Monday 30 March 2015

کیا دین کو سمجھنے کے لئے کسی ماہر کی رہ نمائی کی کوئی ضرورت نہیں ؟ ؟ ؟ ؟ ( تقلید کیوں ؟؟؟)


سوال :
آج کل عام مسلمانوں میں ایک رجحان یہ پایا جارہا ہے کہ کسی ایک متعین مذہب کو ماننے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ایسے لوگوں کی دلیل یہ ہوتی ہے کہ نبي صلى الله عليه وسلم  اور صحابہٴ کرام کے زمانہٴ مبارک میں کسی مذہب کا وجود نہیں تھا۔ ان کے مطابق ،اللہ نے قرآن کو پڑھنے اور سمجھنے کے لیے آسان کردیا ہے، لہٰذا کسی ماہر کی رہ نمائی کی کوئی ضرورت نہیں۔ براہ کرم، اس سلسلے میں اپنی فاضلانہ رائے سے نوازیں۔

  Answer: 426 (فتوى: 193/م=192/م)
نفسِ تقلید تو قرآن و حدیث اور صحابہ کے اقوال و عمل سے ثابت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: فَاسْئَلُوْا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ o ?اگر تم کوعلم نہیں تو دوسرے اہل علم سے پوچھ دیکھو? (النحل) اور حدیث میں ہے: فإنما شفاء العي السوٴال? کہ درماندہ اور عاجز شخص کی شفا دوسرے سے پوچھ لینے میں ہے? (ابوداوٴد) یعنی جو لوگ احکام کو نہیں جانتے، وہ جاننے والوں سے پوچھ کر عمل کریں اور نہ جاننے والوں پر فرض ہے کہ جاننے والوں کے بتلانے پر عمل کریں، اسی کا نام تقلید ہے اور یہ قرآن وحدیث کا واضح حکم ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ میں صحابہٴ کرام آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد عام صحابہ، بڑے اور فقہائے صحابہ سے رجوع فرماتے تھے۔ اسی طرح ائمہ اور تابعین عظام، صحابہ کرام سے معلوم کیا کرتے تھے، صحابہ کرام کے زمانے میں باضابطہ کوئی متعین مذہب اور مستقل مسلک اس لیے نہیں تھا کہ اس کی ضرورت نہیں تھی، خیرالقرون کا دور تھا، نیتوں میں اخلاص تھا، خودرائی اور خودغرضی نہیں تھی، لوگ اپنی مرضی اور اتباع نفس کے بجائے صحابہٴ کرام -رضوان اللہ علیہم اجمعین -سے پوچھ پوچھ کر عمل کیا کرتے تھے اور رخصتوں کے بجائے عزیمت پر عمل کی کوشش کرتے تھے، باوجودیکہ وہ حضرات علم و تقویٰ کے اعلیٰ معیار پر فائز تھے۔ ?خیرالقرون کے بعد روز بروز علم کا معیار گھٹتا گیا اور تقویٰ و خدا ترسی کے بجائے اغراض نفسانی غالب آنے لگیں، ایسی حالت میں اگر یہ آزادی دی جائے کہ جس مسئلہ میں چاہیں کسی ایک امام کا قول اختیار کرلیں اور جس میں چاہیں کسی دوسرے کا قول لے لیں، تو اس کا لازمی اثر یہ ہونا تھا کہ لوگ اتباع شریعت کا نام لے کر اتباعِ ہویٰ میں مبتلا ہوجائیں کہ جس امام کے قول میں اپنی غرض نفسانی پوری ہوتی نظر آئے اس کو اختیار کرلیں اور یہ ظاہر ہے کہ ایسا کرنا کوئی دین و شریعت کا اتباع نہیں ہوگا، بلکہ اپنی اغراض و اہواء کا اتباع ہوگا ، جو باجماعِ امت حرام ہے۔ علامہ شاطبی -رحمة اللہ علیہ- نے موافقات میں اس پر بڑی تفصیل سے کلام کیا ہے اور ابن تیمیہ نے بھی عام تقلید کی مخالفت کے باوجود اس طرح کے اتباع کو اپنے فتاویٰ میں باجماعِ امت حرام کہا ہے۔ اس لیے فقہائے متأخرین نے یہ ضروری سمجھا کہ عمل کرنے والوں کو کسی ایک ہی امام مجتہد کی تقلید کا پابند کرنا چاہیے۔ یہ درحقیقت ایک انتظامی حکم ہے، اس کی مثال بعینہ وہ ہے جو حضرت عثمان غنی -رضی اللہ عنہ- نے باجماع صحابہ قرآن کے سبعہ احرف (یعنی سات لغات) میں سے صرف ایک لغت کو مخصوص کردینے میں کیا۔ اگرچہ ساتوں لغات قرآن ہی کے لغات تھے، لیکن جب قرآن کریم عجم میں پھیلا اور مختلف لغات میں پڑھنے سے تحریف قرآن کا خطرہ محسوس کیا گیا تو انتظام دین اور حفاظت قرآن از تحریف کی بنا پر صرف ایک لغت کو اختیار کرلیا گیا، اسی طرح ائمہ مجتہدین سب حق ہیں، ان میں سے کسی ایک کو تقلید کے لیے معین کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ جس امام معین کی تقلید کسی نے اختیار کی ہے اس کے نزدیک دوسرے ائمہ قابل تقلید نہیں بلکہ دوسرے ائمہ بھی اس کے نزدیک واجب الاحترام ہیں۔? (معارف القرآن:ج:5، ص:345) پھر قرآن و حدیث میں بہت سے امور تو ایسے ہیں جن میں نہ کسی کا اختلاف ہے نہ اختلاف کی گنجائش ہے، لیکن بہت سے امور ایسے ہیں کہ ان کا حکم صاف قرآن کریم یا حدیث نبوی -صلی اللہ علیہ وسلم- میں مذکور نہیں۔ ایسے امور کا شرعی حکم دریافت کرنے کے لیے گہرے علم، وسیع نظر اور اعلیٰ درجہ کی دیانت و امانت درکار ہے، ظاہر ہے کہ ایک عام آدمی میں اتنی علمی بصیرت اور اجتہادی شان نہیں کہ وہ از خود ان امور کا حکم معلوم کرلے۔ اس لیے لامحالہ انھیں ایسے امور میں راہنمائی حاصل کرنے اور مذکورہ صفات و صلاحیتوں کے حامل ائمہ حضرات کی تقلید لازم و ضروری ہے۔

رہی یہ بات کہ چاروں ائمہ میں سے ایک ہی کی تقلیدکیوں ضروری ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسائل دو قسم کے ہیں: اول مختلف فیہ، دوم متفق علیہا۔ مسائل متفق علیہا میں تو سب کا اتباع ہوگا۔ اور مختلف فیہا میں تو سب کا اتباع نہیں ہوسکتا، بعض کا ہوگا بعض کا نہ ہوگا۔ لہٰذا ضروری ہے کہ کوئی وجہ ترجیح ہو، سو اللہ نے اتباع کو انابت الی اللہ پر معلق فرمایا (وَاتَّبِعْ سَبِیْلَ مَنْ اَنَابَ اِلَیَّ...) الآیة جس امام کی انابت الی اللہ زائد معلوم ہوگی اس کا اتباع کیا جائے گا۔ اور زیادہ انابت کی تحقیق دو طرح ہوسکتی ہے: تفصیلاً یا اجمالاً۔ بالتفصیل تحقیق میں چونکہ حرج اور تکلیف ما لا یطاق ہے اس لیے اجمالاً جس امام کے مجموعہ حالات سے یہ ظن غالب و اعتقاد راجح ہو کہ یہ منیب و مصیب ہے اس کا اتباع اختیار کیا جائے گا۔ (مزید تفصیل کے لیے فتاویٰ محمودیہ: ج:۵، ص:۲۹۱)
واللہ تعالیٰ اعلم

0 تبصرے comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔