Thursday 19 March 2015

واقعہ قرطاس ۔ ۔ ۔

واقعہ قرطاس  ۔ ۔ ۔

بیماری کا بڑا مشہور واقعہ قرطاس کا واقعہ ہے جس کی تفصیل یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے وفات سے تین روز پہلے قلم اور دوات طلب کیا۔ اور فرمایا کہ میں تمہارے لئے ایسی چیز لکھوں گا کہ تم آئندہ گمراہ نہ ہو گے۔ ” اس پر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لوگوں کی طرف مخاطب ہو کر کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو درد کی شدت ہے اور ہمارے لئے قرآن کافی ہے۔ حاضرین میں سے بعضوں نے کہا کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بہکی باتیں کر رہے ہیں۔ ” [نعوذ باللہ] روایت میں ہجر کا لفظ ہے جس کے معنی ہذیان کے ہیں۔

یہ واقعہ بظاہر تعجب انگیز ہے۔ ایک معترض کہہ سکتا ہے کہ اس سے گستاخی اور سرکشی ہو گی کہ جناب رسول صلی اللہ علیہ و سلم بستر مرگ پر ہیں اور امت کے درد و غمخواری کے لحاظ سے فرماتے ہیں کہ ” لاؤ میں ایک ہدایت نامہ لکھ دوں جو تم کو گمراہی سے محفوظ رکھے۔ یہ ظاہر ہے کہ گمراہی سے بچانے کے لیے جو ہدایت ہو گی وہ منصب نبوت کے لحاظ سے ہو گی۔ اور اس لئے اس میں سہو و خطا کا احتمال نہیں ہو سکتا۔ باوجود اس کے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بے پروائی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کچھ ضرورت نہیں ہم کو قرآن کافی ہے۔ طرہ یہ کہ بعض روایتوں میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے اس ارشاد کو ہذیان سے تعبیر کیا تھا۔ [نعوذ باللہ]۔

یہ اعتراض ایک مدت سے چلا آتا ہے۔ اور مسلمانوں کے دو مختلف گروہوں نے اس پر بڑی طبع آزمائیاں کی ہیں۔ لیکن چونکہ اس بحث میں غیر متعلق باتیں چھڑ گئیں۔ اور اصول درایت سے کسی نے کام نہیں لیا۔ اس لئے مسئلہ نا منفصل رہا اور عجیب عجیب بیکار بحثیں پیدا ہو گئیں۔ یہاں تک کہ یہ مسئلہ چھڑ گیا کہ پیغمبر سے ہذیان ہونا ممکن ہے۔ کیونکہ ہذیان انسانی عوارض میں ہے۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم عوارض انسانی سے بری نہ تھے۔

یہاں دراصل یہ امر غور طلب ہے کہ جو واقعہ جس طریقے سے روایتوں میں منقول ہے اس سے کسی امر پر اسثناد ہو سکتا ہے یا نہیں؟ اس بحث کے لیے پہلے واقعات ذیل کو پیش نظر رکھنا چاہیے :

[۱] آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کم و بیش 13 دن تک بیمار رہے۔

[۲] کاغذ و قلم دوات طلب کرنے کا واقعہ جمعرات کے دن کا ہے جیسا کہ صحیح بخاری و مسلم میں بہ تصریح مذکور ہے۔ اور چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے دو شنبہ کے دن انتقال فرمایا۔ اس لئے اس واقعہ کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم چار دن تک زندہ رہے۔

[۳] اس تمام مدت بیماری میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی نسبت اور کوئی واقعہ اختلال حواس کا کسی روایت میں کہیں مذکور نہیں۔

[۴] اس واقعہ کے وقت کثرت سے صحابہ موجود تھے۔ لیکن یہ حدیث باوجود اس کے بہت سے طریقوں سے مروی ہے۔ [چنانچہ صرف صحیح بخاری میں سات طریقوں سے مذکور ہے۔ ] باایں ہمہ بجز عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اور کسی صحابی سے اس واقعہ کے متعلق ایک حرف بھی منقول نہیں۔

[۵] عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عمر اس وقت صرف 13 – 14 برس کی تھی۔

[۶] اس سے بڑھ کر یہ کہ جس وقت کا یہ واقعہ ہے۔ اس موقع پر عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ خود موجود نہ تھے۔ اور یہ معلوم نہیں کہ یہ واقعہ انہوں نے کس سے سنا۔ [بخاری باب کفایہ العلم میں جو حدیث مذکور ہے اس سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ واقعہ میں موجود تھے۔ اس لئے محدثین نے اس پر بحث کی ہے اور بہ دلائل قطعیہ ثابت کیا ہے موجود نہ تھے۔ دیکھو فتح الباری باب کفایہ العلم]۔

[۷] تمام روایتوں میں مذکور ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے کاغذ قلم مانگا تو لوگوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بہکی ہوئی باتیں کر رہے ہیں۔ [علامہ قرطینی نے یہ تاویل کی ہے اور اس پر ان کو ناز ہے کہ ” لوگوں نے یہ لفظ استعجاب کے طور پر کہا تھا۔ یعنی یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم کی تعمیل کرنی چاہیے۔ خدانخواستہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا قول ہذیان تو نہیں کہ اس کا لحاظ نہ کیا جاوے۔ یہ تاویل دل کو لگتی ہوئی ہے۔ لیکن بخاری و مسلم کی بعض روایتوں میں ایسے الفاظ ہیں جن میں تاویل کا احتمال نہیں۔ مثلاً ھجر ھجر [دو دفعہ] با ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ھجر [صحیح مسلم]۔

اب سب سے پہلے یہ امر لحاظ کے قابل ہے کہ جب اور کوئی واقعہ یا قرینہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے اختلال حواس کا کہیں کسی روایت میں مذکور نہیں تو صرف اس قدر کہنے سے کہ ” قلم دوات لاؤ” لوگوں کو ہذیان کا کیونکر خیال پیدا ہو سکتا ہے ؟ فرض کر لو کہ انبیاء سے ہذیان سرزد ہو سکتا ہے۔ لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ وہ معمولی بات بھی کہیں تو ہذیان سمجھی جائے۔ ایک پیغمبر کا وفات کے قریب یہ کہنا کہ قلم دوات لاؤ میں ایسی چیزیں لکھ دوں کہ تم آئندہ گمراہ نہ ہو اس میں ہذیان کی کیا بات ہے۔ [ہمارے نکتہ سنجوں نے یہ مضمون آفرینی کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم لکھنا نہیں جانتے تھے اس لئے آپ کا یہ فرمانا کہ میں لکھ دوں ہذیان کا قرینہ تھا۔ لیکن اس لوگوں کو یہ معلوم نہیں کہ لکھنے کے معنی لکھوانے کے بھی آتے ہیں۔ اور یہ مجاز عموماً شائع و ذرائع ہے۔ ] یہ روایت اگر خواہ مخواہ صحیح سمجھی جائے تب بھی اس قدر سیر حال تسلیم کرنا ہو گا کہ راوی نے روایت میں وہ واقعات چھوڑ دیئے ہیں جن سے لوگوں کو یہ خیال پیدا ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ہوش میں نہیں ہیں۔ اور مدہوشی کی حالت میں قلم دوات طلب فرما رہے ہیں۔ پس ایسی روایت سے جس میں راوی نے واقعہ کی نہایت ضروری خصوصیتیں چھوڑ دیں۔ کسی واقعہ پر کیونکر استدلال ہو سکتا ہے۔ اس کے ساتھ جب ان امور کا لحاظ کیا جائے کہ اتنے بڑے عظیم الشان واقعہ میں تمام صحابہ میں سے صرف حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کے راوی ہیں اور یہ کہ ان کی عمر اس وقت 13-14 برس کی تھی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ واقعہ کے وقت موجود نہ تھے۔ تو ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ اس روایت کی حیثیت کیا رہ جاتی ہے۔ ممکن ہے کہ کسی کوتاہ نظر پر یہ امر گراں گزرے کہ بخاری اور مسلم کی حدیث پر شبہ کیا جائے لیکن اس کو سمجھنا چاہیے کہ بخاری اور مسلم کے کسی راوی کی نسبت یہ شبہ کرنا کہ وہ واقعہ کی پوری ہیئت محفوظ نہ رکھ سکا، اس سے کہیں زیادہ آسانی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نسبت ہذیان اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نسبت گستاخی کا الزام لگایا جائے۔

بحوالہ  ـ  الفاروق  - صفحہ نمبر 67  تا  69   -  از :  علامہ شبلی نعمانی

خصوصی شکریہ کے ساتھ : حضرت مولانا احمد سعید پالنپوری صاحب 




0 تبصرے comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔