رہا، اس وقت اللہ تعالیٰ دوسرا نبی مبعوث فرماتے تھے اور وہ ان کو صحیح دین وعقائد پر لاتا تھا، لیکن نبی پاک ﷺآخری نبی ہیں، اب اگر تمام انسان عقائد حقہ سے ہٹ جائیں تو دنیا میں اندھیرا چھا جائے، اور روشنی دکھانے کے لئے کوئی نیا نبی آنے والا نہیں، اس لئے اللہ نے اس کا انتظام یہ کیا ہے کہ حضورﷺکے بعد بھی اگرچہ عقائد میں اختلاف ہوگا لیکن ایسا نہیں ہوگا کہ پوری امت غلط عقائد پر پڑجائے، بلکہ قیامت تک ایک جماعت صحیح عقائد پر رہے گی۔

  البتہ شریعتوں( احکام) کا حال مختلف ہے، آدم علیہ السلام سے لے کر حضورﷺتک نبیوں کی شریعتیں مختلف رہی ہیں، شریعت: اعمال کا نام ہے اور اعمال میں اختلاف رہا ہے، ایک نبی کی شریعت میں کچھ احکام ہوتے تھے، دوسرے نبی کی شریعت میں وہ منسوخ کئے جاتے تھے، اور دوسرے احکام آتے تھے، پس نبی پاکﷺکے بعد بھی احکام میں اختلاف ہوگا لیکن اس اختلاف میں کوئی حرج نہیں، کیونکہ یہ اختلاف تو شریعتوں میں بھی رہا ہے اور جب شریعتوں میں اختلاف رہا ہے تو حضورﷺکی امت میں بھی اعمال میں اختلاف ہوگا اور یہ اعمال میں اختلاف کوئی اہم بات نہیں، لیکن دین بمعنی عقائد میں اختلاف برداشت نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ دین آدم  سے آخری نبیۖ تک ایک ہی رہا ہے۔

  البتہ یہ بات ذہن میں رہے کہ انبیاء کی شریعتوں میں اختلاف صرف ایک فیصد رہا ہے، قوموں کے مزاج اور زمانوں کے تقاضوں کا لحاظ کرکے کچھ احکام علاحدہ دئیے جاتے تھے۔

  اور اس کی نظیر:ہماری شریعت میں مردوں اور عورتوں کے احکام کا اختلاف ہے، یہ اختلاف بھی ایک فیصد ہے، دین دونوں کے لئے ایک ہے، جو عقائد مردوں کے لئے ہیں: وہی عورتوں کے لئے بھی ہیں، اور جو احکام نوعی ہیں: وہ بھی یکساں ہیں، نماز، روزہ، زکوٰة، حج  وغیرہ دونوں کے لئے ضروری ہیں، البتہ صنفی احکام عورتوں کے لئے علاحدہ ہیں، ان کو ماہواری آتی ہے، ان کا بدن پرکشش بنایا گیاہے، مردوں کو یہ عارضہ پیش نہیں آتا، اور نہ ان کا بدن پرکشش ہے، اس لئے حیض وغیرہ کے احکام عورتوں کے لئے ہیں، اور حجاب( پردہ) کا حکم بھی انہی کے لئے ہے۔اور احکام کا یہ اختلاف ایک فیصد سے زیادہ نہیں ۔
  
عقائد میں اختلاف صحابہ کے بعد ہوا
   اس امت کا پہلا قافلہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا تھا، ان کے زمانہ تک عقائد میں اختلاف نہیں ہوا،یہ اختلاف تابعین کے زمانہ سے شروع ہوا۔ اور اعمال میں اختلاف صحابہ کے زمانہ میں بھی ہوا ہے، نہ صرف صحابہ کے زمانہ میں بلکہ حضورۖ کی حیات میں صحابہ میں اختلاف ہوا ہے، مشہور واقعہ ہے: غزوئہ احزاب میں بنو قریظہ نے غداری کی تھی، نبی پاک ﷺنے غزوئہ احزاب سے فارغ ہونے کے بعد صحابہ کو حکم دیا کہ فوراً تیاری کرو اور بنو قریظہ پر چڑھائی کرو اور عصر کی نمازوہاں جاکر پڑھو، چنانچہ صحابہ نے ضروری سامان لیا اور بنو قریظہ کی طرف روانہ ہوگئے، راستہ میں عصر کی نماز کا وقت آگیا تو صحابہ میں اختلاف ہوا، بعض نے کہا: ہمیں حضورﷺنے حکم دیا ہے کہ عصر کی نماز بنو قریظہ میں جاکر پڑھو، لہٰذا ہم عصر کی نماز وہیں پڑھیں گے، اور بعض نے کہا: حضور کے حکم کا منشا یہ تھا کہ فوراً بنو قریظہ پہنچو، عصر کی نماز قضا کرو :یہ حضورﷺکا منشا نہیں تھا،چنانچہ آدھوں نے عصر کی نماز پڑھی اور آدھوں نے نہیں پڑھی، پھر آگے چلے: مغرب کا وقت ہوا تو سب نے مغرب پڑھی، کیونکہ حضورﷺنے مغرب کے بارے میں کچھ نہیں فرمایا تھا، پھر عشاء کے وقت لشکر بنو قریظہ پہنچا، وہاں جاکر جنھوں نے عصر نہیں پڑھی تھی انھوں نے عصر پڑھی، پھر سب نے عشاء پڑھی۔ نبی پاکﷺدوسرے دن صبح پہنچے، حضورﷺسے یہ واقعہ ذکر کیا گیا، حضورﷺنے دونوں جماعتوں میں سے کسی سے کچھ نہیں کہا۔

   اور حدیث ہے: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: نبیﷺہمارے پاس تشریف لائے، ہم تقدیر کے مسئلہ میں جھگڑرہے تھے، پس آپ ﷺاس حد تک غبضناک ہوئے کہ رخ انور سرخ ہوگیا، گویا آپﷺکے دونوں رخساروں میں انار نچوڑ دئیے گئے ہیں، پس آپؐ نے فرمایا:'' کیا تمہیں اسی کا حکم دیا گیا ہے؟ اور کیا میں اسی کے ساتھ تمہاری طرف بھیجا گیا ہوں؟ وہ لوگ جو تم سے پہلے ہوئے وہ اسی وقت ہلاک ہوئے: جب انھوں نے اس معاملہ میں جھگڑا شروع کیا، میں تمہیں قسم دیتا ہوں کہ تقدیر میں مت جھگڑو''

  اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگلے لوگوں نے جب تقدیر میں بحث وتکرار شروع کی تو ان میں فکری گمراہی رونما ہوئی، اور وہ جادہ مستقیم سے ہٹ گئے، یہی معاملہ دیگر عقائد کا ہے، جب ان میں نزاع شروع ہوگا تو ضرور کچھ لوگ صراطِ مستقیم سے ہٹ جائیں گے۔
    اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نبی پاکﷺکے زمانہ میں صحابہ کے درمیان احکام میں اختلاف ہوا ہے، لیکن عقائد میں اختلاف صحابہ کے زمانہ میں نہیں ہوا، عقائد کا اختلاف تابعین کے زمانہ سے شروع ہوا۔
    
صحابہ کے بعد اختلاف کی وجوہ
     اور وہ جو تہتر فرقوں والی حدیث ہے اس حدیث کے شروع میں حضورﷺنے سین استعمال کیا ہے۔ستفترق امتی: عنقریب میری امت میں اختلاف ہوگا، اس سین میں اشارہ ہے کہ صحابہ کے زمانہ تک یہ اختلاف نہیں ہوگا، اس کے بعد یہ اختلاف ہوگا۔

   اس کی وجہ کیا ہے؟
    اس کی پہلی وجہ: یہ ہے کہ صحابہ حضورﷺکے شاگرد تھے، تبع تابعین: تابعین کے شاگرد تھے اور استاذ سے جتنا  بُعد ہوتاجاتا ہے اثرکمزور پڑتا جاتاہے، جیسے صحن میں کھڑے ہوئے شخص پر دھوپ براہ راست پڑتی ہے اور دھوپ میں کھڑے ہوکر، آئینے سے اس مسجد میں فوکس (عکس) ڈالیں اور دھوپ یہاں آئے تو دونوں دھوپوں میں بڑا فرق ہوگا، کیونکہ وہاں سورج کی دھوپ براہ راست آرہی ہے اور یہاں بالواسطہ دھوپ آرہی ہے، اس لئے اس میں کمزوری ہوگی، یا جیسے سورج نکل کر اپنی روشنی زمین پر براہ ِ راست ڈالتا ہے اور چاند پر بھی ڈالتا ہے، پھر چاند زمین پر روشنی ڈالتا ہے تو دونوں روشنیوں میں فرق ہوتا ہے، اسی طرح سمجھنا چاہئے کہ صحابہ کی خصوصیت اس وجہ سے ہے کہ ان کے معلم حضورﷺتھے، پھر آگے کمزوری آئی، کیونکہ معلم اول سے دوری ہوگئی اور معلم اول سے جتنی دوری ہوتی جائے گی فتنے شروع ہونگے۔ اسی لئے حدیثوں میں قیامت کے قریب فتنوں کی خبریں دی گئی ہیں، کیونکہ معلم اول سے زمانہ دور ہوجائے گا۔
    
اور دوسری وجہ: یہ ہے کہ ہمارے نبیﷺکی بعثت دوہری ہے: آپﷺبراہ راست کام کے اعتبار سے امیوں کی طرف مبعوث فرمائے گئے تھے، اور باقی دنیا کی طرف کام کے اعتبار سے صحابہ کے واسطے سے مبعوث فرمائے گئے تھے، اس طرح صحابہ بھی نیا بۃ مبعوث ہیں،اور انھوں نے ہی آپ ﷺکے بعد ساری دنیا تک دین پہنچایا ہے، اس لئے جس طرح آپﷺمعصوم ہیں: صحابہ محفوظ ہیں۔ اور عملی خرابی سے بڑی عقیدوں کی خرابی ہے، چنانچہ اللہ نے دونوں قسم کی خرابیوں سے صحابہ کی حفاظت فرمائی ، یہ بہت تفصیل طلب مضمون ہے۔ اور حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی قدس سرہ نے حجۃ اللہ البالغہ میں مبحث سادس کے دوسرے باب میں یہ مضمون تفصیل سے بیان کیا ہے، اورمیں نے رحمۃ اللہ الواسعہ کی دوسری جلد میں اس کی مفصل شرح کی ہے۔
    
قرونِ ثلاثہ زمانہ کے عرض میں ایک ساتھ ہیں
    صحابہ ، تابعین، تبع تابعین اور چوتھا دور زمانہ کے طول میں بھی ہیں اور چوڑائی میں بھی، زمانہ کی لمبائی کو تو ہر شخص سمجھتا ہے کہ صحابہ کا دور ختم ہوا تو تابعین کا دور شروع ہوا ، وہ ختم ہوا تو تبع تابعین کا دور شروع ہوا۔ اور زمانہ کی چوڑائی میں بھی یہ تینوں دور ساتھ ساتھ چلتے ہیں، کیونکہ صحابی وہ ہے جس نے حالت ِ ایمان میں نبی پاکﷺکی زیارت کی ہے، اور ایمان ہی پر اس کی وفات ہوئی ہے، اور حضورﷺ کے زمانے میں سارے جزیرة العرب میں اسلام پھیل گیا تھا، مگر جتنے لوگ مسلمان ہوئے تھے: سب نے حضورﷺکی زیارت نہیں کی تھی، جس کی قسمت میں یہ سعادت لکھی تھی اسی نے حضورﷺکی زیارت کی تھی، پھرمدینہ سے کوئی صحابی مثال کے طور پر سفر کرتے ہوئے کسی قبیلہ کے پاس سے گذرے یا زکوٰةوصول کرنے کے لئے یا گورنر بن کر کسی قبیلہ میں گئے تووہاں کے مسلمانوں نے صحابی کو دیکھا، پس وہ تابعی ہوگئے، یہ تابعی بھی حضور کے زمانہ میں موجود تھے، اور حضورﷺکے زمانہ میں بعض مسلمان ایسے بھی تھے جنھوں نے کسی صحابی کو بھی نہیں دیکھا تھا، بلکہ ان لوگوں کو دیکھا تھا جنھوں نے کسی صحابی کو دیکھا ہے، پس یہ تبع تابعین ہوئے، پھر ایسے بھی مسلمان تھے جنھوں نے کبھی کسی تابعی کو بھی نہیں دیکھا تھا، بلکہ تبع تابعین کو دیکھا تھا تو ان کا شمار چوتھے قرن میں ہوگا، کیونکہ حضورﷺنے تین ہی درجے قائم فرمائے ہیں:خیر الناس قرنی، ثم الذین یَلُوْنَہُمْ، ثم الذین یلونہم: بہترین زمانہ میرا زمانہ ہے، پھر اس سے متصل زمانہ ہے، اور یہ متصل ہونا لمبائی بھی ہے اور چوڑائی میں بھی۔ پھر وہ لوگ ہیں جو ان سے متصل ہیں پس صحابہ، تابعین اور تبع تابعین خیر القرون ہیں اور چوتھے قرن کے لئے کوئی فضیلت نہیں۔
    
دو مکتب ِ فکر : حجازی اور عراقی
    اور یہ تو آپ جان چکے ہیں کہ امت میں صحابہ کے زمانہ سے مسائل میں اختلاف چلا آرہا ہے، مگر ان کے زمانہ میں فقہی مکاتب فکر وجود میں نہیں آئے تھے،سب سے پہلی تقسیم جو امت میں ہوئی وہ یہ ہے کہ امت دو حصوں میں منقسم ہوئی، ایک : حجازی مکتب ِ فکر وجود میں آیا اور دوسرا: عراقی مکتب ِ فکر، اور اس تقسیم کی وجہ یہ ہوئی کہ حضورﷺکے بعد جو چار خلفاء ہوئے ہیں ان میں سے تین مدینہ میں رہے ہیں، اس وقت تمام علماء مدینہ میں اکٹھا تھے، پھر جب حضرت علی رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تو وہ خلافت کو لے کر کوفہ (عراق) چلے گئے اور ان سے پہلے وہاں حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھیج چکے تھے، اس لئے ان کے شاگرد وہاں پہلے سے موجود تھے، اب جب خلافت یہاں آئی تو سارے علماء اِدھر آگئے، اس طرح قدرتی طور پر دو مکتب فکر بن گئے، ایک: حجازی مکتب فکر: جو تین خلفاء اور ان کے زمانہ کے علماء سے بنا، اور ایک عراقی مکتب فکر: جو حضرت ابن مسعود، حضرت علی اور ان کے شاگردوں سے بنا، سب سے پہلی تقسیم امت میں یہی ہوئی ہے، اس سے پہلے مکاتب فکر کا اختلاف نہیں تھا، پوری امت ایک تھی اور جس کو کوئی مسئلہ پیش آتا: وہ جو بھی عالم ملتا اس سے پوچھ لیتا تھا، لیکن جب امت دو مکتب فکر میں بٹ گئی تو آہستہ آہستہ ایسا ہونے لگا کہ حجازی مکتب فکر کا جو ذہن رکھتے تھے وہ اپنے مکتب ِ فکر کے عالم ہی سے مسئلہ پوچھتے تھے، عراقی مکتب فکر کے عالم سے مسئلہ نہیں پوچھتے تھے، اور جو عراقی مکتب فکر کا ذہن رکھتے تھے وہ اپنے مکتب فکر کے عالم ہی سے مسئلہ پوچھتے تھے، دوسرے سے نہیں پوچھتے تھے، جیسے آج کل حنفی : حنفی عالم ہی سے مسئلہ پوچھتا ہے، شافعی، مالکی، حنبلی سے نہیں پوچھتا، اور شافعی : شافعی عالم ہی سے پوچھتا ہے، دوسروں سے نہیں  پوچھتا، کیونکہ اب چار مکاتب فکر الگ الگ ہوگئے ہیں، اور جب یہ الگ الگ ہوگئے تو یہ قدرتی بات ہے کہ آدمی اپنے مکتب ِ فکر ہی کے علماء سے مسئلہ پوچھے گا۔ بہرحال امت میں سب سے پہلے یہ دو مکتب فکر وجود میں آئے، اور یہ تابعین کے زمانہ کی بات ہے۔
   دونوں مکاتب فکر کا اصلی اور ذیلی کام
    حجازی مکتب فکر کا اصل کام حدیثیں روایت کرنا تھا اور وہ مسائل جو حدیث میں نہیں ہیں ان کے بارے میں اگر کوئی سوال کرتا تو وہ اس کے بھی جواب دیتے تھے، کیونکہ وہ مجتہد بھی تھے، آج اُس دور کی کتاب موطا مالک موجود ہے، اس میں ایک چوتھائی حدیثیں ہیں اور تین چوتھائی امام مالک کے اقوال ہیں، پس اصل کام ان کا حدیثیں روایت کرنا تھا اس لئے وہ محدثین فقہاء کہلائے۔ وہ درحقیقت محدث ہیں مگر مجتہد بھی ہیں، جو مسائل قرآن وحدیث میں صراحةً نہیں ہیں ان کے بھی جواب دیتے ہیں۔
    اور عراقی مکتب فکر کا اصل کام فقہ پر محنت کرنا تھا، کیونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زمانہ سے جو خلافت مدینہ سے نکل کر عراق میں چلی گئی تھی وہ واپس نہیں آئی اور یہ قدرتی بات ہے کہ گورنمنٹ کو حدیثوں سے زیادہ پیش آمدہ معاملات میں احکام شرعیہ کی ضرورت ہوتی ہے، اس لئے اس مکتب فکر کے علماء کی اصل محنت مسائل پر ہوتی رہی، مگر مسائل کے لئے قرآن وحدیث کو جاننا ضروری ہے، ان کے بغیر مسائل کیسے نکلیں گے، پس وہ قرآن وحدیث بھی جانتے تھے مگر محنت ان کی مسائل پر ہوتی تھی، اس لئے وہ فقہاء محدثین کہلائے یعنی وہ درحقیقت فقہاء تھے، مگر محدث بھی تھے، کیونکہ قرآن وحدیث کے بغیر مسائل نہیں نکل سکتے۔
     پھر مسائل طے کرنے میں فقہاء اتنے آگے بڑھ گئے کہ وہ زمانہ سے پانچ سو سال آگے سوچنے لگے کہ اگر یہ صورت پیش آئے تو یہ حکم ہے اور یہ صورت پیش آئے تو یہ حکم ہے، امام محمد رحمہ اللہ کی مبسوط میں ایسے فرضی سوالات ، أَرَأَیْتَ( بتلائیے) کے عنوان سے بیان کئے گئے ہیں، ابھی صورت ِ مسئلہ پیدا بھی نہیں ہوئی تھی کہ انھوں نے فرض کرلی اور اس کے احکام بیان کردئیے، تاکہ جب وہ صورت پیش آئے تو اس کے احکام پہلے سے معلوم ہوں، اسی لئے لوگوں نے ان کا نام: أَرَأَیْتِنِیُّوْن: رکھ دیا۔
      اور حجازی مکتب فکر والے اس کو ناپسند کرتے تھے، وہ کہتے تھے کہ جب تک واقعہ پیش نہیں آیا، احکام کیوں بیان کرتے ہو؟ مگر فقہاء کے لئے ضروری تھا ، وہ گورنمنٹ کی ضرورت سے کام کررہے تھے، پس جو بھی نیا واقعہ پیش آئے: گورنمنٹ کے پاس اس کا حل پہلے سے موجود ہونا چاہئے تھا، یوں وہ محدثین فقہاء بن گئے اور یہ فقہاء محدثین بن گئے۔
     
چار مکاتب ِ فکر کیسے وجود میں آئے؟
     اور یہ سلسلہ پیچھے سے چلا آرہا تھا لیکن پھر ایک وقت آیا کہ حجازی مکتب فکر میں رمزی نام امام مالک کا استعمال ہونے لگا اور وہ اس جماعت کے سرخیل بن گئے، پھر امام مالک کے شاگرد امام شافعی رحمہ اللہ آئے، پھر امام شافعی کے شاگرد امام احمد رحمہ اللہ آئے، اور تینوں میں مسائل میں اختلافات ہوئے، اس لئے حجازی مکتب ِ فکر تقسیم ہوکر تین مکاتب فکر بن گیا، اور عراق میں جو مکتب ِ فکر چلا آرہا تھا، اس سلسلہ میں آگے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ آئے، اس لئے رمزی نام ان کا استعمال ہوا، عراق میں اور بھی مجتہدین پیدا ہوئے ہیں، مگر یہ مکتب ِ فکر تقسیم نہیں ہوا، امام اعظم کے دو شاگرد: امام ابو یوسف اور امام محمد رحمہما اللہ بہت بڑے مجتہد تھے، اتنے بڑے مجتہد کہ حضرت امام شافعی رحمہ اللہ مکہ میں پیدا ہوئے، پہلے وہاں علم حاصل کیا، پھر امام مالک سے علم حاصل کرنے کے لئے مدینہ آئے، یہاں علم حاصل کرنے کے بعد ان کے استاذ امام مالک نے ان کو مشورہ دیا کہ تم عراق جاؤ اور امام ابویوسف سے پڑھو   امام اعظم کا انتقال ہوچکا تھا   امام شافعی رحمہ اللہ نادار تھے، چنانچہ راستہ کا سارا خرچ امام مالک نے دیا اور پڑھنے کے لئے امام ابویوسف کے پاس عراق بھیجا، جب وہ وہاں پہنچے تو معلوم ہوا کہ امام ابو یوسف کا بھی انتقال ہوچکا ہے، اور ان کی جگہ امام محمد پڑھانے کے لئے بیٹھے ہیں، پس امام شافعی نے ان سے پڑھا اور خود فرماتے ہیں:حملتُ عن محمد وِقْرَیْ بعیرٍ: اونٹ کے اوپر آدھا سامان اِدھر باندھتے ہیں اور آدھا اُدھر اور اونٹ زیادہ سے زیادہ چھ من پکّااٹھاتا ہے، پس فرماتے ہیں: میں نے امام محمد رحمہ اللہ سے ایک اونٹ کا بوجھ اٹھایا ہے، یعنی چھ من کتابیں لکھی ہیں، اس زمانہ میں موٹے کاغذوں پر طلبہ لکھتے تھے، پھر وہ وطن واپس نہیں لوٹے بلکہ بغداد چلے گئے، وہاں امام احمدنے امام شافعی سے پڑھا، پھر زندگی کے آخر میں امام شافعی بغداد سے مصر چلے گئے اوروہاں دو سال حیات رہے، پھر حضرت کا مصر میں انتقال ہوا۔ بہرحال عراقی مکتب ِ فکر ایک رہا، امام اعظم کے شاگرد مجتہد کے درجے کے تھے، مگر انھوں نے اپنے آپ کو امام ابو حنیفہ سے الگ نہیں کیا، چنانچہ امام ابویوسف کے سارے اقوال فقہ حنفی میں شامل ہیں، امام محمد کے سارے اقوال بھی فقہ حنفی میں شامل ہیں، ان کے علاوہ بھی بڑے بڑے شاگرد تھے وہ سب فقہ حنفی میں شامل رہے، بعد میں جو ہوئے وہ بھی فقہ حنفی میں شامل رہے، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آج دنیا میں مالکی، شافعی اور حنبلی ایک طرف ہیں اور صرف احناف ایک طرف ہیں، ان تین کے بقدربلکہ اس سے بھی زائد دنیا میں صرف احناف ہیں۔
   
تابعین کے دور میں چار گمراہ فرقے وجود میں آئے:
    میں نے کہا تھا کہ صحابہ کے دور تک عقائد میں اختلاف نہیں ہواتھا، تابعین کے دور سے عقائد میں اختلاف شروع ہوا، اور سب سے پہلے چار گمراہ فرقے وجود میں آئے: معتزلہ، خوارج، شیعہ اور مرجئہ۔ اور ان کے وجود میں آنے کے عوامل الگ الگ ہیں، کچھ لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت میں حد سے آگے بڑھ گئے تو وہ شیعہ ہوگئے، کچھ نے حضرت معاویہ اور حضرت علی دونوں سے اختلاف کیا تو وہ خوارج ہوگئے، اور کچھ نے اعمال کی حیثیت گھٹادی اور کہا کہ ایمان کے ساتھ کبائر مضر نہیں : وہ مرجئہ ہوگئے۔اور کچھ نے عقل کو نقل سے اوپر کردیا تو وہ معتزلہ بن گئے، وہ کہتے ہیں: ہماری عقل میں قرآن وحدیث کی جو باتیں آئیں گی وہ ہم مانیں گے اور جو نہیں آئیں گی: ان کا اگر انکار ممکن ہوگا تو انکار کریں گے ورنہ تاویل کریں گے، مثلاً حدیث میں ہے کہ حجر اسود اللہ کا دایاں ہاتھ ہے، انھوں نے کہا: پتھر اللہ کا ہاتھ کیسے ہوسکتا ہے؟ چنانچہ انھوں نے اس حدیث کو ضعیف( ساقط الاعتبار) قرار دیا، پس جب بھی ایسی کوئی حدیث سامنے آئے گی تو معتزلہ کسی نہ کسی راوی کا کان پکڑ کر کہہ دیں گے: یہ راوی ضعیف ہے، اس لئے حدیث ضعیف ہے، حالانکہ کونسا انسان ایسا ہے جس میں کوئی کمزوری نہیں ہوتی، بلکہ نہیں ہوتی تو زبردستی پیدا کی جاتی ہے، چنانچہ جتنے بڑے روات ہیں ان پر اور بھی سخت تنقیدیں ہوئی ہیں، ان بڑوں میں سے ایک:امام بخاری رحمہ اللہ بھی ہیں ان کو حدیث میں مدلس ، اور عقائد میں کافر قرار دیا گیا ۔ اور نیشاپور سے باہر نکالا گیا، اور اپنے وطن بخاری پہنچے تو وہاں بھی ان کو نہیں رہنے دیا ۔ پس کوئی چھوٹا راوی تو تنقید سے بچا ہوا ہوسکتا ہے، مگر بڑا کوئی نہیں بچا، پس حدیثوں کو ضعیف قرار دینا توبہت آسان ہے۔ جیسے آج کل کے سلفیوں کے سامنے کوئی بھی حدیث ان کے مزعومات کے خلاف پیش کریں تو فوراً کہیں گے: ہذا حدیث ضعیف:یہ حدیث نکمّی ہے۔
    بہرحال عقل کی سمائی میں نہ آنے والا مضمون اگر حدیثوں میں آیا ہے تو معتزلہ اس کا انکار کرتے ہیں، اور قرآن میں آیا ہے تو قرآن کا انکار نہیں کرسکتے، اس لئے وہ تاویل کرتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے، وہ نہیں ہے۔
     بہرحال انھوں نے عقل کو اوپر کردیا اور نقل کو نیچے ، یوں معتزلہ وجود میں آگئے۔
     شیعوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے معاملہ میں غلو کیا، انھوں نے کہا: تین خلفاء کی خلافت صحیح نہیں تھی، وہ غاصب تھے، حضرت علی خلیفہ بلافصل ہیں، اور اہل السنہ والجماعة کہتے ہیں: چار خلفاء جس ترتیب سے ہوئے ہیں اسی ترتیب سے خلافتیں برحق ہیں۔
      اور خوارج نے کہا:(اِنِ الْحُکْمُ ِالاَّ للّٰہِ): اللہ کے سوا کسی کا حکم نہیں یعنی پنچایت  بٹھانا جائز نہیں ، اور حضرت معاویہ   اور حضرت علی نے دو آدمیوں کی پنچایت بٹھائی اس لئے دونوں کافر ہوگئے۔
      اس طرح یہ بھی ایک مسئلہ بناکہ دو فریقوں کی لڑائی میں تیسرے کو حکم بنانا اور اُسے فیصلہ سونپنا جائز ہے یا نہیں؟ خوارج کہتے ہیں: جائز نہیں، قرآن میں ہے:  اِنِ الْحُکْمُ ِلاَّ للّٰہِ )  : (یوسف ٤٠) اور اہل السنہ والجماعۃکہتے ہیں: جائز ہے، وہ کہتے ہیں: یہ آیت:( اِنِ الْحُکْمُ ِلاَّ للّٰہِ): حضورﷺپر نازل ہوئی ہے اور بنو قریظہ کے معاملہ میں حضور نے اور بنو قریظہ نے مل کر حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو فیصلہ سونپا ، پس کیا (اِنِ الْحُکْمُ ِلاَّ للّٰہِ):کا مطلب تم سمجھتے ہو یا حضورﷺ؟
     
صفات متشابہات اور غیر متشابہات:
     معتزلہ جب وجود میں آئے تو انھوں نے سب سے پہلے اللہ کی صفات کا مسئلہ چھیڑا۔جاننا چاہئے کہ اللہ کی صفات دو طرح کی ہیں، ایک: وہ صفات ہیں جن کی مخلوق سے مشابہت نہیں، جیسے اللہ ایک ہیں، اس کی مخلوق سے کیا مشابہت؟ اللہ بے نیاز ہیں، اس کی مخلوق سے کیا مشابہت؟ دوسری: وہ صفات ہیں جو مخلوق سے مشابہت رکھتی ہیں، جیسے اللہ سنتے ہیں تو ہم بھی سنتے ہیں، اللہ دیکھتے ہیں تو ہم بھی دیکھتے ہیں، اللہ کا ہاتھ ہے تو ہمارا بھی ہاتھ ہے، اللہ کا چہرہ ہے تو ہمارا بھی چہرہ ہے، اللہ کی پنڈلی ہے تو ہماری بھی پنڈلی ہے، اللہ رات کے آخری حصہ میں سمائے دنیا پر اترتے ہیں تو ہم بھی اوپر کی منزل سے نیچے اترتے ہیں۔ پس جو صفات مخلوق کے مشابہ نہیں ہیں وہ زیر بحث نہیں آئیں اور جو صفات مخلوق کی صفات کی طرح ہیں وہ زیر بحث آئیں کہ ان صفات کا کیا مطلب ہے؟
    
صفات کے تعلق سے مختلف فرقے وجود میں آئے
    صفاتِ باری تعالیٰ میں اختلاف کی وجہ سے امت میں مختلف فرقے وجود میں آئے:
     1ـ معتزلہ نے صفات باری کا انکار کردیا، مگر صاف انکار نہیں کیا، بلکہ یہ کہا کہ اللہ کی صفات: اللہ کی ذات کاعین ہیں، صفات باری کا نہ الگ کوئی مفہوم ہے نہ وجود، اللہ کی ذات ہی ان کی صفات ہیں، اور آگے جو مسئلہ بیان کروں گاکہ قرآن مخلوق ہے یا غیر مخلوق؟ حادث ہے یا قدیم؟ اس کا مدار اسی صفات کے انکار پر ہے، جب معتزلہ کے نزدیک تمام صفا ت اللہ کا عین ہیں تو صفت ِ کلام بھی ان کا عین ہے، اور قرآن دنیا میں موجود ہے، ہم اس کو پڑھتے لکھتے ہیں، پھر وہ اللہ کی صفت کیسے ہوسکتا ہے؟ چنانچہ انہوں نے قرآن کو مخلوق مانا۔
     ٢ـ مُعَطِّلَةنے کہا: اللہ کی صفات متشابہات ہیں ہی نہیں، کیونکہ ان سے اللہ کا مخلوق کے مشابہ ہونا لازم آتا ہے، درانحالیکہ اللہ مخلوق کے مانند نہیں ۔ غرض انھوں نے اللہ کو صفات سے معطل کردیا، صفات کی چھٹی کردی!
     ٣ـ مُجَسِّمَةنے کہا: اللہ کا بھی ہماری طرح جسم ہے، ہاتھ، پیر اور چہرہ وغیرہ ہیں۔
     ٤ـ مُشَبِّہَةنے کہا: اللہ کا جسم تونہیں ہے، مگر اللہ کی صفات مخلوق کی صفات کی طرح ہیں۔
     ٥ـ جمہور امت( اہل السنہ والجماعہ ) نے کہا: اللہ کی جو صفتیں قرآن وحدیث میں آئی ہیں: وہ سب صفتیں اللہ تعالیٰ کے لئے ثابت ہیں، مگر وہ مخلوق کی صفات جیسی نہیں ہیں۔ پھر اللہ کی یہ صفات کیسی ہیں؟ جمہور نے کہا: ہم ان کی کیفیت نہیں جانتے، بالاجمال اتنا جانتے ہیں کہ وہ صفات ہیں۔
      خلفائے عباسیہ معتزلہ کے خیالات سے متاثر ہوئے
      پھر معتزلہ کا اثر ورسوخ اتنا بڑھا کہ خلافت عباسیہ ان کے اثر میں آگئی، آپ جانتے ہوں گے کہ ہارون رشید کا بیٹا مامون بڑا فلسفی تھا، اسی نے یونانیوں کا فلسفہ عربی میں ترجمہ کرایا ہے، وہاں سے امت میں عقلیت کا دور شروع ہوا اور سب سے پہلے مامون معتزلہ کے خیالات سے متأثر ہوا۔
      
صفت ِ کلام کی بحث
      اللہ کی صفات بے شمار ہیں، ان میں سے ایک: صفت ِ کلام ہے، سب سے پہلے وہ زیر بحث آئی، اور اسی وجہ سے علم العقائد کا نام علم الکلام پڑا، قرآنِ کریم میں ہے:(وَکَلَّمَ اللّٰہُ مُوْسٰی تَکْلِیْمًا): اللہ نے موسیٰ علیہ السلام سے کھل کر بات چیت کی، پس اللہ کے لئے صفت ِ کلام ثابت ہوئی، یہ صفت زیر بحث آئی کیونکہ دوسری صفات کا پیکر محسوس نہیںتھا، جیسے اللہ سمیع ہیں تو سمیع کا کوئی پیکر نہیں، اللہ کے بصیر ہونے کا بھی کوئی پیکر محسوس نہیں، مگر اللہ کی صفت ِ کلام کا پیکر محسوس قرآنِ کریم ہے، یہ قرآن جو اللہ کا کلام ہے زیر بحث آیا کہ قرآن جو آج دنیا میں موجود ہے وہ قدیم ہے یا حادث؟ معتزلہ نے کہا: یہ قرآن اگرچہ اللہ کا کلام ہے، مگر قدیم نہیں ، حادث ہے، یعنی اللہ کی صفت ِ کلام تو قدیم ہے مگر اس کا یہ پیکر قدیم نہیں ، یہ مخلوق ہے اور حادث ہے۔ان کے نزدیک صفت ِ کلام کا مطلب ہے: کسی محل میں کلام پیدا کرنا، پس قرآن مخلوق( پیدا کیا ہوا) ہے، وہ قاری کی زبان پر پیدا کیا جاتا ہے۔
     اور اہل السنہ والجماعہ نے کہا: قرآن چونکہ اللہ کی صفت کلام کا پیکر محسوس ہے، اس لئے وہ قدیم اور غیر مخلوق ہے، اگر یہ حادث ہوگا تو اللہ کی صفت ِ کلام حادث ہوگی اور اللہ کی صفت حادث نہیں ہوسکتی ؟
  
     بہ الفاظ دیگر:
       یہ مشکل مسئلہ ہے، اس کو پھر تفصیل سے سمجھاتاہوں: دو لفظ ہیں، ان کے معنی اچھی طرح ذہن نشین کرلیں: ایک: پرتو ہے، جس کے معنی ہیں: اثر، سایہ، عکس۔ دوسرا: پیکر محسوس ہے، اس کے معنی ہیں: نظر آنے والی صورت۔
       اور سب کا اتفاق ہے کہ سارا عالَم اللہ کی صفات کا پرتو ہے، یعنی اثر، سایہ اور عکس ہے،  صفات محسوس نہیں ہوتیں بلکہ ان کا اثر اور عکس محسوس ہوتا ہے، جیسے اللہ تعالیٰ رزاق ہیں، مگر ان کی صفت رزّاقیت نظر نہیں آتی، نظر رزق اور مرزوق آتے ہیں، اور یہ دونوں مخلوق ہیں، رزق بھی مخلوق ہے اور مرزوق بھی۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ خالق ہیں، مگر ان کی صفت خلق نظر نہیں آتی، مخلوقات نظر آتی ہیں، جو نوپید ہیں، قدیم نہیں ہیں، یہی حال صفت ِ کلام کے علاوہ تمام صفات کا ہے۔
      اور صفت ِ کلام میں اختلاف ہوا : معتزلہ کہتے ہیں: قرآنِ کریم بھی اللہ کی صفت ِ کلام کا پر تو( اثر) ہے، اللہ تعالیٰ محل میں اپنا کلام پیدا کرتے ہیں، اور وہ مخلوق( نوپید) ہے، یہ اللہ کی صفت ِ کلام کاپیکر محسوس ( نظر آنے والی صورت) نہیں ہے، جو غیر مخلوق (قدیم) ہو۔
       معتزلہ کی مجبوری یہ ہے کہ وہ ایک غلط نظریہ قائم کرچکے ہیں، وہ صفات باری کو عین ذات مان چکے ہیں ، یعنی صفات ذات سے زائد کچھ نہیں، اب وہ کیسے قرآن کو غیر مخلوق (قدیم) کہیں!
        اور اہل السنہ والجماعہ کہتے ہیں کہ صفت ِ کلام کا معاملہ دوسری صفات سے مختلف ہے، دیگر صفات کے توپرتو موجود ہیں، مگر صفت ِ کلام کا پیکر محسوس قرآنِ کریم موجود ہے، اس لئے وہ غیر مخلوق( قدیم) ہے، اور ان کی دلیل یہ ہے کہ اگر قرآن بھی پرتو ہوتا یعنی صفت ِ کلام کا اثر ہوتا تو پھر اس کے ذریعہ تحدّی( چیلنج) کیسے واقع ہوتی؟ لوگ اللہ کی صفت کا مقابلہ نہیں کرسکتے، اثرات کا مماثل تو بناسکتے ہیں، وہ أحسن الخالقین ہیں، معلوم ہوا کہ کسی درجہ میں خالق اور بھی ہوسکتے ہیں، وہ أحکم الحاکمینہیں، معلوم ہوا کہ کسی درجہ میں حاکم اور بھی ہوسکتے ہیں، مگر قرآن کا مماثل کوئی نہیں بناسکتا، اس کی وجہ یہی ہے کہ قرآنِ کریم اللہ کی صفت ِ کلام کا پرتو نہیں ہے، بلکہ پیکر محسوس ہے، اور اللہ کی کسی بھی صفت کا کوئی مماثل نہ بناسکتا ہے ، نہ لاسکتا ہے، پس ثابت ہوا کہ قرآنِ کریم اللہ کا کلام ہے اور قدیم ہے۔
     اور امت میں غالباً سب سے پہلا جھگڑا معتزلہ اور اہل السنہ والجماعہ کے درمیان یہی ہوا ہے، اس سے پہلے تک بات سادہ انداز میں چلی آرہی تھی کہ قرآن اللہ کا کلام ہے۔ پرتو ہے یا پیکر محسوس؟ قدیم ہے یا حادث؟ یہ مسئلہ زیر بحث نہیں آیا تھا، مگر جب یہ مسئلہ چھڑا تو بڑا فتنہ برپا ہوا، مامون کے بعد معتصم آیا اس نے زبردستی مسلمانوں کو قائل کرنا چاہا کہ کہو: قرآن مخلوق ہے، اور سلف کے لاکھوں آدمیوں کو یہ بات نہ ماننے کی وجہ سے اس نے تہ تیغ کردیا۔ یہ دور امام احمد رحمہ اللہ کا تھا۔ امام احمد نے اہل السنہ کی طرف سے مردانہ وار اس فتنہ کا مقابلہ کیا، ان کو جیل جانا پڑا، بار بار کوڑے کھائے، مگر وہ مستقیم رہے، پھر معتصم کی بیوی جو اچھے خیالات کی تھی اس نے معتصم پر زور ڈالا، چنانچہ اس نے امام احمد کو چھوڑ دیا، پھر معتصم کے بعد جو بادشاہ آئے وہ معتزلہ کے اثر میں نہیں تھے، اس لئے فتنہ فرو ہوا۔
   اصل سلف اور بعد کے سلف میں اختلاف
    امام احمد نے بس اتنا ہی فرمایا تھا کہ قرآن اللہ کا کلام ہے اور غیر مخلوق (قدیم) ہے، اس کی کوئی تفصیل نہیں کی تھی، اور یہی سلف صالحین کا طریقہ تھا، ابھی بیان کروں گا کہ انھوں نے استواء علی العرش کی بھی تفصیل نہیں کی تھی، کیونکہ اللہ کی صفات کو پوری طرح سمجھنا ہماری بس کی بات نہیں ،مگر امام احمد کے بعد ان کے ماننے والوں میں غلو پیدا ہوا، اور انھوں نے بات آگے بڑھائی، انھوں نے کہا: قرآن اللہ کی صفت ِ کلام ہے اور قدیم ہے، اور قاری جو پڑھتا ہے وہ بھی قدیم ہے، اور جس کاغذ پرقرآن لکھا ہوا ہے وہ کاغذ بھی قدیم ہے، روشنائی بھی قدیم ہے اور جلد بھی قدیم ہے۔یہاں تک وہ لوگ پہنچ گئے، البتہ امام بخاری نے اختلاف کیا، ان کونیشاپور اور بخاریٰ سے اس مسئلہ کی وجہ سے نکالا گیا ، امام بخاری رحمہ اللہ جب نیشاپور پہنچے ہیں تو ان کا بڑا استقبال کیا گیا تھا، پھر سبق میں کسی نے پوچھ لیا کہ ہم جو قرآن پڑھتے ہیں اور سامعین سنتے ہیں یہ حادث ہے یا قدیم؟ آپ نے فرمایا: لفظی بالقرآن مخلوق: میں جو قرآن پڑھتا ہوں وہ قدیم نہیں ، پھر کیا تھا حنابلہ نے شور مچادیا :یہ معتزلی ہے! یہ معتزلی ہے! اورامام بخاری کو کافر قرار دے دیا، چنانچہ وہ نیشاپور سے نکالے گئے، اور جب بخاریٰ پہنچے تو نیشاپور میں جو ان کی ٹکر کے محدث تھے بلکہ استاذ تھے: محمد بن یحییٰ ذہلی،انھوں نے بخاریٰ کے امیر کو خط لکھا کہ بخاری آرہا ہے اس نے یہاں بدعت (گمراہی) کی بات کہی ہے، پس اس کو باہر نکالو، چنانچہ آپ بخاریٰ سے بھی نکالے گئے، حالانکہ امام بخاری کی بات صد فیصد صحیح تھی، اور یہ بات امام بخاری سے سوسال پہلے امام ابوحنیفہ اپنی کتاب الفقہ الاکبر میں لکھ چکے تھے کہ کلامنا بالقرآن مخلوق اور امام بخاری حدیث میں امام احمد کے شاگرد تھے اور امام احمد نے قرآن کے بارے میں جو کہا تھا کہ وہ مخلوق نہیں ہے، قدیم ہے، اس کا مطلب امام بخاری بہتر جانتے تھے بمقابلہ بعد کے لوگوں کے، اور امام احمد امام اعظم کے شاگردوں کے شاگرد ہیں، پس امام اعظم کی بات امام احمد کے سامنے تھی، اور امام بخاری اپنے استاذ کا مذہب صحیح سمجھ رہے تھے، مگر حنابلہ میں اتناغلو ہوگیا تھاکہ امام بخاری کا یہ قول ان کو ہضم نہیں ہوا۔
  
استواء علی العرش کا مسئلہ
  پھر زمانہ آگے بڑھا تو اللہ کی ایک دوسری صفت زیر بحث آئی، قرآن کریم میں سات جگہ  ہے:(الرَّحْمٰنُ عَلَی العَرْشِ اسْتَوَی): نہایت مہربان ہستی عرش نشیں ہوئی، ان سات جگہوں میں سے ایک جگہ سورئہ یونس کے پہلے رکوع میں ہے:(وَہُوَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ فِیْ سِتَّةِ أَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَویٰ عَلَی الْعَرْشِ، یُدَبِّرُ الأَمْرَ): اللہ وہ ہستی ہیں جنھوں نے آسمان وزمین کو چھ دنوں میں یعنی چھ دوروں میں پیدا کیا۔ دن: دنیا کا بارہ گھنٹے کا دن نہیں تھا، کیونکہ اس وقت سورج نہیں تھا، بلکہ یہ اللہ کے یہاں کا دن ہے، اس لئے میں نے لفظ دور استعمال کیا، ایک دور کتنے دن کا ہوتا ہے؟ معلوم نہیں، اللہ تعالیٰ بہتر جانتے ہیں! غرض اللہ تعالیٰ عرش نشیں ہوئے، وہ پوری کائنات کا انتظام کررہے ہیں۔ اس آیت سے رد کرنا ہے ان ہندوؤں اور مشرکوں پر جنھوں نے اللہ کی حکومت کے شعبے بنائے ہیں: بارش کا خدا یہ ہے، دولت کا خدا یہ ہے، صحت کا خدا یہ ہے، مشرکین مکہ نے بھی یہی کررکھا تھا، وہ کہتے تھے: بادشاہ اکیلا حکومت نہیں چلاسکتا، پھر اللہ اتنی بڑی کائنات کا انتظام کیسے کرسکتے ہیں؟ اللہ نے بھی الگ الگ شعبے قائم کرکے الگ الگ خداؤں کو سونپ دئیے ہیں۔ قرآن جگہ جگہ اس کی تردید کرتا ہے، کہتا ہے: اللہ نے آسمانوں اورمین کو چھ دوروں میں بنایا، پھر کوئی انتظام کسی کونہیں سونپا، وہ خود عرش نشیں ہیں اور وہی معاملات کا انتظام کررہے ہیں۔
   
استواء علی العرش میں سلف کا مذہب
   سلف میں امام مالک، سفیان ثوری اور ایک روایت میں ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا گیا کہ قرآن میں جو استواء علی العرش آیا ہے اس کا مطلب کیا ہے؟ سب نے ایک ہی جواب دیا کہ الاستواءُ معلوم، والکیفُ مجہول، والایمانُ بہ واجب، والسؤال عنہ بدعة: لغت میں استواء کے جو معنی ہیں وہ معلوم ہیں، جو بھی عربی جانتا ہے وہ اس کے معنی سمجھتا ہے، وہ معنی ہیں: سیدھا ہونا، جم کر بیٹھنا۔ اور اللہ کے عرش پر بیٹھنے کی کیفیت کیا ہے؟ وہ ہمیں معلوم نہیں۔ اوراللہ کے عرش پر بیٹھنے کی جو بھی کیفیت ہے اس پر ہم ایمان لاتے ہیں، ایمانیات میں سب سے پہلے ایمان بالغیب ہے، قرآنِ کریم کی دوسری سورت میں ہے (الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ) اورغیب کیا ہے؟ جو بھی چیز حواس خمسہ ظاہرہ کے دائرے میں نہیں آتی وہ غیب ہے، ایسی چیزیں کیا ہیں؟ جنت ہے، جنت کی نعمتیں ہیں، جہنم ہے جہنم کا عذاب ہے، فرشتے ہیں، اللہ ہیں، اللہ کی صفات ہیں ، یہ سب حواس خمسہ ظاہرہ کے دائرے میں نہیں آتے، پس یہ سب غیب ہیں،اور ان پر ایمان لانا واجب ہے، کس بنیاد پر؟ اللہ کے رسول جو سچی خبر دینے والے ہیں ان کی خبر پر اعتماد کرکے جنت بھی ماننی ہے، اس کی نعمتیں بھی ماننی ہیں، جہنم بھی ماننی ہے، فرشتے بھی ماننے ہیں، اللہ کی جو صفات قرآن وحدیث میں آئی ہیں وہ سب ماننی ہیں۔ غرض: ان حضرات نے کہا کہ عرش الٰہی پر جم کر بیٹھنا یہ اللہ کی صفت ہے اور اللہ کی صفات غیب ہیں، لہٰذا اس کو پوری طرح سمجھے بغیر ماننا ضروری ہے، جیسے جنت کوپوری طرح سمجھے بغیر ماننا ضروری ہے، جہنم کو بغیر سمجھے ماننا ضروری ہے، تھوڑا بہت تو سمجھیں گے مگر مکمل نہیں سمجھیں گے، ایسے ہی اللہ کی صفات کو تھوڑا بہت تو سمجھیں گے مگر پوری کیفیت نہیں سمجھ سکتے، اس لئے پوری کیفیت سمجھے بغیر ماننا ضروری ہے۔اور یہ جو تم پوچھ رہے ہو کہ اللہ کے عرش پر جم کر بیٹھنے کی کیفیت کیا ہے؟ یہ سوال بدعت ہے، کیونکہ یہ آیتیں آج نہیں اتریں، اور کسی صحابی نے حضور سے نہیں پوچھا ، پھر تم کیوں پوچھتے ہو؟ سب نے یہی جواب دیا ہے، اور یہی اصل سلفیت ہے۔
    لیکن جب حنابلہ میں غلو پیدا ہوا، اور مسلمانوں کے لئے یہ سمجھنا مشکل ہوگیا کہ کاغذبھی قدیم ہے، سیاہی بھی قدیم ہے، جلد بھی قدیم ہے، ہم جو قرآن پڑھتے ہیں وہ بھی قدیم ہے، آپ جو سنتے ہیں وہ بھی قدیم ہے، یہ بات کیسے مسلمانوں کے گلے اترتی! حنابلہ جس طرح مسئلہ کو لے کر آگے بڑھے تھے، اس طرح مسئلہ کوسمجھنا ناممکن تھا اس لئے معتزلہ کا اثر بڑھتا جارہا تھا۔
     پھر عراق میں حضرت امام ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ پیدا ہوئے، امام ابو الحسن اشعری خود پہلے معتزلی تھے، پھر توبہ کرکے اہل السنہ میں آئے تھے، چنانچہ وہ گھر کے بھیدوں سے واقف تھے، اور ماوراء النہر میں حضرت ابو منصور ماتریدی رحمہ اللہ پیدا ہوئے، عراق میں امام ابو الحسن اشعری نے معتزلہ کا مقابلہ کیا اور ماوراء النہر میں ابو منصور ماتریدی نے، اور حنابلہ جس طرح مسئلہ لے کر بڑھے تھے، اس طرح مسئلہ کو کوئی نہیں سمجھ سکتا تھا، چنانچہ ان دونوں اماموں نے کہا کہ اگر آپ اللہ کی صفات کا کوئی مناسب مطلب بیان کریں اور مناسب تاویل کریں تو یہ جائز ہے۔ انھوں نے کہا: عرش نشیں ہونے کا مطلب: کائنات کا کنٹرول سنبھالنا ہے۔ جب انھوں نے یہ مطلب بیان کیاتو غالی حنابلہ نے کہا: یہ شرک ہے، کفر ہے، بس یہ کہو کہ اللہ تخت پر بیٹھے ہیں، ان دونوں اماموں نے کہا: نہیں اگر اس طرح کہیں گے تو بے پینڈے کے لوٹے لڑھک جائیں گے۔ ان کے لئے ذہن کو روک لینا مشکل ہوگا، جو دین میں پکا ہوگا وہ تو اپنے ذہن کو روک لے گا، لیکن جو عقلیت پسند ہے وہ نہیں روک سکتا یا تو وہ معطلہ میں شامل ہوجائے گا اور اللہ کی صفات کا انکار کردے گا یا مشبہہ بن جائے گا اور کہے گا: اللہ کا تخت پر بیٹھنا انسانوں کے بیٹھنے کی طرح ہے یا وہ مجسمہ کی طرف جائے گا کہ اللہ کابھی جسم ہے، اور جیسے جسم والا بیٹھتا ہے اللہ بھی ویسے ہی بیٹھے ہیں، اور یہ سب گمراہیاں ہیں، لہٰذا مناسب تاویل کرنی چاہئے۔ لیکن یقین کے ساتھ نہیں ، درجۂ احتمال میں کہنا چاہئے کہ اللہ نے چھ دن میں کائنات پیدا کرکے ساری کائنات کا کنٹرول خود سنبھالا ہے،جیسے ایک بادشاہ مرتا ہے تو دوسرا بادشاہ تخت پر بیٹھتا ہے، مگر تخت پر بیٹھنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ واقعةً وہ وہاں بیٹھ جاتا ہے، اور ہر وقت بیٹھا رہتا ہے، تخت پر بیٹھنا ایک محاورہ ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ بادشاہ نے ملک کا انتظام سنبھالا، اللہ کے عرش پر بیٹھنے کا بھی یہی مطلب ہے۔
    اسی طرح فرمایا: اللہ تعالیٰ رات کا اتنا حصہ گذرنے پر سمائے دنیا پر اترتے ہیں، اب کوئی پوچھے کہ اللہ کیسے اترتے ہیں؟ تو یہ مت کہو کہ ہم نہیں جانتے، کیونکہ اگر ایسا کہوگے توبیمار ذہن نہیں رکے گا، کچھ نہ کچھ سوچے گا، لہٰذا کوئی پوچھے کہ اللہ کے اترنے کا کیا مطلب ہے؟ تو کہو کہ رات کے اس حصہ میں اللہ کی عنایتیں مخلوق کی طرف مبذول ہوتی ہیں، اب آگے وہ سوچنا چھوڑ دے گا۔
   غرض: اشاعرہ اور ماتریدیہ نے معتزلہ کے پھیلائے ہوئے فتنے کو دبانے کے لئے تاویل کا دروازہ کھولا، اور امام احمد کا انتقال ٢٤١ ھ میں ہوا ہے، امام ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ کا ٣٠٣ھ میں اور امام ابو منصور ماتریدی کا ٣٣٣ھ میں ، پس یہ سب ایک زمانہ کے لوگ ہیں۔
    غرض: حضرت امام احمد سے علم کلام میں جو مسلک چلا اور جس میں حنابلہ نے بعد میں غلو کیا اس کا نام سلفیت پڑا، اور امام ابو منصور ماتریدی سے جو مسلک چلا وہ ماتریدیہ کہلایا، اور امام ابو الحسن اشعری سے جو مسلک چلا وہ اشعریت کہلایا، اور اسی ایک مسئلہ کی وجہ سے یہ سب فرقے وجود میں آئے۔
     رہی اللہ کی صفت ِ کلام تو اگرچہ اس کی بحث ختم ہوگئی تھی مگر اس مسئلہ کی بھی اشاعرہ اور ماتریدیہ نے تاویل کی۔اور یہ کہا کہ' کلام نفسی' قدیم ہے، اورقرآنِ کریم اس کا پیکر محسوس ہے، اس لئے وہ بھی قدیم ہے۔
     اس کی تفصیل یہ ہے کہ ہر چیز کے چار وجود ہوتے ہیں، ان میں سے حقیقی وجود ایک ہوتا ہے، باقی اعتباری وجود ہوتے ہیں، جیسے آگ کا ایک نفس الامری وجود ہے، چولہے میں جو آگ جل رہی ہے: وہ حقیقی آگ ہے، اور ہم جو ذہن میں آگ کا تصور کرتے ہیں: وہ آگ کا وجود ذہنی ہے، اور منہ سے لفظ' آگ' کا جو تلفظ کرتے ہیں: وہ اس کا لفظی وجود ہے، اور کاغذ وغیرہ پر جو لفظ آگ لکھتے ہیں: وہ اس کا کتابی وجود ہے، اور یہ تینوں وجود اعتباری ہیں، اس لئے ان وجودوں پر آثار مرتب نہیں ہوتے، نہ ذہن جلتا ہے، نہ زبان، نہ کاغذ، آثار صرف نفس الامری وجود پر مرتب ہوتے ہیں۔
    اسی طرح کلام کے بھی چار وجود ہیں: ایک نفس الامری وجود ہے: وہی حقیقی وجود ہےباقی تین اعتباری وجود ہیں، اول: کلام نفسی ہے، اور وہ قدیم ہے، اور اس کا مظہر قرآن کریم ہے، اس لئے وہ بھی قدیم ہے، باقی ہم جو قرآن کو لکھتے ہیں یا حفظ کرتے ہیں، یا پڑھتے ہیں: یہ تینوں اعتباری وجود ہیں، اس لئے وہ قدیم نہیں ہیں۔
    مثال کے طور پر قاری صاحب نے قرآن پڑھا اور آپ نے سنا، آپ نے کیا سنا؟ اللہ کا کلام سنا! اللہ کا کلام کیسے سنا؟ آپ نے قاری صاحب کا پڑھنا سنا، قاری صاحب نے کیا پڑھا؟ اللہ کا کلام پڑھا، اس کے بعد آگے سوچو، کیا اللہ کا کلام صرف یہی قرآن ہے؟ دیکھو میں متکلم ہوں، مجھے اللہ نے بولنے کی طاقت دی ہے اور شروع رمضان سے تقریریں کررہا ہوں تو آج کی جو تقریر ہے کوئی یہی میرا کلام تھوڑئے ہے! اسی طرح اللہ کا کلام صرف یہ قرآن نہیں ہے، بلکہ قاری صاحب کا پڑھنا اللہ کی صفت کلام پر دلالت کرتا ہے، اور اللہ کا کلام صرف قرآن نہیں ہے،(وَکَلَّمَ اللّٰہُ مُوْسٰی تَکْلِیْمًا): اللہ نے موسی سے کھل کر بات کی، اللہ جانے وہ بات کیا تھی؟ قرآن نہیں تھا، بہرحال قاری کا پڑھنا قرآن پر دلالت کرتا ہے اور قرآن کریم اللہ کی صفت کلام پر دلالت کرتا ہے، پس یہ جو اللہ کی صفت کلام ہے وہ قدیم ہے اور قرآن کریم صفت ِ کلام کا پیکر محسوس ہے، اس لئے وہ بھی قدیم ہے، باقی اس سے نیچے جو کچھ ہے وہ مخلوق اور حادث ہے۔ جیسے ہم مخلوق ہیں اور ہمارا وجود اللہ کی صفت ِ خلق پر دلالت کرتا ہے، پس ہم قدیم نہیں ہیں، ہمارا وجود جو اللہ کی صفت خلق پر دلالت کرتا ہے وہ صفت قدیم ہے۔
     غرض: اشاعرہ اور ماتریدیہ نے کہا: قدیم : اللہ کی صفت ِ کلام ہے اور وہ کلام نفسی ہے اور اس کا ایک مظہر( پیکر محسوس) قرآن کریم ہے، پس وہ بھی قدیم ہے، مگر یہ قرآن ہمیں نظر نہیں آتا، اس کو حضور نے پڑھ کر سنایا، پس حضور کا پڑھنا حادث ہے، پھر اسے کاغذ پر لکھا گیا تو یہ بھی حادث ہے، پھر اس کو قاری نے پڑھا تو یہ بھی حادث ہے، اور آپ جو سنتے ہیں یہ بھی حادث ہے۔
     یہ جو اس انداز سے متکلمین نے سمجھایا تو حنابلہ( سلفیوں) کے گلے نہیں اترا، انھوں نے کہا: تم مشرک ہوگئے! تم کافر ہوگئے! مگر جس طرح انھوں نے غلو کیا تھا اس کو کون عقیدہ بنائے گا؟ وہ تو اول نمبر کا شرک ہے کہ کاغذ بھی قدیم، سیاہی بھی قدیم، جلد بھی قدیم، پڑھنے والا بھی قدیم سبحان اﷲ، ہذا بہتان عظیم!
      ابن بطوطہ نے اپنے سفر نامے میں ایک واقعہ لکھا ہے کہ وہ دمشق پہنچا، جمعہ کی نماز کے لئے جامع مسجد گیا، نماز کے بعد ایک صاحب تقریر کے لئے منبر پر چڑھے اور وعظ شروع کیا، انھوں نے حدیث بیان کی کہ جب رات کا اتنا حصہ باقی رہ جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ سمائے دنیا پر اترتے ہیں، جب یہ حدیث بیان کی تو ایک شخص نے پوچھا:کیف ینزل؟ اللہ تعالیٰ کیسے اترتے ہیں؟ اس نے یہ کیوں پوچھا؟ آج اگر کوئی مقرر یہ حدیث بیان کرتا ہے تو مجمع میں سے کوئی نہیں پوچھتا، اس وقت کیوں پوچھا؟ یہ ابن تیمیہ کا دور تھا، اور انھوں نے صفات کا یہ مسئلہ چھیڑرکھا تھا، اس لئے کسی نے پوچھا:کیف ینزل؟ واعظ منبر سے نیچے اتر آیا اور کہا: ہکذا ینزل: اس طرح اللہ تعالیٰ اترتے ہیں، ابن بطوطہ لکھتا ہے: لوگوں نے اس کی خوب پٹائی کی، ابن بطوطہ نے لوگوں سے پوچھا: یہ کون بے وقوف ہے؟ لوگوں نے بتایا: یہ ابن تیمیہ ہے۔
    اس واقعہ پر لوگوں نے اعتراض کیا ہے کہ یہ واقعہ غلط ہے کیونکہ جس زمانہ میں ابن بطوطہ دمشق پہنچا ہے اور جتنے دن وہاں رہا ہے ان دنوں میں ابن تیمیہ جیل میں تھے، پھر یہ واقعہ کیسے صحیح ہوسکتا ہے؟
    اس کا جواب: یہ ہے کہ وہ امام ابن تیمیہ  نہیں ہونگے تو کوئی اور ابن تیمی ہوگا، جو ان کے خیالات سے متأثر ہوگا، اور مسافر ان دونوں باتوں میں فرق نہیں کرسکتا، بہرحال یہ جھوٹا واقعہ نہیں، ابن بطوطہ کا سفر نامہ دو جلدوں میں چھپا ہوا ہے، پوری کتاب میں کسی بات پر کسی نے انگلی نہیں اٹھائی، آخر یہی واقعہ ابن بطوطہ نے جھوٹا کیوں لکھ دیا؟
     اس کی نظیر: یہ ہے کہ کوئی شخص دین میں عقلی گھوڑے دوڑاتا ہے تو لوگ کہہ دیتے ہیں: یہ مودودی ہے! یعنی مودودی خیالات سے متأثر ہے، اس لئے اس کو مودودی کہہ دیا جاتا ہے۔ یہی حال اس واعظ ہوگا، وہ چونکہ امام ابن تیمیہ کے خیالات سے متأثر تھا: اس لئے اس کو ابن تیمیہ کہہ دیا ہوگا۔ بہرحال اس کی بات سے امام ابن تیمیہ کے خیالات کی ترجمانی خوب ہوتی ہے۔
      
کلام نفسی کی بات ایک تاویل ہے
       اسی طرح حنابلہ کے اس غلو کو کون صحیح کہے گا کہ اللہ تعالیٰ واقعی عرش پر بیٹھے ہوئے ہیں۔اب صحیح بات کیسے سمجھائی جائے؟ سلف کے زمانہ میں جس طرح بات سمجھائی جاتی تھی اس طرح اب نہیں سمجھائی جاسکتی تھی کہ ہم نہیں جانتے کہ اس کی کیفیت کیا ہے۔ اس لئے اشاعرہ اور ماتریدیہ نے گمراہی پر کنٹرول کرنے کے لئے تاویل کا دروازہ کھولا۔ انھوں نے کہا: اللہ کی صفت ِ کلام نظر آنے والا اور سناجانے والا قرآن نہیں ہے، بلکہ کلام نفسی ہے، اور یہ قرآن صفت ِ کلام کا پیکر محسوس ہے۔ اس لئے یہ بھی اللہ کا کلام ہے اور قدیم ہے۔ سلف یہ سب تفصیل نہیں کرتے تھے، وہ مجمل بات کہتے تھے کہ قرآن اللہ کا کلام ہے، ہمیں بھی بس یہی بات کہنی چاہئے، کلام نفسی اور کلام لفظی کی بحث میں نہیں پڑنا چاہئے۔
    
سلفی، اشعری اور ماتریدی: سب اہل حق ہیں
     بہرحال: میں اشعری بھی ہوں ماتریدی بھی، اور سلفی بھی، کیونکہ ان تینوں میں کوئی جھگڑا نہیں، یہ تینوں اہل حق ہیں، لیکن آج کے جو سلفی ہیں وہ اہل حق نہیں، وہ امام احمد رحمہ اللہ کے بعد غلو میں مبتلا ہوگئے ہیں، امام احمد رحمہ اللہ تک جو سلفی تھے وہی اصلی سلفی تھے، اور بعد کے لوگ نام نہاد سلفی ہیں۔
      اوردیوبندمیں تینوں مکاتب فکر کی کتابیں نصاب میں داخل ہیں، امام طحاوی رحمہ اللہ کی عقیدة الطحاوی بہت پہلے کی کتاب ہے، یہ کتاب سلف کے مسلک کی ترجمانی کرتی ہے، دیوبندمیں سب سے پہلے یہ کتاب پڑھائی جاتی ہے، پھر شرح عقائد نسفی پڑھائی جاتی ہے، اس کا متن:العقائد النسفیہ:عمرنسفی ماتریدی کا ہے، اور شارح علامہ سعد الدین تفتازانی شافعی: اشعری ہیں، اس طرح تینوں مکاتب فکر کی کتابیں دیوبندمیں پڑھائی جاتی ہیں، کیونکہ تینوں مسلک برحق ہیں۔
      
فقہی مکاتب فکرمیں سے چار ہی مکاتب فکربرحق ہیں:
       یہ تو علم کلام کی تفصیل تھی کہ امت میں کس طرح بحثیں ہوئیں اور کس طرح فرقے وجود میں آئے۔ اب مسائل میں آؤ۔ آپ جانتے ہیں کہ مسائل فقہیہ کے بھی اصول ہیں، وہ اصول کیا ہیں؟ اس میں اختلاف ہوا ہے۔ پس اگر اصول صحیح ہیں تو فقہ صحیح ہے، اور اگر اصول غلط ہیں تو فقہ بھی غلط ہے۔
       اہل السنہ والجماعہ کے نزدیک اصول شرع کیا ہے؟ نور الانوار کے شروع میں ہے:  اعلم أن أصول الشرع ثلثة: کتابُ اللّٰہ، وسنةُ رسولِہ، وجماع الأمة، والأصل الرابع: القیاس المُسْتَنْبِطُ من ہذہ الأصول الثلاثة: یہ بات جان لو کہ شریعت( فقہ وکلام) کے اصول تین ہیں: اللہ کی کتاب، اللہ کے رسول کی سنت اور اجماع امت اور چوتھی اصل وہ قیاس ہے جس کے ذریعہ ان تین اصولوں میں سے مسائل نکالے جاتے ہیں۔
       اب آگے چلو، سب سے پہلے ایک فرقہ پیدا ہوا، اس نے کہا:حسبنا کتابُ اللّٰہ: ہمارے لئے قرآن کافی ہے، اس سے آگے ہم کوئی چیز نہیں مانتے، یہ فرقہ خود کو اہل قرآن کہتا ہے، پس یہ فرقہ جو صرف قرآن کو مانتا ہے اس کی فقہ کیسے برحق ہوسکتی ہے؟ اصول تو تین ہیں، ان میں سے جو صرف قرآن کو مانتا ہے: اس کی فقہ کیسے برحق ہوسکتی ہے؟
       دوسرا فرقہ کہتا ہے: قرآن کے بعد حدیثیں حجت ہیں، آگے کوئی چیز حجت نہیں، یہ فرقہ خود کو اہل حدیث کہتا ہے، یہ فرقہ چونکہ سنت کو اور اجماع کو حجت نہیں مانتا: اس لئے اس کی فقہ ( فقہ ظاہری) کیسے برحق ہوسکتی ہے؟
        اور اہل السنہ والجماعہ کہتے ہیں: قرآن کے بعد حدیث حجت نہیں، سنت حجت ہے، اور حدیث اور سنت میں فرق میں نے گذشتہ تقریر میں سمجھایا ہے، پھر تیسری اصل اجماع امت ہے، یہ بھی حجت شرعیہ ہے، اِن حضرات کا نام اہل السنہ والجماعہ ہے۔
        پس جو صرف قرآن کو اصل مانتے ہیں اور انھوں نے جو فقہ تیار کی ہے وہ برحق نہیں، اور جو قرآن کے ساتھ حدیث کو بھی حجت مانتے ہیں، انھوں نے جو فقہ تیار کی ہے وہ بھی برحق نہیں ، کیونکہ ان کے اصول صحیح نہیں، اور اہل السنہ والجماعہ کی فقہ چار حصوں میں تقسیم ہوگئی: حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی ، یہ چاروں فقہیں برحق ہیں، کیونکہ ان کے اصول صحیح ہیں، یہ حضرات قرآن کو بھی حجت مانتے ہیں، سنت کو بھی، اجماع کو بھی اور قیاس کو بھی، اور قیاس تین اصولوں سے الگ کوئی چیز نہیں ، وہ توایک آلہ ہے اس کے ذریعہ سے تین اصولوں( قرآن، سنت اور اجماع) سے مسائل نکالے جاتے ہیں ۔اہل حق وہ ہیں جو دونوں سلسلوں سے برحق ہوں:
      اب سمجھو: عقائد میں برحق تین فرقے ہیں: اشاعرہ، ماتریدیہ اور امام احمد رحمہ اللہ تک کے سلفی، آج کے یہ سلفی نہیں، یہ تو امام احمد کے بعد غلو کرنے والے سلفی ہیں، یہی تین جماعتیں برحق ہیں، ان کے علاوہ سب گمراہ ہیں۔
       اور فقہ میں چار جماعتیں برحق ہیں: حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی: پس جب دونوں طرف سے حق پرجمع ہونگے تو مکمل برحق ہوں گے، عقائد میں اشعری ، ماتریدی یا سلفی ہوں، اور فقہ میں حنفی، مالکی، شافعی یا حنبلی ہوں تو وہ مکمل طور پر برحق ہیں، اور اگر ایک سلسلہ سے برحق ہے اور دوسرے سلسلہ سے گمراہ تو وہ کریلا نیم چڑھا ہے۔ مثلاً: عقائد میں تینوں میں سے کچھ نہیں اور فقہ میں چار میں سے ایک ہے، جیسے علامہ جار اللہ زمخشری عقائد میں معتزلی تھے، اور فقہ میں حنفی، پس وہ کریلا نیم چڑھاتھے، اسی طرح ہندوستان کے وہ سلفی( غیر مقلد) جو سعودیہ میں پیٹرول نکلنے سے پہلے اشعری تھے اور فقہ میں ظاہری تھے: وہ برحق نہیں ، وہ بھی کریلا نیم چڑھا ہیں۔
    ہندوستان کے غیر مقلد: سلفی کب سے بنے اور کیوں بنے؟
     امام ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ: شافعی تھے، اس لئے دنیا کے تمام شوافع اشعری ہیں، اور امام ابو منصور ماتریدی: حنفی تھے، اس لئے دنیاکے تمام حنفی ماتریدی ہیں، اور سلفیت امام احمد سے چلی ہے جس طرح حنبلیت ان سے چلی ہے، اس لئے تمام حنبلی : سلفی ہیں، اور مالکیہ میں تینوں مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے ہیں۔
    غرض: سعودیہ والے فقہ میں حنبلی ہیں اور علم کلام میں سلفی، پھر وہاں پیٹرول نکل آیا تو ہندوستان کے غیر مقلدین نے خود کو سلفی کہناشروع کردیا حالانکہ پہلے ان کا ہر عالم خود کو اشعری لکھتا تھا، ماتریدی وہ کبھی نہیں رہے، کیونکہ حنفیہ سے ان کو اللہ واسطے کی دشمنی ہے، اس لئے وہ ماتریدی نہیں ہوسکتے تھے، ہاں اشعری ہوسکتے تھے، کیونکہ امام ابو الحسن اشعری شافعی تھے، اور غیر مقلدوں کے شوافع سے فقہ میں ڈانڈے ملتے ہیں۔ شوافع بھی رفع یدین کرتے ہیں وہ بھی کرتے ہیں، شوافع بھی امام کے پیچھے فاتحہ پڑھتے ہیں: وہ بھی پڑھتے ہیں، شوافع بھی آمین بالجہر کے قائل ہیں: وہ یہ بھی یہی کہتے ہیں، چنانچہ وہ علم کلام میں اشعری بن گئے اور وہ خود کو اشعری کہتے اور لکھتے تھے۔
     پھر جب انھوں نے دیکھا کہ اب سلفی بنے بغیر چارہ نہیں، یہ لبادہ اوڑھے بغیر ریال ہاتھ نہیں آسکتے تو انھوں نے اشعریت کا لبادہ اتار پھینکا اور سلفی بن گئے اور سعودیہ والے بے چارے دھوکہ میں آگئے، وہ سمجھے کہ یہ بھی ہمارے جیسے سلفی ہیں، حالانکہ وہ نقلی سلفی ہیں۔
      غرض مسئلہ میں یہ سمجھارہا تھا کہ اہل حق کون ہیں؟ جو عقائد میں تین میں سے ایک ہو، اور فقہ میں چار میں سے ایک ہو، وہی مکمل طور پر اہل حق ہیں، اور اگر ایک طرف سے اہل حق میں سے ہو، اور دوسری طرف سے اہل باطل میں سے تو وہ کریلا نیم چڑھا ہے، اور اگر دونوں طرف سے اہل باطل میں سے ہو تو اس سے اللہ کی پناہ!
  
   خلاصہ کلام:
     اب آخر میں دو باتیں سنو!
      پہلی بات: سب سے پہلا سلفی میں ہوں، لیکن میں اشعری بھی ہوں، اور ماتریدی بھی، تینوں کس طرح جمع ہوسکتے ہیں؟ اس طرح کہ اللہ کی تمام صفات کو جو قرآن وحدیث میں آئی ہیں: میں مانتا ہوں، قرآن میں ہے:(أَأَمِنْتُمْ مَنْ فِیْ السَّمَآء): پس میں مانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آسمان میں ہیں، چنانچہ ہم جب بھی کہتے ہیں: اللہ نے یہ فرمایا تو ہم انگلی اوپر کی طرف کرتے ہیں، زمین کی طرف نہیں کرتے، مگر اللہ کے آسمان میں ہونے کی کیفیت کیا ہے؟ یہ میں نہیں جانتا، اسی طرح اللہ تعالیٰ عرش نشیں ہیں، اللہ کا عرش بھی مانتا ہوں، اللہ کے عرش پر بیٹھنے کو بھی مانتا ہوں لیکن کوئی پوچھے کہ اس کی کیفیت کیا ہے؟ تو میں یہ بات نہیں جانتا، اسی طرح اللہ کا چہرہ بھی ہے، ہاتھ بھی ہے، پنڈلی بھی ہے، میں یہ سب باتیں مانتا ہوں، مگر کوئی پوچھے کہ وہ کیسے ہیں؟ تو میں یہ بات نہیں جانتا۔
     پس میرا مذہب تنزیہ مع التفویض ہے، تنزیہ کا مطلب ہے: اللہ کی مخلوق کی مشابہت سے پاکی بیان کرنا، پس کہیں گے: اللہ کا ہاتھ ہمارے ہاتھ جیسا نہیں ، اللہ کا چہرہ ہمارے چہرے جیسا نہیں، اور تفویض کا مطلب ہے: صفات کی کیفیت کو اللہ کے حوالہ کرنا۔ یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ ہی اپنی صفات کو بہتر جانتے ہیں۔ یہی اصل سلفیت ہے، اور علمائے دیوبند اسی کے قائل ہیں۔ لیکن بیمار ذہنوں کو مطمئن کرنے کے لئے میں اللہ کی صفات کی مناسب تاویل کو بھی جائز کہتا ہوں، یعنی درجۂ احتمال میں مطلب بیان کرنے کو بھی جائز کہتا ہوں، مگر ضروری نہیں کہتا، پس اگر کوئی کہے:(کُلُّ مَنْ عَلَیْہَا فَانٍ، وَیَبْقَی وَجْہُ رَبِّکَ ذُوْالْجَلاَلِ وَالِکْرَامِ): زمین پر جو کچھ ہے وہ ختم ہونے والا ہے، اور تیرے پروردگار ذوالجلال والاکرام کا چہرہ ہی باقی رہنے والا ہے، یعنی اللہ کی ذات ہی باقی رہے گی تو ایسا کہنا جائز ہے، صرف جائز ہے فرض نہیں، کیونکہ تاویل تو درجہ احتمال میں ہوتی ہے، وہ فرض وواجب نہیں ہوتی، اسی طرح جب پنڈلی کھولی جائے گی اور لوگوں کو حکم دیا جائے گا کہ اللہ کو سجدہ کریں، تو کافر سجدہ نہیں کرسکیں گے یعنی جس دن اللہ کی خاص تجلی ظاہر ہوگی، اور میدان محشر میں لوگوں سے کہا جائے گا کہ اس تجلی کے سامنے سجدہ کرو تو جنھوں نے دنیا میں اللہ کو سجدہ کیا ہوگاوہی سجدہ کریں گے اور جنھوں نے دنیا میں اللہ کو سجدہ نہیں کیا یعنی کفار وہ اس تجلی کے ظاہر ہونے پر سجدہ نہیں کرسکیں گے۔ غرض پنڈلی کو تجلی سے تعبیر کرنا جائز ہے، اگر ایسا مطلب بیان کیا جائے تو سننے والے جو بیمار ذہن رکھتے ہیں وہ یہیں رک جائیں گے، اس سے آگے اِدھر اُدھر کی نہیں سوچیں گے۔
     پس بات کا خلاصہ یہ ہے کہ آج کل کے سلفی، چاہے وہ ظاہری ہوں یا سعودیہ والے حنبلی سلفی: سب امام احمد رحمہ اللہ کے بعد غلو میں مبتلا ہوچکے ہیں، وہ غلو کرتے ہوئے یہاں تک پہنچ گئے ہیں کہ ان کے نزدیک سارے عقیدے اور سارا علم کلام انہی دو باتوں میں منحصر ہوگیا ہے کہ اللہ کو عرش پر بیٹھا ہوا مانو، اور اللہ کو آسمان دنیا پر اترتا ہوا مانو تبھی تم مسلمان ہو، ورنہ تم مسلمان نہیں!
     دوسری بات: تین فرقے علم کلام میں برحق ہیں اور چار فقہیں برحق ہیں، پس جو بھی ان چار سے خارج ہوگا وہ اہل حق میں سے نہیں ہوگا، اور جو بھی ان تین سے خارج ہوگا وہ بھی اہل حق میں سے نہیں ہوگا۔ اور آج کے سلفی ان تین میں سے نہیں، اصلی سلفی اور تھے ، اور یہ سلفی اور ہیں، وہ لوگ سلفی نہیں ہیں جو اللہ کے لئے جسم مانتے ہیں، اللہ کو مخلوق کے مشابہ مانتے ہیں، اللہ کے لئے جہت مانتے ہیں، اور اللہ کے لئے مکان مانتے ہیں۔
    
اللہ کہاں ہیں؟
      گجرات کے ایک بڑے عالم حج یا عمرہ کے لئے مکہ مکرمہ گئے، امام حرم سے ملاقات ہوئی، انھوں نے اپنا تعارف کرایا، امام حرم نے پوچھا:أَیْنَ اللّٰہ؟ اللہ کہاں ہیں؟ وہ عالم خاموش رہے۔ میں نے ان سے کہا: آپ نے فوراً جواب کیوں نہ دیا کہ ھو فی السماء، لقولہ تعالیٰ:( أَأَمِنْتُمْ مَنْ فِیْ السَّمَآء): اللہ تعالیٰ آسمان میں ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے: کیا تم لوگ ان سے بے خوف ہوگئے جو کہ آسمان میں ہے؟ پھراگر امام صاحب پوچھتے کہ کیف ھو فی السماء:  وہ آسمان میں کس طرح ہیں؟ تو آپ جواب دیتے: لا أدری: میں نہیں جانتا۔
      اس واقعہ سے مجھے بتلانا یہ ہے کہ سعودیہ والے حنبلیوں کے نزدیک معیار حق یہی رہ گیا ہے کہ اللہ کو آسمان میں مانا جائے اور کوئی تاویل نہ کی جائے، جب کوئی تاویل نہیں کی جائے گی تو خود بخود ذہن جہت ومکانیت کی طرف سبقت کرے گا۔
       
مچھلی کے ڈبّے پر مذبوح کا لیبل!
        اور ایک عجیب بات آخر میں یہ عرض کردوں کہ آج کل سلفیت سے علم کلام کی سلفیت مراد نہیں لی جاتی، بلکہ ظاہریت( عدم تقلید) مراد لی جاتی ہے، یہ عجیب دھوکہ ہے، ہم نے ایک مرتبہ مکہ مکرمہ میں مچھلی کا پکا ہوا ڈبہ خریدا، اس پر لیبل لگا ہوا تھا:مذبوح علی طریقة السلام: اسلامی طریقے پر ذبح کیا ہوا۔ میں نے دوکاندار سے پوچھا: یہ کیا؟ اس نے جواب دیا: کسٹم کے آفیسر جاہل ہوتے ہیں، وہ اس لیبل کے بغیر گوشت کا کوئی آئیٹم ملک میں نہیں آتے دیتے، اس لئے یہ لیبل لگایا ہے۔
     خواہ یہ وجہ ہو یا کوئی اور وجہ : بہرحال یہ لیبل ایک دھوکہ ہے، اسی طرح غیر مقلدین نے اپنی ظاہریت پر سلفیت کا لیبل لگایا ہے، اور اپنا کھوٹا مال چلایا ہے، اس لئے تمام مسلمانوں کو ہوشیار رہنا چاہئے، اور ان سلفیوں کے فریب میں نہیں آنا چاہئے۔
وآخر دعوانا أن الحمدﷲ رب العالمین

خطاب از مفتی سعید احمد پالن پوری شیخ الحدیث و صدر المدرسین دار العلوم دیوبند

بشکریہ : مکتبہ حجاز ۔ دیوبند

1 تبصرے comments:

محمد لقمان لغاری نے لکھا ہے کہ

بہت ہی عمدہ

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔