Monday 30 March 2015

۱) اماموں کی تقلید کیوں ضروری ہے (۲)صرف ایک ہی امام کی تقلید کیوں ضروری ہے؟ (۳)جب آپ کو صحیح احادیث مل جائیں تو پھر کسی امام کی تقلید ضروری کیوں؟ (۴)کیا امام بخاری ، امام مسلم، ابوداؤد ، ترمذی ، ابن ماجہ رحمہم اللہ بھی تقلید کرتے تھے؟ اگر ہاں! تو کس امام کی؟(حوالہ کے ساتھ) ۔ (۵)کیا کسی امام نے اپنی تقلید کرنے کے لیے کہاہے؟


سوال :
میں ہندوستانی ہوں اور عمان میں کام کر رہا ہوں۔ تقلید کے سلسلے میں کچھ سوالات ہیں ۔ میں امام ابوحنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کی تقلید کر تا ہوں، لیکن یہاں آنے کے بعد میرے کچھ احباب جو پہلے مقلدتھے اب وہ اپنے آپ کو صرف اہل حدیث کہتے ہیں۔ میں نے دارلعلوم دیوبند کی ویب سائٹ میں موجود فتوؤں کے حوالے سے انہیں سمجھانے کی کوشش کی مگربے سود۔براہ کرم، میرے ان سوالا ت کا جواب دیں۔
(۱) اماموں کی تقلید کیوں ضروری ہے؟ اس سلسلے میں قرآن وحدیث کے حوالے تحریر فرمائیں۔ 
(۲)صرف ایک ہی امام کی تقلید کیوں ضروری ہے؟
(۳)جب آپ کو صحیح احادیث مل جائیں تو پھر کسی امام کی تقلید ضروری کیوں؟
(۴)کیا امام بخاری ، امام مسلم، ابوداؤد ، ترمذی ، ابن ماجہ رحمہم اللہ بھی تقلید کرتے تھے؟ اگر ہاں! تو کس امام کی؟(حوالہ کے ساتھ) ۔
(۵)کیا کسی امام نے اپنی تقلید کرنے کے لیے کہاہے؟ اگر ہاں! تو اس کی وضاحت کریں اور نہیں تو پھر تقلید کیوں کی جائے؟  براہ کرم، باحوالہ جواب دیں۔

 Answer: 4248  فتوی: 613=43/ ل :
اسلامی شریعت کی اصلاً تین بنادیں ہیں: (۱) کتاب اللہ۔ (۲) سنت رسول اللہ۔ (۳) اجماع امت۔
کتاب اللہ، اصل الاصول ہے۔ سنت، کتاب اللہ کی تشریح ہے اور اجماع امت، بعض سنت کا بیان ہے۔ کتاب وسنت کے احکام کی کوئی نہ کوئی علت ضرور ہوتی ہے، البتہ کبھی وہ علت ظاہر ہوتی ہے اور کبھی مخفی، مخفی علتوں کو متعین کرنا بہت دشوار ہے، اس کام کے لیے بڑی دقت نظر کی ضرورت ہوتی ہے، امت کے بعض اہل اللہ سے اللہ نے یہ خدمت لی، جن کی قرآن و حدیث اور مزاج شریعت پر گہری اور پوری نظر تھی، امت کا سواد اعظم سلفاً و خلفاً قرناً بعد قرنٍ ان کی امامت اور جلالت شان کا قائل ہے، مخفی علتوں کو متعین کرکے نئے نئے مسائل کے احکام معلوم کرنے کا نام اجتہاد ہے، اور علل مطلقہ پر غیرمنصوص مسائل کو منطبق کرکے علت مشترکہ کی بنا پر منصوص حکم کو غیرمنصوص کے لیے ثابت کرنے کا نام قیاس ہے پس قیاس کی بنیاد کتاب وسنت اور اجماع امت ہی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ائمہ کے مجتہدات (اجتہادی مسائل) یعنی فقہ در حقیقت حدیث ہی کا نتیجہ ہیں حدیث کے مقابل کوئی نئی چیز نہیں ہے نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اجتہاد اور قیاس کرنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں جبکہ مسائل پر خواہ قدیم ہوں یا جدید شرعاً عمل کرنا ضروری ہے اس لیے امت کے قابل اعتبار علمائے دین کا کسی ایک امام کی تقلید پر اجماع ہے خصوصاً اس زمانے میں جبکہ شریعت پر عمل کرنے کے لیے ہمتیں پست ہیں نفس میں خواہشات کا دخل ہے اور خود رائی کا غلبہ ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اس کی اہمیت کے پیش نظر لکھتے ہیں: اعلم أن في الأخذ بہذہ المذاہب الأربعة مصلحةعظیمة وفي الاعراض عنہا کلہا مفسدة کبیرة (عقد الجید: ۳۶/ط، لاہور)

(۲) اگر آدمی کو بالکل آزاد چھوڑ دیا جائے کہ وہ جس مذہب اور جس امام کی پیروی کرنا چاہے پیروی کرے تو چونکہ اس زمانہ میں خواہشات کا غلبہ ہے، آدمی اپنی غرض اور خواہش کے مطابق جو صورت ہرمذہب میں سے اپنے مطلب کی پاوے گا اختیار کرلے گا، اور جو اس کے مطلب کے خلاف ہوگا اس کو نہ مانے گا، ایسی صورت میں دین تو رہے گا نہیں، غرض اور نفس پرستی رہ جائے گی، اسی وجہ سے علماء نے ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک کی تقلید کو لازم اور ضروری قرار دیا ہے، علامہ ابن تیمیہ تقلید شخصی کو ضروری تحریر فرماتے ہوئے لکھتے ہیں: في وقت یقلدون من یفسد النکاح وفي وقت یقلدون من یصححہ بحسب الغرض والہوی ومثل ہذا لا یجوز یعنی یہ لوگ کبھی اس امام کی تقلید کرتے ہیں جو نکاح کو فاسد قرار دیتا ہے اور کبھی اس امام کی جو اس کو درست قرار دیتا ہے اپنی غرض اور خواہش کے مطابق او راس طرح عمل کرنا بالاتفاق ناجائز ہے (فتاویٰ ابن تیمیہ: ج۲ ص۲۴۰ بحوالہ فتاویٰ رحیمیہ: ج۴ ص۱۹۱)

(۳) حدیث کا فی نفسہ صحیح ہونا عمل کے لیے کافی نہیں جب تک یہ معلوم نہ ہوجائے یہ حدیث غیرمنسوخ وغیرموٴل ہے۔

(۴) الکلام المفید فی اثبات التقلید میں بعنوان ?حضرات مصنّفین صحاح ستہ? ان کے مسلک کو بحوالہ ذکر کیا ہے، اس کا مطالعہ کیا جائے۔

(۵) ائمہ اربعہ کے اقوال مختلف کتابوں میں موجود ہیں جن میں ان حضرات نے واضح طور پر کہا ہے کہ ہماری ہر اس بات کو مانو جو قرآن وسنت کے موافق ہو اور جو خلاف ہوجائے اس کو مت مانو، مطلب یہ ہوا کہ وہ اپنے اقوال پر عمل کی ترغیب دے رہے ہیں اور یہ بھی بتارہے ہیں کہ ان کے اقوال قرآن وسنت کی مخالفت نہیں کرتے، پس اس سے ان کی تقلید کا حکم ان کے اپنے اقوال سے ثابت ہوا۔
واللہ تعالیٰ اعلم



واللہ تعالیٰ اعلم



0 تبصرے comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔